1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کیوں؟

'گپ شپ' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏18 جنوری 2019۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کیوں؟


    اسلام کا مطالبہ ہے کہ ہرمؤمن کے نزدیک تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ محبوب ترین ذات ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہونی چاہے ، حتی کہ اسے اپنی جان سے بھی زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہونی چاہے اگرایسانہیں ہے تواس کاایمان خطرہ میں ہے۔

    عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
    [بخاری: کتاب الایمان:باب حب الرسول من الایمان،رقم15]۔


    صحابی رسول انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتاجب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ ،اس کے بیٹے اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔

    سوال یہ ہے کہ ہر مؤمن کواللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت ہونی چاہئے اس کی کیاوجہ ،مرکزی وجہ یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پرعمل کرنے پر آمادہ کرے ،لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ صلی اللہ کی ذات میں بھی ایسی خوبیاں موجود ہیں جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کافطری تقاضہ کرتی ہیں ،ان خوبیوں کے تذکرہ سے قبل آئیے دیکھتے ہیں کہ کسی سے محبت کیوں کی جاتی ہے ؟اگرہم اہل دنیا کی محبتوں کاجائزہ لیں اوران کے واقعات پڑھیں تومعلوم ہوتاہے کہ ہرمحبت کے پیچھے درج ذیل تین اسباب میں سے کوئی ایک سبب ہوتاہے:

    1. محبوب کا احسان۔
    2. محبوب کا کردار۔
    3. محبوب کا حسن وجمال۔

    اہل دنیا کی محبتوں کے پیچھے ان اسباب میں سے کوئی ایک ہی سبب ہوتا ہے،یعنی کوئی صرف کسی کے احسان کے سبب اس سے محبت کرنے لگتا ہے،خواہ وہ عمدہ کرداراورحسن وجمال سے محروم ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح کوئی شخص کسی فن میں مہارت رکھتاہے توکچھ لوگ اس پر فداء ہوجاتے ہیں چاہے وہ احسان اورحسن وجمال کی خوبی سے عاری ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح کوئی حسین وجمیل ہے تولوگ اس کے بھی گرویدہ ہوجاتے ہیں گرچہ وہ بداخلاق اوربدکردارہی کیوں نہ ہو۔

    لیکن جب ہم جب ہم اہل ایمان کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کودیکھتے ہیں توپوری انسانیت میں صرف اورصرف یہی ایک ایسی محبوب ذات نظرآتی ہے جن کی محبت کے پیچھے نہ صرف یہ کہ مذکوہ جملہ اسباب محبت بیک وقت پائے جاتے ہیں بلکہ یہ اسباب درجہ کمال کوپہنچے ہوئے ہیں:

    امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ثم الميل قد يكون لما يستلذه الانسان ويستحسنه كحسن الصورة والصوت والطعام ونحوها وقد يستلذه بعقله للمعانى الباطنة كمحبة الصالحين والعلماء وأهل الفضل مطلقا وقد يكون لاحسانه إليه ودفعه المضار والمكاره عنه وهذه المعانى كلها موجودة في النبى صلى الله عليه و سلم لما جمع من جمال الظاهر والباطن وكمال خلال الجلال وأنواع الفضائل واحسانه إلى جميع المسلمين بهدايته اياهم إلى الصراط المستقيم ودوام النعم والابعاد من الجحيم [شرح النووی علی مسلم:2 14]۔


    کبھی کسی سے محبت اس لذت کی بنا پر ہوتی ہے جسے انسان کسی کی صورت وآوازیا کھانے وغیرہ میں محسوس کرتاہے،کبھی ان اندورنی خوبیو ں کی بناپرہوتی ہے جسے انسان اپنے شعورکے ذریعہ بزرگوں،اہل علم یاہرقسم کے اہل فضل لوگوں میں محسوس کرتا ہے، اورکبھی محبت اپنے اوپرکئے گئے احسان یا اپنی مشکلات کاازالہ کئے جانے کی بنا پرہوجاتی ہے، اوریہ تمام اسباب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں موجودہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیک وقت ہرقسم کے ظاہری وباطنی جمال وکمال اورہرقسم کے فضائل وکردار سے متصف ہیں نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراط مستقیم اوردائمی نعمتوں کی طرف تمام مسلمانوں کی رہنمائی کرکے اور جہنم سے انہیں دورکرکے احسان عظیم کیاہے۔​

    قدرے تفصیل ملاحظہ ہو:
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    احسان

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کوچندلفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اس سے پرہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری انسانیت پراس قدراحسان کئے ہیں کہ ایک مؤرخ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پرکتاب لکھتاہے تواس کانام ہی رکھ دیتاہے''محسن انسانیت'
    اس سے بڑااحسان کیاہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں تک کوبھی جہنم کی دائمی آگ سے بچانے کی فکرکرتے اوراس فکرمیں اپناچین وسکون بھی قربان کردیتے تھے،یہاں تک کہ آیت نازل ہوئی:

    { فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا } [الكهف: 6]
    پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اس رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے۔


    خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت پراپنے احسان کی مثال اس طرح پیش کی ہے۔

    إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ النَّاسِ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ جَعَلَ الْفَرَاشُ وَهَذِهِ الدَّوَابُّ الَّتِي تَقَعُ فِي النَّارِ يَقَعْنَ فِيهَا فَجَعَلَ يَنْزِعُهُنَّ وَيَغْلِبْنَهُ فَيَقْتَحِمْنَ فِيهَا فَأَنَا آخُذُ بِحُجَزِكُمْ عَنْ النَّارِ وَهُمْ يَقْتَحِمُونَ فِيهَا [بخاری :کتاب الرقاق:باب الانتھاء عن المعاصی رقم6483 عن أبی ہریرة].

    میری اور لوگوں کی مثال اس شخص کی ہے کہ جس نے آگ سلگائی۔ پس اس کے ارد گرد روشنی پھیل گئی۔ تو پروانے اور وہ کیڑے جو آگ میں گرتے ہیں۔ اس میں گرنے لگے۔ وہ آدمی انہیں کھینچ کر باہر نکالنے لگا اور وہ اس پر غالب آکر اس آگ میں گرے جاتے تھے۔ (اسی طرح) میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے باہر کھینچتا ہوں اور تم ہو، کہ اس میں داخل ہوئے جاتے ہو۔

    اس حدیث کوپڑھئے اورفرض کیجئے کہ کوئی شخص خود کشی کے ارادے سے کسی کنویں میں کودنے جارہاہواورآپ اسے بچانے کے لئے آئے اس پروہ آپ کوگالی دینے لگے اورالٹاآپ ہی کومارنے پیٹنے لگے کیا ایسی صورت میں بھی آپ اسے بچائیں گے ؟ ہرگزنہیں بلکہ ہوسکتاہے یہ سب ہونے کے بعدآ پ خودہی اسے دولات مارکرکنویں میں ڈھکیل دیں !

    لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساکچھ نہیں کیا ،حالانکہ ظالموں نے آپ کوہرطرح سے برابھلا کہا ،حتی کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کولہولہان بھی کردیا،یاد کروطائف کا وہ ہولناک منظر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل طائف کی نجات کے لئے انہیں حق کی دعوت دے رہے تھے ،اس پرانہوں نے کیا کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوگالیاں دیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوماراپیٹا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اوباش بچوں کولگادیاجوآپ پرپھتراؤ کررہے تھے، آپ اس قدررخمی ہوئے کہ آپ کے جسموں سے خون بہہ کرآپ کی جوتیوں میں جم گئے،یہ منظردیکھ کررحمن ورحیم بھی خاموش نہیں رہ سکا فوراملک الجبال(پہاڑی فرشتے) کوبھیجا بخاری کے الفاظ:

    .... فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ فَنَادَانِي فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَمَا رَدُّوا عَلَيْكَ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ فَقَالَ ذَلِكَ فِيمَا شِئْتَ إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمْ الْأَخْشَبَيْنِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا[بخاری :کتاب بدء الخلق :باب ذکرالملائکة رقم3231عن عائشة رضی اللہ عنہا]۔

    .....بادل کے ایک ٹکڑے کو اپنے اوپر سایہ فگن پایا میں نے جو دیکھا تو اس میں جبرائیل علیہ السلام تھے انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے آپ کی قوم کی گفتگو اور ان کا جواب سن لیا ہے اب پہاڑوں کے فرشتہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کافروں کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے آواز دی اور سلام کیا پھر کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سب کچھ آپ کی مرضی ہے اگر آپ چاہیں تو میں اخشبین نامی دو پہاڑوں کو ان کافروں پر لا کر رکھ دو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (نہیں) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کافروں کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ بالکل شرک نہ کریں گے۔​

    غورکریں جن کے پیچھے اوباش بچوں کے لگایا گیاتھا ان کے ساتھ ملک الجبال(پہاڑی فرشتے ) کوکھڑاکردیاگیا،جن پرکنکرپتھرپھینکے گئے تھے ان کے اختیارمیں پہاڑدے دیا گیا ،آج اگردنیا والے اس طاقت مالک ہوتے توکیا کرتے؟
    لوگ کہتے ہیں کہ اگرمحمدصلی اللہ علیہ کے پاس ایٹمی طاقت ہوتی توپوری انسانیت کوتباہ کردیتے (نعوذ باللہ) نادانو سنو! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواس سے بھی بڑی طاقت دی گئی ، پہاڑی فرشتہ جوتمہاری بے شمار فوجیوں پراکیلابھاری ،پہاڑوں پرکنٹرول جس پرپوری دیناکا توازن قائم ہے، اوریہ طاقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم کرنے والوں کے خلاف دی گئی تھی ،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ظالموں پر بھی اس طاقت کواستعمال نہ کیا ،اورنہ صرف ان پربلکہ ان کے ذریعہ پیداہونے والی آئندہ نسلوں پربھی رحم کیا ،آج نہ جانے پوری دنیا میں کتنے خاندان انہیں کی نسل سے ہیں ، انسانیت پراس سے بڑااحسان اورکیاہوسکتاہے۔
    موجودہ امت سے قبل بہت سی قوموں پراللہ نے عمومی عذاب نازل کرکے انہیں تہس نہس کردیا،وجہ یہ تھی کہ وہ بھیانک جرائم میں ملوث تھے ،لیکن جن جن جرائم کی وجہ سے گذشتہ قومیں تباہ وبربادکی گئی،وہ تمام جرائم موجودہ امت کے کسی نہ کسی حلقہ میں موجودہیں اس کے باوجودبھی ان پرعمومی عذاب نہیں آرہا ہے ،کیونکہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعاء کررکھی ہے :

    سألته ان لا يهلك أمتي بالغرق فأعطانيها وسألته ان لا يهلك أمتي بالسنة فأعطانيها [مسند أحمد بن حنبل: ١/ ١٧٥ عن سعد بن أبی وقاص ،قال الشیخ الأ رنؤوط:ا سنادہ صحیح علی شرط مسلم، و فی روایۃ ،' بِمَا عَذَّبَ بِہِ الْأُمَم قَبْلہمْ : قال الحافظ ابن حجر رحمہ اللہ : وَدَخَلَ فِي قَوْله " بِمَا عَذَّبَ بِهِ الْأُمَم قَبْلهمْ " الْغَرَق كَقَوْمِ نُوح وَفِرْعَوْن ، وَالْهَلَاك بِالرِّيحِ كَعَادٍ ، وَالْخَسْف كَقَوْمِ لُوط وَقَارُون ، وَالصَّيْحَة كَثَمُودَ وَأَصْحَاب مَدْيَن ، وَالرَّجْم كَأَصْحَابِ الْفِيل وَغَيْر ذَلِكَ مِمَّا عُذِّبَتْ بِهِ الْأُمَم عُمُومًا (فتح الباري لابن حجر١٣ /٣٩ )]۔

    میں نے اپنے رب سے مطالبہ کیا کہ میری امت کو (عمومی غرق) سے ہلاک نہ کیا جائے تو رب نے مجھے یہ عطاکیانیزمیں نے اپنے رب سے مطالبہ کیا کہ میری امت کو(عمومی) قحط سے ہلاک نہ کرنا تواللہ نے مجھے یہ عطاء کردیا(یعنی اس امت کوکسی بھی عمومی عذاب سے ہلاک نہیں کیاجائے گا ) ۔​
    یقینا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعاء موجودہ امت پراحسان عظیم ہے۔

    غرض یہ کہ دنیاوالے اگراس وجہ سے کسی سے محبت کرتے ہیں کہ اس نے ان پراحسان کیا ہے توجان لیں کہ ان پرسب سے بڑااحسان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے لہٰذاان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخصیت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہونی چاہئے۔
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    کردار

    دوسراسبب جس کی بناپر دنیاوالے کسی سے محبت کرتے ہیں وہ کرداراورخوبیوں کی عظمت ہے،مثلاکوئی کسی فن میں ماہرہے تولوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ،کوئی بڑابہادرہے تولوگ اس پربھی فداء ہوجاتے ہیں ،کوئی بہت اخلاق مندہے تووہ بھی لوگوں کامحبوب بن جاتاہے،وغیرہ وغیرہ یعنی کوئی انسان عمدہ کرداراوراچھی خوبی کامالک ہے تواس کی وجہ سے لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہراچھے معاملات میں اعلی کرداراورعمدہ خوبیوں کے مالک تھے ،مثلابہادری کولیجئے دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے والے صحابی رسول انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

    كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً فَخَرَجُوا نَحْوَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُولُ لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا ثُمَّ قَالَ وَجَدْنَاهُ بَحْرًا أَوْ قَالَ إِنَّهُ لَبَحْرٌ[بخاری :کتاب الجہادوالسیر: باب الحمائل تعلیق السیف ...رقم2908]۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت اور سب لوگوں سے زیادہ بہادر تھے ایک مرتبہ مدینہ والوں کو کچھ خوف ہوگیا اور ایک طرف سے کچھ آواز آرہی تھی تو لوگ اس آواز کی طرف گئے آنحضرت سب سے آگے تشریف لے گئے اور آپ نے اس واقعہ کی تحقیق کی آپ ابوطلحہ کے گھوڑے پر بغیر زین کے سوار تھے، اور گلے میں تلوار حمائل تھی اور آپ فرما رہے تھے کہ ڈرو مت کوئی خوف نہیں ہے اس کے بعد فرمایا، البتہ ہم نے اس گھوڑے کو دریا کی طرف سبک سیر دیکھا۔

    آج کچھ لوگ ہیں جوایک طرف محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کادعوی کرتے ہیں اوردوسری طرف جب بہادری کی بات آتی ہے توعلی رضی اللہ عنہ کے گن گاتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ علی رضی اللہ عنہ ایک بہادرصحابی تھے لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری کاکیاحال تھا اس کی روداد علی رضی اللہ عنہ ہی سے سنئے:

    على رضي الله عنه قال : كنا إذا احمر البأس ولقي القوم القوم اتقينا برسول الله صلى الله عليه و سلم فما يكون منا أحد أدنى من القوم منه [مسند أحمد بن حنبل: 1 156رقم1346قال الشیخ الأرنؤوط : اسنادہ صحیح وصححہ الحاکم والذھبی انظر:المستدرک (2 155)رقم2633]۔
    علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب (میدان جنگ میں )لڑائی اپنے شباب پرہوتی ،اورلوگ ایک دوسرے کے مقابل ہوتے توہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ لیتے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کرہم میں کاکوئی دشمن کے قریب ترنہ ہوتا۔

    یہ توبہادری کاحال ہے اوراخلاقی معاملات میں آپ کس مقام پرفائز تھے اس کی گواہی خودخالق کائنات نے دی ہے :

    { وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ } [القلم: 4]
    اور بیشک آپ بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہیں۔

    آپ صلی اللہ کے اخلاق کا حیرت انگیز نمونہ اس حدیث میں ملاحظہ فرمائیے:

    عن عمرو بن العاص قال : ( كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبل بوجهه وحديثه على أشر القوم يتألفهم بذلك فكان يقبل بوجهه وحديثه علي حتى ظننت أني خير القوم [ فقلت يا رسول الله أنا خير أو أبو بكر ؟ قال : أبو بكر ] . فقلت : يا رسول الله أنا خير أو عمر ؟ قال : ( عمر ) . فقلت : يا رسول الله أنا خير أو عثمان ؟ قال : ( عثمان ) . فلما سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم فصدقني فلوددت أني لم أكن سألته ) [مختصر الشمائل :ص 180رقم295قال الالبانی:حسن]۔
    عمربن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ الفت کامظاہرہ کرتے ہوئے ان میں سب سے بدترین شخص سے بھی پوری طرح متوجہ ہوکربات کرتے تھے ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بھی اس قدرتوجہ کے ساتھ گفتگوکرتے کہ میں یہ سمجھ بیٹھا کہ میں لوگوں میں سب سے افضل ہوں، چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ بیٹھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترہوں یا ابوبکر؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ابوبکر۔میں نے پھرپوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترہوں یاعمر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عمر۔میں نے پھرپوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترہوں یاعثمان؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عثمان۔تو جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوالات کئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق گوئی سے کام لیا،کاش کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوالات ہی نہ کئے ہوتے۔​

    غورکریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عام صحابی کے ساتھ ایسے اخلاق کامظاہرہ کیا کہ اس سے متاثر ہوکرصحابی مذکورنے یہ سمجھ لیاکہ یہ تمام صحابہ سے افضل ہیں تبھی تواللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ اتنے اعلی اخلاق کامظاہرہ کررہے ہیں لیکن جب انہوں نے سوالات کیا تب انہیں معلوم ہوا کہ صحابہ کا مقام اپنی اپنی جگہ مگررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کااخلاق سب کے ساتھ یکساں ہے۔
    کیاپوری دنیامیں کوئی ایک بھی ایساانسان مل سکتاہے کہ وہ کسی سے بات کرے تومخاطب یہ سمجھ لے کہ میں اس کی نظرمیں سب سے زیادہ قابل احترام شخص ہوں؟ یقیناایسے اخلاقی کردارکی مثال پیش کرناناممکن ہے؟
    اگرکوئی صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردارکی عظمتوں پرغورکرلے تووہ خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کادشمن ہی کیوں نہ ہوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری انسانیت میں سب سے زیادہ محبت کرنے لگے گا،یہ اندازے کی بات نہیں ہے بلکہ اس کی مثال موجودہے ،عہدنبوی میں آپ کاایک مشہوردشمن ''ثمامہ بن اثال'' نامی سردارتھا،اس نے مسجد نبوی میں صرف تین دن قید کی حالت میں گذارے اس بیچ نہ تواس پرکوئی جبرکیاگیا اورنہ ہی اسے اسلام کی دعوت دی گئی ،لیکن تین دن کے بعد جب اسے آزاد کردیاگیا تومحض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق کی بناپرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ مشہوردشمن مسلمان ہوگیااورآپ سے حددرجہ محبت کرنے لگاقبول اسلام کے وقت اس کے الفاظ یہ تھے:

    يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ [بخاری:کتاب المغازی :باب وفد بنی حنیفة وحدیث ثمامہ بن اثال ،رقم4372عن ابی ہریرة]۔
    اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم اس روئے زمین پر آپ کے چہرے سے زیادہ مبغوض چہرہ میری نظرمیں کوئی اورنہ تھا مگراب میرے نزدیک آپ کاچہرہ تمام چہروں میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔
    اگردنیاوالے کسی کے حسن کردارسے متاثرہوکراس سے محبت کرتے ہیں توانہیں چاہئے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کریں کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہرکارخیرمیں بے مثال کردارکے مالک تھے۔
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حسن وجمال

    تیسراسبب جس کی بناپردنیاوالے کسی سے محبت کرتے ہیں وہ حسن وجمال ہے یہ خوبی بھی آپ کے اندربدرجہ اتم موجودہے،دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے والے انس بن مالک فرماتے ہیں :

    كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ(بخاری :کتاب الجہاد والسیر:باب الشجاعة فی الحرب والجبن،رقم2820)۔
    اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔
    حسن وجمال کوبیان کرنے میں سب سے زیادہ مہارت شعراء حضرات کوہوتی ہے،صحابہ کرام میں بھی ایک شاعرحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے انہوں نے اپنے اشعارمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورتی کا حیرت انگیز نقشہ کھینچاہے، فرماتے ہیں:


    وأَحسنُ منكَ لم ترَ قطُّ عيني
    وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ

    خلقتَ مبرأً منْ كلّ عيبٍ
    كأنكَ قدْ خلقتَ كما تشاءُ


    [ الدیوان المنسوب الی حسان بن ثابت:ص ٢ حسان بن ثابت رضی اللہ کی طرف ان اشعار کی نسبت پر ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے اس لئے یہ ان کے اشعار ہوبھی سکتے ہیں اور نہیں بھی لیکن بہرحال یہ اشعار کسی نہ کسی مؤمن ہی کے ہیں، واللہ اعلم۔]

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین میری آنکھ نے نہ دیکھا
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جمیل کسی خاتون نے جنانہیں

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہرقسم کے عیوب سے اس طرح پاک ہے
    کہ لگتاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش کے مطابق پیداکئے گئے ہیں۔

    دونوں ابیات پرغورکریں ،پہلے بیت کے مصراع اول کے پہلے تفعیلہ کے مقام پر''اجمل ''کالفظ ہے اورمصراع ثانی کے پہلے تفعیلہ کے مقام پر''احسن '' کالفظ ہے،جمیل اورحسین مترادف الفاظ ہیں لیکن جب یکجا ان کااستعمال ہوتوان میں فرق کرناچاہئے،جمیل کامطلب ہوگارنگ ورونق کے اعتبارسے خوبصورت اورحسین کامطلب ہوگاناک ونقشہ کے اعتبارسے خوبصورت کسی بھی انسان کے کامل خوبصورت ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ حسین بھی ہواگرکوئی صرف جمیل ہے یعنی صرف رنگ اچھا ہے لیکن ناک ونقشہ درست نہیں تواسے خوبصورت نہیں کہاجاسکتا،اسی طرح کسی کاناک ونقشہ درست ہے لیکن رنگ اچھانہیں ہے تواسے بھی خوبصورت کہلوانے کاکوئی حق نہیں ہے۔
    حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بیت میں دوسرامصراع معنوی اعتبارسے پہلے مصراع کاتکرارنہیں ہے بلکہ شاعررسول دوسرے مصراع میں یہ بتلاناچاہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ حسین بھی ہیں یعنی حقیقی معنی میں خوبصورت ہیں ۔

    اب دوسرے بیت پرغورکیجئے اس میں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن وجمال کی مقداربیان کی ہے اوراس کے لئے ایسی عمدہ تعبیراستعمال کی ہے کہ شعرکی دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی ،شاعررسول فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے انتہا خوبصورتی کودیکھ کرایسا لگتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش کے مطابق پیداہوئے ہوںاوراپنی مرضی سے حسن وجمال کاانتخاب کیاہو۔

    اس تعبیرکوسمجھنے کے لئے اس بات پرغورکیجئے کہ تقریباہرانسان خودکوبنانے سنوارنے کی فکرمیں رہتاہے،خصوصاخواتین اس معاملے میں سب سے زیادہ فکرمندہوتی ہیں ،یہ جب ڈریسنگ ٹیبل پرآتی ہیں توخود کوبنانے سنوارنے کے لئے اپنی پوری توانائی صرف کردیتی ہیں ،اگران خواتین میں سے کسی سے اللہ تبارک وتعالی یہ کہہ دے کہ اے خاتون تجھے اختیارہے توجس طرح بنناچاہتی ہے بن جا ! توذراسوچئے یہ عورت خود کوکیسا بنائے گی؟ کس درجہ کا حسن وجمال اپنے لئے منتخب کرے گی؟
    حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ یہی کہناچاہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن وجمال کودیکھ کرایسالگتاہے کہ اللہ نے آپ سے یہ کہہ دیاہوکہ آپ جس طرح بنناچاہتے ہیں بن جائیے ،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضی کے مطا بق حسن وجمال کاانتہائی درجہ منتخب کیاہو۔
    یہ حسن وجمال کے بیان کی ایسی تعبیرہے جوکسی بھی شاعرکے کلام میں نہیں ملتی اس کی وجہ شاعرکی ادبی کمزوری نہیں بلکہ اس کی نظرکی محرومی ہے کسی شاعرنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیساحسین وجمیل دیکھاہی نہیں کہ اس کی زبان پربے ساختہ ایسی تعبیرآجائے۔
    بہرحال حسن وجمال کی خوبی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم درجہ کمال کوپہنچے ہوئے تھے ۔

    اگردنیاوالے کسی کے حسن وجمال کی وجہ سے محبت کرناچاہتے ہیں توانہیں سب سے زیادہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنی چاہئے ۔
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    واضح رہے کہ محبت کے یہ تمام اسباب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بیک وقت اوربدرجہ اتم موجودہیں ، جس ذات کے اندر یہ کمالات ہوں اسے یہ کہنے کاحق حاصل ہے:

    لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ [بخاری: کتاب الایمان:باب حب الرسول من الایمان،رقم15 عن انس].

    تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتاجب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ ،اس کے بیٹے اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔

    اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کاجومطالبہ ہے وہ بلاوجہ نہیں ہے،جب محبت کے جتنے بھی اسباب ہوتے ہیں سب ایک ساتھ اعلی درجہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں پائے جاتے ہیں تواس صورت حال کافطری تقاضہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کی جائے۔

    اسباب محبت یہ محبت رسول کا صرف ایک پہلوہے اس کے ساتھ ساتھ محبت رسول کے دیگرپہلوں پرنظررکھنی چاہے محبت رسول کے تقاضے ،محبت رسول میں اضافہ کے اعمال، وغیرہ وغیرہ لیکن چونکہ اس تحریرکا یہ موضوع نہیں ہے اس لئے ہم اس جانب صرف اشارے ہی پراکتفاکرتے ہیں مستقبل ان پہلؤں پربھی لکھنے کاعزم ہے۔

    اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم تمام مسلمانوں کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی توفیق عطافرمائے،آمین۔
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ایک مسلمان کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اندازہ اس کے ایمان کی مضبوطی سے کیا جا سکتا ہے، چنانچہ مسلمان کا ایمان مضبوط ہو تو اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی اتنی ہی گہری ہو جاتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اللہ تعالی کی اطاعت اور بندگی ہے، اور شریعت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت واجب اور فرض قرار دی ہے۔

    چنانچہ

    انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے ہاں اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہیں بن جاتا
    بخاری: (15) مسلم: (44)
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اس بات کا جاننا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پروردگار کے بھیجے ہوئے رسول ہیں، اللہ تعالی نے لوگوں تک اللہ کے دین کو پہنچانے کیلیے تمام جہانوں سے آپ کو پسند فرمایا اور چنا، اور اللہ تعالی نے آپ کو اس لیے اختیار فرمایا کہ اللہ تعالی کے ہاں آپ محبوب اور پسندیدہ ترین شخصیت ہیں، اگر اللہ تعالی آپ سے راضی نہ ہوتا تو آپ کو پسندیدہ اور چنیدہ نہ بناتا، اس لیے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی اس شخصیت سے محبت کریں جس سے اللہ تعالی محبت فرماتا ہے، ہم بھی اسے پسندیدہ قرار دیں جسے اللہ تعالی نے اپنا پسندیدہ قرار دیا ہے، ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلیل اللہ ہیں، اور خلیل کا درجہ بہت بلند ہوتا ہے جو کہ محبت کے درجات میں سے آخری درجہ ہے۔

    سیدنا جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پانچ دن قبل فرماتے ہوئے سنا: (میں اللہ تعالی کے سامنے اظہار براءت کرتا ہوں کہ میرا تم میں سے کوئی خلیل ہو؛ کیونکہ اللہ تعالی نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے جیسے ابراہیم کو خلیل بنایا تھا اور اگر میں کسی امتی کو اپنا خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا)"

    مسلم: (532)
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ جانیں اور اپنے ذہنوں میں نقش کریں، اور یہ بھی عقیدہ رکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری بشریت میں سب سے افضل ہیں۔

    چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں روزِ قیامت اولاد آدم کا سربراہ ہوں، قیامت کے دن سب سے پہلے میری قبر پھٹے گی، میں سب سے پہلے شفاعت کروں گا، میری شفاعت سب سے پہلے قبول کی جائے گی

    مسلم: 2278
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک دین پہنچانے کیلیے بہت سی تکالیف اور مصیبتیں جھیلیں اور الحمد للہ ہم تک دین پہنچ گیا، اس لیے اب ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس بات کا احساس کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیفیں پہنچائیں گئیں، آپ کو مارا گیا، برا بھلا کہا گیا، آپ کے قریبی رشتہ داروں نے آپ سے علیحدگی اختیار کر لی، آپ کو دیوانہ ، جھوٹا اور جادو گر کہا گیا، آپ نے دین کو محفوظ کرنے کیلیے لوگوں سے مقابلہ کیا، صرف اس لیے کہ ہم تک دین پہنچ جائے، لوگوں نے آپ پر دست درازی کی اور آپ کو اپنے گھر بار سے بے دخل کر دیا اور آپ کے خلاف لشکر کشی بھی کی۔
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلیں، صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اپنے مال اور اولاد سے بڑھ کر کرتے تھے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت اپنی جانوں سے بھی زیادہ تھی، ذیل میں کچھ عملی نمونے ذکر کرتے ہیں:

    سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ حجام سے اپنی حجامت بنوا رہے تھے اور صحابہ کرام آپ کے ارد گرد جمع تھے، ان کی تمنا یہ تھی کہ کوئی بھی بال گرے تو ان کے ہاتھوں میں گرے"

    مسلم: ( 2325 )

    اسی طرح انس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ : "جب احد کے دن [ابتدائی طور پر ]لوگ شکست خوردہ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہو گئے تو اس وقت ابو طلحہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھے اور اپنی چمڑے کی ڈھال سے آپ کا دفاع کر رہے تھے، ابو طلحہ نہایت کھینچ کر تیر مارنے والے تیر انداز تھے، اس دن انہوں نے دو یا تین کمانیں توڑیں، اگر کوئی شخص اپنے ترکش میں تیروں کے ساتھ وہاں سے گزرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرماتے: اپنے تیر ابو طلحہ کے سامنے پھیلا دو، اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کی طرف دیکھنے لگے، تو ابو طلحہ کہنے لگے: اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ دشمن کی جانب مت جھانکیں ،کہیں دشمن کا کوئی تیر آپ کو نہ لگ جائے، میرا سینہ آپ کیلیے حاضر ہے۔۔۔"

    بخاری: ( 3600 ) مسلم : ( 1811 )
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی یا فعلی سنت پر عمل کریں، حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت آپ کی پوری زندگی کیلیے مشعلِ راہ ہونی چاہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سب کی باتوں پر ترجیح دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو سب کے حکم پر مقدم سمجھیں، آپ کےصحابہ کرام، تابعین عظام، اور پھر آج تک ان کے منہج پر چلنے والے لوگوں کے عقیدے یعنی اہل سنت وا لجماعت کے عقیدے کو اپنائیں، بدعتی اور رافضیوں کے عقیدے سے بچیں؛ کیونکہ ان کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غیظ و غضب پایا جاتا ہے، وہ اپنے ائمہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔

    ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت عطا فرمائے اور انہیں ہمارے نزدیک ہماری اولاد، والدین، اہل خانہ اور اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبوب بنا دے۔ آمین
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ
    ایمان افروز مضمون ہے
    جزاک اللہ
    باربار پڑھنے سے حضور صلعم کی عظمت اجاگر ہوسکتی ہے۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ جزاک اللہ خیرا ًکثیرا
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    اتنے اہم اور اتنے واضح مضمون کی داد تحسین جس کی جائے کم ہے۔
    آپ کی کاوش نہایت داد کی مستحق ہے۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَحِبُّوْا اﷲَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِه، وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اﷲِ لوَأَحِبُّوْا اَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي.

    رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدَيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

    6 : أخرجه الترمذی في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب اهل البيت النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 664، الرقم : 3789، والحاکم في المستدرک، 3 / 162، الرقم : 4716، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 46، الرقم : 2639، وأيضًا، 10 / 281، الرقم : 10664، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 366، الرقم : 408.

    ’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ آپ نے بیان فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور مجھ سے اﷲ تعالیٰ کی محبت کے سبب محبت کرو اور میرے اہلِ بیت سے میری محبت کی خاطر محبت کرو۔‘‘

    اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
     
  16. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عَنْ عَتْمَةَ الْجُهَنِيِّ رضی الله عنه، عَنْ اَبِيْهِ، قَالَ : خَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ فَلَقِيَه رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، بِاَبِي وَاُمِّي اَنْتَ، إِنَّه لَيَسُوْؤُنِيَ الَّذِي اَرٰی بِوَجْهِکَ وَعَمَّا هُوَ قَالَ : فَنَظَرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی وَجْهِ الرَّجُلِ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ : الْجُوْعُ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ يَعْدُوْ اَوْ شَبِيْهٌ بِالْعَدْوِ حَتّٰی اَتٰی بَيْتَه، فَالْتَمَسَ فِيْهِ الطَّعَامَ، فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا، فَخَرَجَ إِلٰی بَنِي قُرَيْظَةَ وَفَآجَرَ نَفْسَه بِکُلِّ دَلْوٍ يَنْزَعُهَا تَمْرَةً حَتّٰی جَمَعَ حَضْنَةً اَوْ کَفًّا مِنْ تَمْرٍ ثُمَّ رَجَعَ بِالتَّمْرِ حَتّٰی وَجَدَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي مَجْلِسٍ لَمْ يَرِمْ، فَوَضَعَه بَيْنَ يَدَيْهِ وَقَالَ : کُلْ اَي رَسُوْلَ اﷲِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مِنْ اَيْنَ لَکَ هٰذَا التَّمْرُ؟ فَاَخْبَرَهُ الْخَبْرَ، فَقَالَ لَه رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَاَظُنُّکَ تُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه قَالَ : اَجَلْ، وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَاَنْتَ اَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَوَلَدِي وَاَهْلِي وَمَالِي، فَقَالَ : اَمَّا لَا فَاصْطَبِرْ لِلْفَاقَةِ وَاَعِدَّ لِلْبَلَاءِ تِجْفَافًا فَوَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ، لَهُمَا إِلٰی مَنْ يُحِبُّنِي اَسْرَعُ مِنْ هُبُوْطِ الْمَاءِ مِنْ رَاْسِ الْجَبَلِ إِلٰی اَسْفَلِه. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    10 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 18 / 83، الرقم : 155، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 313، والعسقلاني في الإصابة، 4 / 736، الرقم : 6086.

    ’’حضرت عتمہ جہنی رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے بیان کیا : ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو انصار میں سے ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ کے چہرۂ اقدس کی اس حالت نے مجھے پریشان کردیا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لمحہ اس شخص کی طرف دیکھا پھر فرمایا : فاقہ، تو وہ شخص دوڑتا ہوا یا تیز تیز چلتا ہوا وہاں سے نکلا یہاں تک کہ اپنے گھر میں آیا اور وہاں کھانا تلاش کیا لیکن کوئی چیز نہ پائی، پھر وہ بنی قریظہ (قبیلہ یہود) کی طرف آیا اور فی ڈول پانی نکالنے کے بدلے ایک کھجور پر مزدوری کرلی، یہاں تک کہ گود بھر یا مٹھی بھر کھجوریں جمع کر لیں، پھر کھجوریں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لوٹا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی جگہ موجود پایا۔ سو اس نے وہ کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھ دیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ! تناول فرمائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے پاس یہ کھجوریں کہاں سے آئی ہیں؟ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سارا واقعہ عرض کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اس نے عرض کیا : جی ہاں (یا رسول اﷲ!) اور قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا! بلاشبہ آپ مجھے میری جان، میری اولاد، میرے اہل و عیال اور میرے مال سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اگر ایسا ہے) تو فاقہ کشی کا انتظار کر اور مصائب (کا سامنا کرنے) کے لیے کمربستہ ہو جا۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا! یہ (فقر و مصائب) دونوں میرے ساتھ محبت کرنے والے (کی آزمائش کے لیے اس) کی طرف پہاڑ کی چوٹی سے پستی کی طرف گرنے والے سیلاب سے بھی زیادہ تیزی سے آتے ہیں۔‘‘ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
     
  17. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ اَنَّ نَفَرًا مِنْ قُرَيْشٍ فِيْهِمْ اَبُوْ سُفْيَانَ حَضَرُوْا قَتْلَ زَيْدٍ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ : يَا زَيْدُ، اَنْشُدُکَ اﷲَ، اَتُحِبُّ اَنَّکَ الآنَ فِي اَهْلِکَ، وَاَنَّ مُحَمَّدًا عِنْدَنَا مَکَانَکَ نَضْرِبُ عُنُقَه؟ قَالَ : لَا، وَاﷲِ، مَا اُحِبُّ اَنَّ مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم يُشَاکُ فِي مَکَانِه شَوْکَةً تُؤْذِيْهِ، وَاَنِّي جَالِسٌ فِي اَهْلِي، قَالَ : يَقُوْلُ اَبُوْ سُفْيَانَ : وَاﷲِ، مَا رَاَيْتُ مِنْ قَوْمٍ قَطُّ اَشَدَّ حُبًّا لِصَاحِبِهِمْ مِنْ اَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم لَه. وفي روارواية : قَالَ : مَا رَأَيْتُ مِنَ النَّاسِ أَحَدًا يُحِبُّ کَحُبِّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا (صلی الله عليه وآله وسلم).

    رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَالْقَاضِي عِيَاضُ وَابْنُ هِشَامٍ وَابْنُ جَرِيْرٍ.

    12 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 2 / 56، وابن هشام في السيرة النبورواية، 4 / 125، وابن جرير الطبري في تاريخ الامم و الملوک، 2 / 79، وابن کثير في البدارواية والنها رواية (السيرة)، 4 / 65، وابن الاثير في اسد الغابة، 2 / 108، 155، 358، والقاضي عياض في الشفا، 2 / 19، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 649.

    ’’حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ ث بیان کرتے ہیں کہ قریش کے چند افراد جن میں ابو سفیان بھی تھا حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قتل کے وقت آئے اور ان میں سے کسی نے کہا : اے زید! تجھے اللہ کی قسم! (سچ سچ بتا) کیا تو پسند کرتا ہے کہ اس وقت تمہاری جگہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس ہوتے کہ ہم (نعوذ باﷲ) انہیں قتل کرتے اور تم اس وقت اپنے اہل و عیال کے پاس ہوتے؟ تو انہوں نے جواب دیا : نہیں!ک اللہ کی قسم! میں تو یہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ میرے آقا و مولا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آپ وقت جہاں بھی رونق افروز ہوں، کانٹا بھی چبھے کہ جس سے انہیں تکلیف پہنچے اور میں آرام سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ بیٹھا رہوں۔ راوی کہتے ہیں : ابو سفیان کہنے لگا : اللہ کی قسم! میں نے آج تک ایسی کوئی قوم نہیں دیکھی جو اپنے سردار سے اس طرح ٹوٹ کر محبت کرتی ہو جیسی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب ان سے کرتے ہیں۔‘‘ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہا : میں نے کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرتے ہیں۔‘‘

    اسے امام ابن سعد، قاضی عیاض، ابن ہشام اور ابن جریر طبری نے بیان کیا ہے۔
     
  18. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عَامِرِ بْنِ حُذَيْمٍ الْجَمْحِيِّ قَالَ : شَهِدْتُ مَصْرَعَ خُبَيْبٍ الْاَنْصَارِيِّ رضی الله عنه بِمَکَّةَ وَقَدْ بَضَعَتْ قُرَيْشٌ لَحْمَه ثُمَّ حَمَلُوْه عَلٰی جِذْعَةٍ، فَقَالُوْا : اَتُحِبُّ اَنَّ مُحَمَّدًا مَکَانَکَ؟ فَقَالَ : وَاﷲِ، مَا اُحِبُّ اَنِّي فِي اَهْلِي وَوَلَدِي وَاَنَّ مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم شِيْکَ بِشَوْکَةٍ، ثُمَّ نَادٰی : يَا مُحَمَّدُ (صلّی اﷲ عليک وسلم).

    رَوَاهُ اَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالْعَسْقَلَانِيُّ.

    13 : أخرجه ابو نعيم في حلرواية الاولياء، 1 / 246، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 21 / 162، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 384، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 622، 666.

    ’’حضرت سعید بن عامر بن حذیم جمحی روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے مکہ مکرمہ میں حضرت خبیب انصاری رضی اللہ عنہ کے مقام شہادت کی زیارت کی۔ جہاں مشرکینِ قریش ان کا گوشت نشتر سے (ٹکڑوں کی صورت میں) کاٹتے اور پھر اسے کھجور کے درخت پر لٹکا دیتے اور (شہید کرنے سے قبل) مشرکینِ قریش نے حضرت خبیب انصاری رضی اللہ عنہ سے کہا : کیا تم پسند کرتے ہو کہ (اس وقت) تمہاری جگہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوتے؟ تو حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ میں اپنے اہل و عیال میں (آرام کر رہا) ہوں اور (میرے آقا) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی کانٹا بھی چبھے پھر آپ نے زور سے پکارا : یا محمد (صلّی اﷲ علیک وسلم)۔‘‘

    اسے امام ابو نعیم، ابن عساکر اور عسقلانی نے روایت کیا ہے۔
     
  19. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عَنْ يَحْيَ بْنِ سَعِيْدٍ ... قَالَ سَعْدُ بْنُ رَبِيْعٍ رضی الله عنه لِاُبَيِّ بِنْ کَعْبٍ رضی الله عنه إِذَا جُرِحَ بِاُحُدٍ : فَاذْهَبْ إِلَيْهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاَقْرِئْهُ مِنِّيَ السَّلَامَ، وَاَخْبِرْهُ اَنِّي قَدْ طُعِنْتُ اثْنَتَي عَشْرً طَعْنَةً، وَاَنِّي قَدْ أُنْفِذَتْ مُقَاتِلِي، وَاَخْبِرْ قَوْمَکَ اَنَّه لَا عُذْرَ لَهُمْ عِنْدَ اﷲِ إِنْ قُتِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَوَاحِدٌ مِنْهُمْ حَيٌّ. رَوَاهُ مَالِکٌ وَابْنُ سَعْدٍ.

    15 : اخرجه مالک في الموطا، کتاب الجهاد، باب الترغيب في الجهاد، 2 / 465-466، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 524، وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 590، وأيضًا في التمييد، 24 / 94.

    ’’امام یحییٰ بن سعید سے مروی ہے کہ ۔ ۔ ۔ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اس وقت جب وہ (حضرت سعد بن ربیع) میدانِ اُحد میں زخمی حالت میں تھے کہا کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ مجھے نیزے کے بارہ زخم لگے ہیں اور میں نے اپنے مقابل کے جسم سے نیزہ آر پار کر دیا ہے۔ اپنے قبیلہ کے لوگوں سے کہنا کہ اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ ہوا اور تم میں سے ایک فرد بھی زندہ بچا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا کوئی بھی عذر قابلِ قبول نہ ہو گا۔‘‘ اسے امام مالک اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
     
  20. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها، قَالَتْ : جَائَ رَجُلٌ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّکَ لَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، وَإِنَّکَ لَاَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ اَهْلِي وَاَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ وَلَدِي، وَإِنِّي لَاَکُوْنُ فِي الْبَيْتِ، فَاَذْکُرُکَ، فَمَا اَصْبِرُ حَتّٰی آتِيَکَ، فَانْظُرُ إِلَيْکَ، وَإِذَا ذَکَرْتُ مَوْتِي وَمَوْتَکَ عَرَفْتُ اَنَّکَ إِذَا دَخَلْتَ الْجَنَّةَ رُفِعْتَ مَعَ النَّبِيّيْنَ، وَاَنِّي إِذَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ حَسِبْتُ اَنْ لَا اَرَاکَ، فَلَمْ يَرُدَّ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم شَيْئًا، حَتّٰی نَزَلَ جِبْرِيْلُ بِهٰذِهِ الْآيَةِ : ﴿وَمَنْ يُطِعِ اﷲَ وَالرَّسُوْلَ فَاُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَيْهِمْ . . . ﴾] النساء، 4 : 69، فَدَعَا بِه، فَقَرَاَهَا عَلَيْهِ.

    رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ؟

    16 : أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 1 / 152، الرقم : 477، وأيضًا في المعجم الصغير، 1 / 53، الرقم : 52، وابو نعيم في حلرواية الاولياء، 4 / 240، 8 / 125، والايثمي في مجمع الزوائد، 7 / 7، وابن کثير في تفسير القرآن العظیم، 1 / 524، والسيوطي في الدر المنثور، 2 / 182.

    ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض گذار ہوا : یا رسول اللہ! آپ مجھے میری جان، اہل و عیال اور اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو بھی آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کرلوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو اپنے درجے میں ہوں گا لہٰذا مجھے خدشہ ہے کہ کہیں میں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی کی اس بات پر سکوت فرمایا، یہاں تک کہ حضرت جبرائیل ں یہ آیت مبارکہ لے کر اُترے:’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روز قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو بلایا اور اسے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔‘‘

    اسے امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
     
  21. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : لَقَدْ ضَرَبُوْا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی غَشِيَ عَلَيْهِ فَقَامَ أَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه فَجَعَلَ اُنَادِي يَقُوْلُ : وَيْلَکُمْ أَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا أَنْ يَقُوْلَ رَبِّيَ اﷲُ؟ قَالُوْا : مَنْ هٰذَا؟ قَالُوْا : هٰذَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ الْمَجْنُوْنُ. رَوَاهُ اَبُوْ يَعْلٰی وَالْحَاکِمُ.

    17 : اخرجه ابو يعلی في المسند، 6 / 362، الرقم : 3691، والحاکم في المستدرک، 3 / 70، الرقم : 4424، والمقدسي في الاحاديث المختارة، 6 / 221، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 17، والسيوطي في الدر المنثور، 7 / 285.

    ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کفار و مشرکین نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس قدر جسمانی اذیت پہنچائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی۔ حضرت ابو بکرص (آئے اور) کھڑے ہو گئے اور بلند آواز سے کہنے لگے : تم تباہ و برباد ہو جاؤ، کیا تم ایک (معزز) شخص کو صرف اِس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ فرماتے ہیں کہ میرا رب اﷲ ل ہے؟ اُن ظالموں نے کہا : یہ کون ہے؟ (کفارو مشرکین میں سے کچھ) لوگوں نے کہا : یہ ابو قحافہ کا بیٹا ہے جو (عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) مجنوں بن چکا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
     
  22. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَمَا أَنَا وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم خَارِجَانِ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَلَقِيَنَا رَجُلٌ عِنْدَ سُدَّةِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ فَکَأَنَّّ الرَّجُلَ اسْتَکَانَ، ثُمَّ قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا أَعْدَدْتُ لَهَا کَبِيْرَ صِيَامٍ وَلَا صَلَاةٍ وَلَا صَدَقَةٍ وَلٰکِنِّي أُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه، قَالَ : أَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

    18 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأحکام، باب القضاء والفتيا في الطريق، 6 / 2615، الرقم : 6734، ومسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب المرء مع من أحبّ، 4 / 2032-2033، الرقم : 2639.

    ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں ایک مرتبہ مسجد سے نکل رہا تھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک آدمی ملا اور اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ وہ آدمی کچھ دیر تو خاموش رہا پھر اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اس کے لیے بہت سے روزے، بہت سی نمازیں اور صدقہ وغیرہ (جیسے اَعمال) تو تیار نہیں کیے لیکن (اتنا ہے کہ) میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (قیامت کے روز) تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت رکھتے ہو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
     
  23. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عَنْ اَنَسٍ رضی الله عنه اَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنِ السَّاعَةِ، فَقَالَ : مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ : وَمَاذَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ : لَا شَيئَ إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه صلی الله عليه وآله وسلم. فَقَالَ : أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ : فَمَا فَرِحْنَا بِشَيئٍ فَرَحَنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ : فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبَابَکْرٍ وَعُمَرَ وَأَرْجُوْ أَنْ أَکُوْنَ مَعَهُمْ بِحُبِّي إِيَاهُمْ، وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِمِثْلِ أَعْمَالِهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

    19 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي، 3 / 1349، الرقم : 3485، و مسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب المرء مع من أحب، 4 / 2032، الرقم : 2639.

    ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قیامت کے متعلق سوال کیا کہ (یا رسول اﷲ!) قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) میرے پاس تو کوئی شے نہیں۔ ماسوا اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم (قیامت کے روز) اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت رکھتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں (یعنی تمام صحابہ کو) کبھی کسی خبر سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمانِ اَقدس سے ہوئی کہ تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور حضرت ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنہما سے بھی محبت کرتا ہوں لہٰذا امید کرتا ہوں کہ ان کی محبت کے باعث میں بھی ان حضرات کے ساتھ ہی رہوں گا اگرچہ میرے اَعمال تو ان کے اعمال جیسے نہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
     
  24. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عَنْ اَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه اَنَّه قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، الرَّجُلُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يَعْمَلَ کَعَمَلِهِمْ، قَالَ : اَنْتَ يَا اَبَا ذَرٍّ، مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ. قَالَ : فَإِنِّي اُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه صلی الله عليه وآله وسلم ، قَالَ : فَإِنَّکَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ. قَالَ : فَاَعَادَهَا اَبُوْ ذَرٍّ فَاَعًادَهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم.

    رَوَاهُ اَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالْبَزَّارُ بِإِسْنَادٍ جَيّدٍ.

    20 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب أخبار الرجل الرجل بمحبته إليه، 4 / 333، الرقم : 5126، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 156، الرقم : 61416، 21501، والدارمي في السنن، 2 / 414، الرقم : 2787، والبزار في المسند، 9 / 373، الرقم : 395، وابن حبان في الصحيح، 2 / 315، الرقم : 556، والبخاري في الأدب المفرد / 128، الرقم : 351.

    ’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں) عرض کیا : یا رسول اللہ! ایک آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے، لیکن ان جیسا عمل نہیں کرسکتا(تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابو ذر! تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔ انہوں نے عرض کیا : میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ فرمایا : اے ابو ذر! تم یقینا اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت کرتے ہو۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے پھر اپنا سوال دہرایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی دوبارہ وہی جواب عطا فرمایا۔‘‘

    اسے امام ابو داود، اَحمد، دارمی اور بزار نے اِسناد جید کے ساتھ روایت کیا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں