بعض دفعہ ساری زندگی گزارنے کے بعد بھی ہم یہ جان نہیں پاتے کہ ہمیں آخر زندگی میں کس چیز کی ضرورت تھی ۔۔۔۔۔۔ کسی چیز کی ضرورت تھی بھی یا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور بعض دفعہ زندگی کے آخری لمحات میں ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ جس چیز کو ہم نے زندگی کا حاصل بنا رکھا تھا اس چیز کے بغیر زندگی زیادہ اچھی گزر سکتی تھی۔ (عمیرہ احمد کے ناول ’’امر بیل‘‘ سے اقتباس)
ہمم۔۔۔۔ اور آخر میں اسے پتہ چلتا ہے وہ ساری زندگی کسی سراب کے پیچھے بھاگتا رہا ہے۔۔اسکی منزل اور اسکا مقام تو صرف ایک ہی تھی اور ہے اور وہ آخرت ہے "ہیئر آفٹر ورلڈ"۔۔ ویری ٹرو۔۔ نائس۔۔۔
زندگی کی ضرورت بہت دلچسپ موضوع ہے۔ آج تک کسی کو نہیں معلوم کہ اس کی کیا ضرورت ہے؟ آج تک ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جس شے کی ضرورت ہے اس کی مقدار کیا ہے؟ اور جس شے کے پیچھے ہم دیوانہ وار سرگرداں ہیں کیا وہ ہمارے لئے فائدہ مند بھی ہے؟ ہم دنیاوی اہداف کی تکمیل کے لئے اور ان کے حصول کے لئے پوری کی پوری زندگی کی قربانی دے دیتے ہیں اور اسے انجوائے کرنے کے لئے ہمارے پاس وقت ہی نہیں بچتا۔ اس سے بھی بڑھ کر ہم اپنی دھن میں ماں باپ، بیوی بچوں اور انتہائی قربت والوں سے دوری اختیار کرکے اپنی زندگی کی ضروریات کو جمع کرنا شروع کردیتے ہیں۔ موضوع بہت دلچسپ اور طویل بحث کا متقاضی ہے اس لئے بقیہ ان پٹ میں آپ لوگوں پر چھوڑ دیتا ہوں۔ اپنی قیمتی رائے سے مستفیذ فرمایئے۔۔
زندگی کے آخری لمحات میں ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ جس چیز کو ہم نے زندگی کا حاصل بنا رکھا تھا اس چیز کے بغیر زندگی زیادہ اچھی گزر سکتی تھی۔ یہی اس پوری بحث کا نچوڑ ہے۔