1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رحمت عالم کے حضور ۔

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏22 اپریل 2010۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    رحمت عالم :saw: کے حضور (۱) نقش خیال…عرفان صدیقی کا کالم

    فجر کے کوئی پانچ گھنٹے بعد اور ظہر سے تقریباً ڈھائی گھنٹے قبل میں بارگاہ نبوی میں حاضری کی نیت سے حرم میں داخل ہوا تو بھیڑ چھٹ چکی تھی۔ راہیں کشادہ تھیں اور دبیز سرخ رنگ قالینوں میں پاؤں دھنسے جارہے تھے۔ کچھ لوگ مر مریں ستونوں سے ٹیک لگائے قرآن حکیم کی تلاوت کررہے تھے۔ کچھ کسی گوشے میں گہری نیند سو رہے تھے۔ میرے ساتھ ساتھ پاکستان ہی سے آیا ایک معمر شخص ہو لے ہولے چل رہا تھا اور بولے جارہا تھا۔ میں نے پہلے تو سمجھا کہ شاید سیل فون پر کسی سے باتیں کررہا ہے۔ اب اس کے جملے میرے کانوں میں پڑ رہے تھے …
    ” آقا ! اب بلایا ہے تو بھول نہ جانا…پھر بھی بلاتے رہنا…ساری عمر حاضری کے جتن کرتا رہا ہوں…پہلی بار گندم کی کٹائی کے دنوں میں گھر سے نکل آیا ہوں…صرف جناب سرکار کی خاطر…اب میری لاج رکھنا…میرے بیٹے بڑے نکمے ہیں…ان پہ کوئی نظر کردیں سرکار…! “
    مرد بزرگ سرکار مدینہ سے باتیں کررہا تھا۔ وہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ اس کے ہاتھ میں دعاؤں والا کوئی کتابچہ بھی نہ تھا۔ بس وہ اپنی دُھن میں مگن دھیمے ، میٹھے اور پُریقین لہجے میں بولے جارہا تھا۔ یہی اس کی دعائیں تھیں، یہی مناجات، یہی ہدیہ درودو سلام۔ اُس کا طرز کلام ایسا تھا جیسے وہ حضور کے دربار میں سرجھکائے دوزانو بیٹھا ہو۔ حضور کے ہونٹوں پہ ہلکا سا تبسم ہو۔ وہ باتیں سن رہے ہوں اور اپنے عظیم رفقا، صدیقو عمرکی طرف دیکھ کر تبسم فرما رہے ہوں۔
    مجھے اس مرد سادہ پہ رشک آیا۔ علم و آگہی بے بہا نعمتیں سہی لیکن وہ تکلف کے کتنے پردے حائل کردیتی ہیں۔ سچے اور بے لاگ جذبوں کی تراش خراش کے لئے سوچ کا رندا چلنے لگے اور اظہار کے لئے شایان شان لفظوں کی تلاش ناگزیر ہوجائے تو آدمی کتنی مشکل میں پڑ جاتا ہے۔ جذبہٴ بے اختیار شوق کی آگ دل محبوب تک پہنچتے پہنچتے کس قدر ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔ دل جب دماغ اور زبان کے خرخشوں میں پڑ جائے تو عجب بے چارگی کی تصویر بن جاتا ہے۔ ان سارے بندھنوں سے آزاد محبت میں کتنی بے ساختگی، کیسی اپنائیت اور کس قدر سچائی ہوتی ہے۔ مجھے مولانا روم کی بیان کردہ حکایت یاد آئی۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کوہ طور کی سمت جارہے تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف و اعزاز حاصل تھا۔ راستے میں ایک چرواہے کو دیکھا جس کا ریوڑ ادھر ادھر گھاس پہ منہ مار رہا تھا۔ چرواہا خود ایک سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھا، گردو پیش سے بے نیاز اپنے اللہ سے باتیں کئے جارہا تھا“۔ اے اللہ۔! تو مجھے مل جائے تو میں تیرے بالوں میں تیل ڈالوں، کنگھی کروں، جوئیں نکالوں۔ تجھے نہلاؤں دھلاؤں، تجھے اچھے اچھے کپڑے پہناؤں…“ حضرت موسیٰ نے اسے ٹوکا۔ اسے سمجھایا کہ ذات باری تعالیٰ سے اس طرح کی گستاخی نہیں کرتے۔ آئندہ محتاط رہنا…“ چرواہا شرمسار ہوا کہ وہ کیا کرتا رہا ہے؟حضرت موسیٰ کوہ طور پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ناخوشی کا اظہار کیا اور فرمایا۔

    تو برائے وصل کردن آمدی
    نے برائے فصل کردن آمدی​

    ”تو بندوں کو ہم سے ملانے کے لئے آیا ہے، جدا کرنے کے لئے نہیں“۔ لیکن میں نہ کوہ طور کو جاتی پگڈنڈی کے کنارے بکریاں چرانے والا چرواہا ہوں نہ پنجاب کے کسی دور افتادہ گاؤں سے آنے والا ناخواندہ دیہاتی، سو میری محبت کا بے ساختہ پن ، شکنجوں میں کسا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ

    ادب گاہیست زیر آسماں ازعرش نازک تر
    نفس گم کردہ می آید جنید وبایزید ایں جا​

    میں نے محبت کی پوٹلی کو پکی گرہ ڈال رکھی تھی اور ہولے ہولے قدم اٹھاتا آگے بڑھ رہا تھا۔ سوئے ادب کے خوف نے مجھے بیڑیاں ڈال رکھی تھیں۔ جوں جوں میں روضہ رسول کے قریب جارہا تھا، میری دھڑکنیں تیز ہورہی تھیں اور میری سانسیں جیسے اکھڑنے کو تھیں۔ میں جیسے گردوپیش سے کٹ کر کھوسا گیا۔ ہجوم نہ تھا کہ دھکم پیل کی کیفیت ہوتی اور میں کہیں سے کہیں پہنچ جاتا۔ صرف اوسان بحال نہ تھے اور حواس میں خلل سا پڑ گیا تھا۔ مجھے یہ اندازہ ضرور تھا کہ میں چل رہا ہوں۔
    پھر یکایک مجھے یوں لگا جیسے میں چل نہیں رہا بلکہ کوئی مقناطیسی کشش مجھے اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ سنبھلا تو سنہری جالیاں عین میری نگاہوں کے سامنے تھیں اور شفقت کا ایک نورانی ہالہ جیسے میرا حلقہ کئے ہوئے تھا۔ اندر سے کوئی خودکار سسٹم آن ہوگیا اور ہونٹوں سے درودوسلام کی نغمگی پھوٹنے لگی۔ پل بھر میں کوئی اجنبی ہاتھ ساری اجنبیت ، ساری جھجک اور سارے تکلفات اچک لے گیا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میں برسوں کی جلاوطنی کے بعد اپنے گھر لوٹ آیا ہوں۔ جیسے دشت بے اماں کی سلگتی ریت کے لمبے سفر کے بعد یکایک مخملی گھاس اور گھنے سایہ دار درختوں والے نخلستان میں نکل آیا ہوں۔ جیسے بے مہر موسموں کی اذیتوں کے بعد آغوش مادر کر نرم و گداز ممتا نے اپنی باہوں میں سمیٹ لیا ہو۔
    جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
    لیکن یہ بے وجہ تھوڑا ہی تھا۔ میں رحمت للعالمین :saw: کی بارگاہ میں کھڑا تھا۔ دنیا کو امن و آشتی کا درس اور انسانی حقوق کا عظیم چارٹر دینے والے محسن انسانیت کے حضور۔ گالیاں کھا کر دعائیں دینے اور خون کے پیاسوں کو قبائیں عطا کرنے والے نبی کریم کے آستانے میں، میں جب بھی روضہ رسول کے سامنے تصویر عجز بنا کھڑا ہوتا ہوں مجھے ”مدینہ دور ہے“ کے عنوان سے لکھا گیا کالم بے اختیار یاد آجاتا ہے۔ جانے وہ عرض نیاز کی کونسی مستجاب ساعت تھی کہ اس کے بعد سے مدینہ مجھے مسلسل بلاتا رہتا ہے۔ میں غم ہائے روزگار میں الجھ کے بھول جاؤں تو مجھے آواز دیتا ہے۔ میرے کان میں سرگوشی کرتا ہے…”تم تو کہتے تھے مدینہ دور ہے۔ اب دیکھو، مدینہ کس قدر قریب ہے۔ تمہیں کس طرح بلاتا رہتا ہے…اُس کی فصیل کے سارے دروازے تمہارے لئے کھلے رہتے ہیں…اب تو ”دوری“ کا گلا نہیں رہا نا؟بس آتے جاتے رہا کرو…اپنا گھر جانو…“
    اپنائیت کی ٹھنڈی معطر فضا سے میں بھیگ رہا تھا۔ عزیزوں اور دوستوں کی عرضیاں میری پوٹلی میں بندھی تھیں میں نے ہولے ہولے اس کی گرہ کھولی۔ سنہری جالیوں کے اندر سے ایک سرگوشی سی آئی۔ ”کیا لائے ہو“؟ ندامت کے احساس سے مجھے پسینہ آنے لگا۔ کیا بتاتا کہ حضور ہم افتادگان خاک کے پاس ہے ہی کیا؟ ہم تو بس سوالوں کی گھٹڑیاں ہی لاسکتے ہیں۔ آپ کے لئے، آپ کے رفقاء صدیق اکبر اور عمرفاروق کے لئے میں کچھ بھی نہیں لاسکا۔ فقیر کے پاس کشکول کے سوا ہوتا ہی کیا ہے؟ شرمندگی سے نڈھال میں پوٹلی بند کرنے لگا تو ایک مہکار سی اٹھی۔ ”تمہارے سوال، تمہاری عرضیاں بھی مجھے بے حد عزیز ہیں۔ بولو! کس کس کا سلام اور کس کس کا پیغام لائے ہو…“ میں نے گھٹڑی کی گرہ کھولی اور ایک گردان سی شروع کردی۔ عرضیاں میرے آنسوؤں سے بھیگ رہی تھیں اور سنہری جالیوں سے آتی مہکار میرے ماتھے کا پسینہ پونچھ رہی تھی“۔

    (جاری ہے )

    بشکریہ جنگ ادارتی صفحہ
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رحمت عالم کے حضور ۔

    رحمت عالم کے حضور (2)

    نقش خیال…عرفان صدیقی ​


    میں سنہری جالیوں کے عین سامنے ایک ستون سے لگا کھڑا تھا۔ ساری عرضیاں پیش کی جا چکی تھیں اور میرا دل ان دعاؤں سے معمور تھا جو لفظ و بیاں کے سانچے میں ڈھل ہی نہیں پا تیں جو پھول کے غلاف میں لپٹی خوشبو کی طرح آپ ہی آپ اٹھتی اور جالیوں کو چھوتی باب جبریل سے گزرتی سبز گنبد کی طرف اڑ جاتی ہیں۔ لفظ، جملے، بیان، چھوٹی چھوٹی آریاں ہیں جو دعاؤں کے پرکاٹ دیتی ہیں۔ دعاؤں کے کتابچے، اعزاء و اقارب کی التجاؤں والی ڈائریاں اور رنگا رنگ عرضیاں، حضوری کے سرور کو کھا جاتی ہیں اور روضہ رسول کے عین سامنے، رحمۃ ةللعالمین سے صرف چند فٹ دور بھی بے حضور اور بے سرور رہے تو اس سے بڑھ کے محرومی کیا ہوگی؟ میں اکثر سوچتا ہوں… کیا میرے حضور اپنے عین سامنے کھڑے غلام کے جذبہ و احساس سے ناآشنا ہوسکتے ہیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ میرے دست طلب کی لکیریں کیا کہہ رہی ہیں؟ کیا رب کریم، اپنے محبوب کے سامنے دست بستہ کھڑے بندے کے قرطاس دل کی تحریریں نہیں پڑھ سکتا؟ مانگنا کسے کہتے ہیں؟ کیا دہلیز کے ساتھ لگے کھڑے کاسہ بہ دست فقیر کے لئے صدا لگانا ضروری ہے؟ حرم کعبہ، حرم نبوی، عرفات، منیٰ، مزدلفہ کہیں بھی مرصع لفظوں اور عقیدت میں گندھی دعاؤں میں کبھی مشکل پیش نہیں آتی، لیکن روضہ رسول کی سبز جالیوں کے سامنے پہنچتے ہی ساری دعائیں جیسے تحلیل ہوجاتی ہیں۔ دل کی کیتلی میں ایک ابال سا اٹھتا ہے، حلق میں نمک کی ڈلی سی گھلنے لگتی ہے اور ساری دعائیں، آنکھوں کے راستے رخساروں پر ڈھلکنے لگتی ہیں۔ کیا میرے حضور کو عرضیوں کی ضرورت ہے؟
    عرضیاں، حاضری کو حضوری میں نہیں بدلنے دیتیں۔ عشق و مستی کی راہ میں سو سو پردے حائل کردیتی ہیں۔ حجاب ہی حجاب، نقاب ہی نقاب، لیکن ہم کمزور، بے یقین، تھڑدلے سے لوگ ہیں۔ ہم جل تھل کردینے والی باران رحمت میں کھڑے ہو کر بھی سیراب نہیں ہوتے۔ عرضی، حاضری، حضوری میرے، ذہن، میں سب کچھ گڈ مڈ سا ہو رہا تھا۔ ایک اطمینان البتہ تھا کہ چلو ساری عرضیاں ختم ہوگئیں۔ میں نے نگاہ اٹھا کر اس گول تختی کی طرف دیکھا جو حضور کی مرقد مبارک کی نشاندہی کے لئے، جالیوں کے باہر لگائی گئی ہے۔ میرا دل زور سے دھڑکا اور یہ خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا کہ ایک عرضی تو رہ ہی گئی۔ میں نے سبز لفافے میں لپٹی یہ عرضی بھی نکالی اور دلگیر لہجے میں کہا…”حضور یہ پاکستان کی عرضی ہے۔ آپ کو بہت یاد کرتا ہے۔ مجھے سلام پیش کرنے کا کہہ رہا تھا۔ وہ زخم زخم ہو رہا ہے حضور، اس پہ کرم کی نگاہ فرمایئے“۔
    پھر عرضیاں میرے ذہن سے محو ہوگئیں۔ میں قبلہ کی سمت والی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور گم ہو گیا۔ گمشدگی کی اس کیفیت میں سارا مدینہ ایک نگینہ بن کر میرے دل کی مخملی ڈبیا میں بند ہوگیا۔ میری سوچ مجھے وہیں چھوڑ کر صدیوں پیچھے چلی گئی۔ میرے حضور، میرے جد امجد ابی بکر صدیق اور امیرالمومنین عمر ابن الخطاب عین میرے سامنے آرام فرما رہے تھے اور میں تاریخ کے دھندلکوں ے منظر تراش رہا تھا۔ نبی کریم نے رحلت فرمائی تو سوال اٹھا کہ آپ کی قبرمبارک کہاں بنائی جائے؟ سید ناابوبکر نے کہا… ”میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا ہے کہ نبی جہاں فوت ہو، وہیں دفن کیا جاتا ہے۔“ صحابہ نے حضور کا بستر ایک طرف کیا۔ سیدہ عائشہ کے حجرہ مبارک میں ہی قبر کھدی اور حضور کی تدفین کردی گئی۔ حضرت عائشہ بدستور اس حجرے میں مقیم رہیں۔ جنوبی حصے میں حضور کی قبر مبارک تھی اور شمالی حصے میں حضرت عائشہ کی رہائش گاہ۔ سید نا ابو بکر فوت ہوئے تو حضرت عائشہ کی اجازت سے ان کی تدفین حضور کے دائیں پہلو میں کردی گئی لیکن اس طرح کہ صدیق ابکر کی قبر، حضور کی قبر سے ایک ہاتھ نیچے کی طرف رکھی گئی۔ یوں کہ ان کا سر حضور کے شانوں کے برابر رہے۔ حضرت عمر کی وفات ہوئی تو ان کے صاحب زادے نے حضرت عائشہ سے خصوصی اجازت چاہی۔ انہوں نے اجازت مرحمت فرمادی۔ عمر ابن الخطاب کی قبر، صدیق اکبر کی قبر سے ایک ہاتھ نیچے رکھی گئی۔ یوں کہ ان کا سر: صدیق اکبر کے کندھوں کے برابر آگیا۔ سیدہ عائشہ اب تک اسی حجرے میں رہ رہی تھیں۔ عمر فاروق کی قبر بننے کے بعد انہوں نے اپنی رہائش اور قبروں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کرادی۔ فرمایا…”پہلے میرے شوہر اور میرے والد تھے۔ اب عمر بھی ہیں جن سے میرا پردہ ہے۔“
    میں اسی گمشدگی کی کیفیت میں چودہ پندرہ صدیاں پہلے والے مدینہ میں گردش کرتا رہا۔ وہ ساری بستی شاید آج کی مسجد نبوی کے اندر سمٹ آتی ہو اور آج ایک دنیا اس مسجد کے مرمریں ستونوں سے لگی کھڑی ہے۔ سہل اور سہیل نامی دو یتیم بچوں کی معصوم روحیں جنت کے جھروکوں میں کھڑی کس احساس طمانیت کے ساتھ سبز گنبد، نبی کی عظیم مسجد اور لاکھوں انسانوں کے ہجوم کو دیکھتی ہوں گی۔ یہ قطعہ زمین ان کی ملکیت تھا۔ حضورنے یہاں مسجد بنانے کی خواہش ظاہر کی۔ معاوضے کی ادائیگی پہ اصرار کیا لیکن دونوں بچے قیمت وصول کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ شاید انہیں اندازہ تھا کہ قدرت انہیں ایسی سعادت سے مالا مال کر رہی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
    مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی طرف آتے ہوئے میں سڑک کے دونوں طرف بکھرے سیاہ رنگ پتھروں، بنجر ویرانوں، بے آب و گیاہ گھاٹیوں اور چٹیل پہاڑوں کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا۔ کیا میرے حضور اسی راستے سے گزرے ہوں گے؟میں ایک بار پھر صدیوں پیچھے پلٹ گیا۔ وہ کیا شب تھی کہ سید نا علی المرتضیٰ سبز چادر اوڑھے حضور کے بستر پر سو رہے تھے اور حضور، صدیق اکبر کے ہمراہ مکہ سے نکل کر مدینہ کا رخ فرما رہے ہوں گے۔ کیا اس وقت ان سیاہ رنگ پتھروں، ان گھاٹیوں، ان بنجر ویرانوں اور ان چٹیل پہاڑوں کو خبر تھی کہ دو اونٹنیوں پہ سوا یہ دو افراد ایک نئی دنیا، ایک نیا عالم، ایک جہاں تازہ آباد کرنے جا رہے ہیں؟ کسی ذی روح کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ یثرب نامی بستی کیا رفعتیں پانے والی ہے؟ کیا کوئی جانتا تھا کہ دو قدم آگے چلنے والی اونٹی پر سوار شخص ایک دن تاجداروں کا تاجدار ہوگا۔ ابد تک کروڑوں اربوں انسان اس کے نام کا کلمہ پڑھیں گے اور وہ انسانیت کا سارا نظام تہذیب و اقدار بدل کے رکھ دے گا۔
    میں 140 کلو میٹر فی گھنٹہ چلنے والی گاڑی میں بیٹھا ہوں جو فراٹے بھرتی مکہ معظمہ جا رہی ہے۔ میرے حضور اور صدیق اکبر کو مکہ لے جانے والی اونٹنیوں کی رفتار کیا ہوگی؟ ان ویرانوں میں کتنی راتیں، ان گھاٹیوں میں کتنے دن؟ مجھے مکہ کا ہوکے رہ جانے والا بابا یاد آیا جو پا پیادہ مدینہ کا سفر کرتا ہے اور جس کی پوٹلی میں کوئی عرضی نہیں ہوتی اور جس کی حاضری، حضوری کی سرمدی لذتوں سے سرشار ہوتی ہے۔


    جنگ ادارتی صفحہ
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رحمت عالم کے حضور ۔

    سبحان اللہ !
    نعیم بھائی اس پیاری تحریر کے صدقے آپ کو اہل خانہ سمیت اسی سال سرکار صلےٰاللہ علیہ وسلم کے حضور حاضری کا بلاوا آجائے
     
  4. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    جواب: رحمت عالم کے حضور ۔

    بہت ہی خوبصورت منظر کشی ہے۔ جزاک اللہ
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رحمت عالم کے حضور ۔

    السلام علیکم ہارون بھائی اور وسیم بھائی
    اظہار پسندیدگی فرما کر حوصلہ افزائی کے لیے شکریہ ۔
     
  6. باباتاجا
    آف لائن

    باباتاجا ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2010
    پیغامات:
    174
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: رحمت عالم کے حضور ۔

    سبحان اللہ !

    اللہ کریم ہم سب کو سرکار دوعالم صلے ٰ اللہ علیہ وسلم کی سچی غلامی کو توفیق عنایت فرمائیں
     
  7. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: رحمت عالم کے حضور ۔

    عرفان صدیقی کی ایک خوبصورت تحریر ھے ، باقی حصے بھی پوسٹ کیے جائیں تو بہتر ہو گا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں