1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سٹاک ایکس چینج

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از شفقت علی رضا, ‏27 مئی 2011۔

  1. شفقت علی رضا
    آف لائن

    شفقت علی رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2011
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    سٹاک ایکس چینج !! تحریر شفقت علی رضا
    پہاڑی سلسلہ کے گاو ں میں جا کر ایک امیر آدمی نے ڈیرہ ڈال لیا اور اپنے کارندے سے گاوں میں یہ مشہور کروا دیا کہ ہمارے سیٹھ صاحب کو پہاڑوں میں رہنے والے بندر بہت بڑی مقدار میں چاہئیں اور وہ فی بندر پانچ سو روپیہ ادا کریں گے وہ بھی نقد کی صورت میں !! کارندے نے یہ بھی اعلان کیا کہ بندر پکڑ کر لانے والا پہلے بندر کی قیمت لے گا اور بعد میں بندر دے گا اعلان کا سننا تھا کہ گاوں کے باسی پہاڑوں پر چڑھ گئے اور اپنے اپنے طریقوں سے بندر پکڑنا شروع ہو گئے جو کوئی بھی بندر لاتا وہ امیر آدمی بندر کے بدلے پانچ سو روپیہ ادا کر دیتا ،روزانہ بہت سے بندر پکڑے جاتے اور انہیں فروخت کر دیا جاتا ،بندروں کے خرید دار نے گاوں کے باہر دیو قامت پنجرہ بنوایا تھا جس میں وہ بندر خرید کر قید کر لیتا ،قریبی پہاڑوں میں بندر ، ناپید ، ہونا شروع ہوگئے ،ایک تو بندر کم ہوگئے اور دوسرا جو باقی بچے وہ شکاریوں کے ڈر سے دوردراز پہاڑوں پر روپوش ہو گئے تاکہ پکڑے نہ جا سکیں ،اس مشکل کو دیکھتے ہوئے خریدار امیر آدمی نے اعلان کیا ، چونکہ اب بندر پکڑے جانے کے ڈر سے بھاگ گئے ہیں اور انہیں پکڑنے میں مشکلات کا سامنا ہے لہذا اب ہر بندر ایک ہزار روپیہ میں خریدا جائے گا ،بندر پکڑنے میں اب مزید گاوں کے لو گ بھی شامل ہو گئے تھے ، نئے سرے سے بندر پکڑے جا رہے تھے اور ہر بندر کے عوض ایک ہزار روپیہ مل رہا تھا ،اس کے لئے شکاری حضرات کو اپنے گاوں چھوڑ کر دور جانا پڑتا لیکندوری اور تھکاوٹ کی قیمت اچھی ملتی تھی جس سے مشکل کا احساس نہ ہو تا تھا ،اب بندر وہاں سے بھی بھاگ گئے اور ان کو پکڑنے والے دربدر کی ٹھوکریں کھانے لگ پڑے ، ان حالات کو دیکھ کر خریدار نے اعلان کیا کہ اب بندر دو ہزار میں خریدا جائے گا ، اس اعلان کے بعد وہ آدمی کسی دوسرے ملک کے دورہ پر چلا گیا اور اپنے کارندے کو رقم دے گیا کہ اگر کوئی بندر لے کر آئے تو اس سے دو ہزار کا بندر لے لینا ، کارندے نے اثبات میں سر ہلا دیا کیونکہ وہ اپنے مالک کا پیغام سمجھ چکا تھا ، گاوں کے باہر بنایا گیا پنجرہ بندروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ،جب امیر آدمی چلا گیا تو اس کے کارندے نے گاوں والوں کو اکٹھا کیا اور کہا کہ آپ سب ایک کام کریں میرے پاس جتنے بندر ہیں وہ آپ سترہ سو فی بندر کے حساب سے خرید لیں اورپھر وہی بندر میرے مالک کو دو ہزار میں بیچ دیں اس طرح آپ کو تین سو روپیفی بندر منافع ملے گا اور آپ لاکھ پتی بن جائیں گے ،اس آفر کے سنتے ہی گاوں والوں نے سینکڑوں کے حساب سے بندر خرید لئے ،، جب سب بندر بک گئے تو گاوں والے صبح ہونے کا انتظار کرنے لگ پڑے تاکہ کل وہ امیر آدمی آئے تو اس کو یہ بندر بیچ دیں اور خود امیر بن جائیں ،صبح اٹھ کر گاوں والوں نے دیکھا کہ نہ تو وہاں کارندہ تھا اور نہ ہی وہ امیر آدمی وآپس آیا ،تب گاوں والوں کو پتا چلا کہ پانچ سو والا اور ایک ہزار والا بندر کتنی چالاکی سے سترہ سترہ سو میں بیچا گیا تھا ،اس ہونے والے عمل کو عام الفاظ میں سٹاک ایکس چینج کہتے ہیں اور پنجابی میں ،، ساڈھی بلی سانوں میاوں ،، بھی کہنا غلط نہ ہو گا ، پاکستان کے عوام بھی اپنیامریکی ایجنسیوں کے ساتھ ایسا ہی کاروبار کررہے ہیں یہ ،، بھولے بادشاہ ،، عوام کبھی چٹیل میدانوں ،کبھی بیابانوں ، کبھی صحراوں اور کبھی جنگلی علاقہ جات سے اور کبھی کبھی پہاڑیوں سے دن رات ایک کرکے نعروں کے جال بچھا کر ووٹ کا ہتھیار استعمال کر کے اور کبھی دولت کا دانہ پھینک کر ان حکمرانی بندروں کو تلاش کرتے ہیں پکڑتے ہیں اور ، امریکی ایجنسیوں ، کو بیچتے ہیں ،ان کے سب سے بڑے خریدا�آئی ایم ایف سے اس کی قیمت قرض کی صورت میں وصول کرتے ہیں اور پھر امریکی ایجنسیوں کی چالاکی کو نہ سمجھتے ہوئے انہی بیچے ہوئے بندر وں کو زیادہ قیمت دے کر خرید لیتے ہیں سیاست اور حکومتی ممبران بھی ایسا ہی سٹاک ایکس چینج کاکاروبار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں،خود ہی عوام کی قیمت طے کرتے ہیں اور خود ہی ان کو خریدنے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں ، خود ہی مارکیٹ سے آٹا غائب کرتے ہیں اور خود ہی روٹی دو روپے میں بیچنا شروع کر دیتے ہیں ،خود ہی ثابت کرتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کو استثنا حاصل نہیں ہے اور خود ہی اسے فرار کروا دیتے ہیں ، چیف جسٹس کو خود ہی معطل کرتے ہیں اور پھر اسے بحال کروانے کے لئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں،خود ہی کہتے ہیں کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کو رہا کیا گیا تو ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور خود ہی کوئی بہانہ بنا کر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں ،خود ہی ایک دوسرے کو قاتل کہتے ہیں اور خود ہی ایک دوسرے کو سینے سے لگا لیتے ہیں ،خود ہی گورنر کو راستے سے ہٹاتے ہیں اور خود ہی قاتل پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کروا دیتے ہیں ،خود ہی کہتے ہیں کہ اب ڈراون حملہ نہیں ہوگا اور خود ہی حملہ کی اجازت دے دیتے ہیں خود ہی اعلان کرتے ہیں کہ اسامہ بن لادن مار دیا گیا ہے اور خود ہی کہتے ہیں کہ وہ تو کب کا مر چکا ہے خود ہی کہتے ہیں کہ اسامہ کو پاکستانی فورسز نے مارا اورخودہی امریکی فورسز کو تنبیح کرتے ہیں کہ آئندہ ہماری حدود کی خلاف ورزی نہ کرنا ، خود ہی کہتے ہیں کہ بس یہ آخری بار تھی کہ امریکا نے پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی کر لی اور خود ہی دو دن بعد اسے ڈراون حملہ کرنے کی قیمت وصول کر لیتے ہیں ، بیچاری پاکستانی عوام کا بھولا پن دیکھیئے ، اپنے سستے داموں بیچے ہوئے بندروں کو خود ہی مہنگے داموں خرید لیتے ہیں ، بندروں کو بیچتے ہوئے عوام سوچتے ہیں کہ ہم ان بندروں کو آئی ایم ایف کو بیچیں گے تو وہ ہمیں بجلی، پانی ، گیس ، تعلیم ، اور امن جیسی سہولیات دے گا لیکن آئی ایم ایف پاکستانی عوام سے بندر لیتا ہے اور پھر وہی بندر مہنگائی ، دہشت گردی ،بم دھماکوں ،ڈراون حملوں اور لوڈ شیڈنگ کے منافع کے ساتھ وآپس بیچ دیتا ہے ، نہ جانے ہماری عوام ان بندروں کو اپنے ووٹ کے جال سے کب تک پکڑتی رہے گی ،نہ جانے کب تک ؟؟
     

اس صفحے کو مشتہر کریں