1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سردیوں نے ہٹلر کی حکمت عملی بدل دی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏12 دسمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سردیوں نے ہٹلر کی حکمت عملی بدل دی
    upload_2019-12-12_2-49-39.jpeg
    لوئس ایل سنائیڈر
    دوسری عالمی جنگ میں ایک وہ مقام آیا جس میں جرمن خوش نہ تھے۔ ان کے لیے شادمانیوں کا دور گزر چکا تھا۔ یہ یقین باقی نہیں رہا تھا کہ جنگ حددرجہ تیز اور سادہ ہو گی، جیسا کے وہ پہلے رہی تھی۔ جن جرائد پر نازیوں کی اہم شخصیت ہیرمان گوئرنگ کا قبضہ تھا وہ بار بار روسی محاذ پر شاندار کامیابیوں کا ذکر کرتے تھے لیکن لڑنے والے فوجیوں کی طرف سے جو خط گھروں میں بھیجے جاتے تھے ان میں کچھ اور ہی بیان کیا جاتا تھا۔ جنگ بدستور پھیل رہی تھی اور معلوم ہو رہا تھا کہ معاملات پر قبض و تصرف ہٹلر کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ بعض صاف گو جرمنوں نے اس کی تعبیر یوں کی کہ ہماری فتوحات ہمیں تباہ کر رہی ہیں۔ نازیوں نے 1941ء کے گرما اور خزاں میں جو برق رفتار جنگ شروع کی تھی وہ روسی سطح مرتفع میں پہنچتے ہی حددرجہ سست پڑ گئی۔ سرما آیا تو اتنی سردی پڑی کہ 50 سال میں کسی کو اس کا تجربہ نہیں ہوا تھا۔ اس وقت جرمن فوج دفاع پر مجبور ہو گئی۔ ہٹلر نے اس کے لیے توجیہات پیش کیں مثلاً یہ کہ روسی بڑے بے رحم، وحشی اور حیوان ہیں۔ یہ اعتراف بھی کر لیا کہ ہم نے سرخ (سوویت یونین کی) فوجوں کی قوت کے متعلق غلط اندازہ کیا تھا۔ کم از کم ایک غلطی میں کوئی شبہ نہیں اور وہ یہ کہ ہمیں کوئی اندازہ نہ تھا اس دشمن نے ہمارے خلاف کس درجہ وسیع تیاری کر رکھی تھی اور محض جرمنی ہی نہیں بلکہ پورے یورپ کے لیے بربادی کا کتنا بڑا خطرہ درپیش تھا۔ ہٹلر نے حکم دیا کہ جرمن تباہ کی گئی روسی سرزمین سے قدم پیچھے نہ ہٹائیں۔ روسیوں کے مسلسل جوابی حملے اور چھاپہ مار دستوں کی جنگ جرمنوں کا کچومر نکال رہی تھی۔ آخر جرمن فوجوں کے لیے گرما کے انتظار میں کچھ نہ کچھ کرنا ضروری ہو گیا۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ فوجیوں نے بہت سے نقل و حمل کرنے کے قابل باکسز میں اپنے مراکز قائم کر لیے۔ یہ باکس چلے جاتے اور وہ نسبتاً محفوظ رہتے۔ یہاں جرمنوں کی پناہ گاہوں کا سلسلہ پیچھے سے کٹ چکا تھا لہٰذا انہیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سے ضرورت کی چیزیں پہنچائی جاتی تھیں۔ روسیوں نے ان کا پتا لگا لیا اور ان پر پے در پے ضربیں لگانے لگے۔ وہ ضربیں لگانے سے پہلے دشمن کو ترغیب دے کر ان پناہ گاہوں میں لے آتے۔ یہ بڑا سخت کھیل تھا۔ روسی برابر جرمنوں کے قبض و تصرف کو ناقابل برداشت بنا رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے سڑکیں، ریل کے پل اور دشمن کے قابل استعمال ہر شے برباد کر ڈالی۔ جس جس مقام پر کوئی تار پہنچ سکتا تھا وہاں پھندوں کا جال بچھا دیا۔ ٹیلی فون، بجلی کے تار، پانی کے نل، برقی چولہے، آتش دان، غرض کوئی چیز پھندوں سے خالی نہ رہی۔ ایسے بم ایجاد کر لیے جو کسی برقی تار سے پیوست کر دیے جاتے مثلاً ریڈیوکے سیٹ جو نشریات شروع ہوتے ہی پھٹ جاتے۔ چھاپہ مار دستے اچانک حملے کرتے۔ گولہ بارود کے انبار تباہ کر دیتے۔ ٹرینیں، پٹڑیوں سے اتار دیتے، ٹینک جلا دیتے۔ جرمن اس قسم کی منظم مزاحمت سے بالکل عاجز آ گئے۔ ان کی عسکری کتابوں میں اس قسم کی جنگ کا ذکر نہ تھا اور انہیں سب سے بڑھ کر روسیوں کے سخت سلوک کا ڈر تھا۔ ہٹلر 1941ء کے آخری چھ مہینوں میں روس سے نہ لینن گراڈ لے سکا، جو محاذ کے شمالی حصے میں تھا نہ ماسکو لے سکا جو عین وسط میں تھا۔ جب سرما میں نقل و حرکت معطل ہو گئی تو اس نے ہائی کمان کو حکم دے دیا کہ موسم سازگار ہوتے ہی نئی پیش قدمی شروع کر دی جائے۔ اس کی نوعیت بھی بتا دی۔ بظاہر اس کا نصب العین محدود تھا لیکن نہایت قیمتی تھا۔ اس نے ہدایت دی کہ پوری قوت جنوب کی جانب لگادی جائے۔ یہ حملہ یوکرائن سے شروع ہو گا جہاں 1941ء کے گرما میں اس کی فوجوں نے شاندار فتوحات حاصل کی تھیں اور قفقاز پہنچ جائے گا تاکہ اپنے طیاروں، ٹینکوں اور ٹرکوں کے لیے ضروری پٹرول حاصل کرے۔ روسیوں کو وہاں کے تیل کے قیمتی چشموں سے منقطع کر دیا جائے گا۔ اس پیش قدمی میں اور فائدے بھی تھے۔ ہٹلر سٹالن گراڈ سے آگے والگا کی طرف بڑھتا اور قفقاز پر حملہ کرتا تو شمالی جانب کی روسی فوجیں جنوبی جانب کی فوجوں سے الگ ہو جائیں اور کریملن (روسی حکومت) ایک اہم صنعتی طاس سے محروم ہو جاتا۔ بحیرہ اسود پر نظم و ضبط قائم کر لینے کے بعد ہٹلر کو امید تھی کہ بحیرۂ روم کے مشرقی گوشے کا چکر کاٹتا ہوا وہ مزید آگے کی طرف بڑھے گا۔ اس جنوبی میدان میں کئی ایسے مقامات موجود تھے جنہیں مرکزی حیثیت حاصل تھی مثلاً منتہائے جنوب میں سباسٹوپول، شمال میں دورونیز اور وسط میں روسٹوف۔ یہ تین شہر لے لینے کے بعد سٹالن گراڈ پر زبردست حملہ کیا جا سکے گا۔ تباہی خیز شکست کو فتح میں بدل دینے کے لیے یہ بڑا منصوبہ تھا جو ہٹلر نے بنایا۔ کاغذ اور ہٹلر کے جنگی نقشوں پر یہ یقینا نہایت عمدہ اور کارآمد معلوم ہوتا تھا۔ سباسٹوپول کا محاصرہ دسمبر 1941ء میں شروع ہوا۔ چھ مہینے تک روسی کریمیا کی اس بندرگاہ اور بحری مرکز میں بیٹھے ہوئے جرمنوں کے پُرجوش حملوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ یہاں بھی لینن گراڈ کی سی صورت پیش آئی، یعنی بم ،پھٹنے والے گولے، فضائی حملے، آگ اور دھوئیں کا طوفان، گودیوں، مورچوں اور زمین دوز مکانوں میں جنگ، بھوک اور بیماری۔ جون 1942ء میں خونریزی کمال پر پہنچ گئی۔ جرمنوں نے پوری قوت سے آتش زدہ شہر پر حملہ کر دیا۔ مدافعین میں سے بعض جنگی سامان کے ساتھ اڑ گئے، باقیوں نے تین جولائی کو ہتھیار ڈال دیے۔ ہر وہ چیز تباہ کی جا چکی تھی جو فوجی نقطہ نگاہ سے دشمن کے لیے کارآمد ہو سکتی تھی۔ اب جوش و خروش کا ہنگامہ شمال کی طرف منتقل ہو گیا، جہاں دریائے ڈان کے مشرق میں جرمنی نے 60 ڈویژن فوج ایک ہزار ٹینک اور تین ہزار جنگی طیارے جمع کر رکھے تھے۔ اس فوج کا ہدف دورونیز تھا، جو ایک صنعتی قصبہ تھا ا ور اس کی آبادی سوا تین لاکھ تھی۔ حملے کی ابتدا کر سک پر شدید ہوائی بمباری سے ہوئی جو مشرقی جانب تھا۔ سات جولائی 1942ء تک جرمنوں کے پیش رو بکتر بند دستے سو میل کا فاصلہ طے کر کے ڈان پر پہنچے، دریا عبور کیا اور دورونیز پر ہجوم شروع ہو گیا۔ روسیوں کے جوابی حملے نے جرمنوں کو مختلف مقامات پر دریائے ڈان سے بھی پیچھے دھکیل دیا۔ روسی حملے ایسے سخت تھے کہ جرمنوں نے فیصلہ کر لیا دورونیز کو ایک طرف چھوڑتے ہوئے سیدھے سٹالن گراڈ پہنچ جائیں جو جنوبی و مشرقی جانب واقع تھا۔ یہاں پر جمع جرمنوں کے منصوبے کا ایک حصہ ناکام ہو گیا، البتہ وسطی حصے سے ہٹلر کو خوشگوار خبریں مل گئیں۔ سباسٹوپول کے بعد مزید جرمن فوج کمک کے لیے آگئی، جس میں رومانیہ کے بھی متعدد ڈویژن تھے۔ اس طرح روسٹوف پر حملہ بڑی قوت سے کیا گیا۔ اس موقع پر روسیوں نے اپنے باون ٹن کے نئے ٹینک استعمال کیے۔ ان ٹینکوں میں تین تین انچ کی توپیں اور کلدار توپیں بھی نصب تھیں۔ یہ چھوٹے جرمن ٹینکوں کے مقابلے میں بہت مؤثر ثابت ہوئے لیکن ان کی تعداد زیادہ نہ تھی۔ 27 جولائی 1942ء کو روسیوں نے روسٹوف خالی کر دیا۔ پھر ہٹلر نے روسٹوف کی فاتح فوج دو بڑے حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک کو بحیرۂ اسود کے ساحل کی طرف بھیج دیا جس کا نصب العین قفقاز تھا تاکہ وہ علاقے کو صاف کرتی ہوئی باکو پہنچ جائے جہاں تیل کے چشمے تھے۔ اس فوج نے بندرگاہ نوروسسک پر قبضہ کر لیا جو سباسٹوپول کے مشرق میں ہے۔ عجیب امر یہ ہے کہ اس پر قبضے کا دعویٰ پانچ روز پہلے کر دیا گیا تھا۔ پھر اس فوج کے ہر اول دستے قفقاز اور تیل کے چشموں کی طرف بڑھے۔ انہوں نے مائیکوپ لے لیا لیکن گروزنی نہ پہنچ سکے۔ فوج کا دوسرا حصہ سٹالن گراڈ اور وارسا کی طرح بڑھا۔ ہٹلر چاہتا تھا کہ جلد سے جلد سٹالن گراڈ پر قبضہ کرے، اس طرح روسیوں پر ایک تباہ کن نفسیاتی ضرب لگائے۔ ساتھ ہی جرمنوں کی جنگی حیثیت مستحکم ہو جانے کی امید تھی۔ سٹالن گراڈ دریائے والگا کا کلیدی قصبہ سمجھا جاتا تھا۔ اس پر قبضہ کر لینے سے ہٹلر ماسکو اور لینن گراڈ کو منقطع ہی کر دیتا، بلکہ بحیرہ قزوین سے تیل حاصل کرنے کا راستہ بھی روک دیتا۔ اس غرض سے اس نے جنرل فریڈرک پالس کو تین لاکھ 30 ہزار بہترین فوج کا سالار بنا دیا۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں