1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سومی کی لڑائی یہ بڑی خونی لڑائی تھی جس میں لاکھوں فوجی مارے گئے

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏10 دسمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سومی کی لڑائی یہ بڑی خونی لڑائی تھی جس میں لاکھوں فوجی مارے گئے
    upload_2019-12-10_2-25-33.jpeg

    طیب رضا عابدی
    جنگ عظیم اول میں کئی خونریز لڑائیاں لڑی گئیں جن پر بہت پیسہ خرچ ہوا۔ ان میں سے ایک لڑائی سومی کی لڑائی (Battle of Somme) کہلاتی ہے۔ یہ لڑائی جولائی 1916 سے لے کر نومبر 1916 تک جاری رہی۔ اصل میں اتحادیوں نے جرمنی کے خلاف مغربی محاذ پر ایک بڑا حملہ کیا تھا جو بعد میں ایک خونی لڑائی میں تبدیل ہو گیا۔ یہ حملہ بہت مہنگا ثابت ہوا کیونکہ اتحادیوں کو مالی نقصان کے علاوہ بہت زیادہ جانی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ مجموعی طور پر 5,7000 برطانوی فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ لڑائی کے پہلے روز ہی 19000 برطانوی فوجی لقمۂ اجل بن گئے۔ برطانوی فوجی تاریخ میں کسی بھی لڑائی کے پہلے دن ہونے والا یہ سب سے بڑا جانی نقصان تھا۔ پانچ ماہ بعد سومی کی لڑائی کا خاتمہ ہوا تو اس وقت تک دونوں طرف کے 30 لاکھ فوجی یہ لڑائی لڑ چکے تھے اور مجموعی طور پر دس لاکھ فوجی ہلاک یا زخمی ہو چکے تھے۔ حملے سے پہلے اتحادیوں نے ایک ہفتے تک توپوں کی بمباری کی اور اس میں قریباً 17 لاکھ شیلز استعمال کیے گئے۔ اس بمباری کا مقصد اس خاردار تار کو کاٹنا تھا جس سے جرمنی کا دفاع کیا جا رہا تھا اور پھر دشمن کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا تھا۔ یکم جولائی 1916 کی صبح کو 11 ڈویژن برطانوی فوج نے( اس میں کئی ایسے فوجی تھے جو پہلی بار لڑائی لڑ رہے تھے) شمالی سومی کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ اسی وقت پانچ ڈویژن فرانسیسی فوج بھی سومی کے جنوب کی طرف جاتی ہوئی دکھائی دی۔ یہاں جرمنی کا دفاع کمزور تھا۔ اتحادی فوجیں پراعتماد تھیں کہ توپوں کی بمباری سے جرمنی کا دفاع اتنا کمزور ہو جائے گا کہ ان کے فوجی دستے آسانی سے پیش قدمی کر سکیں گے لیکن کئی جگہوں پر خاردار تاریں ابھی تک موجود تھیں۔ اس کے علاوہ جرمنی کے فوجی ٹھکانے جن کی بہت بڑی تعداد زیر زمین تھی ان کو قابو کرنا بھی بہت مشکل ہو گیا تھا۔ اس بارے اتحادیوں کے اندازے غلط ثابت ہورہے تھے۔ جرمنی کی مشین گنوں اور بندوقوں کی زبردست فائرنگ سے برطانوی فوجیوں کی تعداد کم ہو گئی۔ ان میں بے شمار کو ’’نومین لینڈ‘‘ میں پکڑا گیا۔ 19240 برطانوی فوجی مارے گئے اور 38,000 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ سب کچھ پہلے دن ہوا تھا۔ برطانوی اور فرانس کی باقی فوجوں کو جنوب کی طرف بہت کامیابیاں ملیں لیکن یہ کامیابیاں اس نقصان کے مقابلے میں کم تھیں جو اتحادیوں کو پہلے دن ہوا تھا۔ دو ہفتوں کے دوران برطانیہ نے جرمنی پر مسلسل حملے شروع کر دئیے۔ اگرچہ یہ چھوٹے چھوٹے حملے تھے لیکن ان حملوں کا مقصد یہ تھا کہ جرمنی وردن سے اپنی کچھ فوجیں اور اسلحہ کہیں اور بھیج دے۔ 15جولائی کی صبح کو برطانوی فوجیوں نے بیزن ٹن رج پر توپوں سے زبردست حملہ کیا۔ یہ سومی کا شمالی حصہ تھا۔ اس حملے نے جرمنی کو حیران کر دیا۔ اس حملے کی بدولت برطانوی فوجیں جرمنی کے کچھ علاقوں کی طرف پیش قدمی کرنے کے قابل ہو گئیں۔ انہوں نے ایک گائوں لونگیووال پر قبضہ کر لیا لیکن چھوٹے چھوٹے حملوں کی اتحادیوں کو بھاری قیمت چکانا پڑی۔ ایک لاکھ ساٹھ ہزار جرمن فوجی ہلاک ہوئے لیکن برطانیہ اور فرانس کے دو لاکھ سے زیادہ فوجی موت کی وادی میں اتر گئے۔ اگست کے آخر تک جرمن فوجوں کی ہمت جواب دینے لگی کیونکہ انہیں سومی اور وردن میں پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ جرمنی نے اپنے جرنیل کو تبدیل کر دیا۔ نئے جرنیل کیت قرری سے جرمنی کی حکمت عملی تبدیلی ہو گئی۔ اس بار سومی کے محاذ کے پیچھے ایک نئی دفاعی لائن بنا دی گئی۔ اس نئی دفاعی لائن کی وجہ سے اتحادی فوجوں کو بہت زیادہ جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ 15ستمبر کو برطانوی توپ خانے نے ٹینک بھی لڑائی میں جھونک دئیے لیکن فرنٹ لائن پر پہنچنے سے پہلے ہی کئی ٹینک ناکارہ ہو گئے۔ اگرچہ برطانوی فوجوں نے ڈیڑھ میل تک پیش قدمی کر لی تھی لیکن اس کے بدلے 29,000 برطانوی فوجیوں کو زندگی سے ہاتھ دھونے پڑے اور وہ حقیقی کامیابی سے محروم رہے۔ جونہی اکتوبر کا مہینہ شروع ہوا خراب موسم نے اتحادیوں کے ایک اور حملے کو ناکام کر دیا۔ ایک طرف اتحادی فوجیوں کو کیچڑ آلود پہاڑی راستے کا سامنا تھا‘ دوسری طرف جرمن توپ خانہ اور لڑاکا طیارے مسلسل آگ برسا رہے تھے۔ جب صحیح معنوں میں موسم سرما شروع ہوا تو برطانوی افسر ہیگ نے 18نومبر کو حملے بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس طرح سومی کی یہ لڑائی جو 141 دن جاری رہی‘ وقتی طور پر ختم ہو گئی۔ اس لڑائی میں برطانیہ کا بہت نقصان ہوا۔ برطانوی فوجوں نے صرف سات میل تک پیش قدمی کی اور جرمنی کی دفاعی لائن توڑنے میں ناکام رہیں… برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ 141 دن دہشت ناک تھے۔ سومی کی لڑائی پر بہت مضامین لکھے گئے۔ سومی کی لڑائی کے اختتام پر یہ اندازہ لگایا گیا کہ ساڑھے چار لاکھ جرمن فوجی لقمۂ اجل بنے جبکہ چار لاکھ بیس ہزار برطانوی فوجی مارے گئے، جو برطانوی فوجی بچ گئے انہوں نے اس لڑائی میں بہت تجربہ حاصل کیا جو مغربی محاذ پر ان کے بہت کام آیا۔ اس لڑائی کے اختتام پر برطانوی فوجی افسروں پر سخت تنقید کی گئی کہ انہوں نے اتنے نقصانات اٹھانے کے باوجود لڑائی جاری رکھی۔ خاص طور پر برطانوی افسر ہیگ کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ بہرحال سومی کی لڑائی جنگ عظیم اول کا بہت اہم حصہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں