1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رحمت عالم کے حضور (2)

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از سنی آن لاین, ‏23 اپریل 2010۔

  1. سنی آن لاین
    آف لائن

    سنی آن لاین ممبر

    شمولیت:
    ‏19 دسمبر 2009
    پیغامات:
    139
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    رحمت عالم کے حضور (2)...…عرفان صدیقی[​IMG]

    میں سنہری جالیوں کے عین سامنے ایک ستون سے لگا کھڑا تھا۔ ساری عرضیاں پیش کی جا چکی تھیں اور میرا دل ان دعاؤں سے معمور تھا جو لفظ و بیاں کے سانچے میں ڈھل ہی نہیں پا تیں جو پھول کے غلاف میں لپٹی خوشبو کی طرح آپ ہی آپ اٹھتی اور جالیوں کو چھوتی باب جبریل سے گزرتی سبز گنبد کی طرف اڑ جاتی ہیں۔ لفظ، جملے، بیان، چھوٹی چھوٹی آریاں ہیں جو دعاؤں کے پرکاٹ دیتی ہیں۔ دعاؤں کے کتابچے، اعزاء و اقارب کی التجاؤں والی ڈائریاں اور رنگا رنگ عرضیاں، حضوری کے سرور کو کھا جاتی ہیں اور روضہ رسول کے عین سامنے، رحمةللعالمین سے صرف چند فٹ دور بھی بے حضور اور بے سرور رہے تو اس سے بڑھ کے محرومی کیا ہوگی؟ میں اکثر سوچتا ہوں… کیا میرے حضور اپنے عین سامنے کھڑے غلام کے جذبہ و احساس سے ناآشنا ہوسکتے ہیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ میرے دست طلب کی لکیریں کیا کہہ رہی ہیں؟ کیا رب کریم، اپنے محبوب کے سامنے دست بستہ کھڑے بندے کے قرطاس دل کی تحریریں نہیں پڑھ سکتا؟ مانگنا کسے کہتے ہیں؟ کیا دہلیز کے ساتھ لگے کھڑے کاسہ بہ دست فقیر کے لئے صدا لگانا ضروری ہے؟ حرم کعبہ، حرم نبوی، عرفات، منیٰ، مزدلفہ کہیں بھی مرصع لفظوں اور عقیدت میں گندھی دعاؤں میں کبھی مشکل پیش نہیں آتی، لیکن روضہ رسول کی سبز جالیوں کے سامنے پہنچتے ہی ساری دعائیں جیسے تحلیل ہوجاتی ہیں۔ دل کی کیتلی میں ایک ابال سا اٹھتا ہے، حلق میں نمک کی ڈلی سی گھلنے لگتی ہے اور ساری دعائیں، آنکھوں کے راستے رخساروں پر ڈھلکنے لگتی ہیں۔ کیا میرے حضور کو عرضیوں کی ضرورت ہے؟
    عرضیاں، حاضری کو حضوری میں نہیں بدلنے دیتیں۔ عشق و مستی کی راہ میں سو سو پردے حائل کردیتی ہیں۔ حجاب ہی حجاب، نقاب ہی نقاب، لیکن ہم کمزور، بے یقین، تھڑدلے سے لوگ ہیں۔ ہم جل تھل کردینے والی باران رحمت میں کھڑے ہو کر بھی سیراب نہیں ہوتے۔ عرضی، حاضری، حضوری میرے، ذہن، میں سب کچھ گڈ مڈ سا ہو رہا تھا۔ ایک اطمینان البتہ تھا کہ چلو ساری عرضیاں ختم ہوگئیں۔ میں نے نگاہ اٹھا کر اس گول تختی کی طرف دیکھا جو حضور کی مرقد مبارک کی نشاندہی کے لئے، جالیوں کے باہر لگائی گئی ہے۔ میرا دل زور سے دھڑکا اور یہ خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا کہ ایک عرضی تو رہ ہی گئی۔ میں نے سبز لفافے میں لپٹی یہ عرضی بھی نکالی اور دلگیر لہجے میں کہا…”حضور یہ پاکستان کی عرضی ہے۔ آپ کو بہت یاد کرتا ہے۔ مجھے سلام پیش کرنے کا کہہ رہا تھا۔ وہ زخم زخم ہو رہا ہے حضور، اس پہ کرم کی نگاہ فرمایئے“۔
    پھر عرضیاں میرے ذہن سے محو ہوگئیں۔ میں قبلہ کی سمت والی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور گم ہو گیا۔ گمشدگی کی اس کیفیت میں سارا مدینہ ایک نگینہ بن کر میرے دل کی مخملی ڈبیا میں بند ہوگیا۔ میری سوچ مجھے وہیں چھوڑ کر صدیوں پیچھے چلی گئی۔ میرے حضور، میرے جد امجد ابی بکر صدیق اور امیرالمومنین عمر ابن الخطاب عین میرے سامنے آرام فرما رہے تھے اور میں تاریخ کے دھندلکوں ے منظر تراش رہا تھا۔ نبی کریم نے رحلت فرمائی تو سوال اٹھا کہ آپ کی قبرمبارک کہاں بنائی جائے؟ سید ناابوبکر نے کہا… ”میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا ہے کہ نبی جہاں فوت ہو، وہیں دفن کیا جاتا ہے۔“ صحابہ نے حضور کا بستر ایک طرف کیا۔ سیدہ عائشہ کے حجرہ مبارک میں ہی قبر کھدی اور حضور کی تدفین کردی گئی۔ حضرت عائشہ بدستور اس حجرے میں مقیم رہیں۔ جنوبی حصے میں حضور کی قبر مبارک تھی اور شمالی حصے میں حضرت عائشہ کی رہائش گاہ۔ سید نا ابو بکر فوت ہوئے تو حضرت عائشہ کی اجازت سے ان کی تدفین حضور کے دائیں پہلو میں کردی گئی لیکن اس طرح کہ صدیق ابکر کی قبر، حضور کی قبر سے ایک ہاتھ نیچے کی طرف رکھی گئی۔ یوں کہ ان کا سر حضور کے شانوں کے برابر رہے۔ حضرت عمر کی وفات ہوئی تو ان کے صاحب زادے نے حضرت عائشہ سے خصوصی اجازت چاہی۔ انہوں نے اجازت مرحمت فرمادی۔ عمر ابن الخطاب کی قبر، صدیق اکبر کی قبر سے ایک ہاتھ نیچے رکھی گئی۔ یوں کہ ان کا سر: صدیق اکبر کے کندھوں کے برابر آگیا۔ سیدہ عائشہ اب تک اسی حجرے میں رہ رہی تھیں۔ عمر فاروق کی قبر بننے کے بعد انہوں نے اپنی رہائش اور قبروں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کرادی۔ فرمایا…”پہلے میرے شوہر اور میرے والد تھے۔ اب عمر بھی ہیں جن سے میرا پردہ ہے۔“
    میں اسی گمشدگی کی کیفیت میں چودہ پندرہ صدیاں پہلے والے مدینہ میں گردش کرتا رہا۔ وہ ساری بستی شاید آج کی مسجد نبوی کے اندر سمٹ آتی ہو اور آج ایک دنیا اس مسجد کے مرمریں ستونوں سے لگی کھڑی ہے۔ سہل اور سہیل نامی دو یتیم بچوں کی معصوم روحیں جنت کے جھروکوں میں کھڑی کس احساس طمانیت کے ساتھ سبز گنبد، نبی کی عظیم مسجد اور لاکھوں انسانوں کے ہجوم کو دیکھتی ہوں گی۔ یہ قطعہ زمین ان کی ملکیت تھا۔ حضورنے یہاں مسجد بنانے کی خواہش ظاہر کی۔ معاوضے کی ادائیگی پہ اصرار کیا لیکن دونوں بچے قیمت وصول کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ شاید انہیں اندازہ تھا کہ قدرت انہیں ایسی سعادت سے مالا مال کر رہی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
    مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی طرف آتے ہوئے میں سڑک کے دونوں طرف بکھرے سیاہ رنگ پتھروں، بنجر ویرانوں، بے آب و گیاہ گھاٹیوں اور چٹیل پہاڑوں کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا۔ کیا میرے حضور اسی راستے سے گزرے ہوں گے؟میں ایک بار پھر صدیوں پیچھے پلٹ گیا۔ وہ کیا شب تھی کہ سید نا علی المرتضیٰ سبز چادر اوڑھے حضور کے بستر پر سو رہے تھے اور حضور، صدیق اکبر کے ہمراہ مکہ سے نکل کر مدینہ کا رخ فرما رہے ہوں گے۔ کیا اس وقت ان سیاہ رنگ پتھروں، ان گھاٹیوں، ان بنجر ویرانوں اور ان چٹیل پہاڑوں کو خبر تھی کہ دو اونٹنیوں پہ سوا یہ دو افراد ایک نئی دنیا، ایک نیا عالم، ایک جہاں تازہ آباد کرنے جا رہے ہیں؟ کسی ذی روح کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ یثرب نامی بستی کیا رفعتیں پانے والی ہے؟ کیا کوئی جانتا تھا کہ دو قدم آگے چلنے والی اونٹی پر سوار شخص ایک دن تاجداروں کا تاجدار ہوگا۔ ابد تک کروڑوں اربوں انسان اس کے نام کا کلمہ پڑھیں گے اور وہ انسانیت کا سارا نظام تہذیب و اقدار بدل کے رکھ دے گا۔
    میں 140 کلو میٹر فی گھنٹہ چلنے والی گاڑی میں بیٹھا ہوں جو فراٹے بھرتی مکہ معظمہ جا رہی ہے۔ میرے حضور اور صدیق اکبر کو مکہ لے جانے والی اونٹنیوں کی رفتار کیا ہوگی؟ ان ویرانوں میں کتنی راتیں، ان گھاٹیوں میں کتنے دن؟ مجھے مکہ کا ہوکے رہ جانے والا بابا یاد آیا جو پا پیادہ مدینہ کا سفر کرتا ہے اور جس کی پوٹلی میں کوئی عرضی نہیں ہوتی اور جس کی حاضری، حضوری کی سرمدی لذتوں سے سرشار ہوتی ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں