شاگردوں نے اُستاد سے پوچھا: ہم کیسی کیسی اور کتنی کتنی اللہ کی نافرمانیاں کرتے ہیں اور وہ ہمیں کوئی سزا ہی نہیں دیتے؟ اُستاد نے کہا: اور اللہ ہمیں کتنی کتنی اور کیسی کیسی سزائیں دیتا ہے اور ہم محسوس ہی نہیں کرتے؟ کیا اُس نے کئیوں سے مناجات کی لذت نہیں چھین لی؟ کیا اُس نے کئیوں کے دلوں کو پتھر نہیں بنا کر رکھ دیا؟ اور ان سب سے بڑی سزا، کیا اُس نے کئیوں سے نیک اعمال کرنے کی توفیق نہیں چھین لی؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ کئی کئی دن گزر جاتے ہیں اور قران سے ایک لفظ تک پڑھنا نصیب نہیں ہوتا؟ بلکہ کئی کئی تو یہ آیت مبارک (اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے) سُن کر بھی ایسے بن جاتے ہیں جیسے کچھ سُنا ہی نا ہو۔ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ راتیں تو جگراتوں میں گزریں مگر اُس کے سامنے کھڑے ہونے کی توفیق نا ہو؟ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ خیر کے موسم جیسے: رمضان کے تیس، شوال کے چھ یا ذی الحجۃ کے دس دن ایسے گزرجائیں جیسے سال کے دوسرے عام دن؟ اس سے بڑی سزا کیا ہوگی کہ: نیکی کا کام کرنا بھاری لگے۔ زبانیں اللہ کے ذکر سے رُکی رہیں، مال، عزت اور شہرت کی ہوس میں مبتلا ہوجائیں۔ غیبت، نمیمہ اور جھوٹ بولنا مسلط ہو جائے، دماغ اُن کاموں میں الجھے رہیں جن کا ہم سے کوئی تعلق ہی نا ہو، آخرت بھول جائے اور دنیا کے غم گھیرے رکھیں۔ یہ سب کچھ اللہ کی پکڑ، سزائیں اور عذاب کی ہی شکلیں تو ہیں۔ یہ سب غیر محسوس طریقے سے دیئے جانے والے عذاب ہیں اور سب سے بڑی مصیبت یہ ہوگی کہ کوئی انعذابوں سے گزر بھی رہا ہو اور اُسے محسوس بھی نا ہو رہا ہو۔
شاگرد کو چائیے کہ اپنے استاد کی عزت اور قدر کرے تا کہ زندگی میں کامیاب ھو اور استاد کو چائیے کہ اپنے شاگرد سے نرمی کا سلوک کرے تا کہ وہ اس سے کچھ پا سکے یعنی علم، اور ہنر