1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سر سٹیم فورڈ ریفلز سنگاپور کی بنیاد رکھنے والا برطانوی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏30 جنوری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سر سٹیم فورڈ ریفلز سنگاپور کی بنیاد رکھنے والا برطانوی

    تحریر : ایچ ایف پیرسن
    سر سٹیم فورڈ ریفلز کا پورا نام سر تھامس سٹیم فورڈ ریفلز تھا۔ وہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی انتظامیہ میں رہا اور ریفلز ہی بندر گاہی شہر سنگاپور (1918ء) کا بانی ہے۔ مشرق بعید میں سلطنت برطانیہ کے پھیلاؤ میں اس کا اہم کردار تھا۔ اسے 1816ء میں ’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ ابتدائی زندگی: وہ ایک ناعاقبت اندیش تاجر و کیپٹن اور اس کی بیوی کے ہاں ویسٹ انڈیز سے وطن واپس آتے ہوئے دورانِ سفر پیدا ہوا۔ ریفلز قرض میں گھرے ہوئے ماحول میں پلا بڑھا۔ 14 برس کی عمر میں اسے سکول چھوڑنا پڑا۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں کلرک کی حیثیت سے بھرتی ہوا تاکہ اپنی ماں اور چار بہنوں کی کفالت کر سکے۔ اگرچہ اس کی رسمی تعلیم ناکافی تھی، لیکن اس نے فارغ وقت میں سائنس اور بہت سی زبانوں کا مطالعہ کیا اور تاریخِ طبیعی (نیچرل ہسٹری) میں دلچسپی لینے لگا جس کے باعث بعدازاں اسے امتیازی مقام حاصل ہوا۔ اپنی محنت سے وہ اتنا نظروں میں آیا کہ 23 برس کی عمر میں نئی تشکیل پانے والی حکومتِ پینانگ میں اسسٹنٹ سیکرٹری تعینات کر دیا گیا، قبل ازیں یہ آبنائے ملاکا کے شمالی داخلی راستے پر ایک غیر معروف جزیرہ تھا۔ پینانگ: پینانگ کو ولندیزوں کے زیرانتظام ایسٹ انڈیز میں برطانویوں کے پاؤں جمانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ یہاں ریفلز نے بحرالجزائر میں پھیلے ملاوی لوگوں کی زبان، تاریخ اور ثقافت کے بارے میں گہرائی سے جان کاری حاصل کی، اسی سے بعدازاں اس کے کیرئیر کی تشکیل ہوئی۔ وہ تب گورنر جنرل انڈیا لارڈ منٹو کی نظروں میں آیا جب ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی تھی کیونکہ نپولین جاوا کو برطانیہ کے سست رفتار سامان بردار جہازوں کی تباہی کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ منٹو جاوا سے فرانسیسی اثر ختم کرنے کا مصمم ارادہ کیے ہوئے تھا۔ منٹو نے بحری حملے کی تیاری کے لیے ریفلز کو اپنا ایجنٹ نامزد کیا۔ جاوا: اختیارات کے حصول کے بعد، جس نے پینانگ میں حاسدوں کو بھی پیدا کر دیا تھا، ریفلز نے ملاکا میں اپنا ہیڈکوارٹر قائم کیا۔ اپنے غیر معمولی کام پر بطور انعام اسے منٹو کے سٹاف میں شامل کر لیا گیا۔ اور پھر اس نے منٹو کے ساتھ جاوا کا بحری سفر کیا، جہاں وہ کسی حادثے کا شکار ہوئے بغیر چھ اگست 1811ء کو پہنچے۔ ولندیزوں اور فرانسیسیوں سے مختصر مگر تند لڑائی کے بعد انہوں نے جزیرے پر قبضہ کر لیا۔ منٹو نے جیت کا خاصا کریڈٹ ریفلز کو دیا۔ وہ اسے پہلے ہی ’’بہت چالاک، قابل، سرگرم اور سمجھ دار انسان‘‘ قرار دے چکا تھا لیکن اب اس کی دانشورانہ اور انتظامی اہلیت کا بھی قائل ہو گیا تھا۔ 11 اکتوبر کو اس نے اسے جاوا کا لیفٹیننٹ گورنر بنا دیا۔ کچھ عرصہ بعد 30 برس کی عمر میں ریفلز کو نہ صرف جاوا بلکہ بہت سے جزائر پر مشتمل اور کروڑوں کی آبادی والی سلطنت کا حاکم بنا دیا۔ ریفلز نے بڑے پیمانے پر اصلاحات کا آغاز کیا جن کا مقصد ولندیزی نوآبادیاتی نظام کو بدلنا اور مقامی آبادی کی حالت کو بہتر بنانا تھا۔ مگر اس کی اصلاحات منافع کو اولیت دینے والی تجارتی کمپنی کو بہت مہنگی پڑیں اور زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکیں۔ ساڑھے چار سال بعد زیادہ بیمار رہنے اور اپنی بیوی کے انتقال سے صدمے میں آنے کی وجہ سے اسے واپس بلا لیا گیا۔ منٹو کی موت کے بعد اس پر نجی حملے کیے گئے جن سے بچانے والا اب نہ رہا تھا۔ 25 مارچ 1816ء کو اس نے انگلستان کا بحری سفر کیا۔ اسے سابقہ اعتماد پھر کبھی نصیب نہ ہوا۔ لندن میں جدت پسند اور اہل علم دونوں حلقوں میں اسے کامیابیاں ملیں اور انہیں کی مدد سے اسے رائل سوسائٹی کا فیلو منتخب کیا اور ’’سر‘‘ کا خطاب دیا گیا، اس نے مشرق میں سماٹرا کے مغربی ساحل پر بنگکولو کی بندرہ گاہ کے لیفٹیننٹ گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں مگر اس کے اختیارات محدود تھے۔ تاہم بنگکولو سے ہی اس نے انڈونیشیائی جزائر پر ولندیزوں کے دوبارہ قبضے اور مکمل کمرشل اجارہ داری کا مشاہدہ کیا۔ پھر اس نے جنوب مشرقی ایشیا میں برطانوی اثرورسوخ بڑھانے کے لیے اگلا قدم اٹھایا۔ سنگاپور:کلکتہ کو کیے گئے سفر میں اس نے مشرقی امور میں اپنے وسیع علم اور قائل کرنے کی مہارت کو استعمال کرتے ہوئے لارڈ ہیسٹنگ کو راضی کیا مشرق بعید میں برطانوی تجارت کے تحفظ کے لیے فوری اور بھرپور کارروائی ضروری ہے۔ ہیسٹنگ اس وقت انڈیا کا گورنر جنرل تھا۔ سات دسمبر 1818ء کو اس نے کلکتہ کا سفر کیا۔ اس کے پاس ہیسٹنگ کا عطا کردہ اختیار نامہ تھا جس کے تحت آبنائے ملاکا کے مشرق کی طرف اس نے ایک قلعہ بند چوکی قائم کرنی تھی تاکہ چینی سمندروں کا راستہ محفوظ بن سکے۔ 29 جنوری 1819ء کی صبح وہ ملایا کے جنوبی کونے پر ایک ایسے جزیرے پر اترا جس کی آبادی بکھری ہوئی تھی۔ اسے ولندیزوں سے ٹکراؤ کا خطرہ تھا، مگر اس نے ایک معاہدے کے تحت یہاں سنگاپور کی بندرگاہ قائم کر لی۔ اگرچہ وہ بنگکولو میں اپنے عہدے پر تین برسوں کے لیے واپس آ گیا، لیکن اکتوبر 1822ء میں واپس سنگاپور چلا گیا، جہاں اس نے انتظامیہ کی شاخوں کو ازسرنو منظم کیا۔ 1823ء میں اس کے جاری کردہ قواعد و ضوابط میں کہا گیا ہے، ’’سنگاپور کی بندرگاہ آزاد بندرگاہ ہو گی، اور یہاں ہر ملک کی کشتیاں اور بحری جہاز آ سکتے ہیں… یہ سب کے لیے برابر اور ایک جیسی ہے۔‘‘17 مارچ 1824ء کو ولندیزی سنگاپور پر اپنے تمام دعوؤں سے دست بردار ہو گئے۔ لیکن یہ وہ وقت تھا جب ریفلز کی صحت تیزی سے بگڑ رہی تھی، اسے سر میں شدید درد اٹھتے تھے۔ وہ سمندر کے راستے انگلستان روانہ ہوا اور 22 اگست 1824ء کو وہاں پہنچا۔ لندن میں اس کے پاس نیچرل ہسٹری اور ملایا کے علوم کا وسیع ذخیرہ تھا جس کے باعث اسے بڑا مستشرق مانا جاتا تھا۔ اس نے لندن کے چڑیا گھر کی بنیادیں رکھنے میں مدد دی۔ اسے اس چڑیا گھر کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔ جولائی 1826ء کو دماغی رسولی سے اس کا انتقال ہوا۔ (ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا)​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں