1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رزق حلال

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏2 اپریل 2011۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    شام کا وقت تھا ایک بابا جی جو کہ موچی کا کام کرتے تھے سڑک کے کنارے بیٹھے ایک جوتے کو پالش کر رہے تھے کہ اچانک ایک آدمی آیااور بدتمیزی کے انداز میں پچاس روپے کا نوٹ بابا جی کی طرف پھینکا اور اپنا جوتا اتار کربولا کہ بابا مجھے بہت جلدی ہے سب کام چھوڑیئے اور پہلے میرا جوتا پالش کر دیجیئے مگر بابا جی نے نہ تو اس پچاس روپے کے نوٹ کی طرف کوئی توجہ دی اور نہ ہی اس جوتے کو ہاتھ لگایا اور کہا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے آپ کہیں اور سے کروا لیجیئے اور اپنے کام میں مصروف ہو گئے، اُسی دوران ایک تھکا ہارا مزدور آیا بابا جی کو سلام کیا اپنا جوتا آگے بڑھایا اور ٹانکا لگانے کو کہا باباجی نے ٹانکا لگایا مزدور نے دو روپے کا سکہ دیا اور چل دیا ۔یہ سب دیکھ کر اس آدمی کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا اچانک باباجی کے سامنے بیٹھ گیااور بولابابا جی مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ میں نے آپ کو پانچ روپے کے کا م کے بدلے پچاس روپے دیے جو کہ ہو سکتا ہے کہ آپ نے سارے دن میں نہ کمائے ہوں مگر آپ نے میرا جوتا پالش نہیں کیا اور ایک مزدور کا زیادہ کام کر کے آپ نے صرف دو روپے رکھ لیے مجھے یہ بات بڑی عجیب لگی ہے آخر اس میں کیا منطق ہے مجھے بھی کچھ بتایئے لیکن باباجی نے صرف یہی کہا کہ میرے جانے کا وقت ہو گیاہے اور اپنا سامان اکٹھا کر کے تھیلے میں ڈالنے لگے۔

    اس آدمی نے یہ سب دیکھا تو بولا !جب تک آپ مجھے کچھ بتائیں گے نہیں میں آپ کو جانے نہیں دوں گا مگر باباجی نے اپنا تھیلا اٹھایا اور چل دیے وہ آدمی بھی پیچھے چل پڑا ۔ گھر کے دروازے تک پہنچ جانے کے بعد باباجی اندر چلے گئے تو اس آدمی نے دروازے پر دستک دی اور اندر داخل ہونے کی اجازت مانگی جو کہ باباجی نے دے دی اور اس کو صحن میں پڑی چارپائی پر بٹھادیا ، پانی کا ایک گلاس پیش کیااور کہا کہ اندھیرا چھا چکا ہے اور آپ جلدی میں بھی تھے پھر بھی پیچھے آگئے ہیں حالانکہ یہ بات آپ کے لیے اتنی ضروری نہیں تھی۔ اُس آدمی نے جواب دیا کہ آج رات کھانا میں آپ کے ساتھ کھانا چاہتاہوں اور وہ راز جاننا چاہتا ہوں جس کی وجہ سے آپ نے زیادہ پیسوں کے باوجود میرے جوتے پالش نہیں کیے۔ باباجی بولے کہ اب آپ میرے مہمان ہیں جو کھانا میں کھاتا ہوں وہ آپ کے لیے بھی حاضر ہے مگر آپ کو شاید وہ پسند نہ آئے کیونکہ میرے گھر میں صرف صبح کے وقت ہی روٹی پکتی ہے جس میں سے کچھ میں صبح ہی کھا لیتا ہوں اور باقی رات کو پانی میں بھگو کر کھاتا ہوں۔ وہ آدمی جو شکل و صورت سے کافی بارعب لگتا تھا اچانک حیران ہوا اور بولا کہ باباجی آج میں بھی یہی کھانا کھاﺅں گا جو آپ کھاتے ہیں۔

    کھانا کھانے کے بعد اُس آدمی کے چہرے پر حیرانگی کا عالم تھا اور بولا کہ باباجی میں نے بہت سی اقسام کے کھانے کھائے ہیں مگر جو لطف آج مجھے یہ سُوکھی روٹی کھا کر ملا ہے وہ کبھی نہیں ملا اس میں ایسی کیا خصوصیت ہے جس کی وجہ سے ےہ مجھے اتنی مزیدار لگی ہے اور اب آپ مہربانی کر کے مجھے وہ راز بھی بتا دیجئے جس کی وجہ سے میں یہاں آیا ہوں۔ باباجی کا جواب بہت سادہ مگر سبق آموز تھا ، انہوں نے کہا کہ اس سُوکھی روٹی سے جو لطف تمہیں ملا ہے اُس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے رزقِ حلال، جہاں تک تمھارا جوتا نہ پالش کرنے کی بات ہے اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ جس طرح تم نے میرے سامنے پچاس روپے کا نوٹ پھینکا تھا اس سے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ یہ پیسے تم نے محنت کر کے نہیں کمائے بلکہ ناجائز ذرائع سے کمائے ہیں کیونکہ اگر محنت سے کمائے ہوتے تو تمھارا یہ انداز کبھی نہ ہوتا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اگر میں تم سے وہ پیسے لے کر تمہارے جوتے پالش کر دیتاتو روز تمھارے جیسے آدمیوں کا ہی انتظار کرتا اور اُن مزدوروں کے جوتوں کو کبھی ٹانکے نہ لگاتا جو صبح سے لے کر شام تک سخت محنت کر کے رزق حلال کماتے ہیں اور اس میں سے مجھے مزدوری دیتے ہیں۔ اور اس طرح یہ میرے روزگار سے بھی زیادتی ہوتی اور ان مزدوروں سے بھی جو خوشی سے میرے پاس آتے ہیں، اِس سے میری خودی اور عزت دونوں ختم ہو جاتے اور میری مثال ایک گدھ کی ہو جاتی جو خود شکار کرنے کی بجائے مُردار کھانے کی عادی ہوتی ہے۔

    یہ سارا واقعہ سنانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہم اس بات کوسمجھنے کے قابل ہو سکیںکہ جو دولت ہم اپنی عزت اور خودی بیچ کر اکٹھی کر رہے ہیں وہ ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی بلکہ ہماری زندگی سے پیار اور سکون ختم کر رہی ہے اور ہمیں دوسروں کا محتاج بنا رہی ہے ، اس سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں اُس حوس میں دھکیل رہی ہے جہاں حلال اور حرام کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ اس صورتحال میں ہمیں خود کو بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ہم ہر طرح سے اپنا نقصان کر رہے ہیں ۔ یہی دو لت اکٹھا کرنے کے چکر میں ہم ذہنی دباﺅ کا شکا ر ہو گئے ہیں،دولت ہونے کے باوجود رات کو سکون کی نیند میسر نہیں بلکہ ٹیبلٹس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔دوسری طرف اگر ہمارے جسم میں ایک لقمہ بھی حرام کا جاتا ہے تو ہماری عبادات کی قبولیت بند ہو جاتی ہے اور اگر وہی حرام کا لقمہ ہم اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں تو ان سے نافرمانی ملتی ہے اور راحت و سکون کا تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ پھر ہم نے اپنا کیا فائدہ کیا ہے؟ جو دولت ناجائز ذرائع سے اکٹھی کی ہوتی ہے وہ کسی نہ کسی مصیبت میں پھنسنے کے بعد خرچ ہو جاتی ہے اور ہم پھر وہیں کے وہیں ہوتے ہیں اور جو جھوٹی انا اور دکھاوا بنایا ہوتا ہے وہ ختم ہو جاتا ہے۔

    ےہ تو وہ باتیں ہیں جو دنیا میں ہمارے سامنے ہیں اور اس سے بھی ضروری بات یہ ہے کہ اگر دنیا میں دن رات تگ و دو کے بعد بھی ہم دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکے تو وہ آخرت جس کے بارے میں کبھی ہم نے سوچا ہی نہیں اور اگر کبھی سوچا بھی ہے تو سمجھنے میں قاصر رہے ہیں کیونکہ ہماری مصروفیات ہی اتنی ہوتی ہیں کہ اس کام کے لیے وقت ہی نہیں ملتا تو پھر اس میں کیسے کامیاب ہوں گے۔ آخرت میں دو ہی تو باتوں کا جواب دینا ہے ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد۔ حقوق العباد کو ہم نے ویسے ہی کبھی اہمیت نہیں دی اور حقوق اللہ اس وقت تک پورے ہی نہیں ہوتے جب تک حقوق العباد پورے نہ ہوں تو پھر نتیجہ کیا نکلا
    نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ اِدھرکے رہے نہ اُدھر کے

    بشکریہ اعجاز علی صاحب
     

اس صفحے کو مشتہر کریں