دو صوفی تھے- ایک بڑا صوفی ٹرینڈ اور ایک چھوٹا صوفی انڈر ٹریننگ- چھوٹے صوفی کو ساتھ لے کر بڑا صوفی گلیوں،بازاروں میں گھومتا رہا.چلتے چلاتے اس کو لے کر ایک جنگل میں چلا گیا- جیسا کہ میں نے پہلے عرض کی، بڑی تابڑ توڑ بارش ہوئی تھی،جنگل بھیگا ہوا تھا اور اس جنگل میں جگہ جگہ لکڑیوں کے ڈھیر تھے- پتوں کے شاخوں کے انبار تھے - اس بڑے صوفی نے دیکھا کہ شاخوں اور پتوں کے ڈھیر میں ایک سانپ مرجھایا ہوا، کچھ سنگھڑایا ہوا پڑا ہے- صوفی کو بڑا ترس آیا - اس نے آگے بڑھ کر سانپ کو اٹھا لیا - چھوٹے صوفی نے کہا، حضور کیا کرتے ہیں. سانپ ہے موذی ہے - اس کو اٹھایا نہیں کرتے- انہوں نے کہا : نہیں بیچارہ ہے مجبور ہے، زخمی ہے، زخم خوردہ ہے،الله کی مخلوق ہے. اس کی کچھ غور و پرداخت کرنی چاہیے - تو وہ سانپ کو ہاتھ میں لے کر چلے - پھر دونوں باتیں کرتے کرتے کافی منزلیں طے کرتے گئے- جب ٹھنڈی ہوا لگی، جھولتے ہوئے سانپ کو ،تو اسے ہوش آنے لگا.اور جب ہوش آیا تو طاقتور ہو گیا- طاقتور ہو گیا تو اس نے صوفی کے ہاتھ پر ڈس لیا- جب ڈسا تو انہوں نے سانپ کو بڑی محبت اور پیار کے ساتھ ایک درخت کی جڑ کےپاس رکھ دیا- کیوں کہ وہ اب ایک محفوظ جگہ پر پہنچ گیا ہے- اب یہ یہاں پر آہستہ آہستہ اپنے آپ کو ریوایو (revive) کر لے گا.جہاں بھی اس کا دل ہو گا،چلا جائے گا. چھوٹے صوفی نے کہا: "دیکھیں سر! میں نے کہا تھا نہ کہ یہ موذی جانور ہے - آپ کو ڈس لے گا. پھر کیوں ساتھ اٹھا کے لے جا رہے ہیں؟ آپ تو بہت دانشمند ہیں.مجھے سکھانے پر مامور ہیں- تو انہوں نے کہا: ڈسا نہیں اس کے شکریہ ادا کرنے کا یہی طریقہ ہے- سانپ اسی طرح شکریہ ادا کیا کرتے ہیں." از اشفاق احمد، زاویہ
میرے خیال میں سانپ کو ایک استعارے کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ خطرناک لوگوں سے اچھائی کو توقع نہیں رکھنا چاہیے۔ کیونکہ ان کی سرشت میں ہی تکلیف پہنچانا، ایذاء دینا اور گزند پہنچانا ہوتا ہے اور ان کی طرف سے خیر کا کلمہ بھی دوسروں کے لئے جان لیوا ثابت ہوسکتاہے۔۔۔۔ یہ میرا خیال ہے ۔
آپ کا خیال بالکل درست ہے بھائی جی۔۔ ایسی باتیں شئیر کرنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے تاکہ آپ دوسروں کی رائے جان سکیں اور سب سے بڑھ کر آپ خود بھی ہر بات کو سمجھنا سیکھ جائیں۔۔میں تو اسی لیے شئیر کرتی ہوں۔۔یہاں سب بھائی ہر مشکل بات کو بڑی آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔۔پھر آپ سب کے کمنٹس سے مجھے بھی سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔۔بہت شکریہ
شروع میں مجھے بالکل سمجھ نہیں آئی تھی۔ بلکہ مجھے ٹوٹل اپیل نہیں کی۔ اور میں نے غور کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ پھر آپ نے کہا تو مجھے غور کرنا پڑا تو مجھے جو محسوس ہوا میں سے شیئر کردیا۔ اور میں کہاں تک صحیح سمجھا ہوں یہ تو دوسرے ساتھی لوگاں ہی بتا سکیں گے۔ مگر تسی فکر نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی بات کا مطلب یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ انسان کو نیکی رضا الہٰی کے لیے کرنے چاہیے ، نیک بدلے کی تمنا میں نہیں۔ اگر آپ نیکی کے بدلے نیکی کے خواہش مند ہیں تو یہ کاروبار ہے۔ کاروبار میں بھی پیسہ اس لیے لگایا جاتا ہے کہ پیسہ حاصل ہو۔ڈسنا سانپ کی سرشت ہے اور جب آپ سانپ سے نیکی کر رہے ہیں تو یہ امید رکھنا کہ سانپ کی سرشت بدل جائے گی ایک حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔اسی طرح اگر آپ کسی برے کے ساتھ نیکی کر رہے ہیں تو وہ اچھا نہیں ہوجائے گا اور اگر اچھا ہو گا بھی تو آپ کی نیکی کے سبب نہیں بلکہ ہدایت کی توفیق ملنے پر اور توفیق اللہ کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ بات فقط اتنی ہے کہ نیکی کا بدلہ خدا سے مانگیں اس سے نہیں جس کے ساتھ نیکی کی گئی ہے۔ اور اگر نیکی کے جواب میں آپ کو نقصان پہنچتا ہے تو اس کا ازالہ بھی اللہ ہی کرے گا وہ نہیں کہ جس سے ساتھ نیکی کی گئی ہے۔