1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

زندگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

'آپ کی شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از غوری, ‏26 مارچ 2012۔

  1. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    دل لگی جو نہاں نہ ہوسکی،
    دل بستگی جو عیاں نہ ہو سکی،
    وابستگی جو بیاں نہ ہوسکی،
    وارفتگی جو آسماں نہ ہوسکی۔

    باتیں جو لب بام رہ گئیں،
    راتیں جو تیرے خیالوں میں کٹیں،
    ساعتیں جو شمع دل بجھاتی رہیں،
    برساتیں جو آتش عشق سلگاتی رہیں۔

    ہزاروں جذبے۔۔۔۔۔۔۔
    جو خدا نے ودیعت کئے،
    پنپتے، سلگتے، مچلتے،
    بے اختیار و بے محار،
    نٹ کھٹ و جیالے جذبات۔
    کبھی حوصلہ دے نفس لوامہ کی بات۔
    اور کبھی حوصلہ بڑھائے، امارہ کی خرافات۔

    یہ سلسہ پیار ہے؟
    تلاش یار ہے؟
    بوئے گل ہے؟
    بہار ہے؟
    جام ہستی ہے؟
    خمار ہے؟
    یا بین سطورجل جلال کا اظہار ہے؟

    خود نمائی ہے؟
    خود سرائی ہے؟
    خود پیرائی ہے؟
    خود ثنائی ہے؟
    خود سپردگی ہے؟
    خود ستائی ہے؟
    یا پھر محض اک انگڑائی ہے؟

    اک جذبہ بے لوث چاہت کا،
    اطاعت و عبادت کا،
    حق و صداقت کا،
    ادراک و بلاغت کا۔

    جس میں لمس ضروری نہیں،
    تکمیل ہوس ضروری نہیں،
    وعدۂ شب بس ضروری نہیں،
    قید ایام و برس ضروری نہیں۔

    یہ انعام و اکرام ہے،
    دور دور سے چاہنے کا،
    اپنوں کو چاہو، غیروں کو چاہو،
    سب کو چاہو، رب کو چاہو،
    اور سارے جگ کو چاہو،
    ہنستے رہو، مسکراتے رہو،
    خوش رہو، خوشیاں لٹاتے رہو۔

    زندگی آغاز انقلاب ہے،
    طلوع آفتاب ہے،
    کھلتا ہوا گلاب ہے،
    یعنی کار ثواب ہے۔

    اسے حرارت ایماں سے گرماتے رہو،
    بوئے وفاء سے مہکاتے رہو،
    شبنم الفت سے نہلاتے رہو،
    حسن عمل سے سجاتے رہو،

    چاہو سب کو اور جی بھر کے چاہتے رہو۔
    کتنے لمحے بیت گئے تنہائی میں،
    کبھی حسیناؤں کی بے وفائی میں،
    کبھی زمانے کی بے پروائی میں،
    کبھی خود سوزی، کبھی خود ستائی میں۔

    جو بچ رہے دوسروں میں بانٹتے رہو،
    کہ نفرتوں میں، وقت گزرتا نہیں،
    ابر جفاء چھٹتا نہیں،
    گل وفاء، کھلتا نہیں،
    خورشید تمناء، ابھرتا نہیں۔

    پھر کیوں نہ ہر لہذا،
    ہر گھڑی ہر پل،
    ہر لمحہ، ہر ثانیہ،
    محبتوں میں گزارا کرو۔

    کہ عادت فرض شناس رہے،
    محرم و نا محرم کا پاس رہے،
    پیام خلوص کی آس رہے،
    خیرو شر کا احساس رہے۔

    کہ جسم سے پیار، پیار نہیں،
    روح سے روح ملایا کرو،
    چراغ الفت جلایا کرو،
    ہنس کر زندگی بتایا کرو،
    نغمے محبت کے گایا کرو۔

    وسوسوں اور کج روی نے
    حیات کو زنداں میں ڈالا،
    جو عزیز از جاں تھا،
    وہی گریزاں ہونے لگا،
    یہ گریز، یہ پرہیز بالاخر،
    نفرتوں میں ظاہر ہونے لگا۔

    مگر میں تو تمہارا عزیز ہوں،
    رفتار الفت کی مہمیزہوں،
    باب وفاء کی دہلیز ہوں،
    لفظ چاہ کی فرہنگ دبیز ہوں۔

    پھر کیوں ہر لمحہ، ہر گام،
    نالاں رہتے ہو تم۔
    میں جو قریب آؤں،
    تم اجتناب کرتے ہو،
    سوال جواب کرتے ہو،
    حالت خراب کرتے ہو،
    اور کبھی کبھی،آب آب کرتے ہو۔

    کیا غیر بھی اپنے ہوا کرتے ہیں؟
    دکھ درد میں شامل ہوا کرتے ہیں؟
    چشم تر کے ہمدرد ہوا کرتے ہیں؟
    وہ تو محض اک جلوہ گر ہوتے ہیں،
    فتنہ پرور ہوتے ہیں،
    تماشہ گر ہوتے ہیں،
    حسن کے سوداگر ہوتے ہیں۔
    دور دور سے ہاتھ ہلاتے رہے،
    لمحہ بھر ہنس کر ملے،
    اور عمر بھر رلاتے رہے۔

    پھر بھی غیروں میں،
    اگر تم بسنا چاہو،
    لمحہ بھر ہنسنا چاہو،
    جیتے جی مرنا چاہو،
    ہمیں کوئی عار نہیں،
    ہم راہ کی دیوار نہیں،
    ہم عاشق ہیں بدکار نہیں،
    ہم آستیں کی کٹار نہیں۔

    لیکن ہر نفس، تجربہ چاہتا ہے،
    بازی لے جانا چاہتا ہے،
    سرخرو ہوجانا چاہتا ہے،
    بال و پر دکھانا چاہتا ہے۔

    پر کون کسی کو سمجھائے یارو،
    روٹھے کو منائے یارو،
    دل کیسے بہلائے یارو،
    صدمہ کون اٹھائے یارو۔

    تاریخ بھی استاد ہے،
    ہر ضرورت کی ایجاد ہے،
    چاہو تو سبق لے سکتے ہو یار،
    ورنہ وقت کا دھارا،
    بہالے جائے گا تمہیں۔

    ناعاقبت اندیشی میں،
    عدالت کی ہر پیشی میں،
    ہچکولوں کے دوش پر،
    بہت مہنگا پڑے گا۔
    کوئی بھی تجربہ۔

    زندگی کی گاڑی کو ناہموار راہوں پر،
    کج روی نگاہوں پر،
    نیم شب کی آہوں پر،
    شل ہوئی سے بانہوں پر،
    دوڑایا نہیں کرتے۔

    یہ زندگی حسن و جمال کا موقع ہے،
    اظہار خیال کا موقع ہے،
    حسن و وصال کا موقع ہے،
    نشاط و نہال کا موقع ہے۔

    زندگی کو ہمیشہ احساس کے تاروں میں رہنے دو،
    ہم جیسے شب گزاروں میں رہنے دو،
    یہ ڈولی ہے اسے کہاروں میں رہنے دو،
    چمن کے پھول ہیں ہم،
    چمن زاروں میں رہنے دو،

    کل کبھی نہیں آئے گا،
    کس نے دیکھا ہے کل؟
    آنے والا کل پھر،
    کل پر ٹل جائے گا۔
    کیوں نہ آج کو ہم اپنا سمجھیں،
    کیوں نہ سب کو ہم اپنا سمجھیں،

    دل فقط چاہنے کیلئے ہوتا ہے،
    دلوں میں محبتوں کا چرچا ہوتا ہے،
    دل میں اگر نفرت، بغض اور عناد،
    گھر کر جائیں تو پھر،
    کروٹیں لیتی ہے حیات،
    دہکتے ہوئے انگاروں پر،
    اور انجام برا ہوتا ہے۔

    میں کیوں نہ دل صاف کرلوں، تجھ سے،
    اور تو بھی گلے لگا لے مجھ کو،
    اس دور غریباں میں،
    انسان کو میسر نہیں انساں،
    پھر سکون قلب کہاں،
    اور راحتیں کہاں۔

    تم کہ متلاشی ہو، صبح کے،
    اور چشم دل رکھتے ہو بند سدا۔
    کبھی اک دن کیلئے سہی،
    کیوں میری بات مانتے نہیں،

    بس اتنی عرض ہے کہ تم،
    صرف اک لمحے کیلئے،
    رک جاؤ کبھی۔۔۔۔۔
     
    شفاعت حسین نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: زندگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    واہ غوری صاحب۔ واہ ۔ کیا بےساختگی اور روانی ہے ۔ بہت خوب۔ ماشاءاللہ
    مزید کا انتظار رہے گا۔
     
  3. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: زندگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    محترمی نعیم صاحب:

    اسلام علیکم:

    آپ کی اخلاقی مدد کا بہت بہت شکریہ۔

    انشاءاللہ دیگر غزلیں بھی ارسال کروں کرتا رہوں گا۔

    میری اس نظم کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ زمین سے تیس ہڑار فٹ کی بلندی پہ لکھی گئی تھی اور ایک ہی نشست میں مکمل بھی ہوگئی تھی جبکہ میری دیگر غزلیں کم و بیش 75 ایام میں تکمیل کو پہنچی۔

    میں نے شاعری سے کرارہ کشی اختیار کرلی ہے کہ میرے استاد اس دنیا میں نہیں رہے اور آج کل اچھی صحت اور حسن کو برقرار رکھنے پر کام کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔

    امیدہے ہماری اردو کے ساتھ سازگار وقت رہے گا۔
     
  4. مخلص انسان
    آف لائن

    مخلص انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 اکتوبر 2015
    پیغامات:
    5,415
    موصول پسندیدگیاں:
    2,746
    ملک کا جھنڈا:
    کیوں نہ آج کو ہم اپنا سمجھیں
    کیوں نہ سب کو ہم اپنا سمجھیں
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بہت اعلی
     
  5. محمد اطہر طاہر
    آف لائن

    محمد اطہر طاہر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اکتوبر 2015
    پیغامات:
    63
    موصول پسندیدگیاں:
    51
    ملک کا جھنڈا:
    کیا کہنے جناب کے تخیل کے۔۔ بہت عمدہ تحریر، دل کو بھا گئی۔۔ داد کے لیے الفاظ ناکافی ہیں۔۔
    شاد و آباد رہیں، ذوق سلامت رہے۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں