1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ذلت ورسوائی ہمارا ہی مقدر کیوں

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از راشد احمد, ‏26 اپریل 2009۔

  1. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    قیام پاکستان سے اب تک نہ تو ہم نے کچھ سیکھا اور نہ ہی ہماری قیادت نے۔ وہی ماضی کی غلطیاں، ماضی کے شورشرابے، تصادم، وہی قیادت جو کبھی ماضی میں ایک دوسرے کے دست وگریبان ہوا کرتی تھی۔ کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ہم نے ماضی میں جو غلطیاں کی تھیں۔ اب بھی وہی کررہے ہیں بہتر ہوگا کہ اگر کہا جائے کہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک غلطیاں۔۔۔ کوئی ہماری رائے کے خلاف جائے تو ہم اسے اپنا دشمن گردانتے ہیں۔

    ہم ماضی میں زندہ رہنے والی قوم ہیں۔ اپنے اسلاف کے کارنامے بڑے فخرسے سناتے ہیں لیکن ان سے سیکھتے کچھ نہیں۔ ہماری حالت اسی کنگال شخص کی سی ہے جو ماضی میں کافی مالدار ہوا کرتا تھا، جو اپنے ماضی کے بنک بیلنس، جائیداد اور عیاشیوں کے بارے میں دوسروں کو بتاتاپھرتا ہے۔ لیکن خود اپنا ماضی واپس لانے کی کوشش نہیں کرتا۔

    ایک خاموشی ہے جو ٹوٹتی نہیں، زبان ہے کہ کچھ بولنے سے گھبراتی ہے، دماغ ہے کہ سوائے دوجمع دو چارروٹیاں کے علاوہ کچھ نہیں سوچتا، دل ہے کہ بس حالات پر کڑھتا ہی رہتا ہے، آنکھیں ہیں کہ بند ہیں کہ ہم سچ نہیں دیکھنا چاہتے۔ جسم ہے لیکن بے سدھ۔ قدم ہیں کہ کچھ کرنے سے پہلے ہی ڈگمگاجاتے ہیں۔ پریشانی، ملامت، غصہ، عدم برداشت، بے حسی اور نہ جانے کیا کیا ہم میں ہے۔

    ذات پات، مسلک، صوبائی عصبیت، بے حسی سے نکلنے کو تیار نہیں، ہر شخص کا اپنا نعرہ ہے، ایک شخص دوسرے شخص سے خفا ہے، کسی پہ اعتبار نہیں، انتظار کررہے ہیں کہ کوئی اچھا رہنما ملے اور ہمیں اس حصار سے نکالے، لیکن اپنی رہنمائی نہیں کرتے، سچ سننے، بولنے کی سکت ہم میں نہیں رہی اور نہ ہی سچ سننا چاہتے ہیں۔ کوئی سچ بولےتو برداشت کرنے کوتیار نہیں، چوروں کو ہم اپنا رہبر بنائے بیٹھے ہیں۔ دشمنوں کو دوست بنائے بیٹھے ہیں۔ حالات پردل ہی دل میں کڑھ رہے ہیں، حکومت پر تنقید کررہے ہیں لیکن کوئی عملی قدم نہیں، بس وہی نان ونفقہ، بنیادی ضروریات. آٹا، گھی، پٹرول، چینی، سبزیاں روپے مہنگا ہوجائے تو بس میں سفر کرتے ہوئے حکومت کو کوس رہے ہوتے ہیں. لیکن کوئی احتجاج نہیں بس لوگوں کو سنایا اور چپ اور دوسرے بھی آپ کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں اور آپ مطمئن. ہماری سوچ آٹا، گھی، دالیں، چینی اور دیگر بنیادی ضروریات سے آگے نہیں بڑھتی.

    حکومت کو فری ہینڈ دے دیتے ہیں کہ جو مرضی آئے، بجلی بندکرنی ہے تو کرے، پٹرول، سی این جی، آٹا، گھی جو بھی آپ نے مہنگا کرنا ہے کرلیں ہم صرف کڑھیں گے اور کچھ نہیں کریں گے. کوئی غریب ہمارے محلہ میں چوری کرے تو مارمار کر آدھ موہ کردیتے ہیں اور تھانے کی سیر کروانے بھیج دیتے ہیں لیکن حکمران ہمیشہ چوروں کو منتخب کرتے ہیں. ایک ہی شخص کو بار بار آزماتے ہیں کہ شاید اب یہ سیدھا ہوجائے لیکن چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے کے مصداق چوروں کے کام پہلے سے بھی نرالے.

    ایک ماں اپنے بچوں کے بارے میں لوگوں کو ہمیشہ کہتی تھی کہ اس کے بچے بڑے نالائق ہیں، نافرمان ہیں، بدتمیز ہیں، آوارہ گرد ہیں. حالانکہ وہ ایسے نہیں تھے لیکن لوگ انہیں چوروں کی نظر سے دیکھنے لگے، رشتہ دار اس پورے گھرسے متنفرہوگئے اور ان کا داخلہ بندکردیا، محلہ میں کوئی چوری ہوتی تو پہلا الزام ان پر لگتا کیا ہمارا یہ حال نہیں. ہمارا وقار، ہماری شان وشوکت سب مٹی مین ملادیا ہمارے منتخب کردہ نمائندوں نے لیکن ہم نے اف تک نہیں کی. جیسے وہ بالکل درست فرمارہے ہوں.

    آج جو بھی ہورہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے، ڈاکٹر قدیر پر ہم فخر کرتے رہے جب انہیں نظربند کیا لیکن اف تک نہیں کی، ڈاکٹر عبدالسلام جیسے اعلٰی تعلیم یافتہ اور نوبل انعام یافتہ سائنسدان کو قادیانی قراردے دیا اور ان کی خدمات کو شان کے خلاف سمجھ بیٹھے. نتیجہ کیا ہوا کہ وہ شخص پاکستان کو خیر باد کہہ کر امریکہ چلا گیا اور امریکہ کے لئے خدمات انجام دینا شروع کردیں. کیا حب الوطنی کا معیار صرف مسلمان ہونا ہے. ہم یہ کیوں بھول بیٹھے کہ جسٹس رانا بھگوان داس بھی غیرمسلم تھے جو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں نعتیں لکھتے تھے اور عدلیہ کا وقار اونچا کیا. ہم کیوں ایک عیسائی جسٹس کارنیلس کو بھول بیٹھے جس نے عدلیہ کا وقار ٹوٹنے سے بچالیا.

    ہر شخص کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے، ہر شخص صوبائی عصبیت کا نعرہ لگارہا ہے، ہماری حب الوطنی چیچہ وطنی تک محدود ہوگئی ہے. ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے لیکن اپنا حق ادا نہیں کرنا چاہتا. صوبائی عصبیت کے نعرے جاگیردار، بدعنوان سیاستدان اور سردار بلند کرتے ہیں اور ہم سوچے سمجھے ان نعروں کا جواب دینا شروع کردیتے ہں. انسان گروہوں کی شکل میں بٹ گئے ہیں کوئی سنی ہے تو کوئی شیعہ کسی کو پنجابی ہونے پر فخر ہے تو کسی کو سندھی ہونے پر، کوئی بلوچیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے تو سندھیوں کے لیکن پاکستان کے حقوق کی بات کرنے کو اور پاکستانی بننے کو کوئی تیار نہیں. ایک غریب عورت کے ساتھ زیادتی ہو تو ہمارے حکمران وہاں پہنچ جاتے ہیں لیکن باقی کو نظرانداز کردیتے ہیں جیسے ہم نے باقیوں کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا.

    اپنے گھر کی حفاظت کے لئے ہم دیواریں اونچی کردیتے ہیں. دیواروں پر شیشہ لگادیتے ہیں تاکہ چوروں اور ڈاکووں سے محفوظ رہیں لیکن ہمارے جذبات، ہمارے ارمان، ہماری خودمختاری، ہمارے وقار پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو اپنے اوپر مسلط کردیتے ہیں. وہ جب ائیرکنڈیشنڈ بنگلوں اور گاڑیوں میں گھوم رہے ہوں تو آپ اس وقت گرمی کا مزہ لے رہے ہوتے ہیں. وہ جب مرغن غذائیں کھارہے ہوں تو ہم بھوکے پیاسے سورہے ہوتے ہیں. وہ ایک این آر او سے دوبارہ نیک بن جاتے ہیں تو آپ ایک ناکردہ جرم کی سزا پارہے ہوتے ہیں. ہمارا احتساب وہ کررہے ہوتے ہیں لیکن انہیں احتساب سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں. ہمدردی ہمارا وطیرہ ہے وہ بھی صرف سیاہ ستدانوں کے لئے.
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    راشد بھائی ۔ بہت متاثر کن اور مبنی بر حقیقت تحریر ہے۔
    اگر یہ آپ کی تحریر ہے ۔ تو میں کہوں گا کہ ہماری اردو کے لیے آپ جیسا صارف ، ایک فخر ، ہے۔ :mashallah:

    اللہ تعالی آپ کے الفاظ سے ہر قاری کے ذہن کو بیداری عطا فرمائے۔ آمین
     
  3. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    پسندیدگی کا شکریہ

    نعیم بھائی، میں‌نے جو تحریر کیا وہ ایک مشاہدہ پر مبنی ہے، دراصل طرح طرح کے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے، اخبارات پرھتے مشاہدہ ہوگیا ہے کہ خرابی کہاں ہے۔

    ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خرابی کی جڑ تلاش نہیں کرتے، کوئی بھی بات ہو سیدھی حکومت پر دھر کو خود کو بری الزمہ سمجھتے ہیں۔

    میری یہ عادت ہے کہ میں اگر کوئی اس قسم کی تحریر لکھوں تو دوسرے فورمز، بلاگز کو بھی بھیج دیتا ہوں تاکہ لوگوں کو حقائق کا اندازہ ہو۔یہ سچ ہے کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سنتا لیکن علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ

    دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
    پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ راشد بھائی
    بہت خوب مشاہدہ اور پر اثر تحریر ہے۔ :mashallah:
     
  5. نیلو
    آف لائن

    نیلو ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2009
    پیغامات:
    1,399
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    سلام عرض ہے جناب راشد صاحب۔ آپ نے بہت اچھا لکھا۔
     
  6. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    پسندیدگی کا شکریہ نیلو بہن
     
  7. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    بالکل ٹھیک کہا راشد جی ، یہی حال ھے آپ کل ، مگر اس کے لئے کوشش بھی ہم سب کو مل کے کرنی ہو‌گی چلیں اسی فورم میں‌کوشش کرتے ھیں کہ کسی کو اپنے سے کم تر نہیں سمجھیں‌گے آج کے بعد، ہم پہلے پاکستانی ھیں‌بعد میں کچھ اور
     
  8. بےمثال
    آف لائن

    بےمثال ممبر

    شمولیت:
    ‏7 مارچ 2009
    پیغامات:
    1,257
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت اچھا مشاہدہ ہے راشد بھائی،خوش رہے اور اللہ ہمیں‌بھی بیدار کر دیں‌تاکہ خواب غفلت سے جاگ اٹھے۔آمین
     
  9. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
  10. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17

    آمین۔۔۔۔
    بالکل ٹھیک کہا نعیم بھائی
    ۔۔۔
     
  11. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جب میں اپنا محاسبہ کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ ہم بے حس نہیں کنفیوژڈ قوم ہیں۔ہم ذہنی تناؤ میں رہتے ہیں، بے یقینی کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارا تعلق مڈل کلاس سے ہے۔ مڈل کلاس کا حال یہ ہے کہ کمائیں گے تو کھائیں گے لیکن جو مڈل کلاس سے بھی نیچے ہیں ان کا کیا حال ہوتاہوگا۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ شام کے وقت جو مزدور سارا دن دیہاڑی تلاش کرنے کے لئے اڈوں پر بیٹھے ہوتے ہیں شام کو وہ ہوٹلوں سے روٹی مانگنا شروع کردیتے ہیں۔اسی طرح سے میں نے بہت سے مزدور دیکھے ہیں۔

    میں یہاں ایک واقعہ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔
    ایک مرتبہ میں ایک دکان پر کھانا کھا رہا تھا کہ ایک مزدور جس نے ہاتھ میں ہتھوڑی، تیسی وغیرہ پکڑی ہوئی تھی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ بھائی مجھے بھی کھانا کھلا دو۔ میں نے اسے حقارت سے کہا کہ تمہیں شرم نہیں‌آتی بھیک مانگتے ہوئے ہٹے کٹے ہو۔ میرا جواب سن کر وہ کہنے لگا کہ یہ دیکھو میں نے اوزار پکڑے ہوئے ہیں۔پورا دن بیٹھا رہا کوئی کام نہیں ملا۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا تو مجھے بہت برا محسوس ہوا۔ وہ جارہا تھا اور میرا ضمیر جھنجھوڑ رہا تھا کہ یہ میں نے کیا کیا۔

    میں نے اسے آواز دی تو اس نے نہ سنی، میں نے لپک کر اسے بٹھایا اور کھانا کھانے کو کہا تو اس نے کہا کہ آج تو کھانا کھالوں گا اگرکل کوئی کام نہ ملا تو پھر

    میں نے اسے کہا کہ کیا کھانا ہے تو اس نے کہا کہ آپ مجھے پیسے دیدو میں‌خود ہی کھانا کھا لوں گا۔ میں نے اسے کچھ پیسے دئیے جس سے وہ ایک وقت کا کھانا نہیں کھاسکتا تھا۔ اس نے پیسے پکڑے اور دوکاندار کے پاس گیا، اس نے ان پیسوں سے صرف تین چار روٹیاں لیں اور دوبارہ میری طرف آگیا اور شکریہ ادا کرنے لگا۔

    میں نے اس سے پوچھا کہ کہاں سے ہو اور کیا کرتے ہوتو وہ کہنے لگا کہ میرا تعلق جھنگ کے ایک گاؤں سے ہے۔ میں یہاں محنت مزدوری کرنے آیا ہوں، پیچھے کوئی زمین بھی نہیں ہے۔ پوری فیملی یہاں ہے میرے تین بچے ہیں۔ایک چھوٹا بچہ ہے جو دودھ پیتا ہے۔ میں یہ چار روٹیاں لے کر جارہا ہوں اب جاکر ہم اچار یا پانی سے روٹی کھالیں گے۔مکان کرائے پر ہے اور ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جس کا دوہزار روپے کرایہ دیتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ چلاگیا

    اس کی باتیں سن کر میرا دل خراب ہونے لگا کہ جو شخص اپنے خاندان کی کفالت نہیں کرسکتا۔ وہ ملک کے لئے کیا خاک سوچے گا۔ہمارے ہاں جو شخص مانگتا ہے ہم اسے حقارت کی نظرسے دیکھتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں کہ شرم کرو ہٹے کٹے ہو۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ سارا دن بھاگ دوڑ کرکے بھی وہ روٹی نہیں کماسکتا۔

    مجھے یہاں‌بنگلہ دیشی معیشت ڈاکٹر محمد یونس کی وہ بات یاد آگئی کہ لوگوں کو مچھلی نہ دو بلکہ کوئی ایسا اوزار دو تاکہ وہ اس سے مچھلی پکڑسکے۔ کتنے بدنصیب ہیں وہ وہ لوگ جو اوزار ہوتے ہوئے بھی روٹی کمانے سے محروم سے محروم ہیں۔

    میرے والد صاحب کی کریانہ کی دکان ہے۔ مجھے اکثر والد صاحب کی عدم موجودگی میں دکان پر بیٹھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ میں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھا ہے کہ لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کلو یا آدھا کلو آٹا دیدو۔

    اب ایک مزدور نے صرف روٹی نہیں‌کھانی، اس نے دوائی بھی لینی ہے، مکان کا کرایہ بھی دینا ہے۔ بس کاکرایہ لگاکر مزدوری کرنے بھی جانا ہے۔ آپ سب کو معلوم ہے کہ بس کا کرایہ ایک سٹاپ سے دوسرے سٹاپ تک دس روپے ہے۔ اگر اس شخص کے پاس 30 روپے ہوں گے تو وہ مزدوری پہ جاسکتا ہے اگر مزدوری نہ ملے تو وہ پیسے ضائع گئے۔

    ہمارا زیادہ تر کا تعلق سفید پوش طبقے سے ہے لیکن وہ لوگ غربت کی نچلی سطح پر ہیں وہ کیا کرتے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل ایک غریب آدمی بھی ہیرا پھیری کرنے پر اور مانگنے پر مجبور ہوگیا ہے۔

    مگر افسوس کہ روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگانے والے عوام کو ایک وقت کی روٹی بھی نہیں دےسکتے تھے۔ ہم سب کو یاد ہے کہ روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگانیوالا بھٹو جہاں بھی جاتا تھا ہزاروں لوگ اس کی عقیدت میں کھڑے ہوجاتے تھے لیکن وہ شخص بھی عوام کو روٹی نہیں دے سکتا۔ آج جب یہ نعرہ لگتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے ہماری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔

    محلوں میں رہنے والوں کو اندازہ نہیں ہے کہ عوام کس حال میں ہیں وہ بڑے بڑے ہوٹلوں میں جاکر عوام کی نہیں اپنی قسمت کافیصلہ کررہے ہوتے ہیں۔مذاکرات کررہے ہوتے ہیں۔ذرا ایک دن مزدوروں کے اڈوں پر جاکر دیکھیں کہ وہاں لوگوں کا کیا حال ہے، ذرا ایک دن کسی غریب کے گھر میں رہ کردیکھیں کہ ان کا کیا حال ہے۔ ایک مزدور جس کی بیٹیاں ہوں اس نے ان کی شادی کرنی ہوتو وہ کیسے کرے گاجب اس کی روٹی پوری نہیں ہوتی۔

    کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جس دن عوام کو ایک نوالہ بھی کھانے کو نہ ملااس دن کیا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اقبال کے شعر والا حال ہوگا

    جس کھیت سے دہقاق کو میسر نہ ہو روزی
    اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
     
  12. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    راشد بھائی بہت متاثر کن تحریر ہے۔ ماشاءاللہ
    بھٹو صاحب کا ذکر آیا تو انکی ایک بات کو میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہوں کہ چاہے جیسے بھی تھے انہوں نے قوم میں اپنے حق کے لیئے آواز اٹھانے کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔
    ہم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک ہمارے درمیان اتحاد نہیں ہو جاتا۔ آپ خود ہی دیکھیں کہ ہمارے ملک میں کتنی جماعتیں ہیں۔ سب عوام کو بےوقوف بنا کر پیسہ اینٹھ رہے ہیں۔ ملک کے لیئے کوئی بھی کام نہیں کر رہا۔ جو لوگ ملک اور اسلام کے لیئے کچھ کرنا چاہتے ہیں انہیں ایک دم یا تو سرے سے ہی اڑا دیا جاتا ہے یا پھر سیاست سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔
    ملک میں کسی بھی قسم کی کوئی پلاننگ نہیں ہے۔ کسی بھی قسم کا کوئی قانون نہیں ہے۔ 8 سال پہلے میں پاکستان گئی تھی۔ پی آئی اے کا ٹکٹ ہی کنفرم کروانا تھا بہت بڑی بات نہیں تھی اسی کے لیئے اگلا بندہ ہم سے رشوت مانگ رہا تھا۔ میں تو حیران و پریشان کھڑی اس کا منہ ہی دیکھتی رہ گئی کہ یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اللہ جانے ہمارے ملک کا کیا بنے گا!!!
     
  13. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    مسز مرزا بہن

    آپ کے تبصرے کاشکریہ

    بھٹو صاحب کو میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور کبھی کبھی سوچتاہوں کہ روٹی کپڑامکان کا نعرہ اگر بھٹو صاحب پورا نہیں کرسکے تو کم از کم اس کی آنیوالی نسلوں کو پورا کرنا چاہئے تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اولاد ہی ماں باپ کا نام روشن کرتی ہے اور اولاد ہی ڈبوتی ہے۔

    یہی حال آج ہے۔ بھٹو کی پالیسیاں ان کی بیٹی جاری نہ رکھ سکی اس کے بعد ان کے شوہر نامدار جاری نہ رکھ سکے۔ اس طرح روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ محض نعرہ بن گیا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایک کی پالیسیاں‌دوسرا جاری رکھنے کی کوشش نہیں کرتا اس ڈرسے کہ کہیں وہ کریڈٹ نہ لے لے۔ آج جب بھٹو کا شروع کردہ ایٹمی پروگرام آنیوالے حکمرانوں نے پایہ تکمیل تک پہنچایا تو فائدہ ملک کا ہواورنہ یہ ملک کب کا ختم ہوچکا ہوتا۔

    جہاں تک اتحاد کا معاملہ ہے تو ہمیں ٹکڑوں میں‌بانٹنے والے حکمران ہیں۔ کسی نے سندھی کا نعرہ لگاکرووٹ حاصل کیا، کسی نے مہاجر، کسی نے بلوچی یا پختون۔ ہم جذباتی عوام ہیں جو ہمارے ساتھ ہمدردی کرے اسی کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ لیکن اب صورت حال یکسر تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ عوام کسی نہ کسی مسئلے پر ایک ہوجاتی ہے چاہے وہ 1965 کی جنگ ہو، زلزلہ زدگان کی امداد ہو، چاہے ججز کی بحالی ہو۔ مجھے یقین ہے کہ اپنے حقوق کے لئے بھی قوم ایک ہوکر حکمرانوں کے گریبان پکڑے گی۔

    کرپشن ہمارا سنگین مسئلہ ہے جب سے پاکستان بنا ہے کرپشن کا دروازہ بند نہیں کیاجاسکا۔اس کی وجہ ہمارا نظام ہے۔ آج کہیں بھی چلے جائیں آپ کی شنوائی نہیں ہوگی۔
     
  14. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    کیا بات ہے !!! ایک ایک لفظ حق ہے :yes: وہی ناں کہ اپنی جیبیں بھرنے کے لیئے حکمران عوام کو لڑوا رہے ہیں اور عوام ایسی بے وقوف ہے کہ لڑ کیا مر بھی رہی ہے! صد افسوس!!!
    اور میں ذاتی طور پہ بھٹو صاحب کی مداح ہوں کیونکہ میں نے ان کے بارے میں خود پڑھا ہے۔ لیکن اسکا مطلب ہرگز نہیں کہ میرا تعلق کسی پارٹی یا خاص طور پہ پیپلز پارٹی سے خدا نخواستہ ہے!!! :neu: ویسے بھی ذوالفقار علی بھٹو جیسے بھی تھے ان کو پھانسی ہوئی تھی اور میرا جہاں تک خیال ہے جب انسان دنیا میں اپنے جرائم کی سزا بھگت لیتا ہے تو اس کو اچھے الفاظ میں ہی یاد کرنا چاہیئے کیونکہ وہ ہم سے بہتر حالت میں چلا جاتا ہے۔
    بخاری شریف میں درج ایک حدیث یاد آ گئی پلیز اگر کسی کو اس میں کمی بیشی لگے تو تصحیح فرما دیجیئے گا
    ایک دفعہ ایک عورت کو بدکاری کے جرم میں سنگسار کر دیا گیا۔ کچھ عورتیں اس سنگسار ہوئی عورت کے بارے میں غلط باتیں کر رہی تھیں تو پیارے نبی :saw: نے انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا کہ اب وہ عورت تم عورتوں سے کہیں زیادہ پاک ہے۔۔۔سبحان اللہ!!!
    کیونکہ وہ اپنے جرم کی سزا دنیا میں بھگت چکی تھی
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ جزاکم اللہ خیر
     
  16. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    راشد جی آپ کی تحریر کو آج کئی بار پڑھا ، بار بار پڑھنے کی وجہ ایک تو آپ کا دلکش انداز تھا دوسرا جو کڑوا سچ ھے جے آپ نے کمال مہارت سے بیان کیا ھے

    میں خود کئی بات سوچتی ہوں کہ غریب لوگوں کی گزر بسر کیسے ہوتی ہو گی اسی لئے جب بھی کوئی بھکاری سوال کرتا ھے نہ میں اسے منع کرتی ہوں نہ کبھی اس سے کوئی سوال کیا ھے کہ جانے وہ کتنا مجبور ہو گا یہ سب کرنے واسطے، یہی کوشش کرتی ہوں کہ حسب توفیق اسے کچھ دے کے ہی رخصت کروں

    اللہ تعالی ہم سب کو توفیق دے کہ ہم سب اپنے لوگوں کی حالت بہتر بنا سکیں
     
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    راشد بھائی ۔ میری دلی دعا ہے کہ کسی دن ہم اس ظم و ناانصافی کے کھیت اور اسکے رکھوالوں کو جلا ڈالنے والی آگ اپنے سینوں میں بھڑکا کر اس سارے ظالمانہ و جابرانہ نظام کو جلا کر بھسم کر ڈالیں۔ :yes:
     
  18. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ہمیں اس دن سے ڈرنا چاہئے جس دن عوام کو کھانے کے لئے روٹی کا نوالہ تک نہ ملا۔ شاید وہی دن ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرےگا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں