1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سیدالعلماء مولانا سیداحمدحسن حسینی محدث امروہی قدس سرہ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از احمداسد, ‏14 دسمبر 2011۔

  1. احمداسد
    آف لائن

    احمداسد ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جنوری 2011
    پیغامات:
    110
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    تحریروترتیب: مولانا مدثر جمال تونسوی
    امروہہ کے مشہور خاندان سادات رضویہ سے تعلق تھا، ان کے اجداد میں حضرت شاہ ابّن اکبری دور کے بلندپایہ مشائخ سادات میں سے تھے۔پروفیسر وقار احمد رضوی نے اپنی تصنیف ’’مولانا سید احمد حسن محدث امروہی احوال و آثار‘‘ میں آپ کا مکمل شجرہ نسب درج کیا ہے۔ آپ 1267ھ مطابق 1850ء میں پیداہوئے۔فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم امروہہ کے بلند پایہ عالم دین مولانا سیدرافت علی ، مولاناکریم بخش نخشبی ابن مولانا امام بخش نخشبی خلیفہ خواجہ غلام علی نقشبندی دہلوی اور مولانامحمدحسین جعفری سے حاصل کی۔ بعدازاں حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی قدس سرہ کی خدمت میں رہ کرعلم حدیث اور دوسرے علوم وفنون کی تکمیل کرکے 1294ھ میں فراغت پائی۔آپ حضرت نانوتوی کے ارشد اور عزیزترین شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت نانوتوی کے تمام شاگردوں میں حضرت امروہی ان سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے، خود حضرت نانوتوی بھی ان کو بہت عزیز رکھتے تھے اور انہیں میر صاحب کہہ کر خطاب کرتے تھے۔
    حضرت نانوتوی سے تکمیل کرنے کے بعد اس دور کے دیگر اکابر اہل علم ومحدثین کی خدمت میں بھی حاضری دی اور ان سے اجازت حدیث حاصل کی ۔ان اکابر علماء کے نام یہ ہیں:
    (۱)حضرت مولانا عبدالغنی مجددی دہلویؒ
    یہ حضرت امروہی کے دادا استاذ تھے کیوں کہ حضرت نانوتویؒ کو علم حدیث میں انہی سے شرف تلمذ حاصل تھا
    (۲)حضرت مولانا عبدالقیوم بھوپالیؒ ابن حضرت مولاناعبدالحی بڑھانویؒ
    حضرت مولاناعبدالقیوم بھوپالی حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی کے داماد تھے جبکہ ان کے والد حضرت مولاناعبدالحی بڑھانوی ، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کےداماد تھے اور حضرت سیداحمد شہید کے دست راست اور انہی کے ارادت مندت تھے ، آخر دم تک سفر جہاد میں ان کے ساتھ رہے اور اسی سفر جہاد میں انتقال فرمایاتھا۔اس وقت تک حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب انہی کے ساتھ تھے مگر والد صاحب کے انتقال کے بعد حضرت سید احمد شہید نے انہیں واپس ہندوستان میں اپنی والدہ محترمہ کے پاس بھیج دیا۔چونکہ عمر کا ایک بڑا حصہ بھوپال میں گزارا تھا اسی لئے بھوپالی کی نسبت سے بھی مشہور ہیں۔
    (۳) حضرت مولانا قاری عبدالرحمن محدث پانی پتی ؒ، شاگر رشید حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلویؒ
    (۴) استاذ العلماء حضرت مولانااحمد علی محدث سہارنپوری ؒ، محشی بخاری شریف
    اپنے استاذ محترم مولانا نانوتوی کی طرح آپ کو بھی علم دین کی نشر و اشاعت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ عشق کی حد تک جنون تھا۔ چنانچہ جس وقت فارغ التحصیل ہوئے اس وقت آپ نوجوان سبزہ آغاز تھے ، مگر پوری طرح خود کو علم دین کی اشاعت کے لئے وقف کردیا ۔ فراغت کے فورا بعد تعلیم و تدریس کے لئےخورجہ ضلع بلند شہر تشریف لے گئے ۔جس وقت 1296ھ میں حضرت نانوتوی قدس سرہ کے ایماء و ترغیب سے مراد آباد میں مدرسہ شاہی بنام مدرسۃ الغرباء قائم ہوا تو اس مدرسے کی صدارت تدریس کے لئے آپ کو منتخب کیا گیا اور آپ 1303ھ تک پوری آب وتاب اور کمال محنت و جانفشانی سے وہاں درس حدیث دیتے رہے اور دیگر علوم وفنون کی تدیس بھی فرماتے رہے۔
    اللہ رب العزت نے اس کم عمری میں ہی آپ کو علمی رسوخ ایسا عطاء فرمایا تھا کہ دور دراز سے طلبہ علوم دین حاصل کرنے کے لئے آ پ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اس جامع وباکمال شخصیت سے فیض یاب ہوکر خدمت دین میں مشغول ہو جاتے تھے۔اس سات سال کے عرصے میں طلبہ کی کثیر تعداد نے آپ سے کسب فیض کیا تھا ، اس دور میں آپ کے چند باکمال تلامذہ کا نام درج ذیل ہے:
    (۱) سراج المفسرین حضرت مولانا حافظ عبدالرحمن صدیقیؒ ، محشی بیضاوی شریف
    (۲) قطب الوقت حضرت مولانا عبدالغنی پھلاودیؒ
    (۳) حضرت مولانا محمدیحی شاہ جہان پوریؒ ، مرتب افادات احمدیہ قلمی
    (۴) مولانا محمود حسن سہسوانیؒ
    (۵) مولانا عبدالحق پیلی بھیتؒ
    (۶) قاضی عبد الباری گڑھ مکٹیسریؒ
    (۷) مولانا خادم حسین امروہیؒ
    ان حضرات میں سے مولانا عبدالرحمن صدیقی محشی بیضاوی شریف کی سند حدیث 1301ھ کی ہے، جو خود حضرت محدث امروہی کی عطاء کردہ ہے۔ دو سال بعد 1303 ھ میں جب حضرت محدث امروہی مدرسہ شاہی سے مستعفی ہو کر اپنے آبائی وطن تشریف لائے تو آپ کے بعد مدرسہ شاہی کے شیخ الحدیث اور ان کے بعد صدر مدرس آپ کے درج بالا دو شاگر حضرت مولانا عبدالرحمن صدیقی اور مولانا محمود حسن سہسوانی مقرر ہوئے۔
    یہ مدرسہ شاہی مراد آباد آج بھی ہندوستان کے مشہور و مستند اوربڑے مدارس میں شمار ہوتا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اس کے آغاز میں ہی حضرت نانوتوی کی تمام تر توجہات اور ان کے شاگرد عزیز حضرت محدث امروہی کی سات سالہ محنت و اخلاص کی بدولت آغاز میں ہی اس کو وہ شہرہ و ناموری نصیب ہوگئی تھی جو اس وقت دارالعلوم دیوبند اور مدرسہ مظاہرعلوم سہارن پور کی نمایاں خصوصیت تھی۔
    حضرت محدث امروہی مدرسہ شاہی مرادآباد سے 1303ھ میں مستعفی ہوکر عمائدین شہر امروہہ کے اصرار پر اپنے وطن عزیز امروہہ تشریف لے آئے اور مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ قائم کیا اور اس میں تمام علوم و فنون کی تعلیم وتدریس کا سلسلہ جاری کیا۔ مدرسہ ومسجد کی ظاہری وباطنی تعمیر وترقی کے لئے ہمہ تن کوشش فرما کر اسے ایک عظیم جامعہ کی حیثیت سے متعارف کرادیا۔ اس مدرسے کے بانی عمائدین میں نواب وقارالملک صاحب کا نام اس مدرسے کی حیثیت اور اہمیت اجاگر کرنے کے لئے کافی ہے۔ یاد رہے یہی نواب وقار الملک بانی علیگڑھ سرسید احمد خان کے خاص رفقاء کار میں سے تھے ۔
    امروہہ ، ضلع مظفر نگر یوپی کی ایک قدیم تاریخی بستی ہے، اس میں بڑے بڑے مشایخ ، علماء اور ماہر فنون پیدا ہوئے ۔ مشہور محدث قاری عبدالرحمن پانی پتی نے اسی سرزمین کے قاری امام الدین نخشبی خلیفہ شاہ غلام علی دہلوی سے تجویدکی سند حاصل کی تھی۔ اس مردم خیز سرزمین پر1857ء سے پہلے مسجدوں، گھرکی بیٹھکوں اور محلہ کی سہ دریوں میں بہت سے انفرادی مکاتب موجود تھے جن میں ماہرین فن ، علم وفن کی تعلیم دیتے تھے۔ لیکن 1857ء کے ہنگامے کے بعد اس علمی شہر کی درسی محفلیں خاموش ہو گئی تھیں ، حدیث وتفسیراور فقہ کے وہ چرچے باقی نہیں رہے تھے، معقولات اور دیگر فنون کی تحصیل کا پہلے سا ذوق ختم ہوچکا تھا۔اس علمی خزاں رسیدہ شہر میں مولانا سیداحمد حسن محدث امروہی نے علم کا چراغ روشن کیا اور ان کی شبانہ روز محنت اور مخلصانہ جانفشانی کی برکت سے علمی قدیم روایات دوبارہ زندہ ہوگئیںاور ہندوستان بھر میں اس کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔

    جاری ہے ۔ ۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں