1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ذات کی ایمانی اور اخلاقی تربیت ۔۔۔۔۔ : عبداللہ بن عبدالعزیز العیدان ترجمہ:شمس الحق

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    ذات کی ایمانی اور اخلاقی تربیت ۔۔۔۔۔ : عبداللہ بن عبدالعزیز العیدان ترجمہ:شمس الحق


    تربیت ذات ان مختلف تربیتی طریقوں کو کہا جاتا ہے جن کی مدد سے ہر مسلمان مردو عورت اپنی ذات کو علمی، ایمانی، اخلاقی اور سماجی حیثیت سے بہتر بنا سکتا ہے۔ اور بشری کمال کے مراتب طے کر سکتا ہے۔تربیت ذات کی اسلام میں بے حد بلکہ کلیدی اہمیت ہے، اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔عصر حاضر میں تربیت ذات کی اہمیت میں پہلے کی بہ نسبت کہیں زیادہ اضافہ ہو گیا ہے ۔

    ہر مسلمان اپنی ذات کو بہتر بناکر بشری کمال کے مراتب طے کر سکتا ہے
    جس شخص نے اپنی حقیقی تربیت کی اس پر حساب آسان ہو جائے گا، انشاء اللہ عصر حاضر میں تربیت ذات کی اہمیت پہلے کی بہ نسبت کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے

    خود اپنی حفاظت غیروں کی حفاظت سے مقدم ہے:۔مسلمان کا اپنی تربیت کرناحقیقت میں اللہ کے عذاب سے بچائو کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ یہ جہنم کے سامنے ایک ڈھال ہے، اور بلا شبہ خود اپنا بچائو دوسروں کے بچانے پر ٹھیک اسی طرح مقدم ہے جس طرح خدا نخواستہ کسی گھر میں آگ لگ جائے تو اپنی ذات کی حفاظت مقدم ہے۔ سب سے پہلے آدمی اپنی ذات کے بچائو کی تدابیر کرتا ہے پھر دوسروں کی۔اس حقیقت کی تاکید اللہ تعالیٰ نے بھی فرمائی ہے۔قرآن پاک کی سورہ التحریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ اے ایمان والو!تم اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچائو جس کا ایندھن انسان اور پتھرہیں،اور اس پر سخت فرشتے مقرر ہیں ،جو اللہ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں‘‘ (التحریم :6) ۔ترجمہ کنزالایمان سے لیا گیا ہے۔
    علامہ ابن سعدی ؒ نفس کو بچانے کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : نفس کو اللہ تعالیٰ کے اوامر کی بجا آوری ، اس کی منہیات سے اجتناب کا پابندبنانا، اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی اور جہنم واجب کرنے والی چیزوں سے توبہ کرنا، یہی ذاتی تربیت کے معنی اور اس کی غرض و غایت ہے۔
    اگر آپ خود اپنی تربیت نہیں کریں گے تو دوسرا کون کرے گا؟:۔جب انسان پندرہ، بیس تیس یاا س سے اوپر کا ہو جائے تو اس کی تربیت کون کرتا ہے؟بڑی عمر کے ساتھ ساتھ اس کی تربیت کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ اور نہ ہی کوئی چیز اس کے پختہ ہوتے ہوئے ذہن پر پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ کیونکہ والدین اور دوسرے لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ بالغ ہو گیا ہے برے بھلے کی تمیز ہے،اپنی مصلحتوں کا ادراک ہے۔یا پھر ان کے دنیاوی مسائل انہیں اس کام سے غافل کردیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے (اگر وہ ا پنی تربیت خود نہ کرتے )تو اطاعت و فرمابرداری کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں۔ وقت گزرتا رہتا ہے، عمر ڈھلتی جاتی ہے،مگر وہ اپنی کوتاہیوں کا تدارک ہی نہیں کرپاتا۔اپنے گمشدہ بشری کمال کو پانے کی کوئی کوشش نہیں کرتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ موت کے وقت اور قیامت کے روز افسوس کرے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’جس دن تمہیں ا کھٹا کرے گا سب جمع ہونے کے دن وہ دن ہے ہار والوں کی ہار کْھلنے کا اور جو اللہ پر ایمان لائے اور اچھا کام کرے اللہ اس کی برائیاں اْتاردے گا اور اْسے باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں کہ وہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے‘‘(التغابن :9)
    حساب تنہا ہو گا:۔بروز قیامت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا الگ الگ حساب لے گا،اجتماعی نہیں۔ یعنی ہر شخص اپنے اچھے برے اعمال کا خود ذمہ دار ہو گا،اپنی ذات کا بھی جواب دہ ہو گا۔ خواہ وہ کتنا ہی دعویٰ کرے کہ دوسروں نے بھی اسے گمراہ کیا،وہ بھی اس کی کوتاہی، لاپرواہی اور انحراف کے ذمہ دار ہیں لیکن یہ دلیل نہیں مانی جائے گی۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،’’اور ان میں سے ہر ایک روز قیامت اکیلا حاضر ہوگا‘‘۔ (سورہ مریم : 95)
    نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’ ہم نے ہرانسان کی برائی اور بھلائی کو اسکے گلے سے لگا دیا ہے، اور بروز قیامت، ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے، جسے وہ ا پنے اوپر کھلا ہوا پائے گا۔فرمایا جائے گا کہ اپنا نامہ(اعمال) پڑھ آج تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو بہت ہے‘‘۔(الاسرا ء :13،14)
    انسان کو خود بدلنے پر قادر ہے :۔کوئی بھی فرد عیب و کوتاہی اور گناہ و خطا سے محفوظ نہیں،خواہ کم ہو یا زیادہ ، اور جب معاملہ اس قدر یقینی ہے تو ابتداء ہی سے اس کا علاج کیا جائے چہ جائیکہ وہ مضبوط ہو جائے۔ انسان اپنی غلطیوں اور عیوب کی مکمل اور دائمی تصحیح اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک کہ تربیت ذات پر عمل پیرا نہ ہو۔ یہ کلیدی شرط ہے۔
    دراصل ہر مسلمان مرد و عورت کو اپنے علم اوراستطاعت کے مطابق دوسروں کو دعوت حق دینے والا مصلح و معلم، اور رہنما و مربی ہونا چاہئے۔خاص و عام کی زندگی میں دین اسلام کے مطابق تبدیلی و اصلاح لانے کے لئے قوی دلائل کی ضرورت ہوتی ہے، موثر دعوت کی نہایت اہمیت ہے۔ انسان بہترین نمونہ بن جائے، اپنے ایمان و عمل میں مثالی ہو، اس کی دعوت حق میں تاثیر ہوتی ہے، کیونکہ قوی تاثیر محض تقریروں سے حاصل نہیں ہوتی، عمل بھی اسی کے مطابق ہونا لازمی شرط ہے۔صحیح تربیت ذات ہی داعی کے پیغام میں تاثیر پیدا کرتی ہے۔
    معاشرے کی اصلاح کا صحیح طریقہ:۔کیا کوئی بھی مسلمان ایسا ہوگا جوامت مسلمہ کے مختلف گوشوں میں برے حال کا المیہ بیان نہ کرتا ہو؟ ایسا کوئی شخص موجود نہیں۔خواہ اقتصادی معاملہ ہو یا سیاسی، یا ابلاغی یا اجتماعی ، لوگ اپنی خامیاں بیان کرتے ہیں۔ لیکن کیا اس تلخ حقیقت کی اصلاح کا بھی کوئی راستہ ہے؟ آج امت مسلمہ کو جو مسائل درپیش ہیں ،ان سے نکلنے کی کوئی صورت ہے؟ کیا صرف شکوے شکایت کرنا ہی کافی ہے؟ ان سب کا جواب خوداپنے آپ میں تلاش کیجئے ، مل جائے گا۔ تمام عصری مسائل و مشکلات کا حل ذات کی تربیت میں ہی مضمر ہے۔جب بھی کوئی اپنے آپ سے اصلاح کا عمل شروع کرے گا تو معاشرے کی اصلاح خودبخو ہو جائے گی ۔ اور جب فرد کی اصلاح ہو گی تو بحکم خدا خاندان بھی درست ہو جائے گا۔ پھر پورا معاشرہ سدھر جائے گا۔ اس طرح دھیرے دھیرے امت کے تمام مسائل ختم ہو جائیں گے ۔
    مذکورہ بالا باتیں ہر مرد و عورت کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں،ذات کی تربیت کا خیال اس وقت زیادہ تقویت پکڑے گا جب والدین نے چھوٹی عمر میں بچوں کے دل میں خوف خدا پیدا کیا ہو۔اس کے برخلاف ہمیں اکثر مسلمانوں میں تربیت سے واضح غفلت نظر آتی ہے۔ اس کے لئے پوری توجہ اور اہتمام مفقود ہوتا ہے، چلتے پھرتے کوئی بات کہہ دی جو اثر نہیں رکھتی۔ اس سستی و غفلت کے مندرجہ ذیل اسباب ہو سکتے ہیں
    غرض و غایت کی غیر یقینی صورتحال :۔ذاتی تربیت پر ابھارنے اور اس کی جانب دعوت دینے والے بہت سے لوگ قرآن و حدیث کا پورا علم نہیں رکھتے۔ اکثر مسلمانوں کی جہالت، اعمال صالحہ کی کمی، دنیا میں کئے جانے والے اعمال کے آخرت میں حساب سے پوری طرح آگاہ نہ ہونا بھی اس کا ایک سبب ہے۔ دوسری جانب جو مسلمان شیطان کی دشمنی سے پوری طرح واقف نہیں ہوتا، وہ نادانی کا مظاہرہ کرتا ہے، وہ شیطان کے گمراہی کے طریقہ سے ناواقفیت کے باعث اس کے دھوکے میں آجاتا ہے۔
    مسلمان کی تربیت ذات پر جو چیز معاون ہوتی ہے وہ اس کی زندگی کا واضح مقصد ہوتا ہے۔ یہ مقصد ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی۔وہ اس کے لئے دعوت دینے کے لئے بھی پیدا کیا گیا ہے۔تاکہ آخرت میں جنت کا دروازہ اس پر کھل جائے۔ لیکن بغیر غرض و غایت کے زندگی گزارنے والا مسلمان اندھیروں میں بھٹکتا رہتا ہے، آج کل اکثر مسلمانوں کا یہی حال ہے۔جس شخص کے لئے دنیا کی لذتیں اور نعمتیں ،آرام و آسائشیں ہی سب کچھ ہو،وہ تربیت ذات کرے گا؟ایسا مسلمان اپنی تربیت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ تربیت کے سلسلے میں پیش آنے والی تکالیف کو بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ ایسے مسلمان میں صبر کی بھی کمی ہوتی ہے۔ہم میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اس زندگی کا حقیقی مقصد سمجھتے ہیں، حقیقی زندگی کی فضیلتوں کو جانتے ہیں، ان مسلمانوں کا دنیا سے قلبی اور جسمانی لگائو ضرورت اور ہدایت سے زیادہ نہیں ہوتا۔ لیکن بہت سے لوگ دنیا سے لگائورکھتے ہیں۔ان کا سارا وقت دنیا کی محبت میں خرچ ہوتا ہے، وہ خود کو ذاتی تربیت سے معذور سمجھتا ہے۔وہ سمجھتاہے کہ بال بچوں کا پیٹ پالنا یا روزی کمانا ہی زندگی کا مقصد ہے۔
    تربیتی مراکز کی کمی:۔حقیقی تربیت کے معنی ، اس کے وسائل اور اس کے مقاصد کا غلط مفہوم بعض مسلمانوں کو اپنے نفس کی تربیت دینے میںآڑے آ جاتا ہے۔ وہ اسے اپنانا زندگی اور معاشرے سے علیحدگی تصور کرتا ہے۔ یا یہ کہ یہ کافی مشکل کام ہے یا پھر اس میں کافی وقت لگتا ہے۔ وہ اسے زندگی کی بنیادی ضروریات سے متصادم سمجھتا ہے۔ یہ تمام باتیں لغو اور بے بنیاد ہیں۔ جس ماحول میں انسان رہتا ہے، اس کا زندگی پربہت اثر پڑتا ہے۔ یہ اثرات مثبت اور منفی، دونوں ہو سکتے ہیں اسی لئے اچھی صحبت اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔مثال کے طور پر گھر، راستہ، دوست احباب ، مدرسہ، بازار، فلمیں اور کتابیں۔اگرتربیتی مرکز(خصوصاََ گھر) نیکی اور اللہ کی ہدایت سے بہرہ ور ہے، توا نسان کی استقامت، اصلاح اور تربیت میں معاون بنتا ہے۔لیکن اگر گھر کے حالات اس کے برعکس ہوں تو ذلت و پستی کا سبب بن جاتا ہے۔آج اگر ہم اپنے تربیتی مراکز پر ایک نگاہ ڈالیں تو ہمیں اچھے تربیتی مراکز کی کمی نظر آئے گی۔ وہاں کے حالات ایسے نہیں جو نفس کی طہارت، اصلاح اور ترقی میں مددگار بن سکیں۔
    یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ انسان بچپن سے بلوغت اور بڑھاپے، بلکہ موت تک ارشاد و تربیت اور تعلیم کا حاجت مند ہوتا ہے۔ یہ بات درست نہیں کہ تربیت صرف بچوں اور نوجوانوں کے لئے خاص ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ ہر عمر اور حالات کے حوالے سے تربیت کے انداز بدلتے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ بات معلوم ہو گئی ہے کہ ہمارے مربی اول ہمارے والد اور والدہ ہیں اور پھراستاد ہیں۔لیکن آج کئی وجوہات کی بناء پر ان دونوں کی تربیت میں بھی کمی آ رہی ہے۔ ساتھ ہی خیر خواہ دوست اور مرشد بھائی کی کمی ہے۔ اس لئے جب دوسرے تربیت کے لئے موجود نہیں ہیں تو اس بات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے کہ ہر مسلمان خود اپنی تربیت کا فریضہ سنبھال لے۔اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی سستی اور کاہلی کو ابھی ترک کیجئے۔ تاکہ آپ کا شمار ایمان و تقویٰ ، صلاح و استقامت کے اعتبار سے بہترین لوگوں میں ہو سکے۔امام ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ حساب لئے جانے سے پہلے اپنے اپنے نفس کا محاسبہ کر لیجئے، اور یہ دیکھ لیجئے کہ قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے پیشی کے لئے آپ نے کتنے نیک اعمال کا ذخیرہ کیا ہے، اور یہ بات جان لو کہ وہ تمہارے اعمال و احوال کو جاننے والا ہے، اور اس پر تمہاری کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے‘‘ (تفسیرابن کثیر)۔
    حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا،’’ ہوشیار وہ (شخص)ہے جس نے اپنے نفس کو قابو میں رکھا، اور موت (یوم حساب )کے لئے عمل کیا، اور عاجز وہ ہے جس نے اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی اور اللہ سے مختلف قسم کی امیدیں لگاتا رہا‘‘۔ (ترمذی )
    یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کا جتنا تقرب ہوگا ذاتی تربیت کرنے میں اتنی آسانی رہے گی۔ جتنا زیادہ وقت عبادت الہی میں گزرے گا اور برے کاموں سے انسان بچے گا اتنی ہی تربیت ہوتی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سب سے پہلے اپنی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم دوسروں کی بھی تربیت کرنے کے قابل ہوجائیں۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں