1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

روبروئے بوستاں

'گپ شپ' میں موضوعات آغاز کردہ از عثمان عثمی, ‏18 اپریل 2015۔

  1. عثمان عثمی
    آف لائن

    عثمان عثمی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اپریل 2015
    پیغامات:
    11
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    ::::: روبروئے بوستاں :::::
    ۔
    قسط اول
    وِجدان ہاشمی
    الیکٹرونکس لیب کی آخری کلاس پڑھ کر باہر نکلا تو تیز ٹھنڈی ہوا میں بارش کے چھوٹے چھوٹے قطرے جھول کھاتے یہاں وہاں گر رہے تھے... فضا میں بارش کی وجہ سے مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو رچی بسی ہوئی تھی... گزشتہ دن کی طوفانی بارش کی وجہ سے یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں پانی ابھی تک کھڑا تھا، منہ زور آندھیوں نے سفیدے کے کچھ درخت جڑوں سمیت زمین سے اکھاڑ پھینکے تھے جو اپ اپنی کم مائیگی و بے وقعتی پر نوحہ کناں تھے.... ان دنوں تواتر سے بارشوں کا اک سلسلہ شروع تھا جو کبھی آہستہ ہو جاتا کبھی بہت تیز ہو جاتا.....
    " بارشیں بہت سود مند ثابت ہوتی ہیں، باہر کی ہوں یا انسان کے اندر کی، جل تھل کر دیتی ہیں... ماحول میں نکھار آ جاتا ہے ہر سو ہریالی ہی ہریالی ہو جاتی ہے.... برسوں کے غبار ایک چھینٹے میں ہی چھٹنے لگتے ہیں...
    مگر کچھ بارشیں اذیت ناک اور باعثِ آزار ہوتی ہیں، سب کچھ بہا لے جاتی ہیں.... آنکھوں میں خاک اور دھواں بھر دیتی ہیں، گزشتہ یادوں کے دفن شدہ پودے اک اک کر کے دوبارہ سر اٹھانے لگتے ہیں... خلش و چبھن حد سے بڑھ جاتی ہے "

    ۔
    دل کے آنگن میں برسے، یادیں بہا لے جائے
    اک آدھ ہی بارش ہو جائے، اک بار تو ساون آئے
    (وجدانؔ ھاشمی)

    ۔
    دن ڈھلنے کے باوجود یونیورسٹی میں طلبہ اچھی خاصی تعداد میں موجود تھے اور موسم کا لطف لے رہے تھے... کچھ منچلے ہاتھوں کا پیالہ بنا کر اپنے دوستوں پر گراؤنڈ میں بارش کا گدلا پانی پھینک رہے تھے اور بدلے میں ان دوستوں کے مغلظات سن کے اونچے اونچے قہقہے مارتے، اک طرف لڑکوں کا اک گروہ اپنی کلاس کے اک لڑکے کو گھیر لیتا، مزاحمت کے باوجود اسے بازوؤں اور ٹانگوں سے پکڑ کر پانی میں پھینک کر دل بستگی کا سامان کیا جا رہا تھا... چند ایک جوڑے خراماں خراماں چال چلتے اک دوجے کی باتوں پر جھینپتے اور بلاوجہ کھلکھلا کر ہنستے ادھر سے ادھر ٹہلتے پھر رہے تھے جبکہ کچھ نازک اندام لڑکیاں بارش کے ننھے منے قطروں سے خود کو بچاتیں رجسٹر کو سر پہ بلند کیے جائے پناہ ڈھونڈنے میں تیزی دکھا رہی تھیں...
    ایک آدھ پرندہ پانی کے قریب اترتا، ذرا جھجھکتے ہوئے پانی میں اتر کر اپنے پروں کو پھڑپھڑا کر خود کو مکمل طور پر گیلا کر لیتا...... شجر، پودوں اور پھولوں نے گویا نئے اجلے لباس زیب تن کر لیے تھے اور شاداں و فرحاں دکھائی دیتے تھے....
    موسم کا مزہ اور گردوپیش کا جائزہ لیتے یونیورسٹی سے باہر نکل آیا اور ھاسٹل کی جانب چل دیا...
    چند ضروری کام نمٹا کر جونہی فیسبک پر پہنچا تو "میں کل چنیوٹ آ رہا ہوں" کے پیغام نے دل کے تار چھیڑ دیے... محترم عثمان اسلم کی طرف سے بھیجا گیا پیام مجھے مسرت و سرشاری کی دنیا میں کھینچ لایا... خیال ہی خیال میں پرگرام ترتیب دینے لگا کہ کیسے ملیں گے، کیا کچھ کریں گے، کہاں کہاں گھومیں پھریں گے... اتنے میں خیال گزرا کہ کہیں مجھ کج فہم کے ساتھ مذاق کر کے بدلہ چکانے کا ارادہ تو نہیں... (دراصل اک بار میری طرف سے ملاقات کے عہد و پیماں ہوئے مگر ٓدکھائے گئے خواب کو شرمندء تعبیر نہ کر سکا)
    تو اسی خدشے کے پیشِ نظر فوراً اک پیغام بھیج کر تصدیق چاہی، جوابی پیغام پڑھ کر کسی قدر اطمینان ہوا کہ حضرت نے مخول واقع ہی نہیں کیا ہے...
    کچھ دیر ملاقات کے وقت و اور دیگر امور پر بات چلتی رہی... میں اس وقت شرِ سرگودھا میں سانس لے رہا تھا... سوچا کل وقت پر پہنچ نہ سکا تو سارا مزہ کرکرا ہو جائے گا.. اسی خیال کے گزرتے ہی عثمان صاحب کو اطلاع کر کے رابطہ منقطع کیا... ضروری سامان بیگ میں ڈال کے واپسی کے ارادے سے باہر نکل آیا...
    ۔
    موسم تو کہیں اور لیے جاتا ہے شاعرؔ
    ماحول کہیں اور لیے جاتا ہے مجھ کو
    (حمایت علی شاعرؔ)
    ۔

    (جاری ہے....)
     
    Last edited: ‏18 اپریل 2015
    ھارون رشید اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    دلچسپ سلسلہ ہے انتظار رہے گا
     
    عثمان عثمی نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. عثمان عثمی
    آف لائن

    عثمان عثمی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اپریل 2015
    پیغامات:
    11
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ سر لیکن مجھے ایک بات کی سمجھ نئی لگ رہی اگلے حصے کے لئیے مجھے علیحدہ سے پوسٹ بنا نی پڑے گی یاں پھر اسی کی جوابات میں پوسٹ کرنا پڑے گا
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. عثمان عثمی
    آف لائن

    عثمان عثمی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اپریل 2015
    پیغامات:
    11
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    ::::: روبروئے بوستاں :::::
    ۔
    قسط دوم
    وِجدان ہاشمی

    [​IMG]


    پورا ہوا ہے عزمِ سفر مدتوں کے بعد
    جھلکا دعا میں رنگِ اثر مدتوں کے بعد
    (مولانا زکی کیفیؔ)

    ۔
    رکشے میں بیٹھ کر اڈے پر پہنچا تو کافی سارے مسافر بس کے انتظار میں روڈ پر نظریں جمائے کھڑے تھے۔۔۔۔۔ ہلکی ہلکی بارش ماحول کو سوگوار بنا رہی تھی۔۔۔
    “ہلکی ہلکی بارش میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سب دھیما پڑ گیا ہے، نبضِ کائنات میں جیسے جزوی ٹھہراؤ آ جاتا ہے، گاڑیوں کا بے ہنگم شور تھم مدھم ہو جاتا ہے۔۔۔۔ پرندے سرگوشیاں کرتے نظر آتے ہیں، درخت اشاروں سے ہی اپنی بات کہہ سن لیتے ہیں”
    میں بھی ان لوگوں کے درمیان میں جا کر کھڑا ہو گیا، اور روڈ پر نظریں جمائے بس کا انتظار کرنے لگا۔۔۔ ایسا لگتا تھا بقیہ کھڑے لوگ کب سے بس کے انتظار میں کھڑے ہیں کہ چہرے سے اکتاہٹ جھلکتی تھی۔۔۔ جونہی کوئی بس دور سے ہی دکھائی دیتی تو اکثر دوڑ کر سڑک تک چلے جاتے ۔۔۔ مگر مطلوبہ گاڑی نہ پا کر مایوسی سے سر جھکا کر لوٹ آتے۔۔۔ ٹائم پاس کرنے کے لیے لوگ آپس میں مختلف موضوعات پر گفتگو کر رہے تھے، بعض پاکستان کے نظام کو کوس رہے تھے کچھ جواں سال لڑکے سب سے بےنیاز کھڑے موبائل سیٹ پر تیز تیز انگلیاں چلا رہے تھے، انہیں گردوپیش سے کچھ سروکار نہ تھا۔۔۔۔
    موسم نے ذرا کروٹ لی۔۔۔ بوندا تیزدھار بارش کا رخ اختیا کر گئی۔۔۔ مسافر بس کو بھول کر اک دفعہ اپنے سامان اور خود کو بھیگنے سے بچانے کی فکر لاحق ہوئی۔۔۔ کچھ نے درختوں کا سایہ لیا جبکہ کچھ اڈے ساتھ ملحقہ دکانوں کے چھجوں کی آڑ میں ہو گئے۔۔۔
    آسمان پر بادل روئی کے گالوں کی طرح ادھر سے ادھر دوڑتے پھر رہے تھے۔۔ گویا اک دوجے کو پکڑ رہے ہوں، اور آسمان پربادلوں کی مختلف شکلیں بن جاتیں۔۔ سورج اپنی آخری کرنیں اہلِ مشرق پر نچھاور کرتا اس پار ہوا جاتا تھا۔۔۔ آسمان پر آخری کرنوں کی لالی بہت خوشنما و خوش رنگ تھی ، گماں ہوتا تھا آسمان کی مانگ میں سیندور بھر دیا گیا ہے۔۔
    کبھی کبھار تیز ہوا کا جھونکا والہانہ پن سے لپٹ کر بدن میں جھرجھری پیدا کر دیتا۔۔۔ چائے کے ہوٹلوں پر رش بڑھ رہا تھا۔۔۔۔
    قسمت کو شاید آج ہی امتحاں مقصود تھا۔۔۔ پون گھنٹا ہونے کو آیا تھا مگر ابھی تک کسی بھی سواری کا بندوبست نہ ہو سکا۔۔۔ اک دوبار جی میں آیا کہ بارش سے تربتر کپڑوں اور بیگ سمیت زیادہ دیر کھڑا نہیں رہا پائے سو واپسی کا قصد کیا جائے مگر اس خیال کے تحت اردہ ترک کر دیا اگر کل صبح موسم کی روش یہی رہی، گاڑی وقت پر میسر نہ آ سکی تو کیسی سبکی ہو گی۔۔۔۔ انہیں خدشات کے پیشِ نظر جی کڑا کیے کھڑا رہا۔۔
    اندھیرا ابھی زیادہ گہرا بھی نہیں ہوا تھا کہ اک چھوٹی بس کو دور سڑک سے آتا دیکھ کر لوگ پہلے ہی سڑک کے گرد اکٹھے ہو گئے اور فیصل آباد کا سائن بورڈ دیکھ کر بس کی طرف لپکے۔۔۔ ہر اک کی کوشش تھی کے سب سے پہلے سوار ہو۔۔۔ تھوڑی تگ و دو کے بعد بس میں سوار ہونے میں مَیں بھی کامیاب ہو ہی گیا۔۔
    ہم اکثر ناشکری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔۔۔ کبھی بس کے انتظار میں اگر کھڑے ہوں تو شدت سے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ بس جلدی آجائے۔۔۔ بس آجاتی ہے تو شکر کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے ہم سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ کاش کوئی اور دعا ہی مانگ لیتے۔۔۔۔ شکر گزار ہونے کی بجائے ناشکرے بن جاتے ہیں۔۔۔
    دماغ و دل مسلسل اک ہی محرک کے گرد سرگرداں تھے۔۔ ملاقات کے مختلف مناظر از خود پردہ دماغ پر بنتے اور مٹ جاتے۔۔۔ اس خیال سے دامن چھڑانے کے لیے اردو ادب کی اک کتاب کھول کر بیٹھ گیا۔۔۔ الفاظ پر نظر نہیں جم رہی تھی۔۔ دماغ و نظر میں ربط کسی طور پر نہیں بن رہا تھا۔۔ سو کتاب دوبارہ بیگ میں دھر کر بس کی جانبی ادھ شکستہ کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔۔۔ باھر سے آنے والی ٹھنڈی ہوا بھلی محسوس ہو رہی تھی۔۔ کب جانے آنکھ لگ گئی۔۔
    اک جھٹکے سے آنکھ کھلی تو بس میں شور اور جھگڑے کی سی کیفیت تھی۔۔ سفر کہیں ابھی آدھا ہی ہوا تھا کہ ڈرائیور نے آگے جانے سے انکار کر دیا۔۔۔ (رات کے وقت اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ڈرائیور مسافرین کو مطلوبہ مقامات پر نہیں پہنچاتے ہیں، کوئی عذر تراش کر کسی نزدیکی اڈے یا پیچھے آنے والی بس میں بٹھانے کا کہہ کر اتار دیتے ہیں)۔
    سب کو غصہ آنا فطری تھا، بس انتظامیہ کو صلواتیں سناتے سب نیچے اتر گئے۔۔۔ بارش بدستور جاری تھی مگر زور میں کافی حد تک کمی آ چکی تھی۔۔۔ سڑک پر حدِ نگاہ تک کسی گاڑی کا کوئی نشاں نہیں تھا، البتہ کچھ وقفے بعد ایک آدھ ٹرک گزرجاتا۔۔۔ اک خیال سے گزرے تھے کہ دوجے خیال نے گھیر لیا بقیہ سفر کیسے کٹے گا۔۔۔ تنہا کھڑے بس کا انتظار کرنے لگے۔۔۔
    ۔
    دل کو جس وقت بھی دیکھا اسے تنہا پایا
    زندگی کیسے کٹے گی خدایا تنہا
    ۔
    دشتِ پرخار میں ساتھ اہلِ سفر نے چھوڑا
    رہ گیا ساتھ میرے بس میرا سایا تنہا
    ۔
    یوں تو ہر سمت بپا سینکڑوں ہنگامے تھے
    پھر بھی جس شخص کو دیکھا اسے پایا تنہا
    ۔
    جس کی ہیبت سے پہاڑوں کے جگر شَق ہو جائیں
    ہم نے اس بارِ امانت کو اٹھایا تنہا
    ۔
    ترے جلوں نے نگاہوں سے چھپا دی ہر شے
    تو بھری بزم میں ہم کو نظر آٰیا تنہا
    (مولانا زکی کیفیؔ)

    ۔
    “بعض دفعہ ایسا ہی ہوتا ہے انسان زندگی کے دوراہے پر بلکل اکیلا رہ جاتا ہے۔۔ آبلہ پا ہوتے ہوئے تنہا سفر کرنے کا خیال مزید حوصلے پست کر دیتا ہے، گردشِ دوراں کی کڑی دھوپ اور نڈھال کر دیتی ہے۔۔۔ خارِراہ، خرد کی تاویلیں آسیب بن کر دلوں میں بیٹھ جاتی ہیں۔۔ کچھ تو تھکےھوئے پرندوں کی مانند بے دم ہو کر ذرا ہی آگے گر پڑتے ہیں اور سنگِ راہ میں ڈھل جاتے ہیں۔۔۔
    اس کڑے وقت میں اک ہی امید دلوں کو تقویت، سانسوں کو روانی بخشتی ہے۔۔۔ اک ہی دیپ اندھیروں کو رفع کر کے اجالوں کے دروازے وا کرتا ہے۔۔۔ اک ہی ذات کا خیال شکستہ پا کو ثبات بخشتا ہے۔۔۔
    جب کوئی، ساتھ نہیں رہ جاتا اللہ اور قریب ہو جاتا ہے۔۔۔ شہہ رگ کا فاصلہ مزید سمٹ جاتا ہے۔۔”
    ۔
    رازِ وحدت کی قسم، جلوہء کثرت کی قسم
    تو ہی ہر شے کی حقیقت ہے، حقیقت کی قسم
    (مولانا زکی کیفیؔ)
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. عثمان عثمی
    آف لائن

    عثمان عثمی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اپریل 2015
    پیغامات:
    11
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    ::::: روبروئے بوستاں :::::
    ۔
    قسط دوم
    وِجدان ہاشمی

    [​IMG]


    پورا ہوا ہے عزمِ سفر مدتوں کے بعد
    جھلکا دعا میں رنگِ اثر مدتوں کے بعد
    (مولانا زکی کیفیؔ)

    ۔
    رکشے میں بیٹھ کر اڈے پر پہنچا تو کافی سارے مسافر بس کے انتظار میں روڈ پر نظریں جمائے کھڑے تھے۔۔۔۔۔ ہلکی ہلکی بارش ماحول کو سوگوار بنا رہی تھی۔۔۔
    “ہلکی ہلکی بارش میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سب دھیما پڑ گیا ہے، نبضِ کائنات میں جیسے جزوی ٹھہراؤ آ جاتا ہے، گاڑیوں کا بے ہنگم شور تھم مدھم ہو جاتا ہے۔۔۔۔ پرندے سرگوشیاں کرتے نظر آتے ہیں، درخت اشاروں سے ہی اپنی بات کہہ سن لیتے ہیں”
    میں بھی ان لوگوں کے درمیان میں جا کر کھڑا ہو گیا، اور روڈ پر نظریں جمائے بس کا انتظار کرنے لگا۔۔۔ ایسا لگتا تھا بقیہ کھڑے لوگ کب سے بس کے انتظار میں کھڑے ہیں کہ چہرے سے اکتاہٹ جھلکتی تھی۔۔۔ جونہی کوئی بس دور سے ہی دکھائی دیتی تو اکثر دوڑ کر سڑک تک چلے جاتے ۔۔۔ مگر مطلوبہ گاڑی نہ پا کر مایوسی سے سر جھکا کر لوٹ آتے۔۔۔ ٹائم پاس کرنے کے لیے لوگ آپس میں مختلف موضوعات پر گفتگو کر رہے تھے، بعض پاکستان کے نظام کو کوس رہے تھے کچھ جواں سال لڑکے سب سے بےنیاز کھڑے موبائل سیٹ پر تیز تیز انگلیاں چلا رہے تھے، انہیں گردوپیش سے کچھ سروکار نہ تھا۔۔۔۔
    موسم نے ذرا کروٹ لی۔۔۔ بوندا تیزدھار بارش کا رخ اختیا کر گئی۔۔۔ مسافر بس کو بھول کر اک دفعہ اپنے سامان اور خود کو بھیگنے سے بچانے کی فکر لاحق ہوئی۔۔۔ کچھ نے درختوں کا سایہ لیا جبکہ کچھ اڈے ساتھ ملحقہ دکانوں کے چھجوں کی آڑ میں ہو گئے۔۔۔
    آسمان پر بادل روئی کے گالوں کی طرح ادھر سے ادھر دوڑتے پھر رہے تھے۔۔ گویا اک دوجے کو پکڑ رہے ہوں، اور آسمان پربادلوں کی مختلف شکلیں بن جاتیں۔۔ سورج اپنی آخری کرنیں اہلِ مشرق پر نچھاور کرتا اس پار ہوا جاتا تھا۔۔۔ آسمان پر آخری کرنوں کی لالی بہت خوشنما و خوش رنگ تھی ، گماں ہوتا تھا آسمان کی مانگ میں سیندور بھر دیا گیا ہے۔۔
    کبھی کبھار تیز ہوا کا جھونکا والہانہ پن سے لپٹ کر بدن میں جھرجھری پیدا کر دیتا۔۔۔ چائے کے ہوٹلوں پر رش بڑھ رہا تھا۔۔۔۔
    قسمت کو شاید آج ہی امتحاں مقصود تھا۔۔۔ پون گھنٹا ہونے کو آیا تھا مگر ابھی تک کسی بھی سواری کا بندوبست نہ ہو سکا۔۔۔ اک دوبار جی میں آیا کہ بارش سے تربتر کپڑوں اور بیگ سمیت زیادہ دیر کھڑا نہیں رہا پائے سو واپسی کا قصد کیا جائے مگر اس خیال کے تحت اردہ ترک کر دیا اگر کل صبح موسم کی روش یہی رہی، گاڑی وقت پر میسر نہ آ سکی تو کیسی سبکی ہو گی۔۔۔۔ انہیں خدشات کے پیشِ نظر جی کڑا کیے کھڑا رہا۔۔
    اندھیرا ابھی زیادہ گہرا بھی نہیں ہوا تھا کہ اک چھوٹی بس کو دور سڑک سے آتا دیکھ کر لوگ پہلے ہی سڑک کے گرد اکٹھے ہو گئے اور فیصل آباد کا سائن بورڈ دیکھ کر بس کی طرف لپکے۔۔۔ ہر اک کی کوشش تھی کے سب سے پہلے سوار ہو۔۔۔ تھوڑی تگ و دو کے بعد بس میں سوار ہونے میں مَیں بھی کامیاب ہو ہی گیا۔۔
    ہم اکثر ناشکری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔۔۔ کبھی بس کے انتظار میں اگر کھڑے ہوں تو شدت سے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ بس جلدی آجائے۔۔۔ بس آجاتی ہے تو شکر کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے ہم سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ کاش کوئی اور دعا ہی مانگ لیتے۔۔۔۔ شکر گزار ہونے کی بجائے ناشکرے بن جاتے ہیں۔۔۔
    دماغ و دل مسلسل اک ہی محرک کے گرد سرگرداں تھے۔۔ ملاقات کے مختلف مناظر از خود پردہ دماغ پر بنتے اور مٹ جاتے۔۔۔ اس خیال سے دامن چھڑانے کے لیے اردو ادب کی اک کتاب کھول کر بیٹھ گیا۔۔۔ الفاظ پر نظر نہیں جم رہی تھی۔۔ دماغ و نظر میں ربط کسی طور پر نہیں بن رہا تھا۔۔ سو کتاب دوبارہ بیگ میں دھر کر بس کی جانبی ادھ شکستہ کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔۔۔ باھر سے آنے والی ٹھنڈی ہوا بھلی محسوس ہو رہی تھی۔۔ کب جانے آنکھ لگ گئی۔۔
    اک جھٹکے سے آنکھ کھلی تو بس میں شور اور جھگڑے کی سی کیفیت تھی۔۔ سفر کہیں ابھی آدھا ہی ہوا تھا کہ ڈرائیور نے آگے جانے سے انکار کر دیا۔۔۔ (رات کے وقت اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ڈرائیور مسافرین کو مطلوبہ مقامات پر نہیں پہنچاتے ہیں، کوئی عذر تراش کر کسی نزدیکی اڈے یا پیچھے آنے والی بس میں بٹھانے کا کہہ کر اتار دیتے ہیں)۔
    سب کو غصہ آنا فطری تھا، بس انتظامیہ کو صلواتیں سناتے سب نیچے اتر گئے۔۔۔ بارش بدستور جاری تھی مگر زور میں کافی حد تک کمی آ چکی تھی۔۔۔ سڑک پر حدِ نگاہ تک کسی گاڑی کا کوئی نشاں نہیں تھا، البتہ کچھ وقفے بعد ایک آدھ ٹرک گزرجاتا۔۔۔ اک خیال سے گزرے تھے کہ دوجے خیال نے گھیر لیا بقیہ سفر کیسے کٹے گا۔۔۔ تنہا کھڑے بس کا انتظار کرنے لگے۔۔۔
    ۔
    دل کو جس وقت بھی دیکھا اسے تنہا پایا
    زندگی کیسے کٹے گی خدایا تنہا
    ۔
    دشتِ پرخار میں ساتھ اہلِ سفر نے چھوڑا
    رہ گیا ساتھ میرے بس میرا سایا تنہا
    ۔
    یوں تو ہر سمت بپا سینکڑوں ہنگامے تھے
    پھر بھی جس شخص کو دیکھا اسے پایا تنہا
    ۔
    جس کی ہیبت سے پہاڑوں کے جگر شَق ہو جائیں
    ہم نے اس بارِ امانت کو اٹھایا تنہا
    ۔
    ترے جلوں نے نگاہوں سے چھپا دی ہر شے
    تو بھری بزم میں ہم کو نظر آٰیا تنہا
    (مولانا زکی کیفیؔ)

    ۔
    “بعض دفعہ ایسا ہی ہوتا ہے انسان زندگی کے دوراہے پر بلکل اکیلا رہ جاتا ہے۔۔ آبلہ پا ہوتے ہوئے تنہا سفر کرنے کا خیال مزید حوصلے پست کر دیتا ہے، گردشِ دوراں کی کڑی دھوپ اور نڈھال کر دیتی ہے۔۔۔ خارِراہ، خرد کی تاویلیں آسیب بن کر دلوں میں بیٹھ جاتی ہیں۔۔ کچھ تو تھکےھوئے پرندوں کی مانند بے دم ہو کر ذرا ہی آگے گر پڑتے ہیں اور سنگِ راہ میں ڈھل جاتے ہیں۔۔۔
    اس کڑے وقت میں اک ہی امید دلوں کو تقویت، سانسوں کو روانی بخشتی ہے۔۔۔ اک ہی دیپ اندھیروں کو رفع کر کے اجالوں کے دروازے وا کرتا ہے۔۔۔ اک ہی ذات کا خیال شکستہ پا کو ثبات بخشتا ہے۔۔۔
    جب کوئی، ساتھ نہیں رہ جاتا اللہ اور قریب ہو جاتا ہے۔۔۔ شہہ رگ کا فاصلہ مزید سمٹ جاتا ہے۔۔”
    ۔
    رازِ وحدت کی قسم، جلوہء کثرت کی قسم
    تو ہی ہر شے کی حقیقت ہے، حقیقت کی قسم
    (مولانا زکی کیفیؔ)

    حصہ اول پڑھنے کے لئیے نیچے لنک پر کلک کریں
    روبروئے بوستاں حصہ اول
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    یہیں پوسٹ کرتے رہیں ایک ہی جگہ پڑہنے کا لطف زیادہ آئے گا
     
    عثمان عثمی نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. عثمان عثمی
    آف لائن

    عثمان عثمی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اپریل 2015
    پیغامات:
    11
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    چلیں جناب اگلہ حصہ یہیں پوسٹ کر دیا جائے گا اس مرتبہ تو علیحدہ سے پوسٹ بن گےی ہے
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. عثمان عثمی
    آف لائن

    عثمان عثمی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اپریل 2015
    پیغامات:
    11
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    باقی آپ تمام احباب کے اچھے سے فیڈ بیک کا انتظار رہے گا
     
  9. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    میں نے اکٹھی کردی ہے
     
    عثمان عثمی نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. عثمان عثمی
    آف لائن

    عثمان عثمی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اپریل 2015
    پیغامات:
    11
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ جناب
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں