1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سلاطین غزنوی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏11 جولائی 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سلاطین غزنوی

    الپتگین ، سبکتگین، محمود غزنوی، مسعود بن محمود، محمد بن محمود، مودودبن مسعود، مسعود ثانی بن مودود، علی بن مسعود، عبدالرشید بن محمود، فرخ زاد بن عبدالرشید، ابراہیم بن مسعودثانی، مسعود ثالث بن ابراہیم، شیرزاد بن مسعود ثالث، ارسلان شاہ بن مسعود ثالث، بہرام شاہ بن مسعود ثالث، خسرو شاہ بن بہرام شاہ، خسروملک بن خسرو شاہ آخری تاجدار۔

    آگے ایک دلچسپ واقعہ مذکورہ ابن خلدون کے صفحہ ۲۶۲ پر یوں درج ہے کہ

    ”کہ سلطان محمود نے ایک بار خلیفہ عباسی قادر باللہ کی خدمت میں عرضداشت بھیجی کہ چونکہ اکثر بلاد خرامان میرے قبضے میں ہیں اور فلاں فلاں شہروں پر خلافت مآب(یعنی آپ) قابض ہیں۔ بنظر سہولت انتظام مملکت ان شہروں کو اس خانہ زاد کو (یعنی) مجھے عنایت فرمائیں۔ خلیفہ عباسی نے اس درخواست کو منظور فرما کر فرمان شاہی بھیج دیا۔ دوبارہ سلطان محمود نے اسی قسم کی درخواست سمرقند کی بابت بھیجی۔ خلیفہ عباسی درخواست دیکھتے ہی برہم ہوگیا اور لکھا بھیجا کہ ”معاذ اللہ میں اس درخواست کو منظور نہ کروں گا اور اگر تم بغیر میری اجازت اس طرف قدم بڑھاﺅ گے تومیں تم پردنیا کو تنگ کر دوں گا۔“ سلطان محمود کے تیور اس جواب سے چڑھ گئے۔

    ایلچی سے ترش رو ہوکر بولا ”جا خلیفہ سے کہہ دے کر سمرقند کے نہ دینے کا خمیازہ برا ہوگا۔ کیا آپ کا مقصد یہ ہے کہ میں ایک ہزار ہاتھی لے کر درالخلافت بغداد پر چڑھ آﺅں اور اسے ویران کرکے اس کی خاک ہاتھیوں پر بار کر کے غزنی لاﺅں“ ایک مدت کے بعد دربار خلافت سے ایلچی واپس آیا اور سلطان محمود کو ایک خط سربمہر دیا۔ خواجہ ابو نصر زوزنی نے خط کھولا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد الف، لام ، میم لکھا ہوا تھا اور آخر میں الحمد للہ رب العالمین و الصلوة علی رسول محمد و صحابہ اجمعین تحریر تھا۔ سوائے اس کے اور کچھ نہیں لکھا تھا۔ سلطان محمود اور اس کے درباری امراء، وزراءکاتب دنگ رہ گئے ۔ کسی کی سمجھ میں نہ آیا ابوبکر ہمدانی افغان نے جو ابھی کسی امتیازی درجہ پر نہیں پہنچا تھا ۔ عرض کی کہ چونکہ سلطان نے بغداد کی پامالی کی دھمکی دی تھی ،خلیفہ عباسی سورہ الم تر کیف فعل ربک با اصحاب الفیل کی طرف جواب میں اشارہ کیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے ابرہہ اصحاب فیل کا کیا تھا وہی نتیجہ بغداد پر ہاتھیوں کی فوج کشی سے تمہارا دیکھنے میں آئے گا۔ سلطان محمود اس جواب سے بیحد متاثر ہوا۔ معذرت کا عریضہ لکھا اور تحائف کے ساتھ ایلچی کو رخصت کیا۔ سلطان محمود کی پیدائش دسویں محرم ۱۲۳ ھ اور وفات ۱۲۴ ھ ہے۔“

    الغرض یزدگردکے قتل کے بعد ماہویہ سوری نے مزید طاقت پکڑی اوراپنی تمام قوم کے ساتھ وہ مسلمان ہو کر عربوں کا پورا اعتماد حاصل کر لیا تھا۔ اپنی فوجی قوت کو از سر نو مرتب کیا اور عربوں کی حمایت میں ہرجنگ میں وہ شامل ہوتا۔ مسلمانوں کے لئے ”مرد“ ایک اہم اور مضبوط مقام بن گیا۔
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    واضح رہے کہ خاندان سوری ، لودھی، خلجی اور سروانی وغیرہ افغانوں کے ایک ہی گروہ ’’بتنی‘‘ کی ذیلی شاخیں ہیں۔ بتنی کی کل ذیلی شاخیں ۷۷ ہیں جو طوالت کے سبب بیان نہیں کر سکتا تھا اور انہیں مذکورہ افغان قبائل نے محمد غوری سے لے کر شیر شاہ و سلیم شاہ اور آخر میں احمد شاہ ابدالی تک ہندوستان پر بادشاہتیں کی ہیں۔ ان کی دینداری اور دین اسلام کی اشاعت کا سلسلہ ان کی طرز حکومت اور نیک اعمال کسی سے پوشیدہ نہیں۔


    یہ لوگ اسلام کے شیدائی تھے اور کفر و الحاد کے سخت مخالف حالانکہ یہی لوگ انہیں سوری، لودھی اور خلجی(غلزئی) وغیرہ کی نسل سے تھے جن کے متعلق سلطان محمود غزنوی کے زمانہ میں الحاد اور بے دینی کا فتویٰ لگایا گیا تھا۔ اگر وہ کفر و الحاد کی مشتہری درست ہوتی تو کم از کم انہی کی اولد مٰن ضرور وہ اثر قائم رہتا مگر ایسا کوئی اثر نہیں دیکھا گیا بلکہ ان کی دینداری کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے شہنشاہ اکبر کے مذہبی خیالات کی سخت مخالفت کی اور مقابلہ کیا۔ اور کچھ تو افغانوں کی لامرکزیت اور زیادہ تر اکبر کے ساتھ ہندؤوں کے مضبوط تعاون کے سبب افغان حکومتیں تابہ و برباد ہوئیں۔ اکبر نے ہندوؤں کو دوست اور معزز بنایا اور افغانوں کو دشمن۔

    غزنوی خاندان اور ہندو

    اس میں شک نہیں کہ سبکتگین اور سلطان محمد غزنوی نے ہندوؤں سے ابر بار جنگیں لڑیں۔ ان جنگوں میں افغان قوم کی اکثریت بھی جہاد کی نیت سے شریک تھی اور فعال کردار ادا کیا تھا۔ ہندوؤں کو مغلوب کرکے صرف باجگزار تو بنائے گئے لیکن وہ اپنے مساکن اور ریاستوں پر بدستور چھوڑے گئے۔ پھر ان سے قریبی تعلقات بنا کر حکومت کے کاموں میں شریک کرلئے گئے۔ فوجی خدمات سپرد ہونے کے علاوہ سلطنت اور ملکی سیاست میں بھی ہندوؤں کا بڑا دخل تھا۔ بڑے بڑے عہدوں پر وہ فائز تھے۔ ان سب مراعات کے باوجود وہ شرارت اور سر کشی کیا کرتے تھے ان کا بڑا کام یہ تھا کہ سلاطین غزنی کو افغانوں کے متعلق ناراض اور بدگمان کریں۔ نتیجہ یہ کہ دونوں فریقوں کے درمیان میں نفاق و نفرت نے شدت اختیار کی۔

    واقعہ یہ ہے کہ :

    ہندوؤں نے سلطان محمود کی وفات پر اسکے بیٹوں یعنی محمد اور مسعود کو آپس میں لڑا دیا۔ مسعود نے ان کی شہہ پر اپنے بھائی محمد پر حملہ کرکے اس کو گرفتار کرکے اندھا کرا دیا اور ایک قلعہ میں قید کر دیا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسی ہندو لشکر نے سلطان مسعود کو گرفتار کرکے تمام شاہی خزانہ لوٹ لیا اور اس کے بھائی محمد کو جو قید میں تھا۔ آزاد کرکے اسے زبردستی تخت نشین کرایا اور مسعودکو اس کے سامنے بطور مجرم پیش کیا۔ محمد نے مسعود کو قید کر دیا لیکن محمد کے بیٹے احمد نے اپنے باپ کی اجازت کے بغیر اپنے چچا کو قید خانہ میں قتل کر دیا۔ سلطان مسعود کے قتل کا حال سن کر اس کا بیٹا مودود باپ کا انتقام لینے کی غرض سے بلخ سے روانہ ہوا۔محمد نے اس کا مقابلہ کیا لیکن محمد اور اس کا بیٹا احمد دونوں لڑائی میں مارے گئے۔ سلطنت مودود کے قبضے میں آگئی۔ چونکہ مودود کی کامیابی زیادہ ترہندوؤں کی مرہون منت تھی۔ اس لئے مجبوراً ان کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ وقت گزرتا رہا تاآنکہ سلطان بہرام شاہ کا دور آیا۔ ہندوؤں نے اس کوبھی افغانوں کے خلاف بھڑکایا اور اسے فوجی مدد بھی بہم پہنچائی۔ بہرام شاہ نے ہندوؤں کی فوج اور ماتحت ہندو راجاؤں اور ٹھاکروں کو ہمراہ لے کر غوریوں پر حملہ کر دیا لیکن اس جنگ کا نتیجہ ہندوؤں اور بہرام شاہ کی توقعات کے خلاف نکلا۔ بہرام شاہ کو جنگ میوند میں عبرتناک شکست ہوئی۔ اس کی فوج کے سپاہی اور ہندو بری طرح مارے گئے۔ غوریوں نے مکمل فتح کے بعد پہلے کام یہ کیا کہ دریائے سندھ سے مغرب کی طرف کا علاقہ ہندوؤں کی رہائش کے لئے ممنوع قرار دیا اور ان کودریائے سندھ سے مشرق کی طرف پار جانے کا حکم ہوا۔ علاؤ الدین جہان سوز نے غزنی کی فتح کے عبد ایک فخریہ نظم لکھی تھی۔ جس کے بعض اشعار اس طرح ہیں

    بہرام شاہ بہ کینہ من چوں گمان کشید
    کندم بہ کینہ از کمر اوکمان را
    پشتے خصم گرچہ ہمہ رائے درانا بود
    کردم بہ گرز خورد سرائے و رانا را

    ان اشعار میں رائے اور رانا خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ جس سلطان محمود غزنوی کو آج کل ہندوؤں کا سب سے بڑا دشمن بنایا جاتا ہے اسی محمود غزنوی کی اولاد کے طرف دار بن کر ہندوؤں کے رائے اور رانا غوریوں سے لڑنے کے لیے نہ صرف غزنی بلکہ حدود غور تک پہنچے تھے۔

    مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی اپنی تصنیف آئینہ حقیقت نما میں لکھتے ہیں کہ:

    ’’سلطان محمود کے زمانے میں ایک ہندؤ سپہ سالار بجے رائے تھا جو بارگاہ محمودی میں ربتہ عالی رکھتا تھا اور ندیم خاص سمجھا جاتا تھا اور ہندو لشکر کا سپہ سالار سوندی رائے تھا۔ راجہ تلک پسر جے سنگھ سلطان محمود کے دربار میں مترجم کے علاوہ باہر کے پیغامات لاتا اور وزیراعظم تک پہنچاتا تھا۔ اسی طرح شہزادہ ولی عہد یعنی مسود بن محمود کا میر منشی بھی ایک ہندو تھا جس کانام بیربال تھا۔ سلطان مسعود تخت نشین ہو کر سوندی رائے کے مرنے کے بعد اسکی جگہ ناتھ کو ہندو فوج کا سپہ سالار مقرر کیا اور جب ناتھ جنگ میں مارا گیا تو اسکی جگہ تلک کو ہندو فوج کا سپہ سالار بنایا گیا۔ سلطان مسعود کو تلک کی پیش قدمی بت پسند آئی تو احمد نیالتگین کی سزا دہی کے لئے تلک کو سپہ سالار ہند بنا کربھیجا اور پیغام دیا کہ ہم تم کو تمام سرداروں پر فوقیت و برتری دینا چاہتے ہیں۔تلک نے ہندوستان آکر احمد نیا لتگین سپہ سالار کو ۴۲۶ھ میں قتل کیا اور سلطان کی خدمت میں واپس پہنچ کر مورو تحسین ہوا۔‘‘

    سلطان محمود غزنوی کے خاندان کے زوال کے تقریبا ڈیڑھ سو برس بعد یعنی ۵۷۰ھ میں ملتنا پر غوری افغانوں کے قبضہ و حکمرانی میں آیا اور ۱۰۰۳ھ تک وقتا فوقتاً کئی افغان حکومتیں وہاں پر قائم رہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں