1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رابعہ بصری

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از احتشام محمود صدیقی, ‏16 دسمبر 2011۔

  1. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    رابعہ بصری

    مرخین حضرت رابعہ بصری کی پیدائش کے بارے میں دو رائے دیتے ہیں. کچھ 95 ہجری اور اکثر 97 ہجری سے اتفاق کرتے ہیں. رابعہ بصری ایک متقی اور متوکل بزرگ حضرت شیخ اسماعیل رحمۃاللہ علیہ کے گھر میں پیدا ہونے والی چوتھی بیٹی تھیں. عربی زبان میں رابعہ کا مطلب چوتھی ہے.
    جب آپ کی ولادت ہوئی تو گھرمیں فاقوں کی نوبت تھی لہزا بی بی صاحبہ نے کہا پڑوس سے کچھ قرض لے لیں تا کہ یہ کڑوا وقت کٹ جائے. شیخ صاحب آدھی رات کو پڑوسی کے دروازے پر بادلِ نا خواستہ دستک دینے گئے کیونکہ غیر اللہ سے سوال کرنا ان کی غیرت ایمانی کو گوارہ نہ تھا. پڑوسی نیند میں تھا. کسی نے دروازہ کھٹکھانے کی آواز سنی نہ دروازہ کھولا. خالی ہاتھ گھر لوٹے تو بی بی صاحبہ بہت پریشان ہوئی. شیخ صاحب رحمۃاللہ علیہ بھی اسی پریشانی کے عالم میں سو گئے. خواب میں سرورِ کائنات حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم تشریف لائے. بیٹی کی ولادت پر مبارک باد دی اور فرمایا اسمٰعیل! پریشان نہ ہو تیری یہ بچی عارفہ کاملہ ہو گی. اگر مالی پریشانی ہے تو صبح حاکم بصرہ عیسٰی زردان کے پاس جانا. میری طرف سے ایک خط لکھ لینا کہ تم مجھ پر ہر روز سو مرتبہ اور ہر جمعرات کو چار سو مرتبہ درود بھیجتے ہو. اس جمعرات کو تحفہ دینا بھول گئے ہو. اس لئے چار سو دینار کفارہ حاملِ رقعہِ ھزا کو دے دو.
    صبح جب شیخ صاحب خط لے کر حاکم بصرہ عیسٰی کے پاس گئے تو اس نے دوڑ لگائی دروازے پر پہنچا. شیخ صاحب کا نہایت مودبانہ انداز میں شکریہ ادا کیا کہ آپ کی وجہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے مجھے یاد فرمایا. اسی خوشی میں ہزار دینار غرباءمیں تقسیم کئے اور چار سو دینار شیخ صاحب کو دئیے.
    چار پانچ سال کی عمر میں ہی والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا. جب آٹھ برس کی عمر کو پہنچیں تو بصرہ سخت قحط کا شکار ہو گیااور کسی شقی القلب نے پکڑ کر آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بصرہ کے ایک متمول شخص عتیق کے ہاتھوں بیچ دیا. چار پانچ سال تک آپ انکی خدمت کرتی رہی. باقی تینوں بہنیں کہاں گئیں آپ رحمۃ اللہ علیہ کو انکی کوئی خبر نہیں تھی.
    انکا حاکم بہت ظالم تھا بہت بھوکا پیاسا رکھتا تھا اور سخت کام بھی لیتا. ایک روز آپ کسی کام سے جا رہی تھیں کہ کوئی نا محرم سامنے آ گیا.آپ اسے دیکھ کر بھاگیں، بھاگتے ہوئے ٹھوکر کھا کے گر گئیں اور ان کا ہاتھ ٹوٹ گیا. ربِّ کریم سے رو رو کر عرض کیا” میں غریب، یتیم اور قیدی ہوں، اب ہاتھ بھی ٹوٹ گیا، اس کا مجھے کچھ غم نہیں مگر میں چاہتی ہوں کہ ساری امانتیں، ہاتھ، پاؤں، عزت،جان وغیرہ جو تیری میرے پاس ہیں انھیں اسی طرح لوٹا دوں کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے. پتا نہیں تو مجھ سے راضی بھی ہے یا نہیں، اگر تو راضی ہے تو سارے دکھ میرے لئے راحتیں ہیں، اگر تو راضی نہیں تو پھر یہ سب میرے اعمال کی شامتیں ہیں”.
    سیدہ رابعہ بصری کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہر دکھ کو صبرواستقامت سے برداشت کیا. بس ایک پل میں ہی کایا پلٹ گئی، آزادی مل گئی، جو مالک بنا ہوا تھا غلامی کے لئے آمادہ ہو گیا، خدا کے سوا ن کا کوئی سہارا نہ تھا. تاجر عتیق کی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد سیدہ رابعہ بصرہ سے ایک بڑے علمی مرکز کوفہ چلی گئیں جہاں اس وقت کے بڑے بڑے علماء موجود رہتے تھے. وہاں آپ نے بہت کم وقت میں قرآن حفظ کر لیا. بڑے بڑے علماء آپ رحمۃاللہ علیہ سے بہت عقیدت رکھتے تھے.
    حضرت رابعہ بصری کے ایمان و استقلال کی جو کیفیت تھی اس کو ایک تحریر میں بیان کرنا مشکل ہے. اب ان کے گرد فرشتوں کی موجودگی کا ادراک حاصل کریں. ایک دفعہ آپ رحمتہ اللہ علیہ دوران نماز سو گئیں، اتنے میں ایک چور آ گیا اور چادر اٹھا کر چل دیا مگر اسے دروازہ نظر نہ آیا، اس نے گھبرا کر چادر رکھ دی تو دروازہ نظر آ گیا. تین دفعہ ایسا ہی ہوا. چور کو آواز آئی اب بھی نہ باز آئے تو دائمی اندھے ہو جاؤ گے. اس گھر کی مالکہ ہماری دوست ہے، اس نے اپنے آپ کو ہماری حفاظت میں دے رکھا ہے، ایک دوست سو رہا ہے تو دوسرا جاگ رہا ہے.
    ایک دفعہ ایک بزرگ ملاقات اور کھانے کی خواہش سےحاضر ہوئے. سیّدہ رابعہ بصری نے گوشت ہنڈیا میں ڈال کر چولہے پر چڑھایا ہوا تھا لیکن آگ نہیں جلائی، زہدوتقوٰی کی گفتگو میں نہ بزرگ کو بھوک رہی اور نہ سیّدہ رابعہ کو آگ جلانے کا خیال آیا، دیکھا تو ہنڈیا میں لزیز کھانا پکا ہوا تھا.
    سب تعریفیں اللہ جل شانہ کیلئے ہیں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی مالک نہیں، جو سب خزانوں، سب طاقتوں کا مالک ہے، جو ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا، جس کا کوئی شریک کوئی ہمسر نہیں. باقی ہر شے فانی ہے. عدم سے وجود اور وجود سے عدم، یہی انسان کا اور ہر مخلوق کا مقدر ہے. اسی اصل تقدیر کے مطابق سیّدہ رابعہ طاہرہ عارفہ کاملہ بصریہ نے جس دوست کی رضا کے لئے زندگی گزار دی، اسی نے185 ہجری میں ملاقات کے لئے بلا لیا.
     

اس صفحے کو مشتہر کریں