1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سموگ :بیماریاں اور علاج ،تحریر : ڈاکٹر آصف محمود جاہ

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏18 نومبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سموگ :بیماریاں اور علاج ،تحریر : ڈاکٹر آصف محمود جاہ
    آج کل پرائیوٹ پریکٹس میں ہر دوسرا مریض ، سر درد، ناک سے پانی بہنا اور خارش، سانس میں رکاوٹ، ذرا سے چلنے سے سانس کا پھول جانا جس میں دردیں، جسم پہ خارش اور دانے کی علامات کے ساتھ آرہے ہیں۔ اکثر مریض کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب پچھلے ہفتے سے اینٹی بائیوٹک ادویات بھی لی ہیںالرجی دور کرنے والی بھی استعمال کی ہیں۔ مگر کوئی دوا کارگر ثابت نہ ہوئی۔یہ سب شاخسانہ ہیں آج کل زیادہ تر لاہور میں چھائی ہوئی ہے اسموگ کے جو دھند کی ایک شکل جدید ہے۔ جونہی خشک سردی آئی ہے۔ اسموگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لاہور کی فضائوں میں سانس لینا دو بھر ہوتا جا رہاہے۔اسموگ کیا ہے،کیوں اورکیسے ہوتی ہے؟اس کے صحت پر کیا اثرات ہوتے ہیں اور ان سے کیسے بچاجا سکتاہے؟۔

    اس مضمون میں عوام الناس کی رہنمائی کے لیے ان سارے سوالوں کا جواب دیا جا رہاہے۔لاہور میں آلودگی کی وجہ سے جونہی ٹمپریچر میں کمی ہوتی ہے تو گرم ہوا اوپر جانے کی بجائے فضا میں معلق ہو جاتی ہے۔ اور اس میں دھواں ، بھوسے اور کوڑا کرکٹ جلنے سے پیدا ہونے والے ذرات، گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں سے پیدا ہونے والی گیسیں اور ذرات فضا میںمعلق ہو جاتے ہیں جس سے فضا نیچے سے اوپر تک آلودہ نظر آتی ہے۔ صبح سویرے تو حد نگاہ تک فضا آلودہ اور ذرات سے معلق نظر آتی ہے۔ ہوا میں مضر صحت گیس نائٹریٹ، کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور بیماریاں پھیلانے والے جراثیم ہوتے ہیں۔ اکتوبر کے آخر میں اور نومبر کے شروع میں اسموگ شروع ہو جاتی ہے تو یہ فضا آلودہ ہونے کے ساتھ صحت کے لیے نہایت خطرناک بھی ہو جاتی ہے۔ اس آلودہ فضا میں سانس لینا دو بھر ہو جاتا ہے۔ پچھلے دو تین سال سے اسموگ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے اسموگ کا کبھی نام نہ سنا ہے۔ 2016 میں اسموگ سے پاکستان اور ہندوستان کے بڑے شہر متاثر ہوئے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق راولپنڈی ،کراچی اور پشاور دنیا کے 30 آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔ پچھلے سال سموگ کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک میں کمی ہوئی بلکہ کئی پروازیں بھی منسوخ ہوئیں۔ اس سال ہندوستان کے کئی شہروں میں بھی اسموگ شروع ہو گئی ہیں۔ دلی میں انتظامیہ نے اس کا ایک حل یہ نکالا ہے کہ گاڑیوں کے چلنے کے لیے اوقات مختص کر دیے ہیں۔یعنی گاڑیوں کے نمبروں کے ساتھ سڑکوں پر آنے کے اوقات مقرر کر دیئے ہیں۔

    اسموگ سے پیدا شدہ بیماریوںکی علامات :

    مضر صحت ذرات اور گیسوں کی وجہ سے سانس لینا دو بھر ہو جاتاہے۔ جن لوگوں کو پہلے سے دمہ کی تکلیف ہوتی ہے۔ ان کی بیماری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔سینے کے انفیکشن کا بھی خطرہ ہو جاتا ہے۔ آلودہ فضا میں سانس لینے سے طبیعت مضمحل رہتی ہے۔ کسی کا دل نہیں لگتا۔ ہر وقت سر میں درد ہوتا ہے۔ آنکھوں میںسخت جلن ہوتی ہے۔ آنکھوں اور ناک سے پانی جاری رہتا ہے۔ جسم پر سرخ دانے نمودار ہوجاتے ہیں۔ جب مریض ان تکالیف کا ذکر کرتے ہیں تو ڈاکٹر مختلف قسم کی دوائیاں بشمول اینٹی بائیوٹک تجویز کرتے ہیں لیکن یہ دوائیں کچھ کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اسموگ کے ساتھ ساتھ جونہی سردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں بڑوں اور بوڑھوں میں چیسٹ انفیکشن اور نمونیہ جیسے خطر ناک امراض کا سامنا ہو سکتا ہے۔اسموگ والی آلودہ فضا میں سانس لینے سے مضر اثرات ذرات اور سانس کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کے جراثیم جسم کے اندر جا کر بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ آلودہ فضا اور فضا میں سانس لینا کئی سگریٹیں پھونکنے کے برابر ہے کیونکہ دونوں کے مضر اثرات تقریباََ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ آبادی میں بے پناہ اضافے، جگہہ جگہہ فیکٹریوں کی بھر مار اور ان سے نکلنے والے دھوئیں کی وجہ سے سموگ میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لاہور شہروں میں درختوں کی کٹائی اور مضافات میں جنگلوں کے خاتمے کی وجہ سے بھی اسموگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حاملہ عورتوں کو اسموگ کے دنوں میں گھر سے باہر نکلنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بچے کی وقت سے پہلے پیدائش کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والے کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اسموگ اور سردی میں مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس کے خطرات اور بد اثرات سے بچاجا سکتاہے۔

    اسموگ میں احتیاطیں اور ابتدائی علاج :

    ٭اسموگ کے دوران اگر دیکھنے کی صلاحیت خطرناک حد تک کم ہو تو اس دوران ڈرائیونگ سے پرہیز کیا جائے۔

    ٭گاڑیوں میں اسپیشل اسموگ لائیٹس کا لگانا ضروری ہے۔

    ٭اسموگ کے دنوں میں منہ اور ناک پرماسک کا استعمال آلودگی سے بچاتا ہے۔ آنکھوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کالے شیشے کی عینک استعمال کریں۔

    ٭صبح سویرے گرم پانی میں ایک چمچ شہد ڈال کر چائے کی طرح چسکیاں لے کر پیئں۔

    ٭جب بھی باہر سے آئیں تو آنکھوں اور چہروں کو ٹھنڈے پانی سے دھوئیں۔

    ٭اسمو گ کے دنوں میں مچھلی کے تیل کے کیپسول ضرور لے لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صبح سویرے زیتون کے تیل کا ایک چمچ لے لیں تو اس سے آپ کا نظام تنفس آلودگی سے بچا رہے گا۔ اسموگ کی وجہ سے ہونے والی علامات میں مختلف قسم کی اینٹی بئیوٹک اور دوائوں کے بے جا استعمال کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ادویات کے بے جا اور مخیر ضروری استعمال سے بچیں۔

    ٭صبح شام لیمن گراس قہوہ استعمال کریں۔

    ٭سردیوں میں اسموگ کے اثرات کم کرنے کے لیے ڈرائی فروٹ استعمال کریں۔ گرما گرم چائے کے ساتھ میوے والا گڑ یا گرما گرم سوجی کا حلوہ بھی صحت کے لیے مفید ہے۔ جیسا کہ آج کل اسلام آباد میں آزادی مارچ کے شرکاء صبح سویرے سردے بھگانے کے لیے گرما گرم چائے کی چسکیوں کے ساتھ میوہ والا گڑ اور ساتھ ساتھ سوجی کا گرما گرم حلوہ کھاتے نظر آتے ہیں۔

    ٭اسموگ کے دوران اور سردیوں میں خاص طور پر چھوٹے بچوں کو اچھی طرح کور کر کے رکھیں کیونکہ سردی کے اثرات بچوں پہ زیادہ ہوتے ہیں۔

    حکومت کیا کرے؟ :

    ٭حکومت کے لیے ضروری کہ حکومت پر 2017 میں ایک اسموگ کمیشن بنایا گیا جاتا ہے جس نے اینٹوں کے بھٹوں، فیکٹریوں اور گاڑیوں کے لیے 17 سفارشات پیش کی تھیں۔ ان تمام سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تا کہ اسموگ کے خطرات سے مناسب حد تک بچا جا سکے۔ نومبر اور دسمبر کے مہینے میں فیکٹریوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ان سفارشات پر عمل کریں۔ اینٹوں کے بھٹوں کو بھی دو ماہ کے لیے بند رکھا جانا چاہیے۔

    ٭اسموگ کے خطرے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ زیادہ درخت لگانے سے فضا میں الودگی کم ہو گی اور اسموگ میں بھی کمی ہوگی۔

    ٭عوام الناس کی رہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرونکس میڈیا کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اسموگ کے خطرات سے بچائو کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے اور جابجا کوڑااور فصلوں کا بھوسہ چلانے پر پابندی لگائی جائے۔ اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں