1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سبز پری

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏2 جون 2011۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    سبز پری
    (آصفؔ احمد بھٹی)

    بہار کی خوبصورت دن تھے اور مری کی وادی میں بہار کا موسم تو ہمیشہ سے اپنی بھر پور جوانی پہ ہوتا ہے ، ہر طرف سبز قالین بچھ جاتی ہے ، خوبصورت اور مہکتے ہوئے جنگلی پھول کھل اُٹھتے ہیں جن کی مہک پوری فضا کر معطر کردیتی ہیں ایسے ہی خوبصورت دنوں میں وہ لوگ ہمیشہ کچھ دن اپنی مری والی کوٹھی میں ہی گزارتے تھے اور اِس بار بھی وہ لوگ اسلام آباد سے چل پڑے تھے ، ہمیشہ کی طرح آج بھی زاہد خود ڈرائیونگ کر رہا تھا اوراُس کے ساتھ پیسنجر سیٹ پر ثوبیہ بیٹھی ہوئی تھی اسد اور نوال پچھلی سیٹ پر تھے اور نوال اپنی عادت کے مطابق سیٹ سے ٹیک لگائے اسد کے کندھے پر سر رکھ کر سو چکی تھی ، مری کے مضافات میں داخل ہوتے ہی اسد نے نوال کو جگانے کی کوشش شروع کر دی تھی وہ نیند کی بہت گہری تھی مگر جب اُن کی گاڑی اپنی کوٹھی کے مین گیٹ پر رکی اور چوکیدار نے گاڑی کے لیے گیٹ کھول دیا تب اسد نے نوال کو تقریبا جھنجھوڑ ہی دیا ۔
    کیا ہے بھائی۔وہ جھنجھلا کر بولی، وہ اسد سے پانچ سال چھوٹی تھی۔
    اُٹھو بئی!ہم لوگ پہنچ گئے ہیں۔ثوبیہ نے کہا نوال اُٹھ بیٹھی اور آنکھیں مل کر دیکھنے لگی اسداورزاہد اُتر کر سامان اُتارنے لگے۔
    مجھے پہلے کیوں نہیں جگایا۔نوال نے منہ بنالیا۔
    کب سے تو جگارہاتھا۔اسد نے بیگ نیچے رکھتے ہوئے کہا۔
    اچھا!وہ شرمندہ سی ہوگئی یہ بات وہ بھی جانتی تھی کہ وہ نیند کی بہت پکی ہے چوکیدار بھی گیٹ بند کرکے آگیا۔
    السلام وعلیکم جی۔اُس نے سب کوسلام کیا زاہد اور اسد نے اُسے ہاتھ ملایاوہ مری کا ہی رہنے والا پکی عمر کا آدمی تھا۔
    کیسے ہوصیدعلی ۔زاہد نے پوچھا۔
    مالک کا بڑا کرم ہے جی۔وہ اسد سے بیگ لیتے ہوئے بولا۔میکی دیو جی(مجھے دیں جی)ہمیشہ کی طرح نوال اُسکی گلابی اردو پر ہنس دی وہ بھی ہنس دیا۔
    نکی بی بی جی !تساں(آپ) میرامذاق کرتی ہیں۔اور ہنستا ہوا دو بیگ پکڑکر گھر میں داخل ہوگیا باقی دو بیگ اسد نے اُٹھالیے وہ سب بھی اُس کے پیچھے گھر میں داخل ہوگئے اس نے بیگ لیونگ ہال میں رکھ دئیے اور ثوبیہ کی طرف دیکھنے لگا۔
    باقی ہم لوگ کرلینگے۔ثوبیہ اُسکے انداز سے ہی سمجھ گئی۔
    ہلاجی(اچھا جی)۔اُس نے سر ہلادیا۔
    صید علی! کوئی پریشانی تو نہیں ہے۔زاہد نے پوچھا
    نا جی!وہ مسکرایا۔مالک کابڑا کرم ہے جی سوہنڑے دن گزررہے ہیں۔نوال پھر ہنس دی۔میں ہونڑ جُلاںجی(میں اب جاؤں جی)۔اُس نے پوچھا۔
    یہ کچھ پیسے رکھ لو۔زاہد نے جیب سے کچھ کرنسی نوٹ نکال کرکہا۔کچھ کھانے پینے کا سامان لے آنا۔
    سامان تو سب موجود ہے جی۔اُس نے جواب دیا۔فر وی بی بی جی دیکھی کِنُن کِجھ کاہٹ ہوتے لے آؤں (پھر بھی بی بی جی دیکھ لیں کچھ کم ہو تو میں لے آؤں)۔
    اچھا ٹھیک ہے تم جاؤآرام کرو۔زاہد نے کہا۔
    اچھا جی! وہ سلام کرکے باہر نکل گیا ثوبیہ سامان نکالنے لگی نوال بھی اُس کاہاتھ بٹانے لگی زاہد اپنے کمرے میںچلا گیااور وہ خود اُوپر ٹیرس پر آکر کھڑاہوگیاموسم بہت دلکش اور بھیگا ہوا تھااُسکی پلکوں کے کنارے بھی کچھ بھیگ گئے ایک عجب سی اُداسی اُس کی آنکھوں سے جھلکنے لگی تھی وہ وادی میں دور دورپھیلے چمکتی چھتوں والے گھروں کو دیکھنے لگا اور یہ سب اُس کے ساتھ پچھلے تین سالوںسے ہورہا تھا جانے کتنی دیر گزر گئی اُسے وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔
    بھائی!نوال نے اُسے پکارا۔
    ہنہ!وہ چونکا۔
    گھومنے چلیں۔نوال نے مسکرا کر پوچھا اسد کچھ کہے بغیر اُس کے ساتھ چل پڑا نیچے پہنچا توزاہد اور ثوبیہ بھی تیار تھے وہ چاروں پیدل ہی گھر سے نکل آئے کچھ دیر پہلے ہلکی سی بارش ہوئی تھی ہر شے نکھری ہوئی تھی ہر طرف سوندھی سوندھی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ، وہ چاروں کافی دیر گھومتے رہے مگر ایک موڑ مڑتے ہوئے اسد کی دل کی دھرکنیں تیز ہوگئی ، تین سال پہلے یہیں پر اُس کا دل پہلی بار کچھ دیر کے لیے دھڑکنا بھولا تھا، یہیں پہلی باروہ دُکھی ہوا تھا اور یہیں پر اُداسی سے اُس کا تعارف ہوا تھا، اسد سڑک کے کنارے ٹوٹے ہوئے شیڈکے نیچے اُسی بینچ کے پاس جا کھڑا ہوا جہاں تین سال پہلے ایسی ہی اُس بھیگی سی شام اسد نے اُس چھوئی موئی سی لڑکی کو بارش میں بھیگتے ہوئے بیٹھے دیکھا تھاجو اُسے دیکھ کر مزید سمٹ گئی تھی اور اُس وقت یہاں صرف بینچ ہی پڑا ہوا تھا اب بھی اُس پر کوئی شیڈ نہیں تھا ،اسد کی نظریں نیچے وادی میں پھیلے چمکتی چاد رکی چھتوں والے گھروںپر جم گئی اُس نے سوچاجانے وہ کس گھر میں رہتی ہوگی کتنی ہی دیر ہوگئی وہ یونہی کھڑا رہا۔
    اسد!زاہد نے پکارا تو وہ چونکاوہ تینوں کچھ دور کھڑے اُسے ہی دیکھ رہے تھے۔کیا ہوارک کیوں گئے۔
    کچھ نہیں بھیا۔وہ مسکرایا۔بس یونہی۔
    بس یونہی!زاہدکھلکھلاکر ہنس دیااورثوبیہ کو دیکھتے ہوئے بولا۔اکثر یونہی بیٹھے بیٹھے گم ہوجاتا ہوں،میں اب اکثر میں نہیں رہتا تم ہوجاتا ہوں۔ اسد بھی ہنس دیا اور تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا اُن کے پاس آگیا۔
    بھائی!آپ جب بھی یہاں آتے ہیں اس شیڈ کے پاس کیوں رک جاتے ہیں۔نوال نے پوچھااسد نے کوئی جواب نہیں دیا بس مسکرا دیا۔
    بیٹا جی ! اس عمر میں یہ سب ہوتا ہے۔زاہد مسکرا کر بولا۔
    بھیا!آپ بھائی کی شادی کیوں نہیںکرواتے۔نوال نے پوچھا۔
    بیٹا جی شادی کے لیے ایک لڑکی کا ہونا بھی ضروری ہے۔زاہد ہنس کر بولا۔اوروہ آپ کے بھائی اب تک ڈھونڈہ نہیں سکے۔
    بھیا!ابھی تو اک عمر پڑی ہے۔اسد نے جان چھڑائی۔
    کتنی لکھوا کر آئے ہو۔زاہد نے پوچھا۔
    جی!وہ چونکا مگر پھر بات سمجھ کر مسکرادیا۔یہ تو معلوم نہیں۔
    تو میاں معلوم کرو۔زاہد ہنس دیا۔عمر کے یہ دن بہت قیمتی ہوتے ہیں۔وہ پھر ہنس دیا۔
    پھوپھی جی کچھ لڑکیوںکی تصویریں لائی تھیں۔ثوبیہ زاہد کی طرف مڑ کر بولی۔مگر اس نے دیکھی ہی نہیںاور اُنہیں لوٹا دیں۔
    ہاں بھیا!نوال جلدی سے بولی۔اُن میںایک لڑکی تو بہت ہی خوبصورت تھی مجھے بہت پسند آئی تھی۔
    کیوں میاں!زاہد نے اسد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔اب تمہارا سوئمبر رچانا پڑے گا۔اسد اورثوبیہ ہنس دیئے۔
    سوئمبر!نوال چونکی۔بھیا!وہ کیا ہوتا ہے۔
    بیٹا! پرانے وقتوں میں ہندوستان کے راجہ اپنی راجکماریوں کی شادی سوئمبر رچا کر ہی کرتے تھے۔زاہد نے سمجھایا۔
    مگر یہ ہوتا کیا ہے۔نوال نے پھرپوچھا۔
    راجہ سب خوبصورت وبہادر راجکماروںاور راجوں کواپنے دربار میںبلاتاوہ سب قطارمیںکھڑے ہوجاتے پھرراجکماری پھولوں کی مالا لیکر اُن کے سامنے سے گزرتی جو راجکمار یا راجہ اُسے پسند آجاتا راجکماری اُس کے گلے میں وہ مالاڈال دیتی تھی اورپھر اُن کی شادی ہو جاتی تھی۔
    واؤ!نوال مسکرائی۔زبردست ،بھائی مزہ آجائیگا۔
    مزے کی بچی!اسد نے اُسکی چُٹیا پکڑلی۔سوئمبر لڑکیوں کا ہوتا ہے ۔
    کوئی بات نہیں!نول اپنے بال اُسے چھڑاتے ہوئے بولی۔ہم اپنے راجکمار کا کرلینگے راجکمارکو جو راجکماری پسند آئی وہ اُسکے گلے میں ہار ڈال دیگا۔اور چاروں ہنس دئیے ۔
    تین سال پہلے جب وہ سیکنڈائیرمیں تھاتب وہ اورعلی کچھ دنوں کے لیے مری آئے علی اُن کی پھوپھی جی کا بیٹا تھا اوراُس کی منگنی نوال کے ساتھ ہو چکی تھی ، اُن دنوں اُن کا چوکیدار صید علی اپنی بھتیجی کی شادی میںشرکت کے لیے قریب ہی واقع اپنے گاؤں گیا ہوا تھا ستمبر کے آخری دن تھے اُسے آج بھی یاد تھا کہ ستمبر کی اُس ہلکی سی سرد شام جب آسمان پر بادل گہرے ہوئے تھے اوربارش کا بھی امکان تھا علی دوپہر کا کھاناکھاکر کسی کام سے چلا گیااسدگھر میں اکیلا رہ گیا اور تنہائی سے اُکتا کر وہ بھی گھر سے نکل آیا ، ہلکی ہلکی ٹھنڈ بھی تھی اور بارش کا امکان بھی تھا اِس لیے اُس نے لیدر کا اوور کوٹ پہن لیا ، یہ اوور کوٹ زاہد اُس کے لیے اسپین سے لایا تھا اور اُسے بہت عزیز تھا کئی بار علی کے مانگنے پر بھی اُس نے وہ علی کو نہیں دیا تھا ، یونہی بے مقصد چہل قدمی کرتا ہوا وہ پنڈی پوائنٹ کی طرف چلا آیا وہاںکچھ اور لوگ بھی موسم کا لطف لے رہے تھے کچھ لوگ لفٹ چیئر کا مزہ بھی لے رہے تھے اسدبھی وہیں ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ کردلکش نظاروں میں کھو گیاکچھ دیر بعدہلکی ہلکی بوندیں گرنے لگی اُس کا بدن سیراب ہونے لگا اُس پر سرشاری سی طاری ہونے لگی وہ کوٹ اُتار کر بھیگنے لگا ، کچھ دیر میں بارش قدرے تیز ہو گئی اور وہاں موجود لوگ اِک ایک کر کے وہاں سے جانے لگے آخر وہ وہاں اکیلا ہی رہ گیاکافی دیر بھیگتے رہنے کے بعد جب اُسے سردی لگنے لگی تواُس نے اُٹھ کراپناکوٹ پھر پہن لیا اورگنگناتے ہوئے وآپس گھر کی طرف چل پڑا، سڑک سے ہٹ کر ایک ٹیلے پر بنازرد رنگ کا وہ ویران کاٹج دور سے ہی نظر آرہا تھا جانے کیوںوہ ہمیشہ اُس کی توجہ کا مرکز رہا تھا وہ کاٹج ہمیشہ سے ویران تھا اور علی اُسے بھوت بنگلہ کہتا تھا کاٹج کی زرد رنگی عمارت کے پاس گزرتے ہوئے اُس کے قدم رک گئے اور گنگناہٹ کی آواز حلق میں ہی کہیں دب کر رہ گئی، کچھ فاصلے پر سڑک کے کنارے رکھے بینچ پر ایک لڑکی سکڑی سمٹی بیٹھی سہمی سہمی نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی ، لڑکی نے ایک بڑی سی چادراوڑھ رکھی تھی جس میں صرف چہرہ نظرآرہا تھاچادر بھی بھیگ کر اُسکے بدن سے چپک گئی تھی وہ سردی سے بری طرح کانپ رہی تھی وہ چند لمحے بے خودسا اُسے دیکھتا رہالڑکی کچھ اور سمٹ گئی اسدکے قدم خودبخود لڑکی کی طرف اُٹھ گئے وہ مزید سکڑ گئی اسد اُس کے پاس آکر رک گیااتنی خوبصورت لڑکی اُس نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی تھی رنگت اتنی گوری تھی کہ چہرہ چمکتا ہوا دکھائی دیتا تھا ہونٹ اتنے گلابی تھے کہ جیسے ابھی لہو پھوٹ پڑیگا وہ چھچھورا نہیں تھا مگر اُس کی نظریں لڑکی کے چہرے سے چپک کررہ گئی اُسے کسی چیز کا ہوش نہ رہاکتنی ہی دیر گزر گئی ۔ ۔ ۔ لڑکی خوف یاشایدسردی سے بری طرح کانپ رہی تھی اسد نے اپنااور کوٹ اُتارا اورلڑکی کی طرف بڑھادیامگر لڑکی اپنی جگہ ہلی تک نہیں، بس اُس کے ہاتھ میں پکڑے کوٹ کو دیکھتی رہی کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد اسد نے کوٹ اُس کے پاس بینچ پر رکھ دیا ، لڑکی اب بھی چھوئی موئی بنی رہی ، اسد اپنے اندر کچھ ٹوٹ پھوٹ محسوس ہوئی اُس کے لیے مزید وہاں رُکنا مشکل ہو رہا تھا ، وہ چند لمحے اُسے دیکھتا رہا پھرہمت کر کے آگے بڑھ گیاحالانکہ پاؤں من من بھاری ہو رہے تھے ، ہر ہر قدم جیسے زمین سے چپک چپک جا رہا تھا اور دل پلٹ کر اُسے دیکھنے کی التجائیں کر رہا تھا ،کچھ دور جاکر اُس نے مڑ کر دیکھ بھی لیا، لڑکی نے کوٹ اُٹھالیا تھا اور اب اپنا بھیگا بدن اُس میں چھپارہی تھی کوٹ اُسے کافی کھلا تھا اسدکے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ، لڑکی نے بھی ایک پل کے لیے نظر اُٹھا کر اُسے دیکھا اور اگلے ہی لمحے اُس نے اپنی نظر جھکا لی اسد پھرمسکرادیااور گھر کی طرف چل پڑا، اب وہ قدرے مطمئن تھا ، گھر پہنچا تو بارش میں بھیگنے کی وجہ سے اُسے ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی علی پہلے سے ہی موجود تھاوہ سیدھا باتھ روم میں گیا اور کپڑے چینج کئے۔
    کہاں نکل گئے تھے شہزادے۔علی نے پوچھا۔
    کہیں نہیںیار۔وہ مسکرایا اور تولیے سے بھیگاسرپونجھنے لگا۔یونہی گھومنے نکل گیا تھا۔
    اس ٹھنڈ میں بارش میں بھیگنے کی کیا تُک تھی۔علی نے پوچھا۔
    میں بارش شروع ہونے سے پہلے نکلا تھا۔اسد نے جواب دیا۔
    مگر بارش گھنٹے بھر سے ہورہی ہے۔علی نے چبتے ہوئے لہجے میں کہا۔
    بس یونہی آوارہ گردی کررہا تھا۔اسد نے جان چھڑاتے ہوئے کہاٹھنڈ سے اُسکے دانت بجنے لگے تھے۔
    تو کوٹ پہن جاتا۔علی بولامگر ہینگر خالی دیکھ کر چونکا۔اوئے!تیرااور کوٹ کہا ںہے۔
    وہ میں نے کسی کو ہدیہ کردیا ہے۔اسد نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا۔
    ہدیہ۔علی پھرچونکا۔
    جی ہاں!اسد نے جواب دیا۔
    یہ مہربانی کس پر ہوئی ہے۔علی نے پوچھا۔
    معلوم نہیں کون تھی۔اسد نے جواب دیا۔
    تھی!علی کے کان کھڑے ہوگے۔ کیا مطلب تھی؟
    وہ کوئی بہت ہی خوبصورت پری تھی!اسد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
    پری ! علی کی حیرت ابھی باقی تھی ۔ بہت ہی خوبصورت پری ۔
    ہاں ۔اسد پھر مسکرایا اور خیالوں میں کھو گیا۔بہت ہی خوبصورت پری ۔
    یہ پری تجھے ملی کہاں ؟علی نے پوچھا ۔
    ہاں۔ اسد کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا ۔ کیا کہا ۔
    حضور میں نے عرض کیا ہے کہ آپ کو وہ بہت ہی خوبصورت پری ملی کہاں ؟
    اُسی زرد کاٹج کے پاس ۔ اسد نے جواب دیا ۔
    پھر تو یقینا کوئی بھوت ہوگی ۔علی جلدی سے بولا۔
    اگر بھوت اتنے خوبصورت ہوتے ہیں تو پھر اللہ کرے تم بھی بھوت بن جاؤ۔ اسد ہنس کر بولا۔
    کوئی لڑکی تھی کیا ؟ علی نے قدرے سنجیدگی سے پوچھا اور اسد نے صرف سر ہلا دیا ۔
    میںنے تجھ سے مانگا تھا تو تو نے نہیں دیا اور آج ایک انجان لڑکی کو دے آیا ہے ۔علی قدرے بگڑ کر بولا۔
    یار وہ کوئی انجان لڑکی نہیں تھی ۔اسد نے احتجاج کیا ۔
    تو کیا تیرے تایا کی بیٹی تھی ۔علی کو غصہ آگیا۔
    نہیں۔ اسد ہنس دیا۔ وہ میرے تایا کی بیٹی تو نہیں تھی مگر انجان بھی نہیں تھی۔
    تو اُسے پہلے سے جانتا ہے ؟ علی نے پوچھا ۔
    ہاں ۔اسد نے جواب دیا ۔
    کب سے ؟ علی نے حیرت سے پوچھا۔
    پتہ نہیں ۔ اسد نے جواب دیا۔ شاید ہمیشہ سے ۔
    گھاس تو نہیں کھا آیا ۔علی کو مزید غصہ آگیا اسداُس کی بات سنے بغیر ہی کچن میں جاگھسا اور اپنے لیے کافی بنانے لگا۔
    کافی پیو گے۔اسد نے کافی کا برتن چولہے پر رکھتے ہوئے کچن میں سے آواز لگائی مگر علی خاموش رہا ۔
    میں نے پوچھا ہے کافی پیو گیا؟مگر علی اب بھی خاموش رہا۔
    یہ بلب کیوں نہیں جل رہے؟اسد نے کچن سے جھانک کر پوچھا۔
    بارش کے بعد سے ہی لائٹ نہیں ہے ۔ علی نے جواب دیا۔
    یعنی آج کی رات اندھیرے میں ہی گزرے گی ۔اسد نے کہا اور دوبارہ کچن میں گھس گیا اور کچھ دیر بعد دو کپ لیے وآپس آیااور ایک کپ اُسکے سامنے رکھ دیاعلی نے کپ اُٹھا لیااور چُپ چاپ پینے لگا۔
    تجھے کیا ہوا ہے؟اسد نے پوچھا۔منہ کیوں لٹکا رکھا ہے ۔
    بکواس بندکرو!۔علی چڑگیااسد ہنس دیااور پھر اُسے ساری بات بتادی۔
    ہنہ!علی نے ایک گہری سانس چھوڑی۔
    یار وہ بڑی خوبصورت تھی۔اسد نے کہا۔پہلی ہی نظر میں کچھ ہوگیا ہے۔
    یقیناتو نے اُس کانام بھی نہیں پوچھا ہوگا۔علی نے کہا۔
    نام!اسد چونک کر بولا۔یہ تو میرے دماغ میں ہی نہیں آیا۔
    میاں!دماغ والے لوگ اور ہوتے ہیں۔علی اپنا کالر اُٹھاتے ہوئے بولا۔
    اُس کے حسن کی شدت نے میرے حواس چھین لیے تھے۔اسد نے اعتراف کیا۔
    ابے جب اتنی مہربانی کی ہی تھی تو اُسے گھر تک ہی چھوڑ آتا۔علی نے پھر کہا۔جانے جنگل میں کہاں بھٹکتی پھر رہی ہوگی۔
    تیری تو۔اسد ایک جھٹکے سے اُٹھااور جوتے پہننے لگا۔
    کیا ہوا۔علی نے پوچھا۔
    یہ سب تومیں نے سوچا ہی نہیں تھا۔اسدجلدی سے بولا۔وہ اکیلی گھر کیسے جائیگی۔
    جیسے آئی تھی ویسے ہی چلی جائیگی۔علی نے جواب دیا ،پراسد نے جیسے اُس کی بات سنی ہی نہیں۔
    اسد ! اندھیرا پھیلنے لگا ہے اور لائٹ بھی نہیں ہے۔ علی نے پکارا مگر وہ تیزی سے گھر سے نکل بھاگاعلی آوازیں دیتا ہی رہ گیا بارش تیز ہوگئی تھی اور اندھیرا بھی قدرے پھیلنے لگا تھا ، وہ تقریبا بھاگتا ہوا وہاں پہنچا ،وہ وہاں نہیں تھی بینچ خالی تھا اسد نے آس پاس ہر جگہ دیکھ لیامگر وہ کہیں نہ ملی اسد پریشان ہوگیا اُس کا دھیان ویران کا ٹج کی طرف گیاوہ دوڑ کر کاٹج تک آیا کاٹج مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھااسد نے اُس کے چاروں طرف گھوم پھر کردیکھ لیامگر وہ کہیں نظر نہ آئی۔
    کہاں گئی ہوگی؟اُس نے خود سے سوال کیا۔کسی غلط آدمی کے ہاتھ نہ لگ گئی ہو؟وہ بیچین ہوگیا علی بھی اُسے ڈھونڈتا ہواآگیا۔
    عجیب آدمی ہو تم۔علی غصے سے بولا۔پاگلوں کی طرح دوڑے چلے آئے ہو جانتے نہیں کتنا خطرناک علاقہ ہے۔
    یار وہ یہاں نہیں ہے۔اسد نے جیسے اُسکی بات سنی ہی نہیں۔
    وہ کوئی بھوت ہوگئی۔علی جلدی سے بولا۔ورنہ کوئی لڑکی اِس وقت یہاں اکیلے کیا کرنے آئیگی۔
    بکومت۔اسد چلایا۔
    بھائی کیوں ٹھنڈ سے مروانا چاہتا ہے۔علی پھر بولا اور اسدکو پہلی بار ٹھنڈ کا احساس ہوامگر وہ بولا کچھ نہیں۔
    اپنا نہیں تو میرا ہی خیال کر لے۔علی پھر بولا۔
    مگر یار!اسد کچھ کہنا چاہتا تھا پر علی نے ٹوک دیا۔
    دیکھ یار اگر وہ یہاں ہوتی تو نظر آجاتی۔اسد نے ایک گہری سانس چھوڑی۔
    چلو گھر چلیں۔علی نے اُسے نرم پڑتے دیکھ کر کہا۔
    مم مگر!اسد ہکلایا۔
    صبح دیکھ لینگے۔علی اُسکا ہاتھ تھپتھپا کر بولااور اُسکا ہاتھ پکڑ کر گھر کی طرف چل پڑا گھر پہنچ کر بھی اسد کا دماغ وہیں اُلجھا ہوا تھا علی نے انگیٹھی میں مزید لکڑیاں ڈال دی تھی وہ دونوںکپڑے بدل کر اُسکے گردبیٹھ گئے۔
    یار وہ کہاں گئی ہوگی۔اسد نے پوچھا۔
    چُپکا بیٹھا رہ ورنہ بہت جوتے کھائیگا۔علی غصے سے بولا۔ٹھنڈ سے میری اُنگلیوں کے پورے تک سن ہوگئے ہیں اور تجھے اُس بھوتنی کی پڑی ہوئی ہے۔وہ ہاتھ رگڑ کر گرم کرنے لگا۔
    تو کیسا بھائی ہے یار۔اسد بھی چڑگیا۔بھائی کی حالت نہیں سمجھ رہا۔
    ابے گدھے!علی نے اُسکی گدی پر ایک چپت رسید کی۔یہ سب تو تجھے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔
    یار اُسے دیکھ کر میرے حواسوں نے کام کرنا ہی چھوڑدیا تھا۔اسد نے جواب دیا۔میں تو اُس سے کوئی بات بھی نہیں کرسکا جیسے وہ کوئی سبز پری تھا اوریہ سب کچھ خواب میں ہوا تھا۔
    تواُسے شہزادے کا خواب سمجھ کر بھول جا۔علی نے جواب دیا۔
    شہزادے نے تو دشوار ترین پہاڑوں میںساٹھ برس کے سفر کے بعد اپنی سبز پری کو پالیا تھا۔اسد نے جواب دیا۔
    وہ سب تو بچوںکو بہلانے کے لیے قصے کہانیا ںہے۔علی نے جواب دیا۔ورنہ ساٹھ برس بعد تو اپنے بچے بھی نہیں پہچانتے وہ بھی کہتے ہیں بڈھے اب توجان چھوڑ۔اسد ہنس دیا۔
    مگر پھر بھی یاروہ کہاں گئی ہوگئی۔اسد نے سوچتے ہوئے پوچھا۔
    وہ مجھے بتاکر گئی ہے کیا۔علی چڑگیا۔کسی جنگلی جانور کے ہتھے چڑھ گئی ہوگی۔
    بکو مت!اسد غصہ ہوگیا۔علی کچھ نہ بولا اور غصے سے اُسے دیکھنے لگاکچھ دیر یونہی گزر گئی پھراسد اُٹھ کر ٹہلنے لگا۔
    مجھے تو نیند آرہی ہے۔علی خمار بھرے لہجے میں بولا۔تم بھی جب پریڈ کرتے کرتے تھک جاؤ تو جاکر سوجانا۔
    یارعلی! نیچے گاؤں میں تو ہم نے معلوم ہی نہیں کیا۔اسد سوچتے ہوئے بولا۔
    گاؤں میں اس وقت تیرا کونساتایا جاگ رہا ہوگا۔علی غصے سے بولا۔
    رات کے نو ہی بجے ہیں۔اسد گھڑی دیکھ کر بولا۔
    اُلو کے پٹھے یہ پہاڑی علاقہ ہے۔علی کا غصہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔یہاں لوگ سرِشام ہی بستروں میں گھس جاتے ہیں۔
    تو پھرٹارچ لیجاکر چیک کرلیتے ہیں۔اسدجلدی سے بولا علی نے سر پکڑلیا۔
    بھائی!تجھے جو کرنا ہے کربس مجھے معاف رکھ۔علی ہاتھ جوڑ کرہار مانتے ہوئے بولا۔ وہاں الماری میں ٹارچ رکھی ہے لیجا اور جاکر اپنی محبوبہ کوتلاش کر اور اگر جنگل میں کہیں اُسکی کسی درندے کی ادھ کھائی لاش نہ ملے تو نیچے گاؤں میں چلے جانا شایدکسی اللہ کے بندے نے تمہاری اُس بھوتنی کومہمان بنا رکھا ہو۔
    تم کوئی اچھی بات نہ کرنا۔اسد بگڑ گیا۔
    اچھی بات اور اچھے کام کرنے کے لیے اللہ نے تمہیں جو پیدا کیا ہے۔علی نے جواب دیا اور اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اسد کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر الماری سے ٹارچ نکال کر دوبارہ گھر سے نکل گیا ٹارچ انتہائی طاقتور تھی اوراتفاق سے پوری طرح چارج بھی تھی بارش رک چکی تھی مگرسردی کافی بڑھ گئی تھی یخ ہواؤں نے اُس پر کپکپی طاری کردی اُس نے آس پاس کا سارا علاقہ کئی بار دیکھ ڈالالائٹ ابھی تک نہیں آئی تھی اِس لیے نیچے پہاڑی کے دامن میں بسا گاؤں بھی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ،اسدنے اُس ویران اور تاریک کاٹج کے اطراف بھی کئی چکر لگا لیے آخر تھک ہار کر وہ اُسی بینچ پر آبیٹھا ایک احساس جرم اُسے اندر ہی اندر کھائے جارہا تھا۔
    ساری عمر میں جو ایک ہی دل کو بھائی تھی میںاُسے اکیلا کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟اُس نے خود سے سوال کیا مگر یہ ہو چکا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ اب کس حال میں ہے وہ تڑپ کر اُٹھا اور پتھر پر کھڑا ہو کر ایک بار پھر چاروں جانب ٹارچ کی روشنی ڈالی مگر ٹارچ کی روشنی اور اُسکی نظر درختوں اور پتھروں سے ٹکرا کر ناکام لوٹ آئی۔
    اے معصوم اور خوبصورت پری!تم کہاں ہوں؟بے اختیار اُس کے حلق سے ایک چیخ سی نکلی اور پہاڑوں میں گھونج اُٹھی۔
    خدارا !مجھے جواب دو۔مگر اُس کی آوازپھر پہاڑوں سے ٹکرا کر لوٹ آئی اور کوئی جواب نہیںآیا، اب اُس پر وحشت طاری ہونے لگی تھی ،وہ خود کو مجرم سمجھنے لگا تھا اُس کا ضمیر اُسے بری طرح ملامت کر رہا تھا ، وہ ایک بار پھر ٹارچ لیکر اُسے تلاشنے لگا اور اِس بار وہ اُسے پکارتے ہوئے اور آوازیں دیتے ہوئے کافی دور تک گیا ، مگر وہ کہیں نہیں تھی ، اسد تھک ہار کر لوٹ پھر اُسی بینچ کے پاس لوٹ آیا اوراُس پر بیٹھ گیاسردی کی شدت سے اُس کا بدن کپکپا رہا تھا مگر اندرایک عجیب سی چنگاری بڑھک اُٹھی تھی جس میں وہ بری طرح سلگ رہا تھا۔
    اے خوبصورت پری! خدا را مجھ پر رحم کرو ۔دفعتا وہ چلایااور سسک پڑا۔
    اسد!بس کرو یار!اُسے علی کی آواز سنائی دی وہ اندھیرے کی چادر چیرتا ہوا سامنے آگیا ۔
    علی! وہ نہیں ملی۔اسد کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔خدا جانے کہاں چلی گئی ہے۔
    اُس کا گھر کہیں قریب ہی ہوگااور وہ اپنے گھر چلی گئی ہوگی۔علی نے جواب دیا ،اسد کی نظریں بے اختیارکاٹج کی زرد عمارت کی طرف اُٹھ گئیں ۔
    شاید وہ نیچے وادی میں رہتی ہو۔علی شایداُس کا مطلب سمجھ گیاتھا۔
    اللہ تمہاری زبان مبارک کرے۔اسد نے بیاختیار کہا۔
    چلو گھر چلیں۔علی نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
    تمہیں یقین ہے نا وہ خیریت سے ہوگی۔اسد نے بچوں کی طرح پوچھاعلی غصے سے اُسے دیکھنے لگا۔
    ہاں!وہ ایک طویل سانس لیکر بولا۔جس کے لیے تم جیسا مخلص شخص تڑپ رہا ہوں اُسے یقینا کچھ نہیںہو سکتا۔اسد کچھ نہیں بولا۔
    چلو گھر چلیں۔علی نے پھر کہا اسد کچھ ہچکچایااور مڑکر پھر اطراف میں ٹارچ کی روشنی ڈالی مگر وہی مایوسی اُس نے دکھ سے سر جھکا لیا اورکچھ دیربعداُس کے ساتھ چل پڑامگر وہ مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتا بھی جا رہا تھاوہ رات اُن دونوں نے آنکھوں میں کاٹی اسد کو تو ویسے ہی نیند نہیں آرہی تھی اور علی کو یہ ڈر تھا کہ وہ پھر کوئی بیوقوفی نہ کر بیٹھے صبح ہوتے ہی اسد ایک بار پھر اُس طرف چل پڑا اس بار علی بھی اُس کے ساتھ تھااُنہوں نے پورے علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا نیچے گاؤں میں بھی گئے صید احمد اُنہیں اپنے گاؤں میں دیکھ کر بہت حیران ہوا وہ لوگ مری دو دن رہے اور ان دو دنوں میں اسد کی حالت عجیب سی تھی علی کو اُس سے ڈر لگنے لگا تیسرے دن وہ اُسے زبردستی لیکر وآپس اسلام آباد آگیااُس کے کئی دن بعد تک اسد کی حالت خراب سی رہی مگر پھر دھیرے دھیرے سنبھلنے لگی اُنہوں نے اِس بات کاگھر میں کسی سے ذکر نہیں کیا مگر اُس کے بعد وہ جب بھی مری آیا اُسکی یہی حالت ہوجاتی رہی ۔
    ﴿۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴾

    وہ صبح ناشتہ کرتے ہی گھر سے نکل آیا تھااور پچھلے تین گھنٹوں سے اُسی شیڈ تلے بنے بنچ پر بیٹھا تھا آج وہ پھر شدت سے یاد آرہی تھی
    جنگلی پھولوں کی خوشبو نے فضا کو پوری طرح معطر کر رکھا تھاکئی شوخ و جوان جوڑے ادھر اُدھر بکھرے چہل قدمی کر رہے تھے اُنہیں دیکھ کر اُس کے سینے میں ایک ٹیس سی اُٹھی وہ آتی جاتی ہر اکیلی لڑکی کو غور سے دیکھنے لگا مگر اُن میں سے کوئی بھی اُس جیسی نہیں تھی اُسے اپنی بے بسی پر رونا آنے لگا اُس کی نظر آسمان کی طرف اُٹھ گئی۔
    مالک! تو کب تک میرا امتحان لے گا۔اُس کے لبوں پر ایک درد بھری التجا آہی گئی مگر آسمان خاموش تھا اُس کی التجا بے نیل و مرام لوٹ آئی اُس نے سر جھکا لیا اور سامنے والے کاٹج کو دیکھنے لگاایک لمحے کواُسے کھڑکی کا پردہ ہلتا ہوا محسوس ہواجیسے کوئی تاریک کھڑکی کے پیچھے کھڑاتھاوہ کھڑکی کو گھورنے لگاکافی دیر گزر گئی مگر کچھ نہ ہوا اُسے خود ہی اپنی سوچ پر ہنسی آئی وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ کاٹج ہمیشہ سے ویران رہاہے مگر جانے کیوں اُسے آج یہ شک ہوا تھاوہ کچھ دیر مزید وہاں بیٹھا رہاپھر اُٹھ کرگھر آگیا مگر پورچ میںعلی کی جیپ دیکھ کر وہ چونک گیاعلی کے ساتھ پھوپھی جی بھی آئی ہوئی تھی اور سب ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے تھے اور ثوبیہ کھانا لگا رہی تھی وہ علی اور پھوپھی جی سے ملا۔
    کیسی ہیں پھوپھی جی!اسد نے اُن سے پوچھا۔
    اچھی ہوں بیٹا۔پھوپھی جی نے جواب دیا۔تم اپنی سناؤ۔
    ہنہ!وہ جانے کیوں ہنس دیاپھوپھی حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔
    اسد!تم بھی جلدی سے فریش ہوکر آجاؤ۔ثوبیہ بریانی کی ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولی۔
    جی اچھا بھابی!اُس نے کہا اور واش روم چلا گیاوآپس آیا تو بھابی کھانا لگا چکی تھی وہ علی کی ساتھ والی خالی کرسی پر بیٹھ گیاسب سر جھکا کر کھانا کھانے لگے کھانے کے بعد وہ اور علی ٹیرس پر آگئے۔
    تم کہاں تھے۔علی نے پوچھا۔
    بس یونہی گھومنے نکل گیا تھا۔وہ سامنے دیکھتے ہوئے بولا۔
    تم ابھی تک اُس بات کو بھولے نہیں۔علی نے کہا اسد نے کوئی جواب نہیں دیا۔
    اپنی حالت دیکھی ہے۔علی نے کہا اسد اب بھی خاموش رہا۔
    اسد وہ تمہارا وہم بھی تو ہوسکتا ہے۔علی نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
    ہنہ!اسد بس مسکرا کر رہ گیا۔
    یا پھر ممکن ہے وہ کسی اور شہر کی ہو اور وآپس اپنے شہر چلی گئی ہو۔علی نے ایک اور دلیل دی۔
    علی!اسد نے اُسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔وہ وہم نہیں میرا یقین ہے اور تم دیکھ لینا ایک دن وہ مجھے اِسی وادی میںملے گی ،اُسی جگہ ،اُسی شیڈ کے نیچے، یونہی بارش برس رہی ہوگئی اور وہ میرا کوٹ پہنے وہیں بیٹھی میرا اِنتظار کر رہی ہوگی۔علی نے ایک گہری سانس لی اور سامنے پھیلی وادی کی طرف دیکھنے لگا۔
    لگتا ہے !زاہد بھائی سے بات کرنی ہی پڑیگی۔علی نے کہا۔
    تم بھیاسے کوئی بات نہیں کروگے۔اسد نے اُسکا بازو پکڑکر کہا۔
    میرا بازو چھوڑو۔علی نے اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کی مگر اسد کی گرفت سخت تھی۔
    تم بھیاسے کوئی بات نہیں کروگے۔اسد نے اپنی بات دہرائی اور اُس کا بازو چھوڑ دیا۔
    تم خطرناک حد تک دماغی مریض بن چکے۔علی اپنا بازو مسلتے ہوئے بولا۔
    شاید تم ٹھیک کہتے ہو۔اسد نے ایک گہری سانس لیکر کہا۔مگر میرا یقین کرو میں مجبور ہوں۔
    یار اسد!تم سمجھنے کی کوشش کرو۔علی اُسکی طرف مڑ کر بولا۔مری ایک چھوٹا سا علاقہ ہے اورتم خود سوچو!پچھلے تین سالوں سے تم اُسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہے ہواگر وہ یہاں ہوتی تو کب کی مل چکی ہوتی۔
    وہ ملے گی۔اسد یقین سے بولا۔تم یقین کرو وہ ضرورملے گی۔
    کب؟ علی نے سوال کیا۔جب تمہاری کمر جھک جائیگی اور ہاتھ میں لاٹھی ہوگی۔
    نہیں !اتنی دیر نہیں ہوگی۔اسد مسکرا کر بولا۔
    ہنہ! علی نے ایک گہری سانس لی اور پھرٹیرس سے نیچے جھانکنے لگا۔
    بھائی!نوال کی آواز پر وہ دونوں چونک کر پلٹے۔آپ کو پھوپھی جی بلا رہی ہیں۔اُس نے مڑکر علی کو دیکھا تو مسکرا رہا تھا۔
    اب بچ کر دکھانا۔علی مسکرا کر بولا۔
    تمہیں تو میں دیکھ لونگا۔اسد اُسے گھورتے ہوئے بولا اوراندر چلا گیا۔
    اور تم!علی شرماتی ہوئی نوال کو دیکھ کر بولا۔میں تمہیں نظر نہیں آتایا تم مجھے دیکھنا ہی نہیں چاہتی۔
    کیا مطلب؟نوال نے سر اُٹھا کرحیرت سے کہا۔
    سلام دُعا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔علی جل کر بولا۔کب سے آیا ہوں نہ تم نے سلام کیا اور نہ میری خیریت پوچھی۔
    السلام و علیکم!وہ باقاعدہ کورنش بجا لائی۔اور آپ کی خیریت خدا وند کریم سے نیک مطلوب۔اورپھر ہنستی ہوئی اندر بھاگ گئی علی بھی مسکرا دیا اور اُس کے پیچھے اندر چلا آیا سب لیونگ میںبیٹھے تھے مگر نوال نظر نہیں آرہی تھی وہ مسکراتا ہوا اسد کے پاس جا بیٹھا۔
    یار !تم ایک بار دیکھ تو لو۔زاہد ایک البم اسد کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔
    بھیا!جب وقت آئیگا تب دیکھ بھی لونگاابھی دیکھ کر کیا فائدہ۔اسد مسکرا کر بولااور البم وآپس کھسکا دی۔
    بیٹا تم دیکھو تو سہی!پھوپھی جی بولی۔شاید تمہیںکوئی پسند آجائے۔
    پھوپھی جی اب آپ لوگ خواہ مخواہ کی ضد کر رہے ہیں۔اسدنے جواب دیا۔
    ارے!ضد ہم لوگ کر رہے ہیں یا تم؟ثوبیہ حیرت سے بولی۔
    بھابی پلیز!اسد اُس کی طرف مڑ کر بولا۔
    یار! تم کچھ زیادہ ہی نخرے نہیں کر رہے۔زاہد حیرت سے بولا۔
    بھیا!میںنے ابھی میںکچھ عرصہ آزاد رہنا چاہتا ہوں۔اسد نے جواب دیا۔
    ارے!ہم کہیں خدانخواستہ تمہیں قید تو نہیں کر رہے۔پھوپھی جی غصے سے بولی۔
    کہیں!کسی سے کوئی وعدہ تو نہیں کر بیٹھے۔زاہد نے پوچھا۔
    ہاں بئی!کہیں تم نے خود ہی کوئی لڑکی تو نہیں پسند کر رکھی۔بھابھی نے پوچھا۔
    ہنہ!وہ ہنس دیاعلی کی بھی ہنسی نکل گئی۔تینوں انہیں حیرت سے دیکھنے لگے۔
    بئی!کون ہے وہ؟پھوپھی جی نے پوچھا۔کس کی بیٹی ہے؟
    ارے! پھوپھی جی ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔وہ مسکرا کر بولا۔
    مجھے پہلے ہی شک تھا۔پھوپھی جی غصے سے بولی۔یہ آج کل کی لڑکیاں بھی کمبخت خود ہی بر ڈھونڈنے نکل پڑتی ہیں۔
    اماں!کوئی بھی کمبخت لڑکی اتنی بھی بیوقوف نہیں ہوسکتی ہے کہ وہ اِسے اپنا بر چنے۔علی ہنستے ہوئے بولا۔
    کیوں کیا کمی ہے میرے لال میں۔پھوپھی سب کچھ بھول کر اُس کی بلائیں لینے لگی۔
    اے لو!علی ہنس کر بولا۔ابھی لڑکیوں کو کوسنے دے رہی تھی اور ابھی اِس کی لاڈیاں کرنے لگی۔
    اسد!سچ بتاؤکیا بات ہے۔زاہد قدرے تشویش سے بولا۔
    بھیا!ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔اسد نے مسکرا کر جواب دیا۔اور اگر ایسا کچھ ہوا تو میں سب سے پہلے آپ کو ہی بتاؤنگا۔
    تو پھر یہ سب کیا ہے۔زاہد نے حیرت سے پوچھا۔
    بس!میں ابھی کچھ دن اور اِس جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا۔اسد نے جواب دیا۔
    ہنہ!ٹھیک ہے۔زاہد نے سر ہلادیا اور اسد مسکرا دیادو دن بعدوہ سب وآپس اسلام آباد لوٹ گئے۔
    ہر سال ستمبر کے آغاز سے ہی اُس کی بیچینی بڑھنے شروع ہو جاتی تھی اور اِس سال بھی ایسا ہی ہو رہا تھا ، ستمبر شروع ہوتے ہی اُس کی بیچینی بڑھنے لگی وہ اپنے آپ کو سنبھالنے کی جتنی کوشش کرتا دل اُتنی ہی شدت سے دھڑکنے لگتا تھااور جب آسمان پہ بادل گھر آتے تو اُسے لگتا کہ جیسے کوئی اُس کے کانوں میں سر گوشیاں کر رہا ہو یا جیسے کسی نے اُس کا دل مٹھی میں پکڑ کر مسل دیا ہو، جیسے اندروں اندری سلگتی چنگاری انگارہ بن چکی ہے اور اب کسی بھی لمحے شعلہ بننے کو بیتاب ہے اورستمبرکا وہ خاص دن آتے آتے تو اُس کی بیچینی انتہاؤں پر پہنچ گئی وہ صبح ناشتہ کرتے ہی وہ مری کے لیے نکل کھڑا ہواحالانکہ غیر متوقع طور پر رات سے ہی وقفے وقفے سے بارش ہورہی تھی زاہد اور ثوبیہ اُسے منع ہی کرتے رہ گئے مگر وہ خود کو روک نہیں پایا۔ ۔ ۔ اُس نے گاڑی زرد رنگی عمارت سے کافی فاصلے پر ہی روک لی اور اُتر کر ٹہلتا ہوا زرد رنگی کاٹج کی طرف بڑھا بارش کا سلسلہ جو کچھ دیر پہلے رکا تھاوہ پھر شروع ہوگیا اسد جینز کے جیبوں میں ہاتھ ڈالے خراماں خراماں چلتا ہوازرد رنگی عمارت کے سامنے بنے شیڈتلے رکھے بینچ پرآبیٹھاشیڈ موسم کی سختیاں جھیلتے جھیلتے مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا بینچ کی حالت بھی بہت خستہ ہو چکی تھی ٹھنڈ بڑھتی جارہی تھی مگر اُسکے اندر آلاؤ جل رہا تھااچانک ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔
    اے میری سبز پری!تم کہاں ہوں۔پوری وادی اُس کی آواز سے گھونج اُٹھی۔
    دیکھو!میرا اور امتحان مت لو۔ ۔ ۔ میں بہت کمزور پڑ گیا ہومجھے بکھرنے سے بچا لو۔ ۔ ۔ تم سن رہی ہونا؟مگر وہاں سوائے اُس کی اپنی آواز کی بازگشت کے کچھ بھی نہ تھا۔
    اچھا چلو ایک بار ہی ، صرف ایک بارآجاؤ، میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اُس نے التجا کی ، مگر اِس بار بھی التجا محض بازگشت سےٓگے نہ بڑھ سکی ،وہ پھر بینچ پر بیٹھ گیابارش تیز ہوگئی مگر وہ یونہی بیٹھا رہااُس کی نظر زرد کاٹج کی طرف اُٹھ گئی اُسے لگا کہ جیسے آج پھرکوئی کھڑکی کے پردے کے پیچھے کھڑا اُسے دیکھ رہا ہے وہ کھڑکی کو گھورنے لگا مگر تیز بارش کی وجہ سے اُسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا کتنی ہی دیر گزر گئی بارش تھی کہ جیسے آسمان پھٹ پڑا ہوٹھنڈ سے اُس کا بدن اکڑنے لگا اندھیرہ پھیلنے لگاتھا یا شاید اُس کا دماغ اپنا کام چھوڑ کر دھیرے دھیرے کہیں تاریکیوں میں ڈوبتا جارہا تھااُسے بھی اپنی ممکنہ موت کا یقینا ہونے لگاتھااُس کی آنکھیں بند ہونے لگی مگر وہ ابھی مرنا نہیں چاہتا تھاوہ اپنی سبز پری کو دیکھے بنا مرنا نہیں چاہتا تھااُس نے اپنے جسم کی باقی مانندہ پوری توانائی صرف کرتے ہوئے ایک بار آنکھیں کھولی وہ سامنے کھڑی تھی اُس کی سبز پری۔ ۔ ۔ ویسے ہی بڑی سی بھیگی چادر میں لپٹی ہوئی اُس کا اوور کوٹ ہاتھ میں پکڑے۔ ۔ ۔ اُس کے نیلے پڑتے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی وہ اُسے اُس کے اوور کوٹ میں چھپا رہی تھی۔
    سس !سبزپپ! پری!تت تم نے بب بہت دیر کردی۔وہ مسکرا کر بولااور اُس کی پلکیں بوجھل ہوتی چلی گئی ۔اُس کے دماغ کا آخری احساس یہی تھا کہ جیسے کسی نے اُسے اپنی آغوش میں لے لیا ہو۔
    ﴿۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴾

    اُس کے دماغ میں بیداری کی پہلی رو دوڑ گئی اور ایک پل میں ہی ہاتھ میں اُس کا اوور کوٹ لیے بارش میں بھیگتی سبز پری اُس کی نگاہوں میں گھوم گئی اُس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیںوہ کسی اجنبی کمرے میں تھا اور اُس کے جسم پرتہہ در تہہ کئی گرم لحاف پڑے ہوئے تھے وہ حیرت سے ادھر اُدھر دیکھنے لگاکمرہ نہایت ہی دلکش تھاایک دیوارکے ساتھ گیس ہیٹر بھی جل رہا تھا جس نے کمرے کو کافی گرم کر رکھا تھااُسے اپنے دائیں طرف کسی کی موجودگی کا احساس ہوااُس نے پلٹ کر دیکھا تووہ کوئی لڑکی تھی جو کرسی پر بیٹھی تھی مگر اپنے دونوں بازواُسکے بیڈ پر رکھے اُن پر سر رکھے سو رہی تھی لڑکی کاچہرہ تو نظر نہیں آرہا تھامگر جسم پر وہی بڑی سے چادر تھی وہ بستر پر اُٹھ بیٹھا آہٹ پاکرلڑکی نے سر اُٹھا کر اُسے دیکھاوہ وہی تھی اُس کی سبز پری اسد اُسے دیکھتا ہی رہ گیاوہ بھی بت بنی رہ گئی کتنی ہی دیر ہوگئی وقت کی دھڑکن رک گئی کائنات کی ہر شے تھم گئی اجرام فلکی اپنے مداروں میں برف ہوگئے۔
    آپ کی طبیعت اب کیسی ہے۔جیسے کسی نے صور اسرافیل پھونک دیا ہو۔ ۔ ۔ اور سارے اجرام فلکی ایک دوسرے سے بری طرح ٹکرا گئے ۔ ۔ ۔ اسد نے آواز کا تعاقب میں نظر دوڑائی تو ایک اور لڑکی کمرے کے دروازے سے اندر آچکی تھی اور اُس نے ہاتھ میں سوپ کا پیالہ پکڑ رکھا تھا۔
    میں کہاں ہوں۔اسد نے پوچھا اُس کی نظریں پھر اپنی سبز پری کے چہرے سے چپک گئی تھی جو اُسے پلکیں جھپکائے بغیر دیکھ رہی تھی دوسری لڑکی بھی کرسی کھینچ کر سبز پری کے پاس بیٹھ گئی۔
    آپ وہیں ہیں جہاں آپ کو ہونا چاہیے تھا۔لڑکی نے جواب دیا۔
    کک کہاں۔اُس نے چونک کر ایک بار پھر کمرے کا جائزہ لیا۔ یہ کونسی جگہ ہے۔
    آپ کی سبز پری کا گھر۔وہ سبز پری کے کندھوں پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
    سبز پری کا گھر؟اسد نے دہرایا۔میری سبز پری کا گھر۔سبز پری نے شرما کرسر جھکا دیادوسری لڑکی ہنس دی۔
    یہ وہی زرد کاٹج ہے جس کے باہر آپ دیوانوں کی طرح سبز پری، سبز پری تم کہاں ہو! چلاتے رہتے ہیں۔اُس نے جواب دیا۔
    زرد کاٹج؟وہ ایک بار پھر چونکا۔مگر وہ تو ہمیشہ ویران رہتا ہے۔
    ہاں ۔وہ مسکرائی۔مگرپچھلے کچھ سالوں سے ہم دونوںہر سال پوراستمبر میں یہیں بتاتی ہیں۔
    ہنہ!اسد نے ایک گہری سانس لی اور پھر سے سبز پری کو دیکھنے لگا۔
    آ آپ کون؟اسد نے پوچھا۔
    نیلی پری۔وہ ہنس کر بولی اور دونوں کھلکھلا کر ہنس دی اسد دونوں کا منہ دیکھتا رہ گیا۔
    میرا نام سلمی ہے۔وہی لڑکی پھر بولی۔
    اور؟وہ سوالیاں نظروں سے سبز پری کو دیکھنے لگا۔
    یہ پروشہ ہے۔لڑکی نے جواب دیا۔ہم آپس میں چچا ذاد بہنیں ہیں۔
    پروشہ!اسد کا منہ مٹھاس سے بھر گیا سبز پری مزید شرما گئی۔
    یہ خود کیوں نہیں بولتی؟اسد نے سوال کیا۔
    یہ بول نہیں سکتی۔سلمی نے جواب دیا۔
    ہنہ!اسد چونک کر اُسے دیکھنے لگاسبز پری کا چہرہ تاریک ہوگیا و ہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔
    رکو۔اسد نے فورا اُسکا ہاتھ پکڑ لیا اور بستر سے اُٹھنے لگا۔
    ہنہہ!وہ گھبرگئی اور اُسے بازوؤں سے پکڑکر وآپس بستر پر لٹانے لگی۔
    آآپ لیٹے رہیے۔سلمی بھی گھبرا گئی۔ڈاکٹرنے آپ کو مکمل آرام کا کہاہے۔
    آرام !اسد حیرت سے بولا۔جس کی زندگی داؤ پر لگی ہو وہ کیسے آرام کر سکتا ہے۔
    پلیز!آپ لیٹے رہیے۔سلمی نے کہا اسد نے مڑ کر پروشہ کو دیکھاجو اُسے پکر کر لٹانے کی کوشش کر رہی تھی اُس کی پلکیں بھی بھیگی ہوئی تھی اسد ڈھیلا پڑ گیا۔
    مگر اِسے کہو یہ میرے پاس ہی بیٹھے۔اسد نے سلمی سے کہا۔
    میں کیوں کہوں۔سلمی نے کندھے اچکائے۔پاس ہی توکھڑی ہے آپ خود کہہ لیجئے۔
    یہ میری بات کیسے سمجھے گی۔اسد نے حیرت سے پوچھا۔میں اِشاروں کی زبان نہیں جانتا۔
    اِشارے کس لیے؟سلمی مسکرا کر بولی۔یہ بول نہیں سکتی مگر سن تو سکتی ہے۔
    کیا مطلب۔اسد حیرت سے بولا۔
    یہ پیدائشی طور پر ایسی نہیں ہے۔سلمی نے جواب دیا۔
    تو پھر؟اسد اُلجھ کر رہ گیا۔
    پانچ سال پہلے اِس کی گردن پر پتنگ کی ڈور پھر گئی تھی ۔سلمی نے جواب دیا۔یہ بچ تو گئی مگر گردن کی کچھ حساس رگیں کٹ جانے کی وجہ سے یہ گویائی سے محروم ہوگئی ہے۔سلمی نے اُس کا چہرا پکڑ کر اُٹھایا گردن پر ہلکا سا نشان اب بھی تھا۔
    بہت تڑپایا ہے تم نے۔وہ پروشہ کو دیکھتے ہوئے بولااور اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیاوہ شرماکر اپنا ہاتھ چھڑانے لگی اور سلمی ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔
    تمہیں ذرا بھی ترس نہیں آیا تھا۔اسد نے پوچھاپروشہ بری طرح شرما گئی اورہاتھ چھڑا کر کمرے سے بھاگ گئی۔
    یہ ڈر رہی تھی کہ آپ اصلیت جان کر اِسے ٹھکرا نہ دیں۔سلمی نے کہا ۔
    یہ پہلے لمحے سے ہی آپ کو پسند کرنے لگی تھی۔سلمی نے کہا اوراسد نے حیرت سے سلمی کو دیکھا۔ایسی ویران جگہ پر کوئی خوبصورت لڑکی کسی نوجوان لڑکے کو اکیلی مل جائے تو !سلمی نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
    آپ کی شرافت اور انسانیت نے پروشہ کو ایک ہی لمحے میں گھائل کر دیا تھا۔سلمی مسکرا کر بولی۔اورپھر ہم آپ کی دیوانگی تو دیکھتے ہی رہے ہیں۔
    وہ اُس دن باہر کیوں بھیگ رہی تھی۔اسد نے پوچھا۔کیا آپ گھر میں نہیں تھی۔
    وہ بہت ضدی ہے۔سلمی نے جواب دیا۔ اُس دن مجھ سے خفا ہوگئی تھی اِس لیے ناراض ہوکر باہر چلی گئی تھی۔
    ہنہ!اسد نے سر ہلادیا۔
    ارے آپ کا سوپ ٹھنڈا ہوگیامیں ابھی گرم کر کے بھجواتی ہوں۔سلمی نے کہا اور سوپ کا پیالا اُٹھا کر باہر نکل گئی اسد نے بیڈ کے پشتے سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیںاُس کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھاکمرہ کافی گرم تھا اِس لیے وہ بہتر محسوس کر رہاتھا کچھ دیر بعد دروازہ کھلنے کی آواز پر اُس نے آنکھیں کھولی تو وہ پروشہ تھی جو ٹرے میں سوپ کا پیالہ رکھے شرماتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی اسد اُسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا اُس کا سر جھکا ہوا تھا اور وہ ویسی ہی ایک بڑی سی چادر میں اوڑھ رکھی تھی وہ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی وہ اسد کے پاس اُسی کرسی پربیٹھ گئی اور پیالی ٹیبل پر رکھ دیاپھر دھیرے سے پلکیں اُٹھا کر اُسے دیکھااُسے اپنی طرف متوجہ پاکر پھر شرماگئی۔
    پروشہ!اسد نے اُسے پکارا تو وہ چونکی۔مجھے سوپ نہیں پلاؤگی۔وہ مسکرا دی اور چمچ سے اُسے سوپ پلانے لگی۔
    تم بہت ظالم ہو۔اسد نے کہا اور وہ مسکرا دی۔
    یاد رکھنا گن گن کر سارے بدلے لونگا۔اسد نے کہااوروہ ہنستے ہوئے خالی پیالہ اُٹھا کر ایک بار پھر کمرے سے بھاگ گئی اور اسد نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا فون اُٹھالیااُسے علی کو بھی تو فون کرنا تھاگھر والے یقینا اُس کی وجہ سے پریشان ہونگے۔
    (آصفؔ احمد بھٹی)
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سبز پری

    شاباش پتر
    میری دعا ہے کہ اللہ کریم آپ کے قلم میں اور تاثیر عطا فرمائیں
    بہت مزا آیا ہے
     
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سبز پری

    آپ کو پسند آیا میری محنت وصول ہو گئی ، شکریہ چاچا جی ۔
     
  4. محمدعبیداللہ
    آف لائن

    محمدعبیداللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏23 فروری 2007
    پیغامات:
    1,054
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سبز پری

    آصف بھائی مکمل تو نہیں پڑھ سکا سیو کر لیا ہے مگر جو پڑھا ہے بہت پسند ہے اللہ تعالی آپ کے علم میں عمل میں برکتیں عطا فرمائے۔ آمین
     
  5. عفت
    آف لائن

    عفت ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2011
    پیغامات:
    1,514
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سبز پری

    واہ
    کیا بات ہے آصف جی
    بہت ہی خوب لکھا ہے آپ نے۔
    یہ جوہر تو اب سامنے آیا آپ کا۔ پہلے کیوں نہیں لکھا ادھر
    خیر پہلے کی معافی اور اب آپ کی طرف سے مزید ایسی ہی دلچسپ تحریروں کا انتظار رہے گا۔
    خوش رہیں :n_thanks:
     
  6. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سبز پری

    واہ آصف جی خوب لکھا ہے۔ سادہ الفاظ میں‌ بہت ساری محبت سمو دی آپ نے۔
    طلب صادق ہو تو انسان اپنی منزل کو ضرور پاتا ہے۔
    شکریہ ایک اچھی تحریر سے ہمیں نوازنے کے لیے۔
    مزید کا انتظار رہے گا۔
     
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سبز پری

    بلال بھائی انشاء‌اللہ میں آئیندہ بھی لکھتا رہونگا ۔
     
  8. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سبز پری


    میڈم جی لکھ تو میں بہت سالوں سے رہا ہوں ، اور میرے افسانے بہت سی سائٹس اور رسائل میں چھپ چکے ہیں ، اس بزم میں بھی ان دونوں‌افسانوں سے پہلے میں اپنے دو مکالماتی افسانے لکھ چکا ہوں‌ اور انشاء اللہ آئیندہ بھی لکھونگا ۔
     
  9. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سبز پری

    پتر جی کوئی نواں نکور افسانہ ہی پڑہا دو
     
  10. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سبز پری

    انشاء اللہ آج پوسٹ کر دونگا ۔
     
  11. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سبز پری

    اُس آج کا ہمیں شدت سے انتظار رہے گا
    بہرحال یہ کافی اعلی تحریر تھی۔۔۔۔۔ماشاءاللہ جی
     
  12. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سبز پری

    کچھ مصروف سا ہو گیا ہوں ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں