1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سوشل میڈیا اور معلومات کی بہتات ۔۔۔ انجم فاروق

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏3 دسمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سوشل میڈیا اور معلومات کی بہتات ۔۔۔ انجم فاروق

    مسئلہ ملکی نوعیت کا ہو یا بین الاقوامی، اختلاف فکری ہو یا ذاتی، مباحثہ سیاسی ہو یا مذہبی، آزاد خیالی زیر بحث آئے یا تنگ نظری‘ کوئی سوال ایسا نہیں جو پوچھا نہ جا سکے، کوئی جواب ایسا نہیں جو تشنگی چھوڑ جائے۔ گھٹن اور زباں بندی کے ماحول میں سوشل میڈیا کسی نعمت سے کم نہیں۔ ان کے لیے بھی جو بات کرنے کا ڈھنگ جانتے ہیں اور ان کے لیے بھی جو گفتگو کے آداب سے نابلد ہوتے ہیں۔ قلم کی نوک پر رقصاں خیال لکھ دیا جاتا ہے اور زبان پر آئی بات بول دی جاتی ہے۔ کسی کا عہدہ آڑے آتا ہے نہ عظمت۔ غلط کو غلط، صحیح کو صحیح، اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنے والے کم نہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے بنجر زمین پر ہریالی چھا گئی ہو، قحط سالی میں گھنگھور گھٹائیں امڈ آئی ہوں۔ جاوید اختر یاد آتے ہیں جونظم کہتے کہتے شعور کی فصل کوچار سُو لگی آگ کا نوحہ لکھ گئے۔
    جو بات کہتے ڈرتے ہیں سب‘ تُو وہ بات لکھ
    اتنی اندھیری تھی نہ کبھی پہلے رات لکھ
    جن سے قصیدے لکھے تھے وہ پھینک دے قلم
    پھر خونِ دل سے سچے قلم کی صفات لکھ
    جتنے بھی تنگ دائرے ہیں سارے توڑ دے
    اب آ کھلی فضاؤں میں اب کائنات لکھ
    یہاں تک کی کہانی سب کے لیے قابل قبول ہے۔ سوشل میڈیا کی داستان میں موڑ تو تھوڑا آگے جاکر آتا ہے‘ جب لوگوں کی ذاتی زندگی میں گھسنے کی کوشش کی جاتی ہے، آزادی کے نام پر بدزبانی پروان چڑھتی ہے، اپنے اور مخالفین کے گندے کپڑے بیچ چوراہے میں دھوئے جاتے ہیں۔ خواہش کو خبر بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور صبح و شام پروپیگنڈا کا بازار گرم رہتاہے۔ کون سچ بول رہا ہے‘ کون جھوٹ؟ کتنے حق کے ساتھ کھڑے ہیں اور کتنے باطل کے داعی ہیں؟ کون ظالم اور کون مظلوم؟ کوئی نہیں جانتا! آپ اچھے سے اچھی پوسٹ کریں، دیکھتے ہی دیکھتے برے سے برے القابات آپ کے حصے میں آنے لگیں گے۔ آپ کی عمر کا لحاظ رکھا جائے گا نہ جنس کا۔ کبھی کبھی تو یوں گمان ہوتا ہے کہ گالی سوشل میڈیا کی سرکاری زبان بن چکی ہے۔ اگر کسی کی رائے سے اختلاف کرنے کی ''غلطی‘‘ آپ سے سرزد ہو جائے تو پھر آپ کا عزت بچانا محال ہو جاتا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں صرف وہ بات کی جائے جس کو وہ درست مانتے ہیں، وہ نہیں‘ جسے بولنے والا ٹھیک سمجھے۔
    وہاں سب کا اپنا اپنا سچ ہے اور اپنا اپنا جھوٹ۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ سوشل میڈیا کی دکان سیاست کے لیے بہترین چوائس ہے مگر معاشرت؟ معاشرت کا تو سارا چہرہ مسخ کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ جتنے منہ اتنی زبانیں۔ باپ کا لحاظ نہ بھائی کا، ماں کا احترام نہ بہن کا۔ سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لیے کسی کو بھی، کسی بھی وقت بے آبرو کیا جا سکتا ہے۔ یہی سوشل میڈیا کی رِیت ہے۔
    میرا ذاتی خیال ہے کہ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ جھوٹ بِکتا ہے اور اس کے خریداروں میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں کہ انسان جان کر دنگ رہ جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی بیٹھک ہوئی تو مولانا فضل الرحمن نے اجلاس کا اعلامیہ میڈیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ پریس کانفرنس دیکھتے ہوئے مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ اتنی بڑی بڑی جماعتیں اتنی لاعلم کیسے ہو سکتی ہیں؟ سابق چیئرمین ایف بی آرشبر زیدی کے وزیراعظم کے نام خط کو لے کر غلط معلومات سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی تھیں‘ جسے پی ڈی ایم نے سچ جان کر اپنے اعلامیے کاحصہ بنا دیا۔ کسی نے خط پڑھنے کی کوشش کی نہ شبر زیدی کا مؤقف لینے کی۔ جھوٹ کو ہی سچ جان کر پریس کانفرنس کر دی گئی۔ یہ ہوتی ہے پروپیگنڈا کی طاقت، جو سوشل میڈیا کے ذریعے کیا جا تا ہے۔ آپ جتنا مرضی پروپیگنڈا کی اہمیت سے انکار کریں مگر اس کے وجود سے انکار ممکن نہیں۔ عمران خان کا الیکشن ہو یا ٹرمپ کا، مودی کی جیت کی کہانی سنیں یا بورس جانسن کی۔ آپ کو سوشل میڈیا کے ''کرشمے‘‘ ضرور نظر آئیں گے۔ تھوڑ ے کو زیادہ دکھانا اور زیادہ کو کم کرنا سوشل میڈیا کی ہی خاصیت ہے۔
