1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سعودی خاتون نے گزارے پاکستان میں مصیبت کے اکیس سال۔۔۔۔۔۔۔

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از احتشام محمود صدیقی, ‏20 ستمبر 2013۔

  1. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    سعودی خاتون نے گزارے پاکستان میں مصیبت کے اکیس سال

    [​IMG]

    سعودی عرب کے معروف ٹی وی میزبان اور صحافی داؤد الشریان نے اپنے جرأت مندانہ ٹی وی شو ”ثمانیتہ مع داؤد“ یعنی “آٹھ بجے داؤد کے ساتھ” کے ذریعے دیکھتے ہی دیکھتے اپنے ناظرین کا اعتماد حاصل کرلیا ہے۔

    سعودی عرب کی تاریخ میں یہ پہلا ٹی وی ٹاک شو ہے، جس میں ہر روز نہایت جرأت مندی کے ساتھ سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔

    عربی ٹی وی چینلز پر پیش کیے جانے والے روایتی شوز کے برعکس الشریان اپنے مہمانوں اور حاضرین کے سامنے کسی قسم کی حدود کا تعین نہیں کرتے ہیں۔

    اپنے ٹاک شو کے دوران الشریان کے مہمانوں کے ساتھ بے باکانہ رویے نے انہیں لاکھوں ناظرین کا اعتما د بخشا ہے، اس لیے کہ وہ ایسے مسائل پر بات کرتے ہیں جس میں ہر خاندان کی دلچسپی ہوتی ہے۔

    اس وقت داؤد الشریان کا ٹی وی شو ”ثمانیتہ مع داؤد“مشرق وسطیٰ کے تمام عرب ممالک میں عرب گوٹ ٹیلنٹ اور عرب آئیڈل کے بعد مقبول ترین ٹی وی شو بن چکا ہے۔

    گزشتہ اتوار 15 ستمبر کو اس ٹی وی شو میں ایک سعودی خاتون اُمِّ عمل کی ایک وڈیو رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ یہ ایک سعودی خاتون ہیں، جن کے ساتھ اکیس برس قبل ان سے عمر میں تیس سال بڑے شخص نے جنسی زیادتی کی، پھر انہیں پاکستان اغوا کرکے لے گیا، جہاں انہیں اکیس سال تک زبردستی گھر کی ملازمہ بنا کررکھا گیا۔

    عرب نیوز کے مطابق ام عمل اس وقت صرف چودہ برس کی تھیں جب ان کا ریپ کیا گیا، ان کی والدہ نے اپنے پاکستانی پڑوسی سے قرض مانگا تھا، اسی شخص نے اُم عمل کا ریپ کر ڈالا۔

    اس واقعہ کے بعد ان کی سوتیلی والدہ نے ان کی سگی والدہ کو مجبور کیا کہ وہ اپنی بیٹی کو اس پاکستانی شہری کے ساتھ جانے دیں، انہوں نے ڈرایا کہ اگر تمہارے شوہر کو اس واقعہ کا علم ہوا تو وہ تمہاری بیٹی کو قتل کردیں گے۔

    اُمّ عمل کے بقول ان کی سگی والدہ بُری طرح خوفزدہ ہوگئی تھیں، اس لیے انہوں نے ان کی سوتیلی والدہ کی بات مان لی۔ پھر جس شخص نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی، وہی انہیں اپنے ساتھ زبردستی پاکستان لے گیا۔ پاکستان پہنچ کر اس شخص نے ان کے ساتھ قانونی طور پر نکاح کرلیا۔

    لیکن اس نے اُمّ عمل کو کبھی عزت نہ دی اور اکیس سال تک انہیں گھریلو ملازمہ کا کام کرنا پڑا۔ اس دوران انہوں نے تین بچوں کو بھی جنم دیا۔

    اُمّ عمل نے داؤد الشریان ٹی وی شو ”ثمانیتہ مع داؤد“ یعنی آٹھ بجے داؤد کے ساتھ میں بتایا کہ ”درحقیقت مجھے اس پاکستانی شخص نے اغوا کرلیا تھا، میں کیا چاہتی تھی اور میری مرضی کیا تھی، کسی نے اس کے بارے میں نہیں سوچا اور مجھے اس شخص کے حوالے محض اس لیے کردیا گیا کہ میرے والد مجھے مار ڈالیں گے، حالانکہ میری کوئی غلطی نہیں تھی۔ ایک قیدی کی طرح زندگی گزارتے اتنے برس میرے پاکستان میں گزر گئے۔ کراچی میں کچھ سعودی نوجوانوں سے میری اتفاقیہ طور پر ملاقات ہوئی تو مجھے اپنے خاندان سے رابطے کا موقع ملا۔ میں نے ان نوجوانوں کو اپنے والد کا نام بتایا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں سعودی عرب واپس جانا چاہتی ہوں، اس لیے کہ مجھے خوف ہے کہ جو کچھ میرے ساتھ بچپن میں ہوا تھا وہی کچھ میری بیٹیوں کے ساتھ بھی نہ ہو۔ میں ہرگز نہیں چاہتی کہ وہ پاکستان میں نوکرانی بن کر زندگی گزاریں۔“

    اُم عمل نے بتایا کہ ایک ہفتے بعد جب انہیں اپنے والد کا نمبر ملا تو انہوں نے ان کو فون کیا، لیکن انہوں نے مجھ سے بات کرنے سے انکار کردیا۔

    اُم عمل نے کہا ”میں نے انہیں فون کیا لیکن انہوں نے فون بند کردیا۔ ایک سعودی نوجوان نے مجھے مشورہ دیا کہ اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے جا کر بات کروں۔ سفارتخانے والوں نے میرا کیس کراچی میں سعودی قونصل خانے بھیج دیا۔میں نے اپنے کیس کے سلسلے میں وائس قونصلر عبیداللہ الحربی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ مجھے قونصل خانے کار بھیج کر بلوائیں گے۔لیکن جب انہوں نے میرے گھر کا ایڈریس دیکھا اور میرے علاقے کے بارے میں معلومات حاصل کی تو یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ یہ علاقہ جرائم پیشہ لوگوں کا گڑھ ہے، اس لیے ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اس علاقے میں قونصل خانے کی گاڑی بھیج سکیں۔“

    اُم عمل نے بتایا کہ وہ ٹیکسی کے ذریعے قونصل خانے پہنچیں، لیکن ان کو اپنے مقصد میں کامیابی نہ مل سکی۔ دو سال گزرگئے اور قونصل خانے والوں نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ پھر سعودی اخبار عکاظ نے ان کا معاملہ اُٹھایا اور اپنے اخبار میں ان کی داستان شایع کی۔ اس طرح ان کے والد کو ان کے بارے میں حقائق معلوم ہوئے۔

    اُمّ عمل نے کہا کہ ”میرے والد مجھ سے ملنے پاکستان آئے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ اب سعودی عرب میں ان کی کوئی عزت نہیں ہے، اس لیے کہ وہ القاعدہ کے لیے کام کرتے ہیں۔“

    انہوں نے کہا ”میرے والد نے مجھے بیس سال سے نہیں دیکھا تھا، لیکن وہ نہایت سرد مہری کے ساتھ مجھ سے ملے، انہوں نے مجھے گلے بھی نہیں لگایا۔ بلکہ انہوں نے میرے بچوں کا مذاق بھی اُڑایا کہ یہ تو کسی نوکرانی کے بچے معلوم ہوتے ہیں۔ پھر بھی وہ پاکستان سے جاتے ہوئے اسلام آباد سعودی سفارتخانے میں میرے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی دے گئے۔“

    اُمِّ عمل اب پاکستان واپس نہیں جانا چاہتی ہیں، لیکن انہیں اس بات کا بھی بہت دکھ ہے کہ ان کے والد نے انہیں اپنایا نہیں۔ وہ کہتی ہیں ”اب میرے پاس صرف میرا وطن سعودی عرب ہے، جسے چھوڑنے پر مجھے مجبور کردیا گیا تھا۔“


    ڈان ۔کراچی

    Thursday 19 September 2013






     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں