1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شاہین 1

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏14 ستمبر 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    شاہین
    نسیم حجازی کا ایک اور شاہکار ناول

    محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
    ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند


    ترتیب>> 1۔ باغی 2۔ سرحدی عقاب 3۔ ملت فروش 4۔ ان کا میزبان 5۔ ربیعہ کا اضطراب 6۔ ربیعہ کے خواب کی تعبیر 7۔ قوم اور اس کا سپاہی 8۔ نئے عزائم 9 ۔ باپ اور بیٹا 10۔ تار عنکبوت 11۔ مجاہد اور غدار 12۔ سیاہ پوش

    ہسپانیہ، تو مسلماں کا امیں ہے
    مانندِ حرم پاک تو میری نظر میں
    پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کےنشاں ہیں
    خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحر میں
    اقبالؔ



    باغی

    پچاس سوار پہاڑ کے دامن سے اتر کر گھنے جنگل سے گزرتے ہوئےایک ندی کےٹوٹے ہوئے پل کے سامنےرکے۔ندی کے پار جنگل اور بھی گھنا تھا ۔اس وادی میں جنگل درختوں کے ساتھ ساتھ انگور کی بیلیں ،سیب انار اور مختلف قسم کے پھلدار درخت اس بات کی گواہی دیتے تھے کہ جنگل کبھی ایک باغ تھا ۔پل کے پار ٹوٹی پھوٹی سڑک کے دونوں کناروں پر تناور درختوں کی شاخیں آپس میں مل کر ایک چھت کا کام دیتی تھیں ۔سرسبز گھاس اور بیلیں جو کناروں سے آگے بڑھ کر سڑک کے پتھروں کو اپنی آغوش میں لے رہی تھیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ انہیں مسلنے والے پاؤں شازونازر ہی اس سڑک کا رخ کرتے ہیں ۔
    ندی کا پانی زیادہ گہرا نہ تھا اور سڑک کو چھوڑ کر یہ سوار چند قدم نیچے یا اوپر جاکر اسے آسانی سے عبور کر سکتے تھےلیکن کسی خیال کے تحت آگے جانے والےدو سواروں نے پُل کے قریب پہنچتے ہی پیچھے مُڑ کر دیکھا اور پیچھے آنے والی جماعت کو رکنے کا اشارہ کیا ۔یہ تمام سوار جنگ کے بہترین ساز وسامان سے آراستہ تھے۔سب سے آگے سواروں میں ایک کی قبا اور عمامہ سفید تھا اور آنکھوں کے سوا اس کا تمام چہرہ نقاب میں چھپا تھا ۔اس کا ساتھی اس رسالے کےباقی سواروں کی طرح زرہ اورخود پہنے ہوۓ تھا ۔تاہم اس کا خوبصورت مشکی گھوڑا،جواہرات سے مزین تلوارکا دستہ اور اس کی زرہ اور خود کی چمک اس میں ایک امتیازی شان پیداکرتے تھے۔
    یہ دونوں سوارجو بظاہر اس دستے کےراہنما معلوم ہوتے تھےکچھ دیر پُل کے قریب گھوڑے روک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے ۔
    بالآخر سفید پوش نے کہاـ"مجھے بار بار خیال آتا ہےکہ اگر اس نے انکار کر دیا تو " مشکی گھوڑے کے سوار نے جواب دیا ۔"تو پھر ہمارے لئے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ ہم اس کو باغی سمجھیں اور اس سے باغیوں جیسا سلوک کریں "۔
    "نہیں اس نے اپنی آزادی ہمارے دشمنوں سے چھینی ہے ۔اگر وہ صرف اس سرحد کی حفاظت کا ذمہ لے تو بھی ہم اس کی آزادی کا احترام کریں گے"
    " اور اگر اس نے ہماری یہ پیشکش بھی ٹھکرا دی تو ؟"
    "تو بھی میں اس سے تعرض نہیں کروں گا ۔ہاں مجھے یہ افسوس ضرور ہوگا کہ میں غرناطہ کی فوج میں ایک ناقابلِ تسخیر عنصر کا اضافہ نہ کر سکا "۔
    مشکی گھوڑے کا سوار کچھ کہنا چاہتا تھاکہ پُل کے پار سڑک پر ایک ہرن نمودار ہوا ۔اس نے ترکش سے تیر نکالا۔لیکن ابھی کمان اٹھائی تھی کہ درختوں میں سے ایک تیر سنسناتا ہوا آیا اور پُل کے پاس ایک درخت کے ساتھ لٹکے ہوئےلکڑی کے تختے میں پیوست ہوگیا ۔
    ہرن چھلانگ لگا کر جنگل میں غائب ہوگیا ۔تمام سوار اس غیر متوقع تیر سے بدحواس ہوکر ادھر اُدھر دیکھنے لگے ۔مشکی گھوڑے کے سوار نےلکڑی کے تختے کی طرف دیکھا تو اسے تیر کے علاوہ اس پر چند دھندلےسے حروف دکھائی دئے۔اس نے اپنے سفید پوش ساتھی سے پوچھا ۔" شاید اس پر کچھ لکھا ہوا ہے"
    دونوں گھوڑوں سے اتر کر درخت کے ساتھ لٹکے ہوۓ تختے کے قریب پہنچے۔اس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی ۔:
    " اس ندی کے پارسرحدی عقاب کی مملکت ہے ۔"
    یہ چرا گاہیں مجاہدوں کے گھوڑوں کے لیے وقف ہیں ۔اس جنگل کے پھلوں اور شکار کے جانوروں پر صرف اُن کا حق ہے جو اُندلس کی سر زمین کو پنجہ غیر سے چھڑانے کا عہد کر چکے ہیں ۔
    غرناطہ سے صرف وہ لوگ اس زمین میں داخل ہو سکتے ہیں جو مجاہدین کی جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہوں ۔ وہ لوگ جو دشمنان اسلام کی غلامی پر قانع ہیں یا وہ لوگ جنہوں نے عیسائیوں کاباجگزار رہنا قبول کر لیا ہے اس زمین پر پاؤں رکھنے کی جراۤت نہ کریں ۔ ہمارے پاس تلوار کا جواب تلوار ہے ۔یہ عبارت پڑھنے کے بعد سفید پوش سوار نے اپنے زرہ پوش ساتھی کی طرف دیکھا اور کہا ۔ وہ یہاں سے کوئی آٹھ میل دُور ایک پُرانے قلعے میں رہتا ہے ۔ لیکن اُسے اپنی نیک نیتی کا یقین دلائے بغیر ہم وہاں تک نہیں پہنچ سکتے یہ گھنا جنگل تیر اندازوں سے پٹا پڑا ہے ۔ میں سفید جھنڈا دکھاتا ہوں ۔ شاید اس کا کوئی آدمی نکل آئے اور ہمیں نامہ و پیام موقع مل جائے ۔سفید پوش نے اثبات میں سر ہلایا ۔ زرہ پوش نے اپنے دستے کے ایک سوار کو آواز دی اور سفید جھنڈا لہراتا ہوا پُل کے قریب آکھڑا ہوا۔
    زرہ پوش نے بلند آواز میں کہا ۔ کوئی ہے ، ہم سرحدی عقاب کے نام دوستی کا پیغام لے کر آئے ہیں ۔
    ایک لمحہ سکوت کے بعد دوسرے کنارے ایک گھنے درخت کی ٹہنیوں میں جنبش پیدا ہوئی اور ایک نو جوان نیچے اُتر کر ندی کے کنارے کی طرف بڑھا اور بولا ۔
    ہمارے پاس دوستی کا جواب دوستی ہے لیکن سرحدی عقاب کو شاید یہ اعتراض ہو کہ دوستی کے پیغام کے لیے آپ کو اتنے مسلح سواروں کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟
    زرہ پوش نے جواب دیا ۔ مجھے یقین ہے کہ بدر بن مغیرہ کے جانباز غر ناطہ کےپچاس مسلح سپاہیوں سے مرعوب نہیں ہو سکتے ۔ تاہم اس سے پوچھا جائے اگر اُسے اعتراض ہو تو ہم ان سپاہیوں کو واپس بھیج دیتے ہیں ، ورنہ ہم اپنے ہتھیار آپ کے سپرد کر دیتے ہیں اور تیسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہمارے ساتھی ندی کے اس پار کھڑے رہیں اور تم ہم دونوں کو اپنے امیر کے پاس لے چلو ۔
    نوجوان نے جواب دیا ۔ اگر آپ سرحدی عقاب کا نام جانتے ہیں تو آپ شاید ان کی عادات سے بھی واقف ہوں ۔ اُنہیں آپ سے ملاقات کی بجائے اس بات سے ذیادہ دلچسپی ہو گی کہ آپ کے یہ سپاہی جس فوج کا ہراول ہیں اس کی صحیع تعداد کیا ہے ۔
    زرہ پوش نے اپنا خود اُتار کر ایک سپاہی کو دیتے ہوئے کہا ۔ اگر تمھارے دل میں غر ناطہ کی فوج کے ایک سپہ سالار کے لیے کوئی عزت نہیں تو کم از کم غر ناطہ کے شاہی گھرانے کا احترام ضرور ہو گا ۔
    (2)
    نو جوان پریشانی کی حالت میں پیچھے مُڑ کر درختوں کی طرف دیکھنے لگا۔ ایک لمحہ سکوت کے بعد درختوں کے عقب میں گھوڑے کی ٹاپ کی آواز سنائی دی آن کی آن میں ایک سوار جس کے جسم پہ چمکتی ہوئی زرہ اور سر پر خود کی بجائے سفید عمامہ تھا۔ ندی کے کنارے آکر رکا۔ وہ اٹھارہ بیس برس کا خوش وضع نوجوان تھا اور اس کے چہرے سے غیر معمولی شجاعت متر شیخ تھی ۔ اُس نے ایک لمحہ کے لیے ندی کے دوسرے کنارے کھڑے ہونے والے سپاہیوں کا جائزہ لیا اور کہا ۔ بدر بن مغیرہ سے ملاقات کے لیے آپ کو غرناطہ کے شاہی گھرانے کے کسی فرد کی سفارش کی ضرورت نہیں ؛ وہ ایک مخلص سپاہی سے مل کر ذیادہ خوش ہو گا ۔ زرہ پوش نے جواب دیا ۔ ایک سپاہی کے خلوص کی کسوٹی صرف میدان جنگ ہے اور قدرت نے مجھے اور تمھارے امیر کو ایک محاذ پر جمع ہونے کا موقع دیا تو میرے سینے سے زخموں سے اُبلتا ہوا خون میرے خلوص کی شہادت دے سکے گا ۔
    جاؤ اپنے امیر سے کہو کے اگر اسے موسٰی کے خلوص پر شبہ ہے آج ہی قسطلہ کے کسی شہر پر چڑھائی کر کے دیکھ لے ۔ میں اور میرے یہ پچاس سپاہی تلواروں کی چھاؤں اور تیروں کی بارش میں اس کا ساتھ دیں گے۔

    جاری ہے
     
  2. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    اسلامی تاریخ کا ایک اور شاہکار ناول شروع کرنے پر مبارک ہو۔
    آپ کی ہمت کی داد دیتی ہوں عرفان صاحب۔
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عرفان بھائی ۔ ایک اور دلچسپ سلسلہ شروع کرنے کے لیے شکریہ ۔
    مزہ آئے گا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں