1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سفر لاہور کا ۔۔۔۔۔

'گپ شپ' میں موضوعات آغاز کردہ از عمر خیام, ‏2 مئی 2015۔

  1. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    پنجاب کے پہلے سفر کے پانچ سال بعد ہم کو لاہور جانے کا اتفاق ہوگیا۔

    پس منظر اس کا یہ تھا کہ ہمارے ایک کزن اور اس کے کچھ دوستوں کا ایک مذہبی جماعت کے سٹوڈنٹ ونگ کے ساتھ تعلق واسطہ ہوگیا تھا ۔ اس سٹوڈنٹ فیڈریشن کا سالانہ کنونشن لاہور کے مدرسے میں ہونا تھا۔ ہمارے علاقے سے ایک قافلہ نے بھی جانا تھا۔ ہمیں دعوت دی گئی کہ مفت میں لاہور کی سیر کرنی ہے تو آجاؤ۔اور دعوت اپنے کزن نے اس لیے دی کہ اگر ہم نہ جاتے تو اس کو اس کے اباجی نہ جانے دیتے۔ گویا یہ دعوت ہمارے سیانے اور پختہ کار ہونے کی سند تھی کہ خاندان کے بزرگ ہم پر اس قدر بھروسہ کرتے تھے کہ اپنے ناتجربہ کار اور عقل کے کچے بچوں کو ہماری تحویل میں دینے پر آمادہ ہوگئے تھے ۔

    ہم نے کہا۔ " ست بسم اللہ" ۔ اماں سے کچھ روپیہ بٹورا۔ ابا جی سے مانگنے کا حوصلہ نہ ہوا کیونکہ ہم اس وقت تک اتنا بڑا نہیں ہوا تھا ابا جی سے اتنے دھڑلے سے بات کرسکوں اور ان سے جیب خرچ کے علاوہ فالتو پیسہ مانگ سکوں۔ دادی جی کو پتہ چلا تو انہوں نے اپنی چادر کے پلو سے ایک گانٹھ کھولی ۔ اس کے اندر پڑے ایک رومال کی دو گانٹھیں کھولیں اور دس دس کے دو نوٹ دے کر تاکید کہ داتا کی نگری جارہے ہو۔ آتے ہوۓ وہاں سے پھلیاں اور مکھانے لیتے آنا جن میں گلاب کے ورق ملے ہوتے ہیں۔ ہم نے وعدہ کرلیا۔ اس وقت ہم کو زیادہ سے زیادہ روپیہ پاس رکھنے کی ضرورت تھی۔ جہاں سے بھی ملے اور جیسے بھی ملے اور جس سے بھی ملے۔اور جتنا بھی ملے۔


    حسب معمول ہم منہ اندھیرے سڑک پر آن کھڑے ہوے اور عازم لاہور ہوگئے۔ ہماری بس کا ڈرائیور بہت شوقین مزاج تھا۔ سورج نکلنے تک تو وہ قوالیاں اور عارفانہ کلام سنتا رہا۔ اور زوال کا وقت ختم ہونے کی بعد اس نے تیز موسیقی والے گانے لگا دیے۔ بس اس کی موسیقی کے ردھم پر جھومنے لگی۔ ہم بھی عمر کا اس حصے میں پہنچ چکا تھا جب ہم کو گانوں کے بول کی سمجھ لگنے لگ گئ تھی۔ اسلیے ہمارا سفر آرام سے کٹنے لگ گیا۔ بلکہ جی ٹی روڈ پر ایک جگہ نعرہ بازی کرکے اپنا ڈرائیور کو مجبور کیا کہ وہ قافلے کی دوسری بس کو اوور ٹیک کرے۔ بہت دور اور دیر تک بس دوڑ ہوتی رہی۔ بلکہ کچھ کچھ موقعوں پر ایسا لگا کہ جیسے ہم " بن حُر " کی رتھوں کی دوڑ میں حصہ لے رہے ہیں ۔ فرق یہ تھا کہ ہمارے ھاتھ میں چابک نہیں تھے۔

    سفر کا دوران پنجاب کے کتنے ہی چھوٹے بڑے شہر آۓ۔ سب ایک جیسے۔ سب گردآلود۔ سب شورزدہ ۔ سب میں لوگوں کا اژدھام۔ سب میں ریڑھیوں اور تانگوں کی بھیڑ۔ سب میں گندگی کے ڈھیر۔ اور سب میں غلاظت کے انبار۔۔ پہاڑی علاقے کی پہلی خوبی ہم پر آشکارا ہوئی کہ بارش کا پانی ٹھہرتا نہیں ۔ اس لیے کیچڑ نہیں ہوتا۔۔ لینڈ سلائیڈنگ ہوجاۓ تو وہ الگ بات۔

    لاہور کو ہم شام ڈھلے پہنچے۔ ہماری منزل جی ٹی روڈ پر گڑھی شاہو سے آگے انجیئرنگ یونیورسٹی کے کسی کیمپس یا ہاسٹل کی پاس بیگم پورہ نام کی جگہ میں واقعہ کوئی مدرسہ تھا۔ سڑک پر ہمارا والہانہ استقبال کیا گیا۔ مہمانوں اور میزبانوں کی درمیان نعرے بازی کا زوردار مقابلہ ہوا۔ جو میزبان جیت گۓ کیونکہ وہ تعداد میں زیادہ تھے اور تازہ دم بھی تھے۔

    پاکستان کی ہر گوشے، ہر ضلعے سے ہر قسم کے طالبعلم آۓ تھے۔ ہم نے اس زمانے میں نیا نیا شیو کرنا شروع کیا تھا جبکہ یہاں کچھ طالب علم ایسے تھے کہ ان کی داڑھی کرتے کے تیسرے بٹن تک جاتی تھی۔ تیسرے بٹن تک اس لیے کہ لاہور پہنچ کر ہمیں یکدم احساس ہوا کہ گرمی زیادہ ہوگئی ہے ، اس لیے ہم نے اپنے قمیص کے تینوں بٹن کھول دیئے۔ اور جب دوسرے علاقے کے لوگ اسلامی اور جماعتی جذبے سے سرشار ہوکر ہمیں گرمجوشی کی ساتھ گلے لگا کر ملتے تو ان کی داڑھی ہماری چھاتی کو تیسرے بٹن کی حدود تک چبھتی۔ ویسے بھی ہمارا قد اکثر سے اونچا تھا، اس واستی ہماری ناک کو ان کے سر کے بالوں پر لگےسرسوں کے تیل کے خالص یا ناخالص ہونے اور ان کی ورائٹی کی اقسام کے بارے میں جاننا پڑ رہا تھا۔

    تین روزہ کنونش دوسرے دن شروع ہونا تھا۔ پروگرام کی مطابق ہم نے وہ دن وہیں گذرانا تھا۔ دن بھر کو مندوبین اور طلباء تنظیموں کے یونٹ آتے رہے۔ لہو گرماتے رہے۔ ایک سیشن دن کو تھا اور دوسرا شام کو۔ ہم لوگوں نے بیچ میں باہر جاکر لاہور کی جی ٹی روڈ کی کچھ خاک چھان لی۔ اور بہت سی پھانکنی پڑ گئ۔

    دوسرا دن ہم فجر کی نماز پڑھ کر نکل گئے ۔ اس دن ہم نے مینار پاکستان دیکھنا تھا، شاہی قلعہ اور مسجد کی زیارت کرنی تھی۔ اتنا تو ہم کو معلوم تھا کہ یہ تین جگہیں ساتھ ساتھ ہیں۔ ہم ویگنوں، منی بسوں کو ھاتھ دیکر روکنے کی کوشش کرتے۔ کوئی روکتا ہی نہی تھا۔ ہمیں پنجابی تو آتی تھی لیکن لاہور کا مقامی لہجہ میں بات کرنا نہ آتی تھی۔ اس لیے کنڈیکٹر بات پوری سنی بغیر " جانے دو" کا نعرہ ماردیتا۔ ہم کو بہت بعد میں معلوم پڑا کہ جتنی دیر میں ہم مینار پاکستان کا نام دیتا اتنی دیرہمارا وقت ختم ہوجاتا۔ کسی بھلے سے راھگیر نے بتایا کہ ادھر مینار پاکستان کوئی نہی کہتا۔۔ سب اس جگہ کو یادگار بولتے ، کہتے اور سمجھتے ہیں۔

    اسی شام کو ہم چلتے چلتے واپسی کے سفر میں کھو گۓ۔ کچھ لوگ سے راستہ پوچھا۔ کچھ نظر انداز کر گۓ اور کچھ کندھے اچکا کر رہ گۓ۔ ایک بابا جی ٹیک لگاۓ بیٹھے نظر آۓ۔ ہم نے سوچا کہ بھلے مانس لگ رہے ہیں۔ ضرور مدد کریں گے۔ پوچھا کہ باباجی بیگم پورہ کس طرف ہے؟؟

    باباجی نے فقیرانہ شان سے نظر اٹھا کر اوپر دیکھا، اور پھر اپنی مستی میں مست ہوگۓ۔

    ہم نے سوال دہرایا۔

    وہ بولے۔ " پُتر تساں لاہور دے چنڈے او، سہانوں بھُٹ بناندے او"

    ( بیٹا جی۔ آپ لاہور شہر کے سیکھے ہو، چپے چپے سے واقف ہو، پتہ پوچھ کر ام کو الو بنا رہے ہو)

    ہم نے قسم کھائی۔ واسطہ دیا کہ ہم تو پہاڑ کا لوگ۔ ادھر اجنبی ۔ پردیسی۔غریب الوطن ۔ ہم پر ترس کھاؤ۔ ہمارا کلیجہ منہ میں اور جان جوکھوں میں ۔

    تب اس کو یقین آیا۔ پیار سے راستہ سمجھایا۔ پہاڑ کا حال پوچھا۔ برف ابھی تک پگھلی یا نہی؟ سردیوں میں برف جب سب راستے بند کردیتی ہے تواس موسم میں کیا کھاتے ہو؟ بیٹھو لسی چاۓ پیو۔ تم ہمارا مہمان ہے۔ پتی تیز ؟ میٹھا کم یا زیادہ ؟
    ََََََََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
    Last edited by a moderator: ‏3 مئی 2015
  2. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    مینار پاکستان کی باغات میں بھی ایک واقعہ ہوگیا۔ میں تو خیر پہلے بھی پنجاب آچکا تھا، لیکن کچھ لوگ ایسا تھا جنہوں نے اس سے پہلے سکول جانے تک کا ہی سفر کررکھا تھا۔ یا دومیل دور کے ایک گاؤں تک کا تانگے کا سفر جہاں ہر بیساکھ میں میلہ لگتا تھا۔ اس میلے می مداری، جلیبیاں بنانے والے حلوائی، پنگھوڑے، سکنجبین، سردھائی کا گھوٹا اور جعلی دوائیاں بیچنے والے آتے تھے۔اور یہ دوائیاں بیچنے والے آخر میں بچہ لوگ کو باہر جانے کا کہہ دیتے تھے۔ مینار پاکستان یا یادگار کے ساتھ گھاس کے لان بنے ہیں۔ وہاں پر گھاس کاٹنے والی مشین سے گھاس کاٹا جارہا تھا۔ ہم سب لوگ کدکڑے مار رہے تھے لیکن ایک بہت محویت کی ساتھ اس گھاس کاٹنے کی مشین کو ہی تکا جارہا تھا۔ اور حیران ہورہا تھا کہ دیکھو سائنس نے کتنی ترقی کرلی ہے۔

    ایسا اگلے دن بھی ہوا۔ جوں ہی فجر کی نماز پڑھی جاتی۔ ہم باہر نکل کر لاہور کا سیر کو نکل جاتے۔ اور شام کو مغرب یا عشاء کی نماز کے وقت لوٹتے۔ عشاء کی نماز کی بعد لنگر یعنی کابلی چنے کا پلاؤ اور دال کا شوربہ ملتا تھا۔ کنونشن کی آخری دن سٹوڈنٹ فیڈریشن کی مادر سیاسی و مذہبی جماعت کے بانی و سربراہ کا خطاب تھا۔ اس مذہبی لیڈر کو سننے کا ہم کو بھی شوق تھا، کیونکہ اس کے لکھے کتابچے ہم پڑھ چکا تھا، اس کو ٹی وی پر بھی بہت بار دیکھ چکا تھا۔ اس لیے جب اس کا صدارتی خطاب ہونا تھا تو ہم باوضو ہو کر مدرسے کی مسجد کے کنارے ایک ستون سے ٹیک والی جگہ پر قبضہ جما چکا تھے۔

    لیڈر صاب نے ملک کے نوجوانوں کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کیا۔ کہ وہ اپنی درخشاں روایات کی بجاۓ دوسرے ممالک کی کلچر کو زیادہ جانتے اور اپناتے ہیں۔ لیڈر نے اس تشویش کا اظہار بھی کیا کہ اسلامی تاریخ سے نوجوان نابلد ہورہے ہیں ۔ اس کو کسی مسلمان ہیرو کی بارے میں پتہ نہی ہوگا لیکن وہ مادھوری، جوہی چاؤلہ، سری دیوی کا سب حدود اربعہ سے واقف ہوگا۔ ہم لیڈر صاب کی عالمی معلومات عامہ پر گرفت سے بے حد متاثر ہوا۔ اور شرمندہ بھی ۔ (نوٹ : لیڈر صاب نے ہیرو کی بجاۓ ہیرؤئین کا تذکرہ کیا)

    پھر اس کے بعد انہوں نے مغربی طرز زندگی کے نقائص اور گرتے ہوۓ اخلاقی معیارسے لبریز روزوشب کا ایسا نقشہ باندھا کہ ہمارا سادہ سا دل اسی وقت وہاں جاکر ان کو ان چیزوں سے باز رکھنے کے ارادہ پر آمادہ ہوگیا۔

    تین دن کی بعد کنونشن ختم ہوگیا۔ جو قافلہ ہمارے علاقے سے گیا تھا، اس نے واپسی کےلیے رخت سفر باندھا۔۔ ہمارے گروپ کے بارہ میں سے کچھ لوگ بھی واپس آگیا۔ باقی سات آٹھ کا دل ابھی مزید رہنے کو کررہا تھا۔ ہمارے ایک دوست نے کہا کہ اس کا ایک کزن گلبرگ کے کسی پراییویٹ لاء کالج میں پڑھتا ہے اور وہیں کہیں دو دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہتا ہے۔ اس کے پاس چلتے ہیں وہ بندوبست کردے گا۔ ہم بیگم پورہ سے نکل کر شالامار باغ گیا۔ وہاں کی خوب سیر کیا۔وہاں ایک سویڈش جوڑا بھی سیر رہا تھا اور زندہ دالان لاہور کے نوجوانان کا ایک پورا گروہ ان کے ہمراہ و ہمرکاب تھا۔ دوست کا کزن حسین چوک کی علاقے میں رہتا تھا۔ ہمارے دوست نے بھول چوک سے حسین چوک کو شہید چوک بنادیا۔ تاریخی اعتبار سے تو یہ کوئی غلطی نہ تھی کہ حسین اور شہید لازم وملزوم ہیں ۔ لیکن بس کے کنڈیکٹر کو تاریخ کی اس باریکی حقیقت سے واقفیت نہ تھی۔ وہ لیتے لیتے، شہر کے باہر لے گیا۔ ہم نے کہا بھائی شہر تو ختم ہوگیا، شہید چوک نہی آیا؟

    وہ بولا کہ اگلا سٹاپ شہید چوک ہے۔ اتر جاؤ۔ ظالم کا بچہ ہمیں اتارنا بھول گیاتھا اب شہر کے باہر ملتان روڈ پر اتار کر چلا گیا۔اب ہماری حالت یہ تھی کہ پیٹھ پر رک سیک کا بوجھ ، ہاتھ میں کھلا نقشہ، بوجھل قدم ، آنکھوں میں تھکن اور ہمارے پیچھے ہمارے ساتھی کسی شکست خوردہ سپاہ کی مانند بادل نخواستہ نہر کنارے پیدل واپس ہولیے۔ نہر کنارے ہی ایک کھوکھے سے لاہوری حلیم کھائی۔ جس میں زیادہ حصہ اسی نہر کی مرہون منت تھا۔

    اس رات کو گلشن اقبال پارک کی سیر کی۔ ریلوے سٹیشن کی پاس ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ بہت سے ہوٹل میں گئے لیکن کوئی ہم سات آٹھ لوگوں کو کمرہ دینے پر تیار نہ تھا۔ بڑی مشکل سے ایک راضی ہوا۔ اس نے معمول سے زیادہ کرایہ لیا۔ اور چوتھی منزل پر ایک کمرہ دیدیاجس کا چھت اتنا کم اونچا تھا کہ انگڑائی بھی نہ لے سکتے تھے کہ مبادا ہاتھ پنکھے سے ٹکرا کے بقیہ جسم دستبردار نہ ہوجائے۔ ہم سات آٹھ لوگ اس کمرے کی تین چارپائی پر سما گئے ۔ سوچا تو ہم نے یہ تھا کہ کچھ لوگ چار پائی پر سوئیں گے اور باقی فرش پر دری بچھا کر۔ لیکن اس کمرے کا فرش تھا ہی نہی۔ سب کا سب فرش ان تین چارپائیوں نے ڈھانپا ہوا تھا۔ بستر سے باہر قدم نکالو تو وہ کمرے کی باہر پڑتا تھا۔ دروازہ بھی باہر کو ہی کھلتا تھا۔

    اگلی صبح کو ہم نے اپنے پہاڑی علاقے کی جانب واپسی کا سفر اختیار کیا۔ ہم مطمئن تھا کہ سفر بخیر رہا۔ کوئی لڑکا گم نہی ہوا۔ زادِراہ بھی کچھ بچ رہا۔ جی بھر کے خوب سیر بھی کر لی ۔ اب واپس جاکر خوب رعب جمائیں گے کہ اب ہم لاہور شہر کے سند یافتہ چَنڈے ہوئے ہیں ۔ہمارے اندر فخر و انبساط کا ایک عجیب سا احساس ہمارے لہو کو گرما رہا تھا، کولمبس جب امریکہ سے واپس لوٹ رہا تھاتو شاید اس نے بھی ایسا ہی محسوس کیا ہوگا ۔ اب ہم نے بھی ایک نئ دنیا دریافت کرلی ہے۔

    آدھے راہ سے زیادہ کا سفر ہوچکا تو ہم کو دادی جان سے کیا وعدہ اور ان کا دیا بیس روپیہ یاد آیا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ واپس لوٹنا محال تھا ہم نے راستے میں ایک جگہ سے پھلیاں اور مکھانے خرید لیے ۔

    دادی جان نے چن چڑھی جمعرات تک کا انتظار کیا۔ مغرب کی نماز کے بعد انہوں نے سورہ فاتحہ، چاروں قُل اور درود ابراہیمی پڑھ کر اپنے فوت شدہ وڈھے وڈھیروں کی بخشش اور باقی زندہ قبیلے کی خیر ، اتفاق و صحت کی دعا مانگی اور" داتا کی نگری کی نیاز " باہر گلی میں کھیلتے بچوں میں تقسیم کردی۔
     
    Last edited by a moderator: ‏3 مئی 2015
  3. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    " خوشگوار یادوں " کی لڑی میں ہم نے ایک دو واقعات پیش کیے تھے ۔ ان میں کچھ گڑ بڑ ہوگئی تھی ۔ تفصیلات گڈمڈ ہوگئی تھیں ۔ لیکن یہ اصل ورژن ہے ۔ اس میں بھی کچھ کمی وبیشی ہوگئی ہوگی لیکن ہم کونسا یہاں کمرہ امتحان میں تاریخ کا پرچہ حل کرنے بیٹھے ہیں کہ ترتیب آگے پیچھے ہونے سے ڈریں کہ نمبر کٹ جائیں گے
     
    ملک بلال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    # ہمارا کزن اور اس کا دوست اس جماعت کو چھوڑ کے ایک نیشنلسٹ تنظیم کے ساتھ وابستہ ہوگئے ۔
    # ہم نے اگلے تین سالوں میں ان کے ساتھ مری( دو بار) ، مظفرآباد( دوبار) اور راولپنڈی (تین بار) کی بھی اسی طرز پہ سیر کی ۔ ان سیروں کا حال پھر کبھی سہی ۔
    # وہ دینی یا مذہبی جماعت منہاج القران نہیں تھی ۔
     
    ملک بلال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    مکھانے اور پُھلیاں بہت کھائی ہیں یار ان کا لطف ہی لاجواب ہوا کرتا تھا
     
  6. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    روداد ہو یا سفرنامہ
    اور بیان کرنے والے اپنے عمر خیام جی ہوں
    تو مزہ دوبالا نہ ہو
    یہ کیسے ہو سکتا ہے :)
     
    پاکستانی55 اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں