1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سیدناابوبکر صدیق عتیق رضی اللہ عنہ۔ اول خلیفہ راشد۔

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏26 مئی 2011۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

    آپ کا نام مبارک عبداللہ اور کنتا ابوبکر ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب چھٹی پشت میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ بچپن ہی سے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کو غیر معمولی انس تھا۔ اسلام سے قبل ایک متمول اور دیانتدار تاجر کی حیثیت سے مشہور تھے۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کو جب خلعت نبوت عطا ہوا تو مردوں میں سب سے پہلے آپ ہی نے بلاتوقف ایمان کی سعادت حاصل کی۔ اشاعت اسلام میں بھی آپ کی خدمات نمایاں ہیں۔
    آسمان اسلام کے درخشندہ ستارے حضرت عثمان بن عفان، حضرت زبیر بن العوام، حضرت عبدالرحمان بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت طلحہ بن عبداللہ اور دیگر کئی جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم آپ ہی کی دعوت پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔

    پہلے مومن

    ’’عبداللہ بن حصین تمیمی سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ تردد، ہچکچاہٹ اور تامل کا اظہار ضرور کیا سوائے ابوبکر کے کہ اس نے بغیر کسی تردد و تامل کے فوراً میری دعوت قبول کر لی۔‘‘
    1. ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 27
    2. ابن هشام، السيرة النبوية، 2 : 91

    آگ سے آزاد (محفوظ) شخص

    ’’امّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جسے آگ سے آزاد (محفوظ) شخص دیکھنا پسند ہو وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے۔‘‘ اور آپ رضی اللہ عنہ کا لقب ولادت کے وقت آپ کے گھر والوں نے عبد اﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو رکھا تھا، پھر اِس پر عتیق کا لقب غالب آگیا۔
    1. حاکم، المستدرک، 3 : 64، کتاب معرفة الصحابه، رقم، 4404
    2. ابو يعلي، المسند، 8 : 302، رقم : 4899
    3. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 54، رقم : 10

    لقب "صدیق" اللہ تعالی کی طرف سے عطاکردہ تھا

    ’’حضرت نزال بن سبرہ سے روایت ہے کہ ہم نے (حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ) سے عرض کی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ بیان فرمائیں تو انہوں (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : ابو بکر رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جن کا لقب اﷲ رب العزت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ’’الصِدِّیق‘‘ رکھا۔‘‘
    1. حاکم، المستدرک، 3 : 65، رقم : 4406

    ’’امّ المؤمنین عائشہ صدِّیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے آپ رضی اﷲ عنہانے فرمایا : جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد اقصیٰ کی طرف سیر کرائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح لوگوں کو اس کے بارے بیان فرمایا توکچھ ایسے لوگ بھی اس کے منکر ہو گئے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کر چکے تھے۔ وہ دوڑتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے : کیا آپ اپنے صاحب کی تصدیق کرتے ہیں جو یہ گمان کرتے ہیں کہ انہیں آج رات بیت المقدس تک سیر کرائی گئی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا، ہاں ! تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، کیا آپ اُنکی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آج رات بیت المقدس تک گئے بھی ہیں اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ہاں! میں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق اُس خبر کے بارے میں بھی کرتا ہوں جو اس سے بہت زیادہ بعید از قیاس ہے، میں تو صبح و شام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آسمانی خبروں کی بھی تصدیق کرتا ہوں۔‘‘ پس اس تصدیق کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ’’الصدیق‘‘ کے نام سے موسوم ہوئے۔‘‘
    1۔ حاکم نے ’المستدرک ( 3، 65 رقم : 4407)‘ ميں کہا ہے کہ يہ حديث صحيح الاسناد ہے۔

    حضوراکرم :drood: خود صدیق اکبر :rda:کی تعریف سنتے تھے

    ’’امام زہری سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا : ’’کیا تم نے ابوبکر (صدیق رضی اللہ عنہ) کے بارے کچھ کہا ہے‘‘۔ انہوں نے عرض کی، ہاں (یا رسول اﷲ!)۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’وہ کلام مجھے سناؤ میں سنوں گا۔‘ حضرت حسان رضی اللہ عنہ یوں گویا ہوئے ’’وہ غار میں دو میں سے دوسرے تھے۔ جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر پہاڑ (جبل ثور) پر چڑھے تو دشمن نے اُن کے ارد گرد چکر لگائے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہے کہ وہ (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کو اُن کے برابر شمار نہیں کرتے ہیں‘‘۔
    (یہ سن کر) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک ظاہر ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اے حسان تم نے سچ کہا، وہ (ابوبکر رضی اللہ عنہ) بالکل ایسے ہی ہیں جیسے تم نے کہا۔‘‘
    1. الحاکم، المستدرک، 3 : 67، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 441
    2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 174

    عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم


    ’’اُمّ المؤمنین عائشۃ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی تعداد اڑتیس (38) ہوگئی تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعلان و اظہارِ اسلام کے لئے اجازت طلب کی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! ہم ابھی تعداد میں کم ہیں مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اصرار پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اظہارِ اسلام کی اجازت مرحمت فرما دی۔ مسلمان مسجد حرام کے اردگرد پھیل گئے، ہر شخص اپنے خاندان کو اسلام کی دعوت پیش کرنے لگا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کے سامنے خطاب کے لیے کھڑے ہو گئے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاس تشریف فرما تھے۔ چنانچہ آپ پہلے خطیب تھے کہ جنہوں نے اعلانیہ طور پر لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلایا۔ مشرکین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور دیگر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور انہوں نے بیت اللہ کے اردگرد مسلمانوں کو شدید زود کوب کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بری طرح زدوکوب کیا گیا اور پاؤں سے روندا گیا۔ عتبہ بن ربیعہ فاسق شخص آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک ہوا اور اپنے جوتے آپ کے چہرے پر مارنے لگا اور آپ کے پیٹ پر چڑھ کر روندنے لگا یہانتک کہ آپ کا چہرہ پہچانا نہیں جاتا تھا۔ (آپ کے قبیلہ) بنو تیم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور مشرکین کو حضرت ابوبکر سے دور کیا۔ وہ آپ کو کپڑے میں ڈال کر آپ کے گھر لے گئے، انہیں آپ کے زندہ رہنے کی توقع نہ تھی اس لئے انہوں نے بیت اللہ میں آ کر اعلان کیا کہ اگر ابوبکر زندہ نہ رہے تو ہم ان کے بدلے میں عتبہ بن ربیعہ کو ضرور قتل کریں گے۔ خاندان کے لوگ آپ کے پاس واپس آگئے، آپ کے والد ابو قحافہ اور بنو تیم مسلسل آپ سے گفتگو کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ بالآخر دن کے آخری حصے میں آپ نے ان کی بات کا جواب دیا۔ پہلا جملہ یہ کہا ’’ ما فعل رسول اﷲ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس حال میں ہیں؟ تمام خاندان ناراض ہو کر چلا گیا۔ لوگوں نے آپ کی والدہ ام الخیر کو آپ کو کچھ کھلانے پلانے کے لئے کہا۔
    آپ کی والدہ جب کچھ کھانے پینے کے لئے کہتیں تو آپ کہنے لگتے : ما فعل رسول اﷲ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس حال میں ہیں؟ یہ حالت دیکھ کر آپ کی والدہ کہنے لگیں واﷲ مالي علم بصاحبک اللہ کی قسم مجھے آپ کے دوست کی خبر نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ آپ نے کہا آپ ام جمیل بنت خطاب کے پاس چلی جائیں اور ان سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں دریافت کریں۔ وہ ام جمیل بنت خطاب کے پاس آئیں اور کہا کہ ابوبکر آپ سے محمد بن عبداللہ کے بارے میں پوچھ رہا ہے (چونکہ انہیں بھی اسلام خفیہ رکھنے کا حکم تھا اس لئے) انہوں نے کہا میں ابوبکر اور ان کے دوست محمد بن عبداللہ کو نہیں جانتی ہاں اگر آپ چاہتی ہیں تو میں آپ کے ساتھ آپ کے بیٹے کے پاس چلی جاتی ہوں حضرت ام جمیل آپ کی والدہ کے ہمراہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچیں تو آپ کو زخمی اور نڈھال دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھیں : خدا کی قسم ان لوگوں نے اہل فسق اور کفر کی خاطر آپ کو یہ اذیت دی ہے مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے آپ کا بدلہ ضرور لے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس حال میں ہیں؟ انہوں نے اشارہ کیا کہ آپ کی والدہ سن رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا : فکر نہ کرو بلکہ بیان کرو۔ انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محفوظ ہیں اور خیریت سے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت کہاں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا دار ارقم میں تشریف فرما ہیں۔ خدا کی قسم میں اس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گا اور نہ پیؤں گا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں نہ پہنچ جاؤں۔ جب سب لوگ چلے گئے تو یہ دونوں خواتین آپ کو سہارا دے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لے گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس عاشق زار کو آگے بڑھ کر تھام لیا اور اس کے بوسے لینے لگے۔ تمام مسلمان بھی (فرطِ جذبات میں) آپ کی طرف لپکے۔ آپ کو زخمی دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بڑی رقت طاری ہوئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : حضور میں ٹھیک ہوں، میری والدہ حاضر خدمت ہیں۔ اپنی اولاد کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والی ہیں۔ آپ مبارک شخصیت ہیں، ان کے لئے دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ انہیں دولت ایمان سے نوازے۔ امید واثق ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے وسیلہ سے انہیں دوزخ کی آگ سے محفوظ فرمائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور وہ وہیں مشرف بہ اسلام ہو گئیں۔
    1. ابن کثير، البدايه والنهاية، 3 : 30
    2. حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 476
    3. محب طبري، الرياض النضره، 1 : 398

    ہجروفراقِ رسول :drood:

    ہجر و فراق مںح وصال ’’حضرت سالم بن عبداﷲ اپنے والد حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ ’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی موت کا سبب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال فرمانا تھا۔ (اس فراق حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غم میں) آپ رضی اللہ عنہ کا جسم کمزور ہوتا گیا یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیا۔‘‘
    1. حاکم، المستدرک، 3 : 66، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4410

    حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کا واقعہ

    ’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی اپنی چادر کا کنارہ پکڑے حاضرِ خدمت ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کاگھٹنا ننگا ہو گیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’تمہارے یہ صاحب لڑ جھگڑ کر آرہے ہیں۔‘‘ انہوں نے سلام عرض کیا اور بتایا کہ میرے اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ تکرار ہوئی تو جلدی میں میرے منہ سے ایک بات نکل گئی جس پر مجھے بعد میں ندامت ہوئی اور میں نے اُن سے معافی مانگی لیکن انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا ہوں۔
    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ تمہیں معاف فرمائے‘‘ یہ تین مرتبہ فرمایا۔
    اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نادم ہو کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر گئے اور انکے بارے میں پوچھا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہاں ہیں؟ گھر والوں نے کہا۔ نہیں ہیں۔
    چنانچہ آپ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا، اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ پُر نور کا رنگ بدل گیا۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ڈر گئے اور گھٹنوں کے بل ہو کر عرض گزار ہوئے : ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اﷲ کی قسم! میں ہی زیادتی کرنے والا تھا۔‘‘ یہ دو مرتبہ عرض کیا
    پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بے شک جب اﷲ رب العزت نے مجھے تمہاری طرف مبعوث فرمایا تو تم سب لوگوں نے میری تکذیب کی (جھٹلایا) لیکن ابوبکر نے میری تصدیق کی۔ اور پھر اپنی جان اور اپنے مال سے میری خدمت میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا‘‘۔ پھر دو مرتبہ ارشاد فرمایا ’’کیا تم میرے ایسے ساتھی سے میرے لئے درگزر کرو گے؟‘‘ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کبھی اذیت نہیں دی گئی۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، 3 : 1339، کتا ب المناقب، رقم : 3461

    حضرت ربیعہ اسلمی کا واقعہ

    ’’حضرت ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین کا کچھ حصہ مجھے عطا فرمایا اور کچھ حصہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو۔ پس اُمور دنیا کی وجہ سے ہمارے درمیان کھجور کے ایک درخت کی شاخوں پر اختلاف ہو گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ میری حد میں ہے، اور میں نے کہا یہ میری حد میں ہے۔ پس میرے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے درمیان گفتگو ہوئی تو انہوں نے ایسا کلمہ کہہ دیا جسے میں نے ناپسند کیا۔ پھر وہ شرمندہ ہو گئے اور فرمایا : ’’اے ربیعہ ! اسی طرح کا کلمہ تُم مُجھے کہہ لو تاکہ وہ قصاص بن جائے۔‘‘ میں نے عرض کی : ’’میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’تُم ایسا کرو ورنہ میں تمہارے خلاف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد طلب کروں گا۔‘‘ تو میں نے کہا : ’’میں ایسا نہیں کروں گا۔
    ‘‘ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلے گئے اور میں اُن کے پیچھے ہو لیا۔ میرے قبیلے بنو اسلم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے اﷲ ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے ! وہ کس چیز میں تمہارے خلاف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد طلب کرتے ہیں۔ حالانکہ انہی نے تو تمہیں وہ کہا جو کہا، تو میں نے کہا : تُم جانتے ہو یہ کون ہیں؟ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، وہ ثانی اثنین ہیں اور وہ تمام مسلمانوں میں پہل کرنے والے ہیں۔ پس تُم ا س سے بچو کہ وہ ہماری طرف متوجہ ہوں اور تمہیں دیکھ لیں کہ تُم میری مدد کر رہے ہو جس کے نتیجے میں وہ غصے ہو جائیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اُن کی ناراضگی کی وجہ سے ناراض ہو جائیں گے اور ان دونوں کی ناراضگی کی وجہ سے اﷲ بھی ناراض ہو جائے گا۔ نتیجتاً ربیعہ ہلاک ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا : آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا : ’’تم واپس لوٹ جاؤ‘‘۔
    حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلے گئے اور میں اکیلا اُن کے پیچھے چلتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ انور میں پہنچ گئے۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ ساری بات بتائی، جو ہوئی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر انور میری طرف اُٹھایا اور ارشاد فرمایا : ’’اے ربیعہ! تمہارے اور صدیق کے درمیان کیا معاملہ ہوا؟‘‘ میں نے عرض کی : ’’یا رسول اﷲ ! معاملہ اس اس طرح ہوا پھر انہوں نے مُجھے ایک ایسا کلمہ کہا جسے میں نے ناپسند کیا۔ اِنہوں نے مجھے فرمایا کہ تم بھی اُسی طرح کہہ لو جس طرح میں نے تُمہیں کہا ہے تاکہ وہ قصاص بن جائے تو میں نے انکار کر دی۔‘‘
    پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ہاں! ان پر قصاص کے طور پر وہ کلمہ نہ کہنا، بلکہ تُم کہو کہ اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ آپ کو معاف فرمائے۔‘‘ تو میں نے یہی جملہ کہا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! اﷲ آپ کو معاف فرمائے۔‘‘ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ روتے ہوئے وہاں سے واپس چل پڑے۔‘‘
    1. احمدبن حنبل، المسند، 4 : 58
    2. حاکم، المستدرک، 2 : 189، رقم : 2718

    آپ کے چند مشہور اقوال درج ذیل ہیں :

    1. جس پہ نصیحت اثر نہ کرے وہ جان لے کہ اس کا دل ایمان سے خالی ھے
    2. وہ شخص نہایت بدبخت ہے جو خود تو مر جائے ، مگر اس کا (جاری کردہ) گناہ نہ مرے۔
    3. دانائیوں میں بڑی دانائی تقویٰ ہے اور حماقتوں میں بڑی حماقت بدکاری ہے۔
    4. صدقہ فقیر کے سامنے عاجزی سے باادب پیش کر، کیونکہ خوشدلی سے صدقہ دنیا قبولیت کا نشان ھے
    5. گناہ سے توبہ کرنا واجب ھے مگر گناہ سے بچنا واجب تر ھے
    6. اس دن پر آنسو بہا جو تیری عمر سے کم ہو گیا اور اس میں نیکی نہ تھی
    7. جو اللہ کے کاموں‌میں‌لگ جاتا ہے اللہ اس کے کاموں‌میں لگ جاتا ہے

    ۶۳ سال کی عمر میں ۲۲ جمادی الثانی سنہ ۱۳ ہجری میں مغرب نماز کے بعد آپ کا انتقال ہوا۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ گنبد خضریٰ میں حضور نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔

    والسلام علیکم
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سیدناابوبکر صدیق عتیق رضی اللہ عنہ۔ اول خلیفہ راشد۔

    22جمادی الثانی کی آمد ہے۔ اسی مناسبت سے تمام اہل ایمان سے التما س ہے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے احوالِ حیات اور مقام و مرتبہ کی تحریریں ضروری پڑھیں اور یہاں شئیر کریں۔ شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں