1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم دعاؤں کی روشنی میں!

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏25 ستمبر 2020۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    انسانی تاریخ میں ساتویں صدی عیسوی ہمیشہ یاد رہے گی، کیونکہ اس زمانہ میں دنیا ایک عجیب و غریب انقلابی تحریک سے روشنا س ہوئی تھی، عرف عام میں اس تحریک کو اسلامی تحریک کہا جاتا ہے اس کی ابتداء جزیرہ نمائے عرب کے ایک گمنام اور غیر تاریخی گوشے یعنی حجاز سے ہوئی تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بیس پچیس سال کے اندر ہی یہ تحریک پورے مشرقِ وسطیٰ پر چھاگئی، جہاں اس کا ہدف پورا عالم تھا۔

    اس تحریک کی ابتداء اسلام کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے اوراس تحریک کو کامیاب بنانے میںآ پ کی سیرت مبارکہ کا بہت بڑا دخل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی، اس کا ہر ہر گوشہ کامل اور لائق اتباع ہے، اللہ تعالیٰ نے اس شخصیت کو ہمہ جہت بنایا تھا۔ تاریخی نقطئہ نظر سے آپ علیہ الصلوٰة والسلام کی حیات مبارکہ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

    ۱- بعثت سے قبل کا دور۔

    ۲- مکی زندگی کا دور۔

    ۳- مدنی زندگی کا دور۔

    یہ تینوں دور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیات پاک کو حاوی ہیں آپ کے اخلاق و عادات امانت و دیانت، کفار کے ساتھ معاملات، منافقین کے ساتھ نرمی، دین کی نشرواشاعت میں مصائب کا سامنا، آپ کی داخلی اور خارجی زندگی، ازواج مطہرات اور خدام کے ساتھ حسن سلوک غرض سیرت کا ہر رخ ان تین دوروں سے متعلق ہے لیکن ان کے علاوہ بھی سیرت کی تکمیل کے حوالہ سے ایک اہم شعبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں ہیں، ان کے تناظر میں بھی کافی حدتک سیرت کو سمجھاجاسکتا ہے۔

    اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کی تکمیل تو کی ہی تھی، خود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار دعائیں کیں جن کو سیرت کی تکمیل میں بڑا دخل ہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رب کائنات نے ان دعاؤں کو پسندیدگی کی نظروں سے دیکھااور آپ کو بالکل مجسمہٴ عمل بنادیا۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر بہت سی چیزوں کو اپنی بے مثال آخری کتاب قرآن میں جگہ دی۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبول دعاؤں کے تناظر میں بھی آپ کی پاک سیرت دیکھیں۔

    عبدیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :

    احادیث کی مستند کتابوں میں بے شمار دعائیں منقول ہیں، انہی میں ایسی دعائیں بھی ہیں، کہ جن میںآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو غلام اور بندہ سے تعبیر کیا۔ اللہ کے حضور ”عبدیت“ کا اظہار جابجا جھلکتا ہے، کہیں آپ اپنی عبدیت کو یوں جتاتے ہیں: الّٰہم انی عبدک وابن عبدک وابن أمتک اور کہیں اللہ کے نیک بندوں میں شمولیت کے خواہاں ہیں، واجعلنا من عبادک الصالحین․ غرض نبوت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہونے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عبدیت ہی کو پیش نظر رکھا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے حبیب کا یہ اظہار ”عبدیت“ اس قدر پسند آیا کہ اپنی کتاب میں اسی نام سے مختلف مقامات پرخطاب کیااور یاد فرمایا ہے چنانچہ سورئہ بقرہ میں ہے:

    وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا ․

    اور بنی اسرائیل میں ہے: سبحان الذی اسری بعبدہ ․

    ان کے علاوہ متعدد مقامات پر لفظ ”عبد“ سے ہی یاد فرمایا ہے۔

    تواضع:

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا مجسمہ تواضع تھے، آپ سے بڑھ کر کوئی متواضع نہیں ہوسکتا اور ہو بھی کیوں سکتا ہے، آپ حبیب خدا تھے، رہتی دنیا تک آپ کو مثال انسانیت بنانا تھا۔ چنانچہ آپ علیہ الصلوٰة والسلام تواضع سے اپنے رب کے شکر گزاروں اور نعمت کے ثناخوانوں میں شرکت کی درخواست ان الفاظ میں کرتے دیکھے جاتے ہیں:

    واجعلنا شاکرین لنعمتک مثنین بہا ․

    آپ کی زبان مبارک سے ادا ہونے والی یہ دعا تو تواضع کا منتہا ہے۔

    اللّٰہم اجعلنی فی عینی صغیرًا ․

    یہ الفاظ اس ذات گرامی کے ہیں جس کو دونوں جہاں کی سرداری عطا کی گئی، چنانچہ جب ہم ان دعاؤں کے تناظر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہرقول وفعل میں ان دعاؤں کا رنگ نظر آتا ہے۔ قارئین کرام بھی اس رنگ کو ملاحظہ فرمائیں۔ بخاری میں مذکور ہے کہ آپ کے ایک ناقہ کا نام ”عضبا“ تھا، کوئی جانوراس سے آگے نہیں بڑھ سکتاتھا، ایک اعرابی اپنی سواری پر آیا اوراس سے آگے بڑھ گیا، حضرات صحابہ کو یہ بہت ہی شاق گزرا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    ان حقا علی اللّٰہ عزوجل ان لا یرفع شیئاً من الدنیا الا وضعہ․

    دنیا میں خدا کی یہی سنت ہے کہ کسی کو اٹھاتا ہے، تو اسے نیچے بھی دکھاتاہے۔

    بخاری ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ”یا خیر البریة“ (برترین خلق) کہہ کر پکارا۔ آپ نے فرمایا ذاک ابراہیم یہ شان تو ابراہیم علیہ السلام کی ہے۔

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں تواضع کی ایک یہ ادا بھی ملاحظہ ہو۔ فتح مکہ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے بوڑھے، ضعیف، فاقد البصر باپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کرنے کے لئے لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے بوڑھے کو تکلیف کیوں دی، میں خود اُن کے پاس چلاجاتا۔ سیرت اور احادیث کی مستند کتابیں ایسے واقعات سے پُر ہیں، اگر اس سے آگے بڑھ کر یہ بات کہی جائے تو حق بجانب ہوگی کہ آپ کی ہر ہر ادا تواضع اور مسکنت کا لطیف سبق دیتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ایک نظر ڈالنے سے رات دن میں ان باتوں کا کثرت سے وجود ملتا ہے۔

    ۱- مجلس میں کبھی پاؤں پھیلاکر نہ بیٹھتے

    ۲- ہمیشہ سلام میں پہل کرتے۔

    ۳- مصافحہ کیلئے خود پہلے ہاتھ پھیلاتے۔

    ۴- صحابہ کو کنیت سے پکارتے (عرب میں عزت سے بلانے کا یہی رواج تھا)

    ۵- کسی کی بات کبھی قطع نہ فرماتے۔

    ۶- اگر نفل نماز میں ہوتے اور کوئی شخص آبیٹھتا تو نماز کو مختصر کردیتے، اور اس کی ضرورت پوری کرنے کے بعد پھر نماز میں مشغول ہوجاتے۔

    ۷- اکثر اوقات آپ متبسم رہتے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں