1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سحر ہونے تک

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏6 جولائی 2011۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    دنیا کے زیادہ تر ممالک کی تاریخ جنگوں کے واقعات اور فتوحات اور شکستوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ اگرچہ ہر قوم اپنی فتوحات پر فخر کرتی ہے مگر یہ شکست ہے جو ان کی تاریخ اور ذہنوں پر نا قابل فراموش نہایت تکلیف دہ تاثرات چھوڑتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ذلت کا داغ لگ جاتا ہے۔ بعض اوقعات لاتعداد شکستوں کے بعد ایک اچھی فتح ایک قوم کی تاریخ میں ایک سنہرا باب بن جاتی ہے۔ نپولین کی لاتعداد بڑی فتوحات کے بعد جب اس کو روس پر حملے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو تاریخ کا رخ بدل گیا۔ اس کے بعد بیلجیم کے مقام واٹر لُو میں ایڈمرل نیلسن کے ہاتھوں مکمل شکست فاش ہوئی، گرفتار ہوا اور سینٹ ہیلنیا نامی جزیرہ میں قید کی زندگی گزار کر فوت ہو گیا۔ اسی طرح ہٹلر کی تمام بڑی بڑی فتوحات لینن گراڈ پر شکست سے خاک میں مل گئیں، فوج کی خود اعتمادی ختم ہوگئی فیلڈ مارشل پاؤلُسن نے ہتھیار ڈال دیئے اور بہت جلد ہٹلر کی فوجوں کو ہر جگہ شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجے میں روسی افواج نے برلن پر قبضہ کر لیا اور ہٹلر کو شرم و ذلت سے خودکشی کرنا پڑی ۔ نہ ہی فرانسیسی اور نہ ہی جرمن عوام اپنی تاریخ کی ان بدترین شکستوں کو بھلا سکتے ہیں ۔ اسی طرح پہلی جنگ عظیم میں اتحادیوں کی لاتعداد فتوحات پر گلی پولی کے مقام پر ترکوں سے شکست اور لاکھ کے قریب فوجیوں کی ہلاکت نے ان کی فتوحات پر صف ماتم بچھا دی۔ اس کے برعکس انگریزوں کی لاتعداد بدترین شکستوں کے بعد جنگ عظیم دوم میں فیلڈ مارشل منٹگمری کی جرمن فیلڈ مارشل رومیل پر مصر میں الامین کے مقام پر فتح نے تمام شکستوں کی لعنت و ذلت کو دھو دیا۔ اس طرح منگولوں کی لاتعداد شاندار (اور سخت ظالمانہ) فتوحات پر ترک مملوک سلطان ملک الظہیر بیبرس نے عین جالوت (اردن ) اور وان (مشرقی ترکی) کے مقامات پر تباہ کن شکستیں دے کر ذلت کی روشنائی پھیر دی۔ منگول پھر سنبھل نہ سکے۔ بد قسمتی سے ہماری ملکی تاریخ میں کوئی بھی قابل ذکر اور قابل فخر فتح نہیں ہے ۔ 16دسمبر 1971ئکی ذلت آمیز شکست اور ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کا واقعہ ہماری المناک تاریخ و شکستوں کا بدترین واقعہ ہے۔ یہ تاریخ کی ایک اور شکست تھی مگر میرے لئے ہمیشہ کے لئے نہایت دردناک یادداشت بن گئی۔ میں جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کا جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالنا اور دستخط کرنا زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ جوں جوں 16دسمبر کا دن قریب آتا جاتا ہے میرا دل دکھ سے بیٹھا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ ہمیں ماضی کو بھول جانا چاہئے، عقل و فہم کی کمی کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے نہ کہ اس کو بھول کر وہی غلطیاں دہرائیں اور ذلت و تباہی کا شکار ہوں۔
    اکتوبر 1971ء میں میں نے اپنی ڈاکٹریٹ کی تھیسس مکمل کر لی تھی اور داخل کر چکا تھا۔ پچھلے کئی ماہ سے اپنے کام سے متعلق بین الاقوامی رسالہ جات میں ریسرچ مقالہ جات شائع کر رہا تھا مگر چند ماہ سے نہ دماغی سکون تھا اور نہ ہی کام میں دل لگ رہا تھا۔ مجھے ایک کتاب کی تکمیل کرنا تھی جو اپنے ہالینڈ کے پروفیسر ڈاکٹر ولیم برگرس کی سالگرہ پر ان کو پیش کرنا چاہتا تھا۔ میں نے دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کے بین الاقوامی شہرت یافتہ پروفیسروں سے اس کتاب کے لئے مقالے لکھوائے تھے اور خود بھی ایک مقالہ لکھا تھا اور یہ کتاب ہالینڈ کی مشہور کمپنی نے شائع کی تھی جو ایک بڑی تقریب میں ڈیلفٹ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں جس میں امریکہ ، انگلستان، فرانس ، جرمنی ، آسٹریا ، ہالینڈ وغیرہ کے پروفیسروں نے شرکت کی تھی، پروفیسر برگرس کو پیش کی گئی تھی۔
    جب مارچ 1971ء میں یحییٰ خان نے جنرل ٹکا خان سے مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کرایا تو میں نے یہی یقین کیا کہ واقعی مشرقی پاکستان والے دہشت گرد ہندوستانیوں کی مدد سے وہاں گڑ بڑ کرا رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ جب اخبارات اور ٹی وی نے حقائق بیان کرنے شروع کئے تو دماغ الجھن میں پڑ گیا۔ میں نے کراچی میں ایوب خان کے ابتدائی دور میں فوجیوں کو دیکھا تھا اور میرے دل میں ان کے لئے بے حد عزت تھی مگر اب جب نہتے بنگالیوں کا قتل عام دیکھا، ہزاروں حاملہ لڑکیوں کو دیکھا اور نہایت اندوہناک تصاویر دیکھیں کہ کتے بچوں کی لاشیں گھسیٹ رہے تھے اور ان کو کھا رہے تھے تو بے حد دکھ ہوا۔ میرے ساتھ بازو والے فلیٹ میں ڈاکٹر عبدالمجید ملا اور ان کی بیگم ڈاکٹر عائشہ قیام پذیر تھے۔ میڈیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کر رہے تھے ، ڈھاکہ سے تھے اور ہمارے بے حد اچھے دوست تھے اور فرشتہ خصلت تھے ۔ ان کی دو بچیاں ہماری بچیوں کی ہم عمر تھیں اور بے حد اچھی دوست تھیں ۔ ہمارے تعلقات میں فرق نہیں آیا مگر جب ملتے تھے تو اندرونی طور پر یہ احساس ہو رہا تھا کہ درمیان میں خلیج پیدا ہو رہی ہے۔ لیوون یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ نے پاکستان کے خلاف جب مظاہرے کا انتظام کیا تو میں نے سمجھا بجھا کر وہ ملتوی کر دیا کہ طلبہ اور اساتذہ کو سیاست میں نہیں پڑنا چاہئے۔ اس کے بعد 16دسمبر 1971ء کا دن آیا اور مجھے اپنی آنکھوں سے وہ سیاہ ترین دن بھی دیکھنا پڑا جب جنرل امیر عبداللہ خان نیازی پلٹن میدان میں بیٹھ کر ہندوستانی جنرل اروڑا کے سامنے شکست نامے اور ہتھیار ڈالنے کے معاہدہ پر دستخط کر رہے تھے۔ میں کئی دن نہ سو سکا، بھوک مر گئی اور کئی کلو وزن کم ہو گیا اور یہی افسوس کرتا رہا کہ اللہ پاک تو نے مجھے یہ منحوس دن کیوں دکھانے کو زندہ رکھا۔ جس وقت مغربی پاکستان کی فوج نے مشرقی پاکستان میں بدنام زمانہ آرمی ایکشن شروع کیا اس وقت ہمارے انقلابی مرحوم شاعر حبیب جالب نے یہ قطعہ کہا تھا۔
    (1971کے خون آشام بنگال کے نام )
    محبت گولیوں سے بو رہے ہو
    وطن کا چہر ہ خوں سے دھو رہے ہو
    گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
    یقین مجھ کوکہ منزل کھو رہے ہو
    بعد میں معتبر ذرائع سے یہ بھی پتہ چلا تھا کہ فوج نے سو سے زیادہ بنگالی دانشوروں کو گرفتار کر کے ڈھاکہ کے باہر قتل کر کے اجتماعی قبر میں دفن کر دیا تھا۔ مجھے ان باتوں پر یقین نہ آتا تھا لیکن جب پاکستان آیا اور میرے ساتھ کام کرنے والے پرانے فوجی سپاہیوں اور نچلے درجہ کے افسران سے تفصیلات کا علم ہوا تو میرا سر شرم سے جھک گیا۔ رہی سہی کسر مشرف نے اپنی ہی فوج کو عوام کے خلاف استعمال کر کے اور لال مسجد میں معصوم بچوں کو فاسفورس بم سے جلا کر اور مار کر پوری کر دی۔
    میں 1972ء کے اوائل میں امسٹرڈم چلا گیا اور وہاں یورینیم کی افزودگی میں مہارت حاصل کی۔ مجھے پھر بھی ہر وقت 16دسمبر 1971ء یاد آ کر دکھ دیتا رہتا تھا، جب 18مئی 1974ء کو ہندوستان نے دنیا کو دھوکہ دے کر ایٹمی دھماکہ کیا اور بھٹو صاحب کی بار بار وارننگ کو نظر انداز کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اب پاکستان کا قیام و وجود بہت خطرہ میں پڑ گیا ہے اور ہندوستان ہمیں چند سالوں میں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا مگر جب اواخر 1975ء میں پاکستان آیا تو بھٹو صاحب نے درخواست کی کہ میں واپس نہ جاؤں اور رک کر ایٹم بم بناؤں ، باقی حالات کہ کس طرح سب کچھ چھوڑا، کتنی خطیر تنخواہ پر کام کیا اور کن کن مشکلات و سازشوں کا سامنا کرنا پڑا، اب ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ میرے رفقاء کار اور میں نے نہایت کم عرصہ میں اس ملک کو ایک ایٹمی اور میزائل قوت بنا دیا اور ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ میں نے اربوں ڈالر کی ٹیکنالوجی دی اور اس کا الگ سے ایک پائی معاوضہ نہیں لیا ،میرے خلاف لکھنے والے مغربی رائٹرز بھی یہ تسلیم کرتے ہیں ۔وہ فوج جو ذلت سے ہتھیار ڈال کر 2 سال قید میں رہی ،جن کو میں نے ہندو فوجیوں سے ڈنڈے اور لاتیں کھاتے دیکھا تھا اور جو واحد طور پر میرے کام سے مستفید ہوئی اس نے میرے ساتھ جو سلوک کیا وہ اس ملک کی تاریخ میں ایک سیاہ ترین باب رہے گا۔ ٹیکنالوجی میری تھی، میں لایا تھااور پاکستان نے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا تھا اور ہم نے این پی ٹی (NPT)اور این ایس جی (NSG)پر دستخط بھی نہیں کئے تھے، پھر بھی ایک کم ظرف ڈکٹیٹر نے مجھے ذلیل کرنے کی کوشش کی۔ ناکام رہا اور خود ذلیل ہو کر چلا گیا مگر ملک کو تباہ کر گیا۔
    احمد فراز مرحوم نے ڈھاکہ میں فوجی میوزیم دیکھ کر جن احساسات کا اظہار کیا ہے وہ ہم سب کی ترجمانی کرتے ہیں
    ( بنگلہ دیش ۔ ڈھاکہ میوزیم دیکھ کر)
    کبھی یہ شہر میرا تھا زمین میری تھی
    مرے ہی لوگ تھے میرے ہی دست و بازو تھے
    میں جس دیار میں بے یار و بے رفیق پھروں
    یہاں کے سارے صنم میرے آشنا رو تھے
    کسے خبر تھی کہ عمروں کی عاشقی کا مآل
    دل شکستہ و چشم پُر آب جیسا تھا
    کسے خبر تھی کہ اس دجلہٴ محبت میں
    ہمارا ساتھ بھی موج و حباب جیسا تھا
    خبر نہیں یہ رقابت تھی نا خداؤں کی
    کہ یہ سیاست درباں کی چال تھی کوئی
    دو نیم ٹوٹ کر ایسی ہوئی زمیں جیسے
    مری اکائی بھی خواب و خیال تھی کوئی
    یہ میوزیم تو ہے اس روز بد کا آئینہ
    جو نفرتوں کی تہوں کا حساب رکھتا ہے
    کہیں لگا ہوا انبار استخواں تو کہیں
    لہو میں ڈوبا ہوا آفتاب رکھتا ہے
    کہیں مرے سپہ سالار کی جھکی گردن
    عدو کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا سماں
    مرے خدا میرے بینائی چھین لے مجھ سے
    میں کیسے دیکھ رہا ہوں ہزیمت یاراں
    ستم ظریفی یہ دیکھئے جو کام میں نے کیا جس کی وجہ سے مشرف اور اس کے ساتھی ذلت کے بجائے سر اٹھانے کے اور سیدھا چلنے کے قابل ہوئے، انہوں نے جو کچھ میرے ساتھ سلوک کیا اسے احسان فراموشی ہی کہ سکتے ہیں۔ اگر جناب بھٹو، غلام اسحاق خان، جنرل ضیاء الحق اور محترمہ بینظیر بھٹو اس پروگرام کو نہ چلنے دیتے اور مدد نہ کرتے اور جناب میاں نواز شریف جرأت اور حب الوطنی کا مظاہرہ نہ کرتے تو ہم سب ایل کے ایڈوانی کے حکم اورخواہش کے مطابق گردنیں جھکا کر اور ادب سے اس کے سامنے مارچ کر رہے ہوتے۔ جوں جوں دسمبر آتا ہے دل سے ایک ہی دعا ایک ہی التجا نکلتی ہے ۔
    یاد ماضی عذاب ہے یارب
    چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
    ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جو لوگ اپنی گزشتہ غلطیوں سے سبق نہیں حاصل کرتے وہ پھر وہی غلطیاں دہراتے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اب بھی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا ۔ ہم اب پھر اپنے عوام کا قتل عام کر رہے ہیں اور امریکیوں سے بھی یہ کام کروا رہے ہیں اور ہمیں اس بات پر قطعی شرم نہیں آتی کی غیر ملک ہمارے ملک میں کھلے عام حملے کر رہا ہے اور لاتعداد بیگناہ مرد عورتوں اور بچوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ہمارے ملک پر کبھی اتنا بڑا وقت نہیں آیا ۔ہمارا بنیادی ڈھانچہ پاش پاش ہو گیا ہے۔ (معذرت :جو اشعار میں نے اس کالم میں رقم کئے ہیں وہ میں گزشتہ برس بھی اپنے کالم ”یادماضی عذاب ہے یارب“میں لکھ چکا ہوں مگر کیا کروں، برسوں پہلے سے میری ڈائری کا حصہ بننے والے یہ اشعار میری زندگی کے ایک اہم موڑ کے ترجمان ہیں۔جب بھی 16 دسمبر آتا ہے ان اشعار سے لہو رسنے لگتا ہے)۔


    ڈاکٹر عبدالقدیر خان
     

اس صفحے کو مشتہر کریں