    بات الزام تراشی، گالی، پروپیگنڈا اور جھوٹ کی تشہیر تک رہتی تو بھی حالات کی بہتری کے امکانات موجود رہتے مگر اب بات انسانی صحت تک جا پہنچی ہے۔ زندگی اور موت کا سوال کھڑا ہو گیا ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہم غیر ضروری مواد پڑھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ وہ خبریں، تبصرے، تصویریں اور وڈیوز‘ جو ہمارے لیے اہم نہیں‘ ہم وقت گزاری کے لیے دیکھتے ہیں ان کا اثر انسان کی دماغی صحت پر ہوتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس طرح انسانی دماغ اوور ٹائم لگا لگا کر تھک جاتا ہے اور پھر اسے دماغی اور جسمانی بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے بھی سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعد اد دنیا بھر میں ڈبل ہو چکی ہے۔
    تازہ رپورٹ کے مطابق 2012ء میں ایک شخص روزانہ اوسطاً 90 منٹ سوشل میڈیا پر صرف کرتا تھا، جو 2016ء میں بڑھ کر 126 منٹ ہو گئے مگر 2020ء میں روزانہ ایک آدمی اوسطاً 180 منٹ یعنی تین گھنٹے سوشل میڈیا کی نذر کرتا ہے۔ صرف فیس بک کے 2.2 ارب صارفین روزانہ آٹھ ارب وڈیوز دیکھتے ہیں جبکہ تین سو ملین تصویریں روزانہ فیس بک پر اَپ لوڈ کی جاتی ہیں جنہیں دنیا بھر میں کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ فیس بک کے بعد یوٹیو ب کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔ اس پر روزانہ تقریباً ڈیڑھ ارب لوگ وڈیوز دیکھتے ہیں۔ انسٹاگرام پر ہر منٹ میں پچاس ہزارکے قریب تصویریں شیئر کی جاتی ہیں جبکہ ٹویٹر کو استعمال کرنے والوں کی تعداد سوا ارب سے زائد ہے جو ایک منٹ میں لاکھوں ٹویٹ کرتے ہیں۔ آپ خود فیصلہ کریں جب سوشل میڈیا پر ضروری و غیر ضروری معلومات کی بھرمار ہوگی تو دیکھنے والے کی صحت پر کیا اثر پڑے گا؟ پوری ایک نسل معلومات کی بہتات (Information Overload) کا شکار ہو رہی ہے جو کسی طور اچھی بات نہیں۔ خدارا! اپنے وقت میں تواز ن پیدا کریں ورنہ نفسیاتی اور دماغی امراض سب کی دہلیز پر کھڑے ہیں اور دہلیز پار کرنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ پوری دنیا میں الیکٹرونک میڈیا اتنا میچور ہو چکا تھا کہ سوشل میڈیا کے آنے سے زیادہ تباہی نہیں مچی مگر ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہوا کہ پرائیویٹ میڈیا کی عمر ابھی بہت کم تھی کہ ڈیجیٹل میڈیا کا بگل بج گیا۔ وہاں بات کرنے کی اتنی آزادی میسر آئی کہ ہم بھول ہی گئے کہ آزادیٔ اظہار کسے کہتے ہیں اور ہتک کسے؟ احتجاج کیا ہوتا ہے اور گالی کیا؟ مباحثہ کیسے کرتے ہیں اور جھگڑا کیسے؟
    پاکستان میں آج تک ڈیجیٹل میڈیا کسی ضابطے اور قانون کے بغیر چل رہا تھا‘ اسی لیے منہ زور مسائل روز بروز بڑھتے گئے۔ حکومت نے اب سوشل میڈیا کے لیے نئے رولز متعارف کروائے ہیں جو میرے نزدیک ایک بڑا اور اہم قدم ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا قصبہ اور بڑے سے بڑا ملک بھی قوانین کا محتاج ہوتا ہے، سوشل میڈیا تو ایک پوری دنیا ہے جہاں ہر ملک اور ہر براعظم کے لوگ موجود ہیں۔ دوست بھی ہیں اور دشمن بھی۔ آپ ستم ملاحظہ کریں! حکومت کے نئے سوشل میڈیا قوانین کو ایک خاص طبقہ شدید تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قوانین آزادیٔ اظہارِ رائے پر حملہ ہیں اور یہ سارا کھیل نواز شریف کی تقریر کو روکنے کے لیے کھیلا جارہا ہے۔ تنقید اپنی جگہ مگر حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس قانون کو کالا قانون نہ بننے دے۔ سیاسی مخالفین کو اس قانون کی بھینٹ چڑھایا گیا تو سوشل میڈیا کے ''نواز شریف‘‘ بھی باغی ہو جائیں گے۔ کیا حکومت کے پاس ان باغیوں کے جتھوں سے لڑنے کے لیے وقت ہے؟


     

اس صفحے کو مشتہر کریں