1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 1383

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏25 جنوری 2019۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حدثنا احمد بن يوسف السلمي ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا خالد بن مخلد ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا عبد الرحمن بن ابي الموالي ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سمعت محمد بن المنكدر ، ‏‏‏‏‏‏يحدث، ‏‏‏‏‏‏عن جابر بن عبد الله ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة، ‏‏‏‏‏‏كما يعلمنا السورة من القرآن، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ "إذا هم احدكم بالامر، ‏‏‏‏‏‏فليركع ركعتين من غير الفريضة، ‏‏‏‏‏‏ثم ليقل:‏‏‏‏ اللهم إني استخيرك بعلمك واستقدرك بقدرتك، ‏‏‏‏‏‏واسالك من فضلك العظيم، ‏‏‏‏‏‏فإنك تقدر ولا اقدر وتعلم ولا اعلم وانت علام الغيوب، ‏‏‏‏‏‏اللهم إن كنت تعلم هذا الامر فيسميه ما كان من شيء خيرا لي في ديني ومعاشي وعاقبة امري او خيرا لي في عاجل امري وآجله فاقدره لي ويسره لي وبارك لي فيه، ‏‏‏‏‏‏وإن كنت تعلم يقول مثل ما قال في المرة الاولى وإن كان شرا لي فاصرفه عني واصرفني عنه، ‏‏‏‏‏‏واقدر لي الخير حيثما كان، ‏‏‏‏‏‏ثم رضني به".

    جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز استخارہ سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورۃ سکھایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جب کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے، تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے، پھر یہ دعا پڑھے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم هذا الأمر (پھر متعلق کام یا چیز کا نام لے) خيرا لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو خيرا لي في عاجل أمري وآجله- فاقدره لي ويسره لي وبارك لي فيه وإن كنت تعلم (پھر ویسا ہی کہے جیسے پہلی بار کہا)، وإن كان شرا لي فاصرفه عني واصرفني عنه واقدر لي الخير حيثما كان ثم رضني به» ”اے اللہ! میں تیرے علم کی مدد سے خیر مانگتا ہوں، اور تیری قدرت کی مدد سے قوت کا طالب ہوں، اور میں تجھ سے تیرے عظیم فضل کا سوال کرتا ہوں، اس لیے کہ تو قدرت رکھتا ہے میں قدرت نہیں رکھتا، تو جانتا ہے میں نہیں جانتا، تو غیب کی باتوں کا خوب جاننے والا ہے، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (جس کا میں قصد رکھتا ہوں) میرے لیے میرے دین، میری دنیا اور میرے انجام کار میں ۱؎ بہتر ہے، تو اس کو میرے لیے مقدر کر دے، میرے لیے آسان کر دے، اور میرے لیے اس میں برکت دے، اور اگر یہ کام میرے لیے برا ہے (ویسے ہی کہے جیسا کہ پہلی بار کہا تھا) تو اس کو مجھ سے پھیر دے، اور مجھ کو اس سے پھیر دے، اور میرے لیے خیر مقدر کر دے، جہاں بھی ہو، پھر مجھ کو اس پر راضی کر دے“ ۲؎۔

    تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التہجد ۲۵ (۱۱۶۲)، الدعوات ۴۸ (۶۳۸۲)، التوحید ۱۰ (۷۳۹۰)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۶۶ (۱۵۳۸)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۳۲ (۴۸۰)، سنن النسائی/النکاح ۲۷ (۳۲۵۵)، (تحفة الأشراف: ۳۰۵۵)، ومسند احمد (۳/۸ ۴/۳۴۴) (صحیح)

    وضاحت: ۱؎: یعنی اس دارفانی اور اخروی زندگی میں۔ ۲؎: استخارہ کے لغوی معنی خیر طلب کرنے کے ہیں، چونکہ اس دعا کے ذریعہ انسان اللہ سے خیر طلب کرتا ہے، اس لیے اسے دعائے استخارہ کہتے ہیں، اس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد دعا پڑھی جائے، استخارہ کا تعلق مناجات سے ہے، اور استخارہ خود کرنا چاہئے کسی اور سے کروانے ثابت نہیں ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں