1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سیدناابوبکر صدیق ۔ کشتہء عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏15 مئی 2012۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سیدنا ابوبکر صدیق کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم

    ’’اُمّ المؤمنین عائشۃ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی تعداد اڑتیس (38) ہوگئی تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعلان و اظہارِ اسلام کے لئے اجازت طلب کی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! ہم ابھی تعداد میں کم ہیں مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اصرار پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اظہارِ اسلام کی اجازت مرحمت فرما دی۔ مسلمان مسجد حرام کے اردگرد پھیل گئے، ہر شخص اپنے خاندان کو اسلام کی دعوت پیش کرنے لگا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کے سامنے خطاب کے لیے کھڑے ہو گئے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاس تشریف فرما تھے۔ چنانچہ آپ پہلے خطیب تھے کہ جنہوں نے اعلانیہ طور پر لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلایا۔ مشرکین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور دیگر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور انہوں نے بیت اللہ کے اردگرد مسلمانوں کو شدید زود کوب کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بری طرح زدوکوب کیا گیا اور پاؤں سے روندا گیا۔ عتبہ بن ربیعہ فاسق شخص آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک ہوا اور اپنے جوتے آپ کے چہرے پر مارنے لگا اور آپ کے پیٹ پر چڑھ کر روندنے لگا یہانتک کہ آپ کا چہرہ پہچانا نہیں جاتا تھا۔ (آپ کے قبیلہ) بنو تیم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور مشرکین کو حضرت ابوبکر سے دور کیا۔ وہ آپ کو کپڑے میں ڈال کر آپ کے گھر لے گئے، انہیں آپ کے زندہ رہنے کی توقع نہ تھی اس لئے انہوں نے بیت اللہ میں آ کر اعلان کیا کہ اگر ابوبکر زندہ نہ رہے تو ہم ان کے بدلے میں عتبہ بن ربیعہ کو ضرور قتل کریں گے۔ خاندان کے لوگ آپ کے پاس واپس آگئے، آپ کے والد ابو قحافہ اور بنو تیم مسلسل آپ سے گفتگو کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ بالآخر دن کے آخری حصے میں آپ نے ان کی بات کا جواب دیا۔ پہلا جملہ یہ کہا ’’ ما فعل رسول اﷲ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس حال میں ہیں؟ تمام خاندان ناراض ہو کر چلا گیا۔ لوگوں نے آپ کی والدہ ام الخیر کو آپ کو کچھ کھلانے پلانے کے لئے کہا۔
    آپ کی والدہ جب کچھ کھانے پینے کے لئے کہتیں تو آپ کہنے لگتے : ما فعل رسول اﷲ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس حال میں ہیں؟ یہ حالت دیکھ کر آپ کی والدہ کہنے لگیں واﷲ مالي علم بصاحبک اللہ کی قسم مجھے آپ کے دوست کی خبر نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ آپ نے کہا آپ ام جمیل بنت خطاب کے پاس چلی جائیں اور ان سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں دریافت کریں۔ وہ ام جمیل بنت خطاب کے پاس آئیں اور کہا کہ ابوبکر آپ سے محمد بن عبداللہ کے بارے میں پوچھ رہا ہے (چونکہ انہیں بھی اسلام خفیہ رکھنے کا حکم تھا اس لئے) انہوں نے کہا میں ابوبکر اور ان کے دوست محمد بن عبداللہ کو نہیں جانتی ہاں اگر آپ چاہتی ہیں تو میں آپ کے ساتھ آپ کے بیٹے کے پاس چلی جاتی ہوں حضرت ام جمیل آپ کی والدہ کے ہمراہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچیں تو آپ کو زخمی اور نڈھال دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھیں : خدا کی قسم ان لوگوں نے اہل فسق اور کفر کی خاطر آپ کو یہ اذیت دی ہے مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے آپ کا بدلہ ضرور لے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس حال میں ہیں؟ انہوں نے اشارہ کیا کہ آپ کی والدہ سن رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا : فکر نہ کرو بلکہ بیان کرو۔ انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محفوظ ہیں اور خیریت سے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت کہاں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا دار ارقم میں تشریف فرما ہیں۔ خدا کی قسم میں اس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گا اور نہ پیؤں گا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں نہ پہنچ جاؤں۔ جب سب لوگ چلے گئے تو یہ دونوں خواتین آپ کو سہارا دے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لے گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس عاشق زار کو آگے بڑھ کر تھام لیا اور اس کے بوسے لینے لگے۔ تمام مسلمان بھی (فرطِ جذبات میں) آپ کی طرف لپکے۔ آپ کو زخمی دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بڑی رقت طاری ہوئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : حضور میں ٹھیک ہوں، میری والدہ حاضر خدمت ہیں۔ اپنی اولاد کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والی ہیں۔ آپ مبارک شخصیت ہیں، ان کے لئے دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ انہیں دولت ایمان سے نوازے۔ امید واثق ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے وسیلہ سے انہیں دوزخ کی آگ سے محفوظ فرمائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور وہ وہیں مشرف بہ اسلام ہو گئیں۔
    1. ابن کثير، البدايه والنهاية، 3 : 30
    2. حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 476
    3. محب طبري، الرياض النضره، 1 : 398

    ہجروفراقِ رسول :drood:

    ’’حضرت سالم بن عبداﷲ اپنے والد حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ ’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی موت کا سبب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال فرمانا تھا۔ (اس فراق حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غم میں) آپ رضی اللہ عنہ کا جسم کمزور ہوتا گیا یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیا۔‘‘
    1. حاکم، المستدرک، 3 : 66، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4410
     
  2. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سیدناابوبکر صدیق ۔ کشتہء عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

    جزاک اللہ
    بہت نائس شیئرنگ
    صبح صبح دل خوش ہو گیا سیدنا ابوبکر صدیق کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ کے
    میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمکو بھی ایسا ہی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمائے اور اپنے محبوب بندوں میں شامل فرمائے۔۔۔آمین
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سیدناابوبکر صدیق ۔ کشتہء عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

    جزاک اللہ العظیم

    مولائے کائنات وسیلہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے صدقے آپ کے علم و عقل میں اضافہ فرمائیں
     
  4. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سیدناابوبکر صدیق ۔ کشتہء عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

    [BLINK]جزاک اللہ۔۔۔۔۔۔۔[/BLINK]
     

اس صفحے کو مشتہر کریں