1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سُترہ

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏24 ستمبر 2020۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سُترہ کا معنی :
    سُترہ لغت میں ”مَا يُسْتَتَرُ بِهِ “ اُس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ چھپا جاسکے۔
    اِصطلاح میں سُترہ اُس چیز کو کہتے ہیں جو نمازی اپنے سامنے رکھے۔”مَا يَنْصِبُهُ الْمُصَلِّي قُدَّامَهُ “ وہ چیز خواہ عصا ہو ، کرسی ہو،یا اور کوئی چیز ۔(مرقاۃ:2/639)

    سُترہ کی چند حکمتیں :

    سُترہ کے کئی فائدے اور مصلحتیں ہیں :
    سُترہ کے ذریعہ نمازی کے لئے اپنے سجدہ کی جگہ متعیّن ہوجاتی ہے۔
    آگے سے لوگوں کا آنا جانا موقوف نہیں ہوتا ، ہر شخص آگے سے گزر سکتا ہے۔
    سُترہ کے آگے سے گزرنے والا گناہ گار نہیں ہوتا ۔
    نمازی کی آنکھیں سُترہ سے آگے تجاوز نہیں کرتیں۔
    نماز پڑھنے والے کے خیالات مجتمع ہوجاتے ہیں۔(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ،مادہ: سُترۃ)(الفقہ الاسلامی)

    سُترہ کا حکم :
    اصحابِ ظواہر:سُترہ رکھنا واجب ہے۔
    امام ابوحنیفہ ومالک﷮ :مستحب ہے جبکہ آگے سے کسی کے گزرنے کا اندیشہ ہو ۔
    امام شافعی و احمد﷮:مطلقاً سنت ہے، خواہ آگے سے گزرنے کا احتمال ہو یا نہیں ۔

    سُترہ کے بارے میں نبی کریمﷺسے امر کی روایات مروی ہیں جن سے بظاہر سُترہ کا واجب ہونا معلوم ہوتا ہے لیکن چونکہ خود آپﷺسےبغیر سُترہ کے نماز پڑھنا ثابت ہے اِس لئے جمہور کے نزدیک سُترہ واجب نہیں ، زیادہ سے زیادہ اسے مستحب یا سنّت کہا جائے گا ۔( درس ِ مشکوۃ :259)(الفقہ علی المذاہب:1/244)

    سُترہ کی مقدار :
    لمبائی میں :ایک ذراع یعنی ایک ہاتھ جس کی مقدار دو بالشت بنتی ہے۔
    چوڑائی میں : ایک انگلی کے برابر ۔(مرقاۃ:2/639)(الدر المختار:1/637)

    سُترہ کہاں رکھا جائے :
    سترہ نمازی کے قدم سے تقریباً تین ہاتھ کے فاصلہ پر ہونا سنت ہے زیادہ دور نہ ہو، بالکل سیدھ میں بھی نہ ہو کچھ دائیں یا بائیں ہو، داہنی ابرو کی سیدھ میں ہونا افضل ہے۔(زبدۃ الفقہ )(الدر المختار:1/637)

    نمازی کے کتنے آگے سے گزرا جاسکتا ہے :
    جو بغیر سُترہ کے نماز پڑھ رہا ہو اُس کے کتنے آگے سے گزرنا درست ہے ، اِس کی تفصیل یہ ہے:

    اگر مسجد صغیر یعنی چالیس ذراع (334.451مربع میٹر)سے کم ہو تو بغیر سُترہ کے آگے سے گزرنا مطلقاً جائز نہیں۔اگر مسجد کبیر یا صحرا یعنی کھلی جگہ ہو توآگے سے گزرنا جائز ہے ، لیکن کتنا آگے سے ، اس میں دو قول ہیں :
    موضع ِ سجود یعنی سجدے کی جگہ چھوڑ کر آگے سے گزرا جاسکتا ہے ۔
    حالت ِ خشوع میں نمازپڑھتے ہوئے جہاں تک مصلی کی نگاہ پڑے ، اُس کے آگے سے گزرنا جائز ہے ۔

    دوسرا قول راجح ہے ، لہذا دو یاتین صفیں چھوڑ کر آگے سے گزرا جاسکتا ہے ۔ (درس ِ مشکوۃ : 259)
    نمازی اگر کسی اونچی جگہ پر ہو تو آگے سے گزرنا کیسا ہے:
    اگر نماز پڑھنے والا کسی اونچی جگہ مثلاً :چبوترے یا چھت یا تخت وغیرہ جیسی جگہ پرہواور سامنے سے کوئی گزرنا چاہےتو دیکھا جائے گا ، اگر وہ اونچی جگہ گزرنے والے کے قد سے زیادہ اونچی ہو تو آگے سے گزرنا جائز ہےمکروہ نہیں اور اس سے کم ہو تو مکروہ ہے۔ ( زبدۃ الفقہ )(الدر المختار:1/635)
    کیا نمازی کے آگے سے گزرجانے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے:
    اصحاب ِ ظواہر :عورت ، گدھا اور کتا نماز ی کے آگے سے گزر جائیں تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔

    امام احمد بن حنبل :
    صرف کتے کے گزرنے سے نماز ٹوٹتی ہے ۔
    ائمہ ثلاثہ :کسی کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی ۔(الفقہ الاِسلامی:2/951)
    فائدہ : نمازی کے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے لئے اٹھ کر جانا جائز ہے ، اس لئے کہ یہ مرور(گزرنا ) نہیں بلکہ نہوض(اٹھ کر جانا) ہے ۔

    عورت وغیرہ کے قاطعِ صلوۃ کا مطلب :
    بعض احادیث میں عورت ، گدھا اور کتے کو نمازی کے آگے سے گزرنے کی صورت میں ”قاطع“ یعنی نماز کو توڑدینے والا قرار دیا گیا ہے، جبکہ دوسری کئی احادیث سے نماز کا نہ ٹوٹنا بھی معلوم ہوتا ہے،پس تطبیق یوں دی گئی ہے :
    قطعِ صلوۃ سے نماز کا خشوع و خضوع اور کمال کا ٹوٹنا مراد ہے۔

    کبھی کبھی واقعۃً خیالات کے منتشر ہوجانے کی وجہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔(مرقاۃ:2/644)

    نماز کے آگے سے گزرنے کی صورت میں گناہ گارکون ہوگا:
    علّامہ شامی نے علامہ ابن دقیق العید کے حوالے سے اس کی چار صورتیں لکھی ہیں :
    مصلی اور مار دونوں مجبور نہ ہوں ۔ مار(گزرنے والا) گناہ گار ہوگا ۔
    مصلی اور مار دونوں مجبور ہوں ۔ کوئی گناہ گار نہ ہوگا ۔
    مصلی مجبور جبکہ مار غیر مجبور ہو۔ مار گناہ گار ہوگا ۔
    مصلی غیر مجبور جبکہ مار مجبور ہو ۔مصلی گناہ گار ہوگا ۔ (رد المحتار:1/635)

    کیا خط کھینچنا سُترہ کا قائم مقام ہوسکتا ہے:
    اگر سُترہ رکھنے کے لئے کچھ نہ ہو تو حدیث میں ایک خط کھینچ دینے کا حکم دیا ہے ۔اس سے اگر چہ سُترہ کا فائدہ تو حاصل نہیں ہوتا ، چنانچہ آگے سے گزرنا جائز نہیں ہوتا ۔لیکن نمازی کو جمعیت ِ خاطر (یکسوئی)حاصل ہوجاتی ہے ۔ اور یہ بھی سُترہ کا ایک مقصد ہے ۔کما مر سابقاً۔
    پھر یہ خط کس طرح کھینچا جائے اس کی چار صورتیں ذکر کی گئی ہیں :
    ہلالی شکل میں ۔
    محرابی شکل میں ۔
    ایک طویل خط قبلہ کی جانب ۔
    دائیں سے بائیں چوڑائی میں ۔

    چاروں صورتیں جائز ہیں ، البتہ پہلی صورت اولی ہے ۔ (نفحات التنقیح : 2/384)

    نمازی کے آگے سے گزرنے کی وعیدیں:
    نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے :اگر نمازی کے سامنے سے گذرنے والے کو پتہ چل جائے کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو وہ چالیس تک کھڑا رہے ،یہ بہتر ہے اس بات سے کہ اس کے سامنے سے گذرے۔ راوی کو شک ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے چالیس سال کہا یا چالیس مہینہ یا چالیس دن۔ لَوْ يَعْلَمُ المَارُّ بَيْنَ يَدَيِ المُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ، لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ» قَالَ أَبُو النَّضْرِ: لاَ أَدْرِي، أَقَالَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ شَهْرًا، أَوْ سَنَةً۔(بخاری:510)
    نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے: اگر تم میں سے کوئی یہ جان لے کہ اپنے مسلمان بھائی کے سامنے سے جبکہ وہ نماز پڑھ رہا ہو عرضاً گزرنا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے لئے سو برس تک کھڑے رہنا ایک قدم آگے بڑھانے سے بہتر معلوم ہو۔ لَوْ يَعْلَمُ أَحَدُكُمْ مَا لَهُ فِي أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْ أَخِيهِ، مُعْتَرِضًا فِي الصَّلَاةِ، كَانَ لَأَنْ يُقِيمَ مِائَةَ عَامٍ، خَيْرٌ لَهُ مِنَ الْخَطْوَةِ الَّتِي خَطَاهَا۔(ابن ماجہ:946)
    حضرت کعب ﷜فرماتے ہیں کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر یہ جان لے کہ اس کے اس جرم کی سزا کیا ہے تو اس کو اپنا زمین میں دھنسایا جانا نمازی کے آگے سے گزرنے سے زیادہ بہتر معلوم ہو اور ایک روایت میں بجائے بہتر کے ”زیادہ آسان“ کا لفظ ہے“۔أَنَّ كَعْبَ الأََحْبَارِ قَالَ: لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي، مَاذَا عَلَيْهِ، لَكَانَ أَنْ يُخْسَفَ بِهِ، خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ.(مؤطاء مالک:410)

    نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے :کسی چیز کا آگے سے گزرنا نماز کو نہیں توڑتا، تم (آگے سے گزرنے والے کو ) جس قدر بھی ہوسکے روکا کرواِس لئے کہ وہ شیطان ہے۔لَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ شَيْءٌ وَادْرَءُوا مَا اسْتَطَعْتُمْ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ۔(ابوداؤد:719)

    نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے :جب تم میں سے کوئی لوگوں سےبچتے ہوئے سُترہ رکھ کر نماز پڑھ رہا ہواورکوئی تمہارے سامنے(سُترہ کے اندر)سےگزرنا چاہےتو اُس کو روکنا چاہیئے، اگر وہ نہ مانے تو اُس سےقِتال کرواِس لئے کہ وہ شیطان ہے۔إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنَ النَّاسِ فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَلْيَدْفَعْهُ فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ۔(بخاری:509)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں