1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رمضان المبارک پر اختلافات کا ذمہ دار کون؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از زبیراحمد, ‏9 جولائی 2012۔

  1. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستان شاید دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جہاں رویت ہلال کامسئلہ گزشتہ ساٹھ سال میں حل نہیں ہوسکا اور اس جدید دور میں جب غیر اسلامی قوتیں چاند پر کمندیں ڈال کر وہاں انسانوں کو بسانے کی تیاریاں کررہی ہیں ہم اب بھی چاندکے نظر آنے اور نہ آنے کے چکر میں دست وگریبان ہیں۔ 28شعبان کو صوبہ خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں سے رویت کی شہادتیں موصول ہونے کے بعد اکثر علاقوں میں پہلا روزہ سوموار یکم اگست کو رکھا گیا جبکہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کااجلاس چونکہ پہلے سے یکم اگست بمطابق 29شعبان بروز سوموار کراچی میں طے تھا اسلئے مرکزی کمیٹی نے دو اگست بروز منگل پہلا روزہ رکھنے کااعلان کیا۔ دو الگ الگ ایام میں روزے رکھنے والے پریشان ہیں کہ سوموار کو پہلا روزہ رکھنے والوں کاروزہ صحیح تھا یاپھر منگل کو پہلا روزہ رکھنے والوں کا۔سوال یہ ہے کہ قوم کو ذہنی اذیت او ر پریشانی سے دوچار کرنے نیز قوم کی اس تقسیم کی ذمہ داری مرکزی رویت ہلال کمیٹی پر عائد ہوتی ہے یاپھراس قضیئے کا ذمہ دار صوبہ خیبر پختونخوا کاایک مخصوص مذہبی طبقہ ہے۔ ا س موضوع پر ویسے تو ہمارے ہاںہر سال بحث وتمحیص ہوتی ہے البتہ ہر سال کے بر عکس ا س سال اس بحث کاآغاز عید الفطر کی بجائے رمضان المبارک سے ہواہے۔ سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مسجد قاسم علی خان کے خطیب اورمقامی غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے چیئر مین مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے ساتھ اس سال رمضان المبارک کاچاند دیکھنے کے حوالے سے یہ طے پایاتھا کہ مقامی غیر سرکاری کمیٹی یکم اگست کو ہونے والے سرکاری زونل کمیٹی کے اجلاس کے ساتھ مشترکہ طو رپر اجلاس منعقد کرے گی اور یہ کہ غیر سرکاری کمیٹی ازخود چاند نظر آنے کااعلان کرنے کی بجائے موصولہ شہادتیں زونل کمیٹی کو ریفر کرے گی لیکن صوبائی وزیر اوقاف ومذہبی امور نمروز خان کے بقول مسجد قاسم علی خان کی مقامی کمیٹی 31جولائی کو اچانک رات گئے اجلاس منعقد کرکے اور رمضان المبارک کاچاند نظر آنے کا اعلان کرکے اس زبانی معاہدے کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔

    صوبائی حکومت کے ان الزامات کے جواب میں مفتی شہاب الدین پوپلزئی کاکہنا ہے کہ جب انہیں پشاور سے چاند نظر آنے کی چھ شہادتیں موصول ہوئیںتو انہوں نے ازخود کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے ان شہادتوں کو کمیٹی کے روبروپیش کیا جس پر کمیٹی نے تسلی ہونے کے بعد مورخہ یکم اگست بروز پیر یکم رمضان المبارک ہونے کااعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ پشاور کے علاوہ ہمیں مردان سے چار ،میر علی شمالی وزیر ستان سے آٹھ جبکہ خیبر ایجنسی سے بھی چاند نظر آنے کی شہادتیں موصول ہوئیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ سرکاری رویت ہلال کمیٹی کی موجودگی میں آپ کاچاند نظرآنے کااعلان قومی یکجہتی اور مذہبی اتفاق ویگانگت کی خلاف ورزی نہیں ہے کے متعلق مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے کہا کہ شرعی نقطہ نظر سے یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک ہی دن پورے ملک میں روزہ رکھا جائے یاعید کی جائے تاہم اگر حکومت کی جانب سے اس ضمن میں اتفاق واتحاد پید اکرنے کی کوشش کی جائے تو یہ مستحسن اقدام ہوگا۔ مسجد قاسم علی خان سے چاند نظر آنے یا نہ آنے کے اعلانات اس حوالے سے بھی دلچسپی کے حامل ہیں کہ صوبے کی غالب اکثریت بالعموم یہاں سے چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کے متعلق اعلانات ہی کو قابل اعتبار سمجھتی ہے۔مسجد قاسم علی خان کی اس مرکزیت اور عوامیت کی وجہ صوبے کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہزاروں لاکھوں مساجد کے آئمہ کرام او رخطباء کامسجد قاسم علی خان کے ساتھ ایک غیر محسوس مذہبی رشتے میں بندھے ہوئے ہوناہے جس کا ثبوت عید اور رمضان المبارک کیلئے یہاں منعقد ہونے والے اجلاسوں میں صوبے کے دور دراز مقامات سے آئے ہوئے ہزاروں علماء کرام اور آئمہ مساجد کی شرکت ہے۔ شاید یہ اس حیثیت کااحساس تفاخر ہی ہے جو ا س مسجد کے خطیب کو پوری ریاستی مشینری بشمول سول انتظامیہ‘صوبائی حکومت، زونل و مرکزی رویت ہلال کمیٹی اور حتیٰ کہ وزارت داخلہ اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے وفاقی اداروں اور محکموں کو چیلنج کرنے کا حوصلہ دیتاہے۔

    یہاں ا س سوال کاجواب بھی ضرور تلاش کیا جانا چاہیے کہ قوم کی تقسیم اور ا سکے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی اصل ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔اگر بنظر غائردیکھا جائے تو ا س کوتاہی اور قوم کو آزمائش سے دوچار کرنے کی یہ ذمہ داری ان دونوں طبقات پر یکساں طو رپر عائد ہوتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اصولاً اور قانوناً اس تمام تر کوتاہی اور افراط تفریط کی براہِ راست ذمہ داری وقت کے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جن کی کوتاہی، عدم توجہی اور لاپرواہی سے یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے لہٰذا زمینی حقائق کاتقاضہ ہے کہ رمضان المبارک اور عیدین کے مقدس ماہ وایام کو سچے اسلامی جذبے اور ان کی حقیقی اسلامی روح کے مطابق منانے کے لئے متعلقہ اداروں او ر بالخصوص حکومت کو نہ صرف تمام اہم اور ضروری اقدامات بروقت اٹھانے چاہئیں بلکہ اس ضمن میں غفلت اور کوتاہی کے مرتکب ذمہ داران اور عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنے والے عناصر کے خلاف قرآن وسنت کے مطابق سخت سے سخت اقدامات اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے ‘ اس ضمن میں مولانا فضل الرحمان کا اپنی پارٹی کے عہدیداران کے خلاف تادیبی کاروائی کا اعلان نہ صرف قوم کے جذبات کی ترجمانی ہے بلکہ ان کے اس اعلان میں حکومت کے لئے بھی متعلقہ ذمہ دار اداروں کے خلاف کاروائی کا پورا سامان موجود ہے۔
    dailyaaj
    Monday 09 July 2012
     

اس صفحے کو مشتہر کریں