1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سوال یہ ہے کہ کون ہمیں کب تک مستقل طور پربھیک دے سکتا ہے؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از آزاد, ‏23 اکتوبر 2008۔

  1. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    سوال یہ ہے کہ کون ہمیں کب تک مستقل طور پر بھیک دے سکتا ہے؟

    اسلام آباد(جنگ) (فرخ سلیم) غیروں کے آگے ہاتھ پھیلائے رکھنا اور اپنے اللے تللوں میں کمی کرنے کی بجائے کشکول لے کر دنیا بھر کے آگے دست سوال دراز کئے رکھنا ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ ہم اس تلخ حقیقت کے باوجود اپنی عیاشیوں اور فضول خرچیوں میں کمی کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ ہماری درآمدات ہماری برآمدات سے دس ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ ہماری مالی حالت کتنی پتلی ہے اس کا اندازہ ہماری حکومت کی ان سرگرمیوں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ستمبر میں ہم نے امریکا سے درخواست کی کہ ہمیں کم از کم اتنی امداد دے دی جائے کہ ہم اگلے مزید امداد کی درخواست کرنے تک گزارا کرسکیں اکتوبر میں ہم نے چین کے سامنے یہی درخواست پیش کی اب اگلے ماہ ہم مزید بھیک مانگنے ابوظہبی پہنچ جائینگے۔ اس کے بعد امریکا، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین، جاپان، آسٹریلیا اور یورپی یونین غرض کوئی ایسا ملک نہیں ہوگا جس سے ہم اپنا کشکول بھرنے کی درخواست نہ کریں۔ امریکا اور چین سمیت پوری دنیا ذہنی طورپر اس کیلئے تیار ہے کہ ہم کسی بھی وقت اپنا کاسہٴ گدائی لے کر اس کے در پر حاضر ہو سکتے ہیں اور اس سے مزید قرض اور امداد کے طالب ہو سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون ہمیں کب تک سالانہ 20 ارب ڈالر کی بھیک مستقل طورپر دے سکتا ہے اور کیوں؟ تقریباً37 برس قبل ہم نے دنیا سے درخواست کی کہ ہمارے قرضے معاف کر دیئے جائیں کیونکہ ہمارا ملک آدھا رہ گیا ہے۔ 1974ء میں ہم نے دنیا سے اپیل کی کہ ہمیں مزید قرضے دیئے جائیں کیونکہ تیل کی قیمتیں4 گنا بڑھ گئی ہیں تقریباً10برس قبل ہم نے سعودی عرب سے درخواست کی کہ ہمیں مفت تیل فراہم کیا جائے کیونکہ ہم اپنا ایٹم بم پوشیدہ نہیں رکھ سکے تھے (یہ الگ بات ہے کہ ہم نے ایٹم بم اپنی حفاظت کیلئے بنایا تھا لیکن ہوا کیا؟ جب سے یہ ایٹم بم وجود میں آیا ہے یہ ہماری حفاظت تو کیا کرتا الٹا ہمیں اس کی حفاظت کیلئے تن من دھن ایک کرنا پڑ گیا ہے) 2000 میں ہمارا کشکول ایک بار پھرتیار تھا، اس بار ہم نے پیرس کلب کے سامنے درخواست پیش کی کہ ہمارے قرضے ری شیڈول کئے جائیں، مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری یہ ساری بھاگ دوڑ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ صرف گزشتہ 7برسوں میں صرف بیرون ملک پاکستانیوں نے 31ارب ڈالر کی خطیر رقم پاکستان بھیجی جبکہ 2000ء سے لیکر سال رواں تک پاکستان کیلئے مجموعی امریکی امداد 12 ارب ڈالر کے لگ بھگ بنتی ہے۔ 43ارب ڈالر وصول کرنے کے باوجود ہم ایک بار پھر بھیک کا پیالہ لیکر در در صدائیں لگاتے پھر رہے ہیں۔ ہم یہ کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ ہم قرض کی مے پینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ قرض لیکر خرچ کر دینا اور پھر سے صدائیں لگانا ہماری عادت بن چکا ہے۔ ہم اپنے زور بازو پر انحصار کرنا چھوڑ چکے ہیں اور خیرات پر زندہ رہنے کے عادی ہو گئے ہیں، ہماری یہ عادت اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ بھیک اور خیرات دینے والوں نے بھی اب ہمیں مزید خیرات نہ دینے پر غور شروع کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ مزید قرضوں کے حصول کی بھاگ دوڑ یا خودانحصاری اور اپنے زور بازو کی بحالی کا عزم، یقینا ہمیں یہی کرنا پڑیگا، یہی ہماری اقتصادی، معاشی اور مالیاتی مسائل کا حل ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ پاکستان صرف 140 ارب ڈالر کی معیشت ہے اور ہماری ہمارے 41وفاقی وزیر ہیں، وزرائے مملکت، مشیروں اور وزیر کا درجہ رکھنے والے متعدد لوگوں کی ایک کھیپ کی کھیپ اسکے علاوہ ہے۔ 19 پارلیمانی سیکرٹری ہیں، 5مشیر ہیں، ایمبیسڈر ایٹ لارج ہیں، مختلف مجالس قائمہ کے 46 عدد چیئرمین ہیں اور ان میں سے ہر شخص ہمیں ایک کروڑ روپے سالانہ میں پڑتا ہے۔ اب ذرا دنیا کی سب سے بڑی پاور امریکا پر نظر ڈالتے ہیں جو 140 کھرب ڈالر کی معیشت ہے یعنی ہم سے 100 گنا بڑی معیشت، اتنی بڑی طاقت کی کابینہ محض 16 افراد پر مشتمل ہے جن میں نائب صدر ، زراعت، تجارت، دفاع، تعلیم، توانائی، صحت، قومی سلامتی، ہاؤسنگ، داخلہ، محنت، خارجہ، اہم امور، ٹرانسپورٹ اور خزانہ کے سیکرٹری حضرات اور اٹارنی جنرل شامل ہیں۔ ایک اور مثال سوئٹزرلینڈ کی پوری وفاقی کابینہ محض سات رکنی ایگزیکٹو کونسل پر مشتمل ہے جو 7 وفاقی ایگزیکٹو ڈپارٹمنٹس کو کنٹرول کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں 41 وزیر کیوں ہیں جبکہ سوئٹزرلینڈ میں صرف داخلی امور، دفاع، ماحولیات، خارجہ امور، خزانہ، اقتصادی امور اور انصاف کی وفاقی وزارتیں ہیں جن کے تحت پورا ملک انتہائی خوش اسلوبی سے چلایا جا رہا ہے کیا ہم قرض کی مے پینے سے تائب ہوکر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور اپنی ہیئت حاکمہ کی تنظیم نو کا فیصلہ نہیں کرسکتے؟ کون ہے جو صدر زرداری کو امریکا سے خیرات مانگنے کا مشورہ دے رہا ہے کون انہیں چین جانے اوربھیک مانگنے کا مشورہ دے رہا ہے ابوظہبی جاکر دست سوال پھیلانے کا مشورہ دے رہا ہے امریکا ہو یا چین کوئی بھی ملک ہمیشہ ہماری پھیلی جھولی بھرے رہنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، صرف آئی ایم ایف ہے جو ہمیں مزید قرضہ دے سکتا ہے لیکن اس کیلئے ہمیں سختی سے اپنی ری سٹرکچرنگ کرنی پڑے گی۔ اگرچہ آئی ایم ایف کا ریکارڈ اس حوالے سے کوئی اتنا قابل رشک نہیں ہے لیکن ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں آئی ایم ایف دستیاب ہے ہماری بیماری کا علاج اب ملکوں کے پاس نہیں بلکہ صرف اور صرف آئی ایم ایف کے پاس ہے اور یہ ہماری صوابدید ہے کہ ہم اس کا دامن تھامے رہیں یا اس سے کنارہ کش ہو جائیں۔ ہماری قومی زندگی کا یہ نازک ترین وقت ہے ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ مر جائیں یا جی اٹھیں لیکن اس کیلئے ہمیں قرض، امداد، خیرات اور بھیک پر زندہ رہنے کی عادت بد سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا جس میں ہم فی الوقت سر سے پاؤں تک غرق ہیں۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    آزاد بھائی ۔ بہت خوب مضمون ہے۔ شکریہ ۔

    جس امریکی سرمایہ دارانہ نظام پر ہم انحصار کیے بیٹھے ہیں۔ اس کے پاؤں کے تلے سے زمین کھسکنا شروع ہو چکی ہے۔ سرمایہ داریت کا نظام اپنے زوال کی جانب گامزن ہوچکا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک بھی کچھ عرصے بعد قرضے دینے کے قابل نہ رہ جائے گا ۔ بلکہ وہ تو دیے ہوئے قرضے کئی گنا سود کے ساتھ واپس لینے کی فکر میں‌ہیں۔ اس لیے ہمیں‌بطور قوم فیصلہ کرنا ہو گا کہ مزید زندہ رہنا ہے یا موت کو گلے لگانا ہے ؟
     
  3. دستور
    آف لائن

    دستور ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اکتوبر 2008
    پیغامات:
    57
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    السلام علیکم،
    آپ سچ کہہ رہے ہیں اُدھر اب گول میز کانفرینس ھونے والی ھے یا ھو چکی ھو گئی۔جب بھی ملکوں کے درمیان لین دین ھوتا ھے تو دیا بھی جاتا اور لیا بھی جاتا ھے ھمارا طریقہ کار کیوں کہہ غلط ھے اِس وجہ سے خوار ھو رہے ہیں۔اپ کسی مسلمان ملک کی پالیسی دیکھ لیں وہ امریکہ کے تابے اور امریکہ جو کہہ گا اُس کو حکم کا درجہ دیا جاتا ھے۔
     
  4. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    کیا زیادہ اہم سوال یہ نہیں ھے کہ آخر پاکستان کو بھیک کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ھے
     
  5. دستور
    آف لائن

    دستور ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اکتوبر 2008
    پیغامات:
    57
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    اُس کی وجہ یہ ہیں کہہ کوئی لیڈر نہیں ھے خوشی بہن سب کھلاڑی ہیں۔اِس وجہ سے کاسہ ھاتھ میں پکڑنے عادت ھو گئی ہیں۔بھیک مانگنے ایسے ایسے طریقے ایجاد کر لیے ہیں اللہ کی پناہ۔
     
  6. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    سچ کہا اپ نے ہمارے اپنے لوگ ہی ھیں‌جو اپنے وطن کی رسوائی کا موجب بنتے ھیں
     
  7. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :titli: :titli: :titli: اللہ کرے زور قلم اور زیادہ-----------؟







    ذرا اک نظر ادھر بھی


    viewtopic.php?f=15&t=4902
     
  8. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    کیا مطلب رضا جی اس لڑی میں اس میسج کا :soch: :soch: :soch:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں