1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سلورمیڈل

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از عمر خیام, ‏22 ستمبر 2010۔

  1. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    اس دن ام شام کو ذرا چہل قدمی کے واستے ندی کنارے ایک طرف جانکلا۔ کسی زمانے می وہاں پر ایک پل ہوتا تھا، جو دو وادیوں کو ملایا کرتا تھا،ادر اُدر کے دیہات کی لوگ کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ جس کی وجہ سے بوت رونق کا سماں رہتا تھا۔ اب ام نے دیکھا کہ ادر بوت سی دکانیں بن گئ ہیں۔ ام نے تجسس کی خاطر ان دکانوں کو دیکھنا شروع کردیا کہ یہ کس چیز کا دکان ہیں۔ حجام، سبزی فروش، سنوکر کلب، کپڑا، پبلک سکول جیسا بورڈ لگا نظر آرہے تھا۔۔ ام قریب ہو کر اور بھی اندر جھانکنے کا کوشش کا ارادہ کرنے ہی والا تھا کہ یکدم سے ایک گونجدار آواز نے ام کا تراہ کڈ دیا۔" کون اے " ادر کیا کررہا"؟
    ام نے مڑ کے دیکھا تو ایک لمبا تڑنگا بابا کھیس کا بکل مارے ، ایک ھاتھ می لمبی سی ٹارچ اور دوسرے می اس سے دگنی لمبی ڈانگ پکڑے بمعہ چار عدد کتوں کے کھڑا تھا اور پانچوں ام کو ایک ہی انداز می گھور رہے تھے، ام ان کے ڈسپلن،اور اتفاق راۓ سے بے پناہ متاثر ہوا۔
    ام بولا کہ ام عمر اے۔ پوچھا کہ کون عمر؟ کس کا پُتر؟ ام نے اباجی مرحوم کا نام لیا۔ وہ بولا کہ تم تو اپنا ہی لوگ ہو۔ پھر اس نے بکل سے اپنا چہرہ برامد کر کے اپنا چہرہ کرایا۔ یہ ام کے ایک دور پار کے چچا کا سسرالی رشتہ دار تھا۔ سارا زندگی اس نے پنجاب کے انڈیا کی ساتھ بارڈر پر رینجر بن کے سروس کیا تھا، اب ریٹائر ہوکر ادر رات کی چوکیداری کررہا تھا۔
    اس نے ہر کتے کا نام رکھاہوا تھا، جس کتے کا نام پکارتا، صرف وہی کتا اپنا دم ہلاتا۔ پھر اس نے ایک کتے کو ڈانٹنا شروع کردیا کہ ابھی ادر آنے سے پہلے وہ دیر سے کیوں آیا۔ وجہ بتاؤ۔ آئندہ خبردار کو حکم عدولی کی تو۔۔۔۔ وہ ان سے ایسے باتیں کررہا تھا جیسے وہ سچ می ا سکی بات سمجھتے ہیں۔
    وہ ام کو بتانے لگا کہ وہ دن کو گھر جاتا اے۔ جلانے کی واستی گھر والوں کو لکڑی کاٹ دے آتا اے۔ پوتے پوتیوں سے دعاۓ قنوت سنتا اے، ان کو نہ آۓ تو ان کی ماؤوں کو سست کہتا اے کہ ان کی تربیت ٹھیک نہی کررہی ہو۔۔ کوئی اتفاق سے ٹھیک ٹھیک سنا دے تو ان کو ریوڑیاں دیتا اے۔ ریوڑیوں کی پوٹلی ہر وقت اس کی پاس رہتی۔ کہتا کہ یہ عام اور معمولی قسم کی ریوڑیاں نہی بلکہ خالص دیسی گھی سے تیارشدہ گارنٹی والی گلاب مارکہ ریوڑیاں ہیں جو لالہ موسی سے سپیشل اس کی واستی گاؤں کا دکاندار لاتا اے۔
    بابا جی کے بوت سے قصے ام نے سن رکھے تھے، جوانی می ماہیے اور ٹپے گایا کرتا تھا ، اب بڑھاپے می آکر چھوڑ دیا، چوکیداری کرتے ہوۓ کچھ یاد آجاتا تو بانسری کی لے سے دل بہلا لیتا۔
    سات بیٹوں کا باپ تھا، اس کے بیٹے ام کی عمروں کے بروبر تھے۔ کچھ بڑے اور کچھ چھوٹے۔ سب کی سب بوت خوش شکل، چست، ایتھلیٹ، ہرفن مولا قسم کے تھے۔ ۔ پڑھائی می تو بس پورے سے تھے۔ کرکٹ ، والی بال، کبڈی ہر می نمایاں۔۔۔۔ اور اللہ کی قدرت کہ سب کے گلے اتنے صاف کہ ایک بار میلے می اس کے ایک بیٹے نے گانا گایا تو لوگ سمجھے کہ عطاءاللہ خان نیازی عیسی خیلوی بنفس نفیس آگیا ہے۔ ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گۓ۔ آدھے بچے فوج می اور باقی آدھے پولیس می۔۔۔۔ فوج والے جگہ جگہ گۓ، کونے کونے می پھرے۔ اور ہر جگہ کے لوک گیت گا لیتے۔ پشتو اور سندھی بھی۔ جدر بھی بیٹھتے سماں باندھ دیتے۔۔ ادر ڈھولکی کس کے پاس ہوتی، پرات یا ترامی پر ہی تھاپ لگاتے۔
    سات بھائیوں کی ایک ہی بہن تھی۔ ایک دن ان کے بہن کے گھر والے کی شامت آئی اس نے کسی بات پہ اپنی بیوی کو زدوکوب کیا۔ بہن روتی روتی میکے آگئ۔ سات می سے پانچ بھائی گھر ہی تھے ، انہوں نے جا کر جیجا جی کو پکڑ لیا اور پڑوسی جاٹ زمینداروں کی کھرلی کے ساتھ ایک کھونٹے سے باندھ دیا۔ سب سے چھوٹے کو بابا جی کو بلانے بھیج کر خود منصوبے بنانے لگ گۓ کہ پہلے کیا کاٹیں؟ ایک کہتا کہ اس کے ھاتھ توڑ دیتے ہیں جس سے اس نے بہن کو مارا ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ اس کے کان کاٹ دو۔ تیسرا اور چوتھا بھائی بھی اسی طرح کے چنگیزی مشورے دے رہے تھے۫۔۔ جیجا جی مج کے کھونٹے سے بندھے سب کچھ سن کر دھائی دے رہے تھے۔ اور دعا کررہے تھے کہ کب باباجی یعنی اس کے سسر جی تشریف لائیں ، وہ کچھ بزرگ ہیں، عقل مندی کی بات کریں گے، ان مورکھوں سے جان تو چھوٹے گی۔ ان بھائیوں کا کیا وساہ کہ واقعی سچی مچی سے ھاتھ ہی نہ توڑ دیں۔ اور بلکہ یہ نہ ہو کہ ہر بھائی اپنی اپنی خواہش کے پورا کرنے کے درپے ہوجاۓ۔۔۔ بابا جی تشریف لاۓ۔ ان کو مکمل بریفنگ راستے می دی جاچکی تھی۔۔۔ جیجا جی کی سانس می سانس آیا۔ ۔۔۔۔ باباجی نے آتے ہی اپنے بیٹوں کو کوسنا شروع کردیا کہ بے غیرتو! یہ کیا کردیا۔ !! کیا اس دن کیلیۓ تم کو پالا۔ تم سے ایسی امید نہ تھی۔۔۔۔ اس کو اب تک زندہ کیوں رکھا ہوا ہے۔؟؟۔
    ایک بیٹا دس سال تک آرمی کا طرف سے گولہ پھینکنے کا چیمپئن رہا۔ نیشنل گیمز میں ہمیشہ دوسرے نمبر پر آیا۔ پہلے نمبر واپڈا کا کھلاڑی آتا رہا۔ نہ وہ ریٹائر ہوا اور نہ یہ اس کو ہرا سکا۔ پاکستان کا طرف سے سیف گیمز اور ایشین گیمز می بھی حصہ لیتا رہا۔ سب سے بڑا بیٹا اپنے ویٹ میں باکسنگ کا چیمپئن رہا۔
    تیسرا نمبر والا بیٹا جو ام کا ہم عمر بنتا تھا۔ نیزہ پھینکا کرتا تھا۔ جب وہ ام کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتا تھا تو تب بھی اس کا تھرو باؤنڈری سے سیدھا تیر کی مافک بندھا ہوا وکٹ کیپر تک آتا تھا۔ ام کی علاقے کی ندی کا پاٹ ایک جگہ سے بوت چوڑا تھا، جب ام بکری چرانے جایا کرتا تھا، تو ام لوگ پتھر ندی پار کرنے کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔اس وقت بھی صاف رنگ کا گورا چٹا، دبلا پتلا اور لمبے لمبے بازو والا صفدر بٹ کا پتھر سب سے دور پڑا کرتا تھا۔
    صفدر بٹ بڑے دو بھائی کا پیچھے پیچھے فوج می بھرتی ہوگیا۔ ادر بڑے بھائیوں کی مافک اپنا یونٹ می کھلاڑی کا حیثیت سے نام کمانے لگ گیا۔ ام کو ایک بار چھٹی پر آیا تو ایک کبڈی کے میچ می ملا۔۔ وہ کبڈی کھیلا۔ وہ اب زیادہ پھرتیلا ہوگیا تھا، اس کا بدن زیادہ کسا ہوا تھا۔ ام مذاق اڑاتے کہ فوج کے پِٹھو اور دال کا کمال اے۔ ہنس کر کہتا کہ نہی یارا۔ ام ادر کھلاڑی کا راشن کھاتا۔ سارا دن می دو گھنٹا صبح اور دو گھنٹا سہ پہر کو پریکٹس کرو۔ کوئی پی ٹی ، پریڈ نہی۔۔۔ وردی بھی نہی پہننا پڑتا۔۔ ٹریک سوٹ ہی می رہو۔۔۔ ام کو اس نے بتایا کہ اس نے آرمی کا گیمز می نیزہ پھینکنے می پہلا نمبر لیا اے۔ اور اس نے یہی نیزہ ایشیائی گیمز می پھینکا ہوتا تو وہ سلور میڈل لیتا۔ اگلا بار وہ ایشیائ کھیل می جاۓ گا۔۔ کامن ویلتھ گیمز می جاۓ گا۔ سارک گیمز اور نیشنل گیمز۔ اور پتہ نہی کیا کیا گیمز۔۔۔۔۔ خواب دیکھنے پر کونسا پابندی ہوتا۔ جس کا جتنا دل چاۓ، دیکھے۔۔
    ام کو اپنا گھر آنے کا دعوت دیا، اس کا گاؤں ام سے تین میل دور پہاڑیوں کے اندر تھا۔ اتنا پیدل چلنا پڑتا تھا۔ راہ بھی عجیب و غریب تھا۔ اس نے ام کو اپنی ہونے والی منگیتر کا بھی بتایا۔۔ ام نے وعدہ تو کرلیا کہ وقت ملا تو اس کا گھر کا چکر لگاۓ گا۔ لیکن ام کو اسی وقت پتہ چل گیا کہ ام کا یہ وعدہ کچا کچا ہی ہے۔
    پھر ام بیرون ملک چلا گیا، تین سال بعد واپسی ہوا۔۔۔ پنڈی ائرپورٹ سے باہر نکلتے ہی ام کو مھسوس ہوگیا کہ سب نارمل نہی اے۔ ہر جگہ فوج۔۔ جی ٹی روڈ پر بھی فوج۔ ام کا رابطہ پاکستان کے لوگ سے بالکل بھی نہی رہا تھا، اخبار ام نے کبھی بھی نہی پڑھا۔ انٹر نیٹ ام کی پاس تھا ہی نہی۔ اور ٹی وی ام دیکھا کرتا تھا لیکں خبروں کی وقت ام چینل بدل دیا کرتا تھا۔ بھائی نے بتایا کہ ادر تو کارگل کا وجہ سے بوت ٹینشن اے۔
    دوپہر کو ام گھر پہنچا، شام کو خبر آپہنچی کہ صوبیدار غلام محمد بٹ کا بیٹا لانس نائیک صفدر بٹ شہید ہوگیا۔
    کارگل کا ٹینش کی وجہ سے دونوں فوج کنٹرول لائن پر آمنے سامنے آگیا تھا، صفدر بٹ کا یونٹ چھمب می تھا، اس سیکٹر پر دشمن کا ہمیشہ بوت زور ہوتا کیونکہ یہاں سے ایک ہلے می گجرات، کھاریاں، ہیڈ مرالہ، وزیرآباد اور سیالکوٹ کو نرغے می لیا جاسکتا۔ زیادہ گڑ بڑ تو نہی تھا لیکن چھیڑ چھاڑ چلتی رہتی تھا۔ دشمن کا مورچے اونچی جگہ تھے۔ یہ لوگ ادر نیچے تھے۔ ایک مورچے سے مسلسل مشین گن کا فائر ہوتا۔ کچھ آدمی بھی زخمی ہوچکا تھا، خطرہ یہ تھا کہ کسی دن بارہ بجے دوپہر کو کسی سکھ کا مشین گن پر ڈیوٹی لگ گیا تو مشکل پڑنے کا چانس۔ اس واستی فیصلہ یہ کیا گیا کہ اس مورچے کو خاموش کیا جاۓ۔ لانس نائیک صفدر بٹ کو چار آدمی کی ساتھ بھیجا گیا کہ جائزہ لے اور موقعہ ملے تو اس مورچے کو اڑا دے۔ روز ایک بندہ ذخمی ہونے سے بہتر کہ اس کا خلاصی کی جاۓ۔۔ بٹ ادر گیا۔ بلکہ بوت قریب چلا گیا۔ وہ جیولین یعنی نیزہ پھینکنے کا چیمپئن تھا، اس نے ھینڈ گرنیڈ تھاما، نظروں می مورچے کو تولا، نیزے پھینکنے کا سٹائل می سٹارٹ لیکر نعرہ تکبیر کے ساتھ دوڑ کر گرنیڈ پھینک دیا۔ وہ نیزہ کا چیمپئن تھا، نشانے بازی کا نہ تھا، گرنیڈ ٹارگٹ سے کچھ ھٹ کر گرا اور پھٹ گیا۔ اب دشمن بھی چوکنا اور مشن بھی پوری طرح سے پورا نہی ہوا تھا۔۔ بٹ نے دوبارہ سے گرنیڈ پھینکنے کا ارادہ کیا۔ ساتھیوں نے منع کیا اب وہ لوگ ہوشیار اے۔ پتہ بھی کھڑکا تو مشین گن کا فائر کھول دے گا۔ بٹ نے کہا کہ نیزے اور گرنیڈ کی وزن می فرق تھا اس واستی وہ ذرا ہٹ کے گرا۔ اب مجھے اندازہ اے کہ کدر پھینکنا اور کتنا زور سے پھینکنا۔ اب آپ لوگ خود اندازہ لگاؤ کہ اولمپک می نیزہ کیسے پھینکتے ؟۔ دس بیس گز دوڑ کر اپنا بدن کا سارا طاقت لگا کر پھینکتے۔ ایسا ہی سٹائل می بٹ دوڑا۔ مورچہ سو گز ہی تو دور تھا، سنتری نے دیکھ لیا، اس نے مشین گن ادر کو کیا
    ۔ بٹ کی ھاتھ سے گرنیڈ اور مشین گن کی منہ سے گولی کا برسٹ ایک ساتھ نکلا۔۔۔۔۔۔
    مورچے می گرنیڈ اور ادر اس طرف بٹ ایک ساتھ گرا۔۔۔
    ادر مورچہ اڑ گیا
    اور ادر
    ایشین گیمز می اپنا سینے پر چاندی کا میڈل سجانے کا خواب دیکھنے والے بٹ کے سینے پر سرخ سرخ رنگ کا کئی میڈل سج گیا۔
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: سلورمیڈل

    میری سمجھ میں نہیں‌آ رہا کہ اس تحریر پہ آپ کا شکریہ ادا کروں یا جان بوجھ کے غلط اردو لکھنے پہ آپ کی باز پرس
     
  3. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سلورمیڈل

    سر تسلیم خم ہے جو مزاجِ " خوشی" میں آئے۔
    بات طرز تحریر کی ہے۔ لفظ کو پر اثر رکھنے کی ہے۔ انداز بیاں کی ہے۔
    اتنا جلدی پڑھ بھی لیا۔۔۔ حیرت ہے!!!
    ام نے اوپر والا مصرعے می جان بوجھ کے تبدیلی کیا۔ اس پر باز پرس نہی کرنی۔ ام اصلی لفظ لکھتا تو بازپرسی کا زیادہ خطرہ تھا۔ ھاھا
    کیسی ہیں آپ؟ اس دن ام کو معیاری شاعری کی ضرورت پڑ گیا۔ ام دوڑا دوڑا ادر ہماری اردو پر آیا۔ آپ کی شاعری کا انتخاب دیکھا اور اپنی مطلب کی شاعری کو اٹھایا اور بھاگ گیا۔۔۔۔ شکریہ۔
    ثابت ہوا کہ خوشی کا نام ہے۔۔۔۔ معیار کی ضمانت
     
  4. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: سلورمیڈل

    آپ کا بہت شکریہ اس تحریر کے لئے اور تعریف کے لئے بھی مگر زایدہ شکریہ اس کے لئے کہ آپ کا یہ پیغام پڑھنے کے بعد بے اختیار ہنسی آ گئی جبکہ آج موڈ بہت سنجیدہ تھا

    جیتے رھیں اور کوشش کریں کہ اردو آپ سے غلط نہ لکھی جائے جان بوجھ کے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں