1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی اﷲ عنہم

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏10 دسمبر 2008۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی اﷲ عنہم

    آپ کا نام علی، ابو الحسن کنیت اور زین العابدین لقب تھا، آپ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے فرزند اصغر اور ریاض نبوت کے گل تر تھے۔

    آپ فرماتے تھے کہ مجھے اس مغرور اور فخر کرنے والے پر تعجب ہوتا یہ جو کل حقیقت میں ایک نطفہ تھا، اور کل مردار ہو جائے گا، آپ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ خوف سے خدا کی عبادت کرتے ہیں یہ غلاموں کی عبادت ہے، کچھ (جنت میں جانے کی) طمع میں عبادت کرتے ہیں، یہ تاجروں کی عبادت ہے، کچھ خالص رضاء الٰہی میں عبادت کرتے ہیں، یہی آزاد لوگوں کی عبادت ہے۔

    آپ کا دل خشیت الٰہی سے لبریز رہتا تھا اور اکثر آپ خوف الٰہی سے بے ہوش ہو جایا کرتے تھے، ابن عیینہ کا بیان ہے کہ حضرت امام علی بن حسین رضی اﷲ عنہما حج کے لئے احرام باندھنے کے بعد جب سواری پر بیٹھے تو خوف سے ان کا رنگ زرد پڑ گیا اور ایسا لرزہ طاری ہوا کہ زبان سے لبیک تک نہ نکل سکا، لوگوں نے کہا، آپ لبیک کیوں نہیں کہتے، فرمایا ڈر لگتا ہے ایسا نہ ہو کہ میں لبیک کہوں اور ادھر کہیں سے جواب ملے لالبیک، تیری حاضری قبول نہیں، لوگوں نے کہا مگر لبیک کہنا تو ضروری ہے، لوگوں کے اصرار پر کہا، مگر جیسے ہی زبان سے لبیک نکلا بیہوش ہو کر سواری سے گر پڑے اور حج کے دن تک یہی کیفیت طاری رہی۔

    1۔ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 5 : 336
    2۔ عسقلانی، تہذیب التہذیب، 7 : 306

    آپ ہر روز ایک ہزار رکعت نوافل ادا کرتے تھے، اور وفات تک اس معمول میں فرق نہ آیا، اس عبادت کی وجہ سے زین العابدین لقب سے ملقب ہوئے، قیام لیل میں سفر و حضر کی کسی بھی حالت میں ناغہ نہ ہوتا تھا۔

    اخلاص فی العبادت اور خشیت الٰہی کا یہ حال تھا کہ حضوری کے وقت سارے بدن میں لرزہ طاری ہو جاتا تھا، عبد اﷲ بن سلیمان کا بیان ہے کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو سارے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا لوگوں نے پوچھا آپ کو یہ کیا ہو جاتا ہے، فرمایا تم لوگ کیا جانو؟ میں کس کے حضور میں کھڑا ہوتا ہوں اور کس سے سرگوشی کرتا ہوں۔

    محویت کا یہ عالم تھا کہ نماز کی حالت میں کچھ بھی ہو جائے آپ کو خبر نہ ہوتی تھی ایک مرتبہ آپ سجدہ میں تھے کہ کہیں پاس ہی آگ لگ گئی لوگوں نے آپ کو بھی پکارا، اے ابن رسول! آگ لگ گئی اے ابن رسول! آگ لگ گئی لیکن آپ نے سجدہ سے سر نہ اٹھایا، تا آنکہ آگ بجھ گئی، لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو آگ کی جانب اس قدر بے پرواہ کس چیز نے کر دیا تھا فرمایا دوسری آگ نے جو آتش دوزخ ہے۔

    انفاق فی سبیل اﷲ فیاضی اور دریا دلی آپ کا خاص وصف تھا، آپ خدا کی راہ میں بے دریغ دولت لٹاتے تھے، فقراء اور اہل حاجت کی دستگیری کے لئے ہمیشہ آپ کا دست کرم دراز رہتا تھا، مدینہ کے معلوم نہیں کتنے غریب گھرانے آپ کی ذات سے پرورش پاتے تھے اور کسی کو خبر نہ ہونے پائی، آپ کی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ خفیہ طور پر مستقل سو گھرانوں کی کفالت کیا کرتے تھے۔

    لوگوں سے چھپانے کے لئے بہ نفس نفیس خود راتوں کو جا کر ان کے گھروں پر صدقات پہنچا آتے تھے، مدینہ میں بہت سے لوگ ایسے تھے جن کی معاش کا کوئی ظاہری وسیلہ نہ ہوتا تھا، آپ کی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ آپ رات کی تاریکی میں خود جا کر ان کے گھروں پر دے آتے تھے۔

    غلہ کے بڑے بڑے بورے اپنی پیٹھ پر لاد کر غریبوں کے گھر پہنچاتے تھے۔ وفات کے بعد جب غسل دیا جانے لگا تو جسم مبارک پر نیل کے داغ نظر آئے، تحقیق سے معلوم ہوا کہ آٹے کی بوریوں کے بوجھ کے داغ ہیں، جنہیں آپ عمر بھر راتوں کو لاد کر غرباء کے گھر پہنچاتے رہے۔ آپ کی وفات کے بعد اہل مدینہ کہتے تھے کہ خفیہ خیرات حضرت زین العابدین کے دم سے تھی، سائلین کا بڑا احترام کرتے تھے، جب کوئی سائل آتا تو فرماتے میرے توشہ کو آخرت کی طرف لے جانے والے مرحبا پھر اس کا استقبال کرتے، سائل کو خود اٹھ کر دیتے تھے اور فرماتے تھے، صدقات سائل کے ہاتھوں میں جانے سے پہلے خدا کے ہاتھ میں جاتے ہیں۔

    عمر میں دو مرتبہ اپنا کل مال و متاع آدھا آدھا خدا کی راہ میں دے دیا۔ پچاس پچاس دینار کی قیمت کا لباس صرف ایک موسم میں پہن کر فروخت کرتے اور اس کی قیمت خیرات کر دیتے تھے۔

    کسی نے آپ سے دریافت کیا کہ کون شخص دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ نیک بخت اور سعید ہے؟ تو آپ نے فرمایا وہ شخص کہ جب راضی ہو تو اس کی رضا اسے باطل پر آمادہ نہ کرے اور جب ناراض ہو تو اس کی ناراضگی اسے حق سے نہ نکالے۔

    امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ایک رات حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام جو کہ روٹی سے سیر ہو کر سوگئے اور معمول شب قضاء ہوگیا اس پر اﷲ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ اے یحییٰ! اگر تو جنت الفردوس کی طرف ایک مرتبہ بھی جھانک لے تو تمہارا جسم اس کے شوق میں گھل جائے، اور تو اتنا روئے کہ آنسو ختم ہو جانے کے بعد تیری آنکھوں سے پیپ بہنے لگے اور تو اس کی طلب میں اتنی ریاضت و مشقت کرے کہ ٹاٹ کا لباس بھی چھوڑ کر لوہا پہن لے۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ ۔
    اللہ کریم ہمیں ان عظیم ہستیوں کے تصدق سے اس محبت الہی، خشیت الہی، شوق و ذوقِ عبادتِ الہی اور روحانی فیوضات میں سے چند ذرے عطا فرما دے جو ان برگذیدہ ہستیوں کو میسر تھے۔ آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں