زرعی شعبہ مسلسل نظر انداز کئے جانے کے نتیجے میں اس سال زراعت کی نمو گزشتہ پچیس برس میں سب سے کم سطح پر آ گئی۔ مالی سال 16-2015 کے لیے زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف 3.9 فیصد مقرر کیا گیا تھا تاہم یہ منفی 0.19 فیصد رہی۔ زرعی شعبے کی منفی گروتھ یا ترقیِ معکوس کی بڑی وجہ کپاس کی پیداوار میں 28 فیصد کمی تھی۔ مکئی اور چاول کی گروتھ بھی منفی رہی جبکہ گندم اورگنے کی پیداوار میں معمولی اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر مسلسل تیسرے سال اقتصادی ترقی کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔ اس سال کے دوران زراعت کے ساتھ حکومت کے بد ترین سلوک کے شدید ترین نتائج سامنے آئے ہیں۔ چاول کی صنعت جو دو ارب ڈالر کے قریب برآمدات حاصل کرنے کے قابل ہے وہ تباہی سے دوچار ہے جبکہ کپاس کی فصل بھی تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس سال ملک میں کپاس کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے بیرون ملک سے روئی کی خریداری میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہو ا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 10ماہ میں قریب 70ارب روپے کی روئی درآمد کی گئی جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں دوگنا تھی۔ اس کا براہ راست نتیجہ یہ سامنے آیا کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 10ماہ کے دوران ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات آٹھ فیصد کم ہوگئیں۔ جولائی تا اپریل 2016 کے دوران ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 10 ارب 40 کروڑ ڈالررہیں جوکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 11ارب 27 کروڑ ڈالر تھیں۔ حکومت اگلے مالی سال(17-2016) کا بجٹ پیش کر رہی ہے۔ حکومت اس بجٹ میں بھی مالی خسارہ کم کرنے اور ترقیاتی بجٹ بڑھانے کا عندیہ دے رہی ہے۔ پچھلے سال کے دوران کپاس کی پیداوار میں 28 فیصد کمی کے نتیجے میں بیرون ملک سے روئی کی خریداری میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہو ا ۔ گندم ہی کو لیں 10-2009 میں گندم کی پیداوار میں کمی اور آٹے کا شدید بحران پیدا ہوا۔ جس کے بعد حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت بڑھائے جانے اور سرکاری سطح پرخریداری کے نظام میں بہتری سے پیداوار میں خاصا اضافہ ہوا، اب کاشتکار اسی اضافی پیداوار کی سزا یوں بھگت رہا ہے کہ 1300 روپے کی بوری ہزار میں بھی نہیں بکتی۔ اس سے قبل چینی کا بحران بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔پاکستان میں ٹریکٹر کی صنعت بے رحم اجارہ داری کی گرفت میں ہے۔ کل ملا کے غالباً دو کمپنیاں ہیں جو نہ مسابقت کا ماحول پیدا ہونے دیتی ہیں اور نہ ہی معیار پر توجہ دیتی ہیں۔ البتہ ملی بھگت سے ہرسال ٹریکٹروں کی قیمتوں میں خاصا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جسکی وجہ سے ہر سال لاکھوں کسان اور محنت کش غربت کے سمندر میں غرق ہو رہے ہیں۔
اسلام آباد (ہاجرہ زیدی) پاکستان زرعی تحقیقاتی کاؤنسل کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد نے کہا ہے کہ زراعت کے شعبہ میں تحقیقی سرگرمیوں میں اضافہ اور جدید ٹیکنولوجی کے فروغ سے ملک میں زرعی اجناس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی اے آر سی کے سائنسدان ملک کے زرعی شعبہ کی ترقی کیلئے اپنی بھرپور خدمات فراہم کر رہے ہیں، جبکہ ملکی اور بین الاقوامی تحقیقی اداروں کے تعاون سے ملک میں زراعت کے شعبے میں تحقیقاتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر افتخار نے کہا کہ زرعی شعبہ میں جدید ٹیکنولوجی کو فروغ دے کر فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کی گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ درآمدات پر انحصار کم کرنے کیلئے زرعی پیداوار میں تیزی اور زیرکاشت رقبے کو بڑھانے کیلئے مؤثر حکمت عملی کے تحت کام کیا جارہا ہے۔
زرعی شعبہ کی ترقی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، کسانوں کو درپیش مسائل کے حل کیلئے جامع حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے،حکومت اور نجی شعبہ موثر حکمت عملی کی تیاری کیلئے مل کر کام کر رہے ہیں