1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سیّد ہجویر مخدوم امم المعروف داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از وسیم, ‏6 جولائی 2010۔

  1. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    سیّد ہجویر مخدوم امم المعروف داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ
    ہارون الرشید

    1009برس ہوتے ہیں، شیخِ ہجویر علی بن عثمان ہجویری کو ان کے استاد نے غزنی سے لاہور روانہ ہونے کا حکم دیا۔ حیرت سے انہوں نے کہا کہ آپ کے ایک شاگردِ رشید اس قریہ میں قیام فرما ہیں ۔ استاد نے اپنا حکم دہرایا تو سالک کے لیے سفر کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ مسافت کے جھٹ پٹے میں تقویٰ اس کا زادِ راہ اور علم جس کی قندیل تھا۔ جب وہ لاہور کی شہر پناہ کے قریب پہنچے تو ان کے پیش رو کا جنازہ قبرستان کو روانہ تھا۔ شہر کے باہر فقیرانہ اب وہ شخص اس مسند پر جلوہ افروز ہوا اور عشروں تک علم اور یقین کی دولت بانٹتا رہا۔
    "کشف المحجوب "کا وہ مصنف جسے اس کی زندگی میں اپنے زمانے کا امام تسلیم کر لیا گیا ۔ خواجہ معین الدین چشتی سے لے کر علامہ اقبال اور سیّد ابو الاعلیٰ مودودی تک ، کوئی سکالر نہیں گزرا ، جس نے فقیر سے فیض نہ پایا ہو۔ کہر اور دھوپ کے کتنے موسم بیت چکے لیکن درویش کے دسترخوان اور مکتب کا در کھلا ہے۔ بھوکوں کے لیے کھانا او ر پناہ ہے او رآرزومندان علم کے لیے شیخ ہجویر کی کتاب کے اوراق۔ اہل علم کہتے ہیں کہ ایک ہزار برس میں اپنے موضوع پر۔۔۔ اور یہ ایک عظیم موضوع ہے ، کشف المحجوب سے بہتر کتاب کبھی لکھی نہ گئی۔
    ”کشف المعجوب حضرت علی ہجویری کی بلند پایہ تصنیف ہے اس کے بارے میں حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی کا ارشاد ہے کہ ”جس شخص کا کوئی مرشد نہ ہو اسے کشف المحجوب کے مطالعے سے مرشد مل جائیگا.
    متن مستند ہے ، قلمی نسخے محفوظ ہیں اور سینکڑوں ترجمے ہو چکے۔ اس کے باوجود ابتلا کے سنگین اور مصروفیت کے مشکل ترین دور میں سیّد ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنے چہیتے شاگرد میاں طفیل محمد کو ایک جدید تر ترجمے پر آمادہ کیا۔ حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنے عہد کے سب سے بڑے معلّم تھے۔ انقلاب ِ ایران کے ہنگام وہ ان کے رہنما تھے۔ وسطی ایشیا ، کشمیر او رافغانستان کے انقلابیوں نے اس کے گیت گائے۔ ترکی میں کلامِ اقبال کی اساس پر فکر کی نئی تحریک اٹھ رہی ہے۔ ایرانی انقلاب کے مفکر علی شریعتی نے اس موضوع پر پوری ایک کتاب لکھی کہ اقبال# کی فکر نے کیسے اور کیونکر اس کی ذہنی تربیت کی۔اسی حریت کیش کی ایک دوسری کتاب"فاطمہ ،فاطمہ ہیں"کا مرکزی خیال اقبال کی ایک رباعی سے مستعار لیا گیا۔
    اپنے عصر کے اہل علم کا سردار اقبال ،داتا گنج بخش علی بن عثمان عجویری  کا اسیر ہے اور اس نے یہ کہا ۔۔۔

    سیّد ہجویر مخدوم امم
    مرقد او پیر سنجر را حرم
    خاک پنجاب از دم او زندہ گشت
    صبح ما از مہر او تابندہ گشت​

    (ہجویر کا سیّد اقوام عالم کا سردار ہے ۔ عظیم صوفی پیر سنجر (خواجہ اجمیر) کے لیے اس کا مزار حرم مبارک کی مانند ہے ۔ پنجاب کی خاک کو اس نے زندہ کر دیا ۔ میری سحر اسی سورج سے تابندہ ہوئی)

    سلطان محمود غزنوی محمد بن قاسم کے عہد سے شروع ہونے والے عربوں کے عشروں بلکہ صدیوں تک پھیلے اقتدار کا تجربہ کر چکے تھے اور اب وسطی ایشیا کی نئی اسلامی قوت سے خوف زدہ تھے۔ اس تہذیب سے جس میں شودر اور برہمن کا تصور نہ تھا۔ ایک دور اندیش حکمرن کی طرح محمود کو درپیش چیلنج کا ادراک تھا۔ کمتر وسائل کے ملک کو ایک عظیم عسکری قوت کا سامنا تھا۔ غزنی کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہئیے۔ محمود مدّتوں اس ادھیڑ بن میں رہا۔ آخر کار وہ علی بن عثمان کی خدمت میں حاضر ہوا ، جن کا چھوٹا سا گھر اس کے محل سے زیادہ دور نہ تھا۔ گزرے زمانوں کے سلاطین اور اہل علم میں فاصلہ زیادہ نہ ہوتا تھا کہ اہل فقر کی سلطنتیں زیادہ محکم اور پائیدار تھیں۔
    سلطان بلبن فرید الدین شکر گنج کی خدمت میں حاضر ہوا اور شہاب الدین غوری نے معین الدین چشتی کی بارگاہ میں اپنا پیغام رساں بھیجا تھا۔ محمود غزنوی اگر شش و پنج سے نکلا تو شیخ ہجویر کے طفیل۔ یہ مگر درست نہیں کہ وہ اس کے اقتدار میں لاہور آئے بلکہ اس کے بھائی اور جانشین مسعود کے دور میں ۔ عصری اکابر سے متعلق اخبارات میں اظہار خیال گاہے مناسب نہیں ہوتا۔ اگر کتاب لکھ سکا تو واقعات سے واضح ہوگا کہ ہمارے عہد کی کتنی ہی اہم علمی اور انتظامی شخصیات نے نازک مواقع پر پروفیسر احمد رفیق اختر سے فیض پایا ہے۔میں نے ان سے پوچھا "کشف المحجوب آپ نے کتنی بار پڑھی ہے"جواب یہ تھا "پڑھی نہیں ، مجھ پر بیت گئی ہے" شیخِ ہجویر کا جو موضوع ہے اس پر ابن جوزی اور امام غزالی نے لکھا، مولانا روم اور اقبال کی شاعری بھی اسی سے بحث کرتی ہے۔ خواجہ حسن بصری اور جنید بغداد سے لے کر خواجہ مہر علی شاہ کی زندگیاں اسی فکر کے لیے وقف رہیں کہ ۔۔

    کچھ بھی حاصل نہ ہوا زہد سے نخوت کے سوا
    شغل بیکا ر ہیں، سب تیری محبت کے سوا​

    قرآن ، حدیث ، سیرت اور تاریخ میں انہماک۔ انسانی جبلّتوں کا گہرا مطالعہ۔ یہ ریاضت کہ کائنات کیا ہے۔ زندگی نے کس طرح جنم لیا اور کن ادوار سے گزری۔ کون سی چیز ہے جو انسانی ذہانت کو اعلیٰ ترین سچائیوں کے ادراک سے روکتی ہے۔ انسانی اندازِ فکر کے کون سے مغالطے ہیں جو اسے ضدی ، متعصب ، خود پسند، جاہ پرست اور گاہے دین کا علمبردار ہونے کے باوجود ظالم اور سفاک بناتے ہیں۔ صرف صوفیوں نے سمجھا، بہت سوں نے لکھا لیکن اوّلین عہد کے بعد شیخ ہجویر جیسا کم ہی کوئی بیان کر سکا۔

    دہشت گردوں کا پیغام واضح ہے: اگر پاکستانی ریاست نے ان کی فکر کے مطابق اپنی ترجیحات تبدیل نہ کیں تو وہ اسے تباہ کر دیں گے۔ فرض کیجیے کہ نام نہاد طالبان کی ترجیحات درست ہیں، فرض کیجیے پاک فوج پر اس کے حملے بھی لیکن داتا دربار پہ خوب سوچ سمجھ کر کی جانے والی خود کش مہم کا جواز کیا ہے؟ سالِ گذشتہ بھی انہوں نے خیبر پختون خواہ کے بعض مزاروں کو ہدف کیا تھا۔ ان مزاروں سے انہیں خطرہ کیا ہے؟


    بشکریہ کالم نگار ہارون الرشید ۔ جنگ ادارتی صفحہ ۔
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سیّد ہجویر مخدوم امم المعروف داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ

    داتا تیرا دربا ر ہے رحمت کا خزانہ
     
  3. مونا
    آف لائن

    مونا ممبر

    شمولیت:
    ‏4 جولائی 2010
    پیغامات:
    115
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جواب: سیّد ہجویر مخدوم امم المعروف داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ

    لمحہ فکریہ ھے سب کے لیے
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سیّد ہجویر مخدوم امم المعروف داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ

    جزاک اللہ وسیم بھائی ۔ آپ نے شہنشاہ ولایت حضور داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے خدمات کو مختصرا اجاگر کروایا۔ شکریہ
     
  5. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سیّد ہجویر مخدوم امم المعروف داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ

    فیض عالم کے سبز گنبد پر ، رحمتوں کا نزول ہوتا ہے
    ان کے در سے سکون ملتا ہے ، جب کبھی دل ملول ہوتا ہے۔
    ساغر صدیقی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں