1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سرمایہ دارانہ نظام بمقابلہ سائنس

'جنرل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از لاجواب, ‏20 جون 2012۔

  1. لاجواب
    آف لائن

    لاجواب ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2011
    پیغامات:
    301
    موصول پسندیدگیاں:
    111
    ملک کا جھنڈا:
    تحریر:مائیک پیلیسک:-
    (ترجمہ :اسدپتافی)
    ایک تواتر و تسلسل کے ساتھ، اٹھتے بیٹھتے ہم پر یہ ہو شربا راز آشکارکیاجاتاہے کہ سرمایہ دارانہ نظام‘ٹیکنالوجی، ایجادات کو نہ صرف آگے بڑھاتا ہے بلکہ سائنسی ترقی کو بھی دن دوگنی رات چوگنی ترقی دینے میں محواور مگن چلاآرہاہے۔ہمیں بارباربتایااور سمجھایاجاتاہے کہ مقابلے بازی کی دلکش صورتحال اور منافعوں کی طلب، دونوں باہم مل کے سائنس کو نئی دریافتوں کی طرف لے جانے کا باعث بنتے ہیں۔اوریہ کیفیت بڑی بڑی کمپنیوں کو لامحالہ ایک جذبہ محرکہ عطا کرتی ہے کہ وہ نت نئی ادویات اور طریقہ ہائے علاج دریافت کریں۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ آزادمنڈی کی معیشت انسانی اورسماجی ترقی کیلئے سب سے بڑی تحریک ہے۔لیکن اس سب پروپیگنڈے کے بالکل برعکس صورتحال حقیقی معنوں میں مختلف بلکہ الٹ ہی ہے۔جملہ حقوق، منافع خوری اور نجی ملکیت ہی وہ سفاک رکاوٹیں ہیں جن کا سامناشایدہی سائنس کو کبھی تاریخ میں کرنا پڑاہو۔حالت یہ ہو چکی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام انسانی ترقی کے ہر شعبے اورہرحصے کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آچکاہے۔وہ سائنس‘ ٹیکنالوجی اورسماجی ترقی کو آگے لے جاناتودورکی بات ہے، اسے پیچھے، بہت پیچھے کی طرف لے جانے پر تل گیا ہے۔ اور وہ بھی کسی ترددکے بغیر۔[​IMG]


    Darwinius Masillae
    نجی ملکیت کس طرح نئی دریافتوں کے رستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے،اس کی تازہ ترین مثال Ida fossilکے معاملے میں سامنے آئی ہے۔Ida آج سے 47 ملین سال پہلے کے ایک ڈائنوسارکا ڈھانچا ہے جسے Darwinius masillaeکا نام دیاگیا ہے۔اور جو ابھی حال میں ہی میں دریافت ہوا ہے۔ہم میں سے ہر کوئی خوش ہوتا ہے کہ جب بھی ارتقا کے عمل کے حوالے سے کوئی نئی عبوری کڑی ہمارے سامنے آتی ہے۔ جس سے ہمیں بڑے اور چھوٹے جانداروں کے مابین نسبت و مناسبت کے اسرارورموز جاننے کا موقع ہاتھ آتاہے۔’’ڈاروینئس ماسیلائی ‘‘کے بار ے میں سب سے حیران کن اور خوش کن بات یہ ہے کہ یہ انتہائی عمدہ حالت میں موجود ملا ہے۔اس کی آنکھیں باہر کو پھیلی ہوئی ہیں جبکہ گھٹنے چھوٹے ہیں اور اس کے انگوٹھے بھی مڑنے والے ہیں۔یہ ڈھانچہ انتہائی محفوظ حالت میں ملاہے اور اس کا 95 فیصد حصہ ثابت وسلامت ہے۔اس کے فر کی بیرونی پرت قابل دید ہے،یہاں تک کہ سائنسدان اس کے معدے کاتجزیہ کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔جس سے پتہ چلا کہ اس نے آخری خوراک کیا لی تھی۔پتہ چلا کہ اس نے پھل،بیج اور پتے کھائے ہوئے تھے۔تاریخ کے ساتھ شغف رکھنے والے اہلِ دل اور اہلِ نظر اس نئی دریافت کو دیکھنے کیلئے نیویارک کے میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں جوق در جوق کھنچے چلے آرہے ہیں کہ اس تاریخی ڈھانچے اور تاریخی دریافت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔
    سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس Idaکا سرمایہ دارانہ نظام سے کیا تعلق واسطہ ہے؟یہ تاریخی دریافت1983ء میں دریافت ہوئی تھی مگر اس کے نجی’’مالک‘‘ نے اسے اپنے قبضے اور تصرف میں ہی محدودوپوشیدہ رکھاہواتھا۔اسے اس کی تاریخی اہمیت کا ہرگز ادراک اور اندازہ نہیں تھا۔اور یہ بات اس لئے بھی حیران کن نہیں ہے کہ وہ کوئی ماہرِ آثار قدیمہ نہیں تھا۔چنانچہ اس لاعلمی،بے خبری اور غفلت کے نتیجے میں یہ قیمتی اثاثہ پچیس سالوں تک مٹی دھول میں اٹارہا۔
    دنیا میں اس قسم کے ڈھانچوں کی، جنہیں حجرات (fossils) کہاجاتاہے،ایک بہت بڑی منڈی موجودہے۔ جس کے نتیجے میں دنیا کے ہر انسان کا یہ مشترکہ قیمتی اور تاریخی اثاثہ انسانوں کی دسترس میں نہیں رہاہے۔باقی اجناس کی طرح یہ ڈھانچے بھی بازار کی جنس بنادیئے گئے ہیں۔ نجی طورپر دریافت ہونے والے ڈھانچے عجائب گھروں کو ’’کرائے‘‘پر دیئے ہوئے ہیں۔تاکہ وہاں ان کی موجودگی ان کا مطالعہ کرنے والوں یا ان کانمائشی نظارہ کرنے والوں کو بھی مستفیدہونے کا موقع مل سکے۔اس قسم کے نجی ملکیت کے حامل ڈھانچے دنیا بھر کے عجائب گھروں کی ’’سیروتفریخ ‘‘کر کے بھاری کمائی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔اور یہ کاروبار بہت باقاعدگی کے ساتھ جاری وساری ہے۔اوریہ’’ آتش زیرپا‘‘ڈھانچے اپنے مالکوں کیلئے بھاری منافعوں کی خیروبرکت کے ساتھ اپنی آؤنیاں جاؤنیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔یوں ان پر تحقیق اور تجزیہ جو ہونا چاہئے تھا اور جو ہو سکتا تھااور جس سے نہ صرف سائنس بلکہ نسلِ انسانی مستفید ہوسکتی تھی،وہ نہیں ہو سکی اور نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کے ہوتے ہوئے ہوسکتی ہے۔
    اور یوں ان گنت انمول نوادرات ایسی ہیں جو کہ نجی کمپنیوں اور نجی مالکان کے ذخیرہ خانوں،گوداموں میں محض اس لئے محفوظ ہیں کہ ان سے زیادہ سے زیادہ منافع کمایاجاسکے۔ یہ ہوسِ زر ان زندگی سے وابستہ عناصر کو ایک مردہ جنس بناکے رکھے ہوئے ہے۔کوئی نہیں جانتا،نہ جان سکتا ہے کہ کتنے ایسے تاریخی نوادرات انسانی علم اور شعور کی دسترس اور ادراک سے محروم ہوکے،کروڑپتیوں کی نجی ملکیت کے مردہ خانوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں