1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سندھ حکومت اور اسمبلی کراچی میں امن کی ذمہ داری مجھے سونپیں تو ادا کرنے کو تیار ہوں : نثار

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏23 جون 2013۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    سندھ حکومت اور اسمبلی کراچی میں امن کی ذمہ داری مجھے سونپیں تو ادا کرنے کو تیار ہوں : نثار
    اسلام آباد (خبر نگار خصوصی + ایجنسیاں) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ کراچی میں ماورائے عدالت قتل اور لاپتہ افراد کے بارے میں وزارت داخلہ کمیٹی کی رپورٹ سے مطمئن نہیں ہوں۔ ارکان اسمبلی کی مشاورت سے دوبارہ تحقیقات کرا کر رپور ٹ ایوان میں پیش کی جائیگی‘ اسلام آباد کا نہیں وفاق کا وزیر ہوں لیکن صوبائی معاملات میں ٹانگ اڑانے کی بجائے آئین و قانون کے مطابق کام کرنا چاہتا ہوں، کراچی کی دہشت گردی میں ایک نہیںکئی گروپ ملوث ہیں، سب کیخلاف بلاتفریق کارروائی کی جائے، رینجرز کے فوجی افسروں کے بارے میں آرمی چیف سے اپیلیں کرنے کی بجائے مجھ سے جواب طلبی کی جائے۔ وہ ایم کیو ایم کے ارکان صلاح الدین سفیان یوسف‘ سید وسیم اور نبیل گبول کے کراچی بارے توجہ دلاﺅ نوٹس کا جواب دے رہے تھے۔ چودھری نثار نے کہا کہ کراچی کے عوام کے دکھ کا احساس ہے کراچی کے ارکان کے دکھ کا بھی احساس ہے ان کا شہر جل رہا ہے امن و امان کا مسئلہ ہے اگرچہ لاءاینڈ آرڈر صوبائی مسئلہ ہے وفاقی حکومت خفیہ معلومات فراہم کرنے اور صوبائی حکومت کی مدد کی درخواست پر سرگرم ہو سکتی ہے۔ کراچی میں رینجرز کام کر رہے ہیں لیکن صوبائی حکومتیں روزانہ کی بنیاد پر انتظامی امور چلا رہی ہیں۔ وفاق پر 3 مہینے بعد رینجرز کی ضرورت نہیں تو صوبائی حکومت سے رینجرز ہٹانے کی بات کرتے ہیں۔ سابق وزیر داخلہ ایک پٹاخہ پھٹنے پر ہیلی کاپٹر لے کر کراچی چلے جاتے تھے ان کی سرگرمی پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ ہم ہر مسئلے میں ٹانگ نہیں اڑائیں گے آئین اور قانون کے مطابق کام کریں گے۔ لاپتہ افراد اور زیر حراست ہلاکتوں پر کمیٹی بنائی گئی تھی میں اس کی رپورٹ سے مطمئن نہیں ہوں کمیٹی کے مطابق 3 سال میں صرف تین ماورائے عدالت قتل ہوئے میں اس جواب سے مطمئن نہیں اس لئے ایم کیو ایم کے ارکان کو کس طرح مطمئن کر سکتا ہوں لاپتہ افراد بارے بتایاگیا کہ 261 افراد لاپتہ ہیں جن میں سے 99 ابھی تک لاپتہ ہیں، میں خود ایم کیو ایم کے ارکان کی مشاورت سے اس بارے تحقیقات کر کے رپورٹ اور اصل فیگرز ایوان میں پیش کروں گا۔ ارکان کے سوالوں کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ مسائل کے حل کیلئے ارکان کو قواعد کے مطابق بات کرنی چاہئے، میں اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ میں اپنی وزارت کی رپورٹ سے مطمئن نہیں ہوں میں نے کہہ دیا ہے کہ رینجرز کے ہاتھوں کوئی واقعہ ہو گا تو تحقیقات کراﺅں گا۔ گذشتہ 5 سال کے دوران کسی واقعہ کی انکوائری نہیں ہوئی۔ کوئٹہ کے واقعہ بارے جے ٹی آئی بنائی گئی اس کی رپورٹ ایوان میں پیش کرونگا۔ آئین اور قانون کے مطابق نوٹس لوں گا۔ ایم کیو ایم کے سندھ میں گورنر ہیں ۔ انہوں نے کیا نوٹس لیا میں یقین دلاتا ہوں کہ کراچی کے واقعات کی تحقیقا ت کراﺅں گا اور احتساب ہو گا اگر صوبائی حکومت اور اسمبلی کراچی میں امن و امان کی ذمہ داری مجھے سونپیں تو ادا کرنے کیلئے تیار ہوں۔ 8 لاپتہ افراد بارے نام دیں میں پتہ کرا کر انہیں بتا دونگا۔ اجمل بیگ کے واقعہ کی بھی انکوائری بھی کرائی جائے گی اور ایوان میں پیش کی جائے گی۔ سکیورٹی اداروں کو بتا دیا کہ کسی کو قانون کے سامنے پیش کرنے سے پہلے اٹھایا نہیں جا سکتا یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے۔ ایم کیو ایم کو بھی اس میں میری مدد کرنا ہو گی۔ ایم کیو ایم کو بھی کراچی میں سیاست سے بالاتر ہو کر خون خرابے کے خلاف کردار ادا کرنا ہو گا۔ کراچی میں ایک نہیں بہت سارے گروہ کام کر رہے ہیں ایک گروہ کے خلاف نہیں تمام گروہوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ آئین رینجرز سمیت صدر اور وزیر اعظم سمیت کسی کو آئین سے بالا کسی کو اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا یہ اقدام غیر آئینی او رغیر انسانی ہیں اس پر ایکشن لیا جائے گا۔ اس ایوان سے آرمی چیف سے اپیلیں کرنے سے پارلیمنٹ کی عزت میںکمی آئے گی۔ رینجرز کے ذمہ دار فوجی افسر میری وزارت کے ماتحت ہیں ان کے حوالے سے مجھ سے بات کی جائے۔ سکیورٹی اداروں کے لوگ اپنی جانوں کی قربانی پیش کر رہے ہیں جن پر ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ آئندہ تمام معاملات آئین و قانون کے مطابق چلائیں گے اور سکیورٹی اداروں پر اٹھائے گئے تحفظات دور کریں گے۔ آرمی چیف نے ایک اجلاس میں کہا کہ آرمی سول حکومت کی پالیسی پر عمل کرے گی۔ کراچی میں ایم پی اے کے قتل پر آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کر لی ہے جو ایوان میں پیش کی جائے گی۔ اپوزیشن لیڈر کے نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے چودھری نثار علی خان نے کہا کہ سندھ حکومت کو اےک ماہ کے اندر امن وامان کی صورت حال ٹھےک کرنے کا الٹی مےٹم نہےں دےا، بجٹ اجلاس کے بعد کراچی اور خیبر پی کے کا دورہ کرونگا، صوبائی حکومتوں سے مل کر لائحہ عمل طے کرےں گے، وفاق صوبائی حکومتوں سے مکمل تعاون کرے گا۔ قبل ازیں نکتہ اعتراض پر سید خورشید شاہ نے کہا کہ کراچی‘ کوئٹہ اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی خطرناک ہے۔ قائد حزب اختلاف سے سندھ حکومت کو ایک ماہ کا وقت دینے کے حوالے سے ایک بیان منسوب کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ اس کی وضاحت کریں۔ وزیر داخلہ کو اس طرح کا بیان نہیں دینا چاہئے ہو سکتا ہے کہ وزیر داخلہ کے الفاظ کو توڑ موڑ کر اخبارات میں شائع کئے گئے ہوں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ قائد حزب اختلاف سلیقے کے آدمی ہیں اس لئے انہوں نے میری غیر موجودگی مین بات نہیں کی۔ کراچی اور سندھ کے حوالے سے میری پریس کانفرنس تمام چینلز پر لائیو آئی صرف ایک چینل اور اس کے اخبارات نے یہ بات مجھ سے منسوب کی۔ میں قانون سے واقف ہوں اس طرح کی بات نہیں کر سکتا۔ وزیر داخلہ کے پاس اس طرح کا کوئی اخلاقی اور قانونی اختیار نہیںکہ صوبائی حکومتوں کو دھمکیاں دے۔ عوام نے ہم ارکان کو ووٹ دئیے ہیں ہمیں چاہئے کہ اب عوام کے زخموں پر مرہم رکھیں میں بجٹ کے بعد کراچی اورخیبر پی کے جاﺅں گا کسی صوبے کو دھمکی یا ٹائم فریم نہیں دیا جائے گا۔ اجلاس میں ایم کیو ایم کے ارکان قومی اسمبلی سیاہ پٹیاں باندھ کر شریک ہوئے۔ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ ملک مےں پائےدار امن کی خاطر ڈائےلاگ کا راستہ اختےار کےا جا رہا ہے۔ امرےکہ طالبان قےادت سے مذاکرات کر سکتا ہے تو پاکستان بھی داخلی امن کے لئے طالبان جےسی قےادتوں سے مذاکرات کا راستہ اختےار کر سکتا ہے۔ کارکنوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے چودھری نثار کہا کہ موجودہ حکومت ملک کی اقتصادی صورتحال بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ لوڈ شےڈنگ سے نجات اور توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے جنگی بنےادوں پر کام کر رہی ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں مےں موجود تھانوں کے اندر اصلاحات کی جائیں گی اور کسی صورت تھانوں کو عقوبت خانوں کا روپ نہےں دھارنے دےا جائے گا۔پی پی پی کے غلام مصطفی شاہ کے نکتہ اعتراض پر چودھری نثار نے بتایا کہ منظورشدہ درخواستوں کے مطابق اسلحہ لائسنس کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ زیر عمل درخواستوں پر جاری کاروائی میں کوئی رکاو¿ٹ نہیں ڈالی جائیگی۔ ایسی درخواستیں جن پر فیس جمع ہوچکی ہیں یا ان پر کاروائی زیر عمل ہے ان پر عملدرامد کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائیگی۔ ذاتی فائدہ یا نقصان کے لئے نہیں بلکہ اسلحہ ہولڈرز کے کوائف کی چھان بین کیلئے اسلحہ لائسنس کے اجراءپر پابندی عائد کی ہے، لاکھوں اسلحہ لائسنس جاری ہوئے تھے۔ اسلحہ لائسنس ہولڈرز کے کوائف کی تصدیق نادرا سے کرائی جائیگی۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں