روشنی چاہیے کس مول ملے گی صاحب؟نقدِ جاں ہے مرے پلو میں، چلے گی صاحب ؟ اے طلب گارِ وفا، یہ ہے اصولِ بازارجنس کم ہو گی، تو قیمت تو چڑھے گی صاحب زندگی بھر کی مشقت کا صلہ، ایک سوالاب یہ گاڑی کبھی پٹڑی پہ چڑھے گی صاحب ؟دل کے تالاب کے ٹھہرے ہوئے سناٹوں میں سنگ پھینکو گے تو ہلچل تو مچے گی صاحبزندگی کیا، کسی مزدور کی بیگار ہوئی اور اسی طرح سے باقی بھی کٹے گی صاحباب افسانے کا یہ انجام نہیں بدلے گا اب یہی فلم ہر اک بار چلے گی صاحبتم چلے جاؤ گے تو بھی یہی منظر ہوں گے بس یہ دنیا مری دنیا نہ رہے گی صاحب مسترد دل کی تلافی نہیں ہوتی کچھ بھی بن بھی جائے گی تو نہ اب بات بن ے گی صاحبمیری خدمت، مری عزت کے مقابل رکھوپورا تولو گے، تبھی بات بنے گی صاحبسانپ تو آئیں گے اس گھونسلے کی سمت مگرچڑیا مر کر بھی نہ انڈوں سے ہٹے گی صاحب یہ تو معلوم ہے ڈھل جائے گی یہ رات رضی کتنی قربانی مگر لے کے ڈھلے گی صاحب ؟ڈاکٹر سید رضی محمد۔۔۔بشکریہ عالمی اخبار۔۔۔