1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

زبیدہ خاتون

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از بےباک, ‏16 مارچ 2009۔

  1. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
  2. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    [​IMG]
    ہارون رشید کی بیوی زبیدہ رحمتہ اللہ علیہ بہت ہی دیندار صاحب علم و فضل خا تون تھی‎ ‎ان کے محل میں ‏ایک ہزار با ندھیا ں چو بیس گھنٹے قرآن پاک کی تلا وت میں مشغول رہتی‎ ‎تھیں۔ ایک دفعہ مکہ مکر مہ ‏میں پانی کی شدید قلت ہو گئی اور پانی کا ایک مشکیزہ دس‎ ‎درہم سے لیکر ایک دینار تک بک گیا۔ حجا ج ‏اکرام کو بہت تکلیف اٹھا نا پڑی ۔ زیبدہ‎ ‎رحمتہ اللہ علیہ کو جب اس کی خبر ہوئی تو ان کو بہت دکھ ہوا۔انہو ‏ں نے اپنے‎ ‎انجیئنیروں کو جمع کر کے حکم دیا کہ کسی طرح مکہ مکرمہ کے لیے پانی کا بندوبست‎ ‎کر و اور پانی کے چشمے تلا ش کرو چنا نچہ انہوں نے کا فی تگ و دو سے ایک چشمہ طائف‏‎ ‎کے ‏راستے میں اور دوسرا چشمہ نعمان وادی میں دریافت کیا۔ لیکن ان کا پانی مکہ مکر‎ ‎مہ تک پہنچانا بڑا جا ‏ن جوکھوں کا کام تھا راستے میں پہاڑیا ں تھیں جن کو کھود نا‎ ‎انتہا ئی دشوار تھا لیکن اس نیک خا تو ن ‏نے حکم دیا کہ جتنا بھی خرچ ہو مکہ مکرمہ‏‎ ‎کے لیے پانی کا بند و بست کیا جائے اور اگر کو ئی مزدور ‏پتھر پر ایک کدال مارنے کی‎ ‎ایک اشرفی بھی طلب کرے تو دے دو۔‎
    چنا نچہ تین سال کی شب و روز محنت کے بعد33‏‎ ‎ہزار میٹر (33 کلو میڑ لمبی )نہر تیا ر ہو گئی جس کو ‏ریت سے بچا نے کے لیے اوپر سے‎ ‎ڈھانپا گیا راستے میں کئی جگہ مسافروں کے پانی پینے کے لیے ‏انتظام کیا گیا اور بارش‎ ‎کے زمانے میں بارش کے پانی کو بھی نہر میں ڈالنے کا بندوبست کیا گیا اس میں ‏ایسا‎ ‎مصالحہ استعمال کیا گیا کہ اس کا پانی رِس کر ریتلی زمین میں جذب نہ ہو، نہر کی‎ ‎تیاری پر 70 لاکھ ‏دینا ر خرچ ہو ئے۔ جب حساب کا پرچہ ملکہ کو پیش کیا گیا تو اس وقت‎ ‎وہ دریا ئے دجلہ کے کنا رے اپنے ‏محل میں بیٹھی تھی اس نے وہ پر چہ لیکر اس کو دیکھے‎ ‎بغیر یہ کہہ کر پانی میں بہا دیا کہ ”حساب کو ‏حساب کے دن کے لیے چھوڑا“ اور کہا جس‎ ‎نے مجھ سے اس حساب میںکچھ لینا ہو لے لے ، نہر کے ‏مکمل ہو نے پر بہت خو شی منا ئی‎ ‎گئی اور تعمیر کرنے والوں کو بہت سے انعام و اکرام سے نوازا گیا ۔ ‏اور نہر کا نا م‎ ”‎عین المشاش“ رکھا گیا ۔ مگر اللہ تعالیٰ کو اس کا یہ عمل ایسا پیارا لگا کہ یہ نہر‎ ” ‎نہر ‏زبیدہ رحمتہ اللہ علیہ “ کے نام سے ہی مشہور ہو گئی ۔ اصل نام تو نا معلوم‎ ‎کتنو ں کو معلو م ہو گا۔ یہ نیک ‏دل خا تون جب فوت ہوئیں تو مرنے کے بعد کسی نے ان‎ ‎کو خواب میں دیکھا اور پوچھاکہ اللہ نے آپ کے ‏ساتھ کیا معاملہ کیا تو زبیدہ رحمتہ‎ ‎اللہ علیہ نے کہا کہ میرے اللہ نے میری بخشش فرما دی اور اس عورت ‏نے پو چھا کہ کس‎ ‎عمل پر زبیدہ رحمتہ اللہ علیہ نے کہاکہ میں ایک دفعہ ضرورت کے لیے بیت الخلا ‏ءگئی‎ ‎میں اپنی حاجت کے لیے بیٹھنے ہی والی تھی کہ اذان شروع ہو گئی میں فوراً کپڑے سنبھا‎ ‎ل کر باہر ‏نکل آئی اذان کا جواب دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا‎ ‎اور آذان کی دعا پڑھی اور اس ‏سے فا رغ ہو کر میں نے اپنی حا جت پور ی کی میرے اللہ‎ ‎نے میرے اس عمل کو پسند فرما کر میری ‏بخشش فرمائی۔ اللہ کی رضا کے لیے کیا ہوا کوئی‎ ‎بھی عمل ہماری بخشش کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بظاہر ‏ہماری نظر میں اسکی کو ئی وقعت نہ‎ ‎ہو اس کے لیے امیر یا غریب کی کوئی قید نہیں ۔​
     
  3. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    تاریخ کے جھروکوں سے
    نہر زبیدہ​
    یہ دوسری صدی ہجری کا زمانہ تھا۔ دنیا کے چپے چپے میں اسلام کی کرنیں اپنی تابناک شعاعیں بکھیر رہی تھیں۔ وہی عرب جو کچھ عرصہ پہلے انتقام کی آگ میں جھلس رہے تھے آج اسلامی تعلیمات کی بدولت باہم بھائی بھائی بن چکے تھے، قبائل کے درمیان باہمی اختلافات بلاشبہ پائے جاتے تھے مگر محاذ جنگ پر جب اکٹھے ہوتے تو سب ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے۔ تلواروں کے سائے میں ان کی نمازیں ادا ہوتی تھیں اور جن ملکوں میں وہ جہاد کا پرچم لہراتے وہاں کے باشندوں کے ساتھ عدل و انصاف کرنا ان کی شان تھی۔

    دوسری جانب مسلمان مبلغین بھی دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھے ہوئے تھے، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہونے لگا۔ دوسری صدی ہجری کے اواخر میں مملکت اسلامیہ کی باگ ڈور خلیفہ ہارون الرشید کے ہاتھ میں ہے، دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمان بیت اللہ شریف کا حج ادا کرنے کے لئے آ رہے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں پانی ناپید ہے۔ حجاج کرام اور اہل مکہ بڑی مشکل سے کسی طرح پانی کا بندوبست کر پاتے ہیں۔

    اسی زمانہ میں ملکہ زبیدہ بنت جعفر فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ آتی ہیں۔ انہوں نے جب اہل مکہ اور حُجاج کرام کو پانی کی دشواری اور مشکلات میں مبتلا دیکھا تو انہیں سخت افسوس ہوا، چنانچہ انہوں نے اپنے اخراجات سے ایک عظیم الشان نہر کھودنے کا حکم دے کر ایک ایسا فقید المثال کارنامہ انجام دیا جو رہتی دنیا تک عالم بشریت کو یاد رہے گا۔

    ام جعفر زبیدہ بنت جعفر بن ابو جعفر منصور ہاشمی خاندان کی چشم و چراغ تھیں۔ یہ خلیفہ ہارون الرشید کی چچا زاد بہن تھیں ان کا نام ” امۃ العزیز “ تھا۔ ان کے دادا منصور بچپن میں ان سے خوب کھیلا کرتے تھے، ان کو ” زبیدہ “ ( دودھ بلونےوالی متھانی ) کہہ کر پکارتے تھے، چنانچہ سب اسی نام سے پکارنے لگے اور اصلی نام بھول ہی گئے۔ یہ نہایت خوبصورت اور ذہین و فطین تھیں۔ جب جوان ہوئیں تو خلیفہ ہارون الرشید سے ان کی شادی ہو گئی۔ یہ شادی بڑی دھوم دھام سے ذوالحجہ165 ھ میں ہوئی۔ ہارون الرشید نے اس شادی کی خوشی میں ملک بھر سے عوام و خواص کو دعوت پر بلایا اور مدعوین کے درمیان اس قدر زیادہ مال تقسیم کیا جس کی مثال تاریخ اسلامی میں مفقود ہے۔ اس موقع پر خاص بیت المال سے اس نے پچاس ملین درہم ( 50,000,000 ) خرچ کئے۔ ہارون رشید نے اپنے خاص مال سے جو کچھ خرچ کیا وہ اس کے علاوہ تھا۔

    ہارون رشید ملکہ زبیدہ سے بہت محبت کرتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے اپنی بیوی کو یہ کہہ کر پکارا: ھلمی یا ام نھر ” ام نہر! ذرا ادھر آنا “ زبیدہ نے بعد میں مشہور عالم اصمعی کو بلوا کر پوچھا: امیر المومنین مجھے ” ام نہر “ کہہ کر پکارتے ہیں، اس کے کیا معنی ہیں؟ اصمعی نے جواب دیا: چونکہ جعفر عربی لغت میں ” نہر “ کو کہتے ہیں اور آپ کی کنیت ام جعفر ہے، اس لئے نہر معنی مراد لے کے آپ کو اس نام سے پکارا ہو گا۔

    زبیدہ بڑی ہی سمجھدار خاتون تھیں، حاشیہ برداروں کے کہنے پر کبھی فوری فیصلہ نہیں کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ ایک شاعر نے ان کی خدمت میں چند اشعار سنائے، مگر ردیف و قافیہ اور الفاظ کی ترکیب میں شاید وہ اپنا مافی الضمیر اچھی طرح سے ادا نہیں کر سکا۔ شعر کے مفہوم سے ان کی عظمت کے بجائے گستاخی عیاں تھی۔ حشم و خدم نے شاعر کی عبارت کو ملکہ کی بے ادبی پر محمول کیا اور اس کو گرفتار کرنا چاہا مگر ملکہ نے ان سے کہا: دعوہ فان من اراد خیرا فا¿خطا¿ خیر ممن اراد شرا فاصاب ” اس کو نظر انداز کر دو، کیونکہ جس کی نیت اچھی بات کہنے کی ہو مگر اس سے لغزش ہو جائے، ایسا شخص اس آدمی سے بہتر ہے جس کی نیت بری ہو مگر وہ بات اچھی کہہ جائے۔ “

    ملکہ زبیدہ کی خدمت کے لئے بےشمار نوکرانیاں تھیں، جن کو قرآن کریم یاد تھا اور وہ ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہتی تھیں۔ ان کے محل میں سے قرات کی گنگناہٹ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح آتی رہتی تھی۔

    زبیدہ نے پانی کی قلت کے سبب حجاج کرام اور اہل مکہ کو درپیش مشکلات اور دشواریوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو انہوں نے مکہ میں ایک نہر بنانے کا ارادہ کیا۔ اس سے پہلے بھی وہ مکہ والوں کو بہت زیادہ مال سے نوازتی رہتی تھیں اور حج و عمرہ کے لئے مکہ آنے والوں کے ساتھ ان کا سلوک بے حد فیاضانہ تھا۔ اب نہر کی کھدائی کا منصوبہ سامنے آیا تو مختلف علاقوں سے ماہر انجینئر بلوائے گئے۔ مکہ مکرمہ سے 35 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین کے ” جبال طاد “ سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔

    ایک نہر جس کا پانی ” جبال قرا “ سے ” وادی نعمان “ کی طرف جاتا تھا اسے بھی نہر زبیدہ میں شامل کر لیا گیا یہ مقام عرفات سے 12 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع تھا۔ علاوہ ازیں منیٰ کے جنوب میں صحرا کے مقام پر ایک تالاب بئر زبیدہ کے نام سے تھا جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا ، اس سے سات کاریزوں کے ذریعہ پانی نہر میں لے جایا گیا، پھر وہاں سے ایک چھوٹی نہر مکہ مکرمہ کی طرف اور ایک عرفات میں مسجد نمرہ تک لے جائی گئی۔ اس عظیم منصوبے پر سترہ لاکھ ( 1700000 ) دینار خرچ ہوئے۔

    ملکہ زبیدہ نے انتہائی شوق اور جذبہ اخلاص کے تحت نہر کی کھدائی کرائی تھی۔ وہ حجاج کرام اور اہل مکہ کو پانی کی دشواریوں سے نجات دلانا چاہتی تھیں اور یہ کام اللہ کی خوشنودی کے لئے انہوں نے کیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب نہر زبیدہ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی تو اس منصوبہ کا منتظم انجینئر آیا اور کہنے لگا: آپ نے جس کا حکم دیا ہے اس کے لئے خاصے اخراجات درکار ہیں، کیونکہ اس کی تکمیل کے لئے بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹنا پڑے گا، چٹانوں کو توڑنا پڑے گا، نشیب و فراز کی مشکلات سے نمٹنا پڑے گا، سینکڑوں مزدوروں کو دن رات محنت کرنی پڑے گی، تب کہیں جا کر اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

    یہ سن کر ملکہ زبیدہ نے جو جواب دیا وہ دلچسپ بھی ہے اور اس سے ان کی قوت فیصلہ اور منصوبے سے دلچسپی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے چیف انجینئر سے کہا: اعملھا ولو کانت ضربۃ فاس بدینار اس کام کو شروع کردو، خواہ کلہاڑے کی ایک ضرب پر ایک دینار خرچ آتا ہو۔

    اس طرح جب نہر کا منصوبہ تکمیل کو پہنچ گیا تو منتظمین اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات ملکہ کی خدمت میں پیش کیں۔ اس وقت ملکہ دریائے دجلہ کے کنارے واقع اپنے محل میں تھیں۔ ملکہ نے وہ تمام کاغذات لئے اور انہیں کھول کر دیکھے بغیر دریا برد کر دیا اور کہنے لگیں: ” الٰہی! مجھے دنیا میں کوئی حساب کتاب نہیں لینی، تو بھی مجھ سے قیامت کے دن حساب نہ لینا۔ “

    ملکہ زبیدہ نے یہ عظیم الشان کام انجام دے کر حجاج کرام اور باشندگان مکہ کو پانی کی قلت کے سبب درپیش مشکلات کا مسئلہ حل کر دیا۔ اللہ تعالیٰ اس نہر کو ان کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے۔
    ( یہ واقع وفیات الاعیان۔ البدایۃ والنھایۃ، کتاب الوافی بالوفیات، الاعلام اور تاریخ مکہ مکرمہ، محمد عبدالمعبود وغیرہ کتب سے مواد اکٹھا کر کے لکھا گیا ہے۔ )

    مولانا عبدالمالک مجاہد (دار السلام ، ریاض)
     
  4. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    قارئین! ایک زمانہ تھا جب میدان عرفات میں وضو اور پینے کا پانی نہ تھا تو خلیفہ کی نیک سیرت بیوی زبیدہ حج کرنے آئی اور دیکھا مکہ مکرمہ اور عرفات میں پانی نہیں ہے لہٰذا اس نے طائف کے قریب دو چشموں سے عرفات تک نہر بنوائی اس نہر کا پانی کچھ سال پہلے تک جاری تھا ، لیکن اب نہر کئی جگہ سے توڑ دی گئی ہے اور استعمال میں نہیں ہے میدان عرفات میں جائیں تو پہاڑ کے ساتھ اس نہر کی باقیات اب بھی موجود ہیں خاص طور پر جبل رحمت کے ارد گرد یہ نہر بہت نمایاں ہے کچھ عرصہ پہلے تک اس نہر میں سے پانی لینے کیلئے یہاں نلکے لگائے گئے تھے۔ اب جدہ سے سمندر کا پانی پلانٹ سے صاف کرکے یہاں تک پائپ لائن بچھا دی ہے ، اب عرفات اور منی میں پانی کی قلت کا سدباب ہو گیا ہے،

    :dilphool:
     
  5. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    بہت شکریہ اس شئیرنگ کے لئے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں