1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دیپاچند کا دیپالپور

'متفرق تصاویر' میں موضوعات آغاز کردہ از پاکستانی55, ‏20 جنوری 2016۔

  1. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    1.jpg
    دیپالپور کی تاریخ

    مشہور بنگالی مورخ ابناش چندرداس اپنی کتاب'' رگ وید آف انڈیا'' میں لکھتے ہیں کہ اس شہر کا اصل نام سری پوریہ یا سری نگر تھا پھر سیالکوٹ کے راجہ سلواہان کے بڑے بھائی دیپا چند نے اپنے بیٹے راجہ دیپا کے نام پر اس شہر کا نام دیپالپور رکھا۔
    وہ مزید لکھتے ہیں کہ آج سے دو ہزار سال قبل جب آریہ برصغیر میں داخل ہوئے تو ان کا مسکن سپت سندھو یعنی سات دریاؤں کی سر زمین تھا جس میں راوی، ستلج، چناب، جہلم، سندھ، بیاس اور کابل بہتے تھے اور اس زمانے کی مشہور تہذیبوں میں اجودھن (پاکپتن)، قبولہ اور دیپالپور شامل تھیں۔
    تیرھویں اور چودھویں صدی عیسوی میں دیپالپور نے منگولوں کے خلاف دہلی سلطنت کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت خیبر سے دہلی تک کے راستے صرف دیپالپور میں ہی ایک قلعہ موجود تھا۔
    1285ء میں منگولوں سے جنگ کے دوران فیروز شاہ تغلق کا بیٹا محمد شاہ یہیں مارا گیا اور اسی دوران مشہور شاعر امیر خسرو کو دیپالپور میں قید کر دیا گیا۔
    1398ء میں بادشاہ تیمور نے برصغیر پر حملوں کے دوران اس خطے کو ملتان کے بعد خاص اہمیت دی۔
    1578ء میں اکبر بادشاہ حضرت بابا فرید الدین مسعود کے دربار پر حاضری دینے آئے تو انہوں نے اپنے بیٹے سلیم اور شاہی وفد کے ہمراہ دیپالپور میں قیام کیا۔
    برطانوی قبضے سے پہلے جو دیپالپور بادشاہوں اور سپہ سالاروں کی توجہ کا مرکز بنا رہا، اسے بعد میں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔
    اس وقت دیپالپور کو ضلع اوکاڑہ کی ایک تحصیل کا درجہ حاصل ہے۔
    قلعہ دیپالپور اور عماراتی اہمیت
    ماضی میں دیپالپور ایک قلعے میں آباد تھا جس کی فصیل 25 فٹ چوڑی اور گہری ہونے کی وجہ سے خاصی مضبوط تھی۔ اس قلعے کی پہلی دفعہ تعمیر کا کوئی خاص حوالہ تاریخ میں موجود نہیں ہے لیکن اسکی مرمت و تعمیرنو کا کام فیروز شاہ تغلق اور بعدازاں عبدالرحیم خاناں خاں نے کیا۔
     
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    2----.jpg
    قلعے کی دیوار مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے باقیات کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
    --------------------------------------------------------------
    فیروز شاہ تغلق نے چودھویں صدی عیسوی میں یہاں ایک بڑی مسجد بھی تعمیر کروائی جو کہ بادشاہی مسجد کے نام سے آج بھی موجود ہے اس کے علاوہ انہوں نے دریائے ستلج میں سے شہر کے اردگرد کے باغات کو پانی دینے کے لیے ایک نہر بھی نکالی۔

    پرانے شہر میں ایک اور قابل ذکر جگہ راجہ دیپا چند کی جانب سے اپنے بیٹے لعل جس راج کی یاد میں تعمیر کی گئی خانقاہ تھی جو کہ آج خستہ حالت میں موجود ہے۔

    جس راج کی خانقاہ کے ساتھ ہی تعمیر کی گئی ایک سرائے بھی موجود ہے جو ایک بڑے صحن کے اردگرد ہوادار کمروں پر مشتمل ایک بڑی مہمان گاہ تھی لیکن یہ بھی اب اپنی اصل شکل میں موجود نہیں ہے اور مقامی لوگوں کے قبضے کی وجہ سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔
     
  3. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    3.jpg
    خستہ ہال سرائے کا ایک منظر
    ----------------------------------
    آبادی


    دیپالپور کی کل آبادی آٹھ لاکھ اکیس ہزار نواسی ہے جس میں چار لاکھ ستائس ہزار دو سو ستتر مرد اور تین لاکھ ترانوے ہزار آٹھ سو بارہ خواتین شامل ہیں۔

    دیپالپور میں یونین کونسلز کی تعداد 55 تھی جو بڑھا کر 67 کر دی گئی ہیں۔

    برادریاں

    علاقےمیں زیادہ تر بولی جانے والی زبان پنجابی ہے جبکہ یہاں کی مشہور برادریوں میں سید، بودلہ، پٹھان، راؤ،دولہ، آرائیں، وٹو، جٹ، جوئیہ اور بھٹی برادری شامل ہے۔

    مذہبی مقامات

    حضرت بہاول حق المعروف بہاول شیر قلندر بغداد کے رستے ہوتے ہوئے دیپالپور کے قریب ایک گاؤں پتھروال میں آکر آباد ہوئے۔ اسی گاؤں میں ان کا ایک حجرہ بھی تعمیر کیا گیا ہے۔
     
  4. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    4.jpg
    حجرہ شاہ مقیم میں موجود دربار شریف
    -----------------------------------
    حضرت بہاول کے پوتے حضرت شاہ مقیم جب اس حجرہ کے گدی نشین بنے تو یہ علاقہ حجرہ شاہ مقیم کے نام سے مشہور ہو گیا جو آج بھی قائم ہے۔

    پنجابی لوک داستان "مرزا صاحبہ" میں بھی اس جگہ کا ذکر موجود ہے۔

    سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گرونانک نے بھی دیپالپور میں کچھ دن قیام کیا جن کے دور کا یہاں ایک گردوارہ بھی قائم تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہو گیا۔

    صوفی بزرگ عبدالرزاق نے بھی اس شہر میں قیام کیا اور لوگوں کی سماجی تربیت میں اپنا کردار ادا کیا۔ ان کی وفات کے بعد ان کی تدفین بھی اسی شہر میں کی گئی اب یہ جگہ رزاقیہ دربار کے نام سے مشہور ہے۔
     
  5. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    5.jpg

    دربار صوفی عبدالرزاق رحمتہ اللہ علیہ
    ------------------------------------
    سرکاری سہولیات

    دیپالپور میں واپڈا، سوئی گیس، محکمہ انہار، محکمہ جنگلات، ریونیو ڈیپارٹمنٹ، ٹی ایم اے، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، محکمہ زراعت، محکمہ ایجو کیشن، سوشل ویلفیئر اور بہبود آبادی کے دفاتر موجود ہیں۔
     
  6. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    6.jpg
    اس کے علاوہ شہر میں گورنمنٹ ڈگری کالج فار بوائز، گورنمنٹ ڈگری کالج فار گرلز، گورنمنٹ سکول فار ڈیف اینڈ ڈمب (سپیشل ایجوکیشن)، ڈی پی ایس (ڈسٹرکٹ پبلک سکول)، لڑکوں کیلئے دو ہائی سکول جبکہ لڑکیوں کیلئے ایک ہائی سکول موجود ہے۔

    مشہور سیاسی شخصیات

    یہاں کی مشہور سیاسی شخصیات میں میاں یٰسین خاں وٹو (مرحوم) کا نام قابل ذکر ہے جو کہ متعدد دفعہ صوبائی و قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے۔ ان کے پاس تعلیم، فنانس اور پٹرولیم کی وزارت رہی۔

    میاں یسین وٹو کے علاوہ میاں منظور احمد وٹو بھی دیپالپور کی بڑی سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر رہے اور دو دفعہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی منتخب ہوئے۔

    راؤ افضل (مرحوم) 1952ء میں تحصیل دیپالپور سے اس وقت ایم پی اے منتخب ہوئے جب یہ ساہیوال کی ایک تحصیل تھا۔

    اس کے علاوہ میاں معین وٹو، میاں خرم جہانگیر وٹو، محترمہ روبینہ شاہین، سید رضا علی گیلانی، ملک عباس کھوکھر، ملک علی عباس کھوکھر، راؤ محمد اجمل خان اور افتخار چھچھر جیسی سیاسی شخصیات بھی قابل ذکر ہیں۔
    http://okara.sujag.org/feature/29527
     

اس صفحے کو مشتہر کریں