1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دیس بدیس کی رعنائیاں

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏22 فروری 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    دیس بدیس کی رعنائیاں​


    دیس بدیس کی رعنائیاںمختلف ممالک میں جنم لینے والے دلچسپ و عجیب واقعات جو اپنے اندر تاثیر اور جاذبیت سموئے ہوئے ہیں ​

    مرتب :اقصیٰ فاطمہ

    میںسونگ کران کے لفظی معنی ’’فلکیاتی راستہ‘‘ ہیں۔ تھائی لینڈ میں نئے سال کا یہ تہوار ہر سال اپریل کی ۱۳ ؍ سے ۱۵؍ تاریخ تک منایا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں نئے سال کے متعدد کیلنڈر رائج ہیں، سونگ کران کی ان کے ساتھ اتفاقی وابستگی ہے۔ اس تہوار کی اصل تاریخ مقامی فلکیاتی حساب کے اعتبار سے رکھی جاتی تھی، لیکن اب اس کی تاریخ شمسی کیلنڈر کے اعتبار سے مقرر کر دی گئی۔ تھائی لینڈ میں سونگ کران کا تہوار سال کے گرم ترین دنوں اور خشک موسم کے آخر میں آتا ہے۔

    سونگ کران کے بارے میں خیال ہے کہ یہ ہندوستان کے قدیم تہوار ہولی سے لیا گیا ہے جس میں لوگ ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں۔ لیکن تھائی لینڈ والوں نے اپنے تہوار میں رنگوں کی جگہ پانی کو دے دی۔ اس تہوار کو خطے میں اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ اب نہ صرف یہ قومی سطح پر منایا جاتا ہے، بلکہ تھائی لینڈ کے آس پاس کے ملکوں میں بھی رواج پا گیا ۔ تاہم، سونگ کران کی اصل تقریبات اب بھی تھائی لینڈ کے شمالی شہر چیانگ مائی( Chiang Mai) میں منائی جاتی ہیں جہاں یہ ۶؍ روز بلکہ زیادہ دن تک جاری رہتی ہیں۔ یہ تہوار اب غیرملکیوں، سیاحوں کو بھی اپنی جانب راغب کر چکا ، جو بڑی دلچسپی سے اسے دیکھنے اور لطف اندوز ہونے آتے ہیں۔سونگ کران کی سب سے اہم اور نمایاں تقریب کا مرکزومحور پانی ہے ۔ تہوار منانے والے ایک دوسرے پر خوب پانی پھینکتے اور ایک دوسرے کو مکمل طور پر بھگو دیتے ہیں۔ اس موقع پر تھائی لوگ گلیوں اور سڑکوں پر پانی کے ڈبے اور پانی کے پستول (واٹر گنز) لیے گھومتے ہیں۔ دن کے آغاز سے ہی بڑے، بوڑھے، جوان اور بچے سڑکوں کے دونوں طرف پانی کے ’’ہتھیاروں‘‘ کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہی پیدل چلنے والے یا گاڑیوں میں سوار لوگوں کو گزرتے دیکھیں تو ان پر پانی کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ یہ منظر بڑا پُرلطف ہوتا ہے۔ بھگوئے جانے پر نہ تو کوئی برا مانتا اور نہ کوئی جھگڑا کرتا ہے بلکہ سب ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش دلی سے ہاتھ ہلا دیتے ہیں۔
    قدیم تھائی روایات کے مطابق پانی ایسی پاک چیز ہے جو ہر گندگی، غلاظت اور گناہ دھو ڈالتا ہے۔ گویا سب ایک دوسرے کو پاک و صاف کرنے کے عمل میں اجتماعی طور پر شریک ہوتے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پانی کا اس انداز سے چھڑکائو ہمیشہ سے تہوار کی نمایاں سرگرمی نہیں رہی۔ یہ روایتی طور پر ایک ایسا تہوار تھا جس میں بزرگوں اور بڑوں کی خدمت میں حاضری بنیادی وصف تھا۔زمانۂ قدیم میں تمام چھوٹے اپنے بڑوں کی خدمت میں پورے ادب و احترام سے حاضری دیتے اور انھیں تعظیم پیش کرتے۔ ان میں گھر کے ارکان، دوست اور پڑوسی سب شامل تھے۔

    دوسرے لفظوں میں ہم اسے بزرگوں کے احترام کا تہوار کہہ سکتے ہیں۔ لیکن بعد ازاں اس تہوار میں پانی کی شمولیت کے باعث بزرگوں کے لیے مسائل پیدا ہوگئے ، کیونکہ عموماً یہ لوگ پانی کی بوچھاڑ سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اس سے پریشان ہوجاتے ہیں۔سونگ کران منانے والے پہلے تو ایک دوسرے پر پانی پھینک کر ہلا گلا کرتے ہیں، اس کے بعد نسبتاً سنجیدہ تقریب شروع ہوتی ہے جس میں سبھی افراد پورے ادب و احترام کے ساتھ بدھ مذہب کی خانقاہوں یعنی واٹ ( WAT) میں حاضری دیتے ہیں۔ وہاں یہ عبادت کرتے اور پورے خلوص کے ساتھ بھکشوئوں کو کھانا وغیرہ بھی کھلاتے ہیں۔ اس طرح یہ تارک الدنیا بھکشوئوں کی دعائیں لیتے ہیں۔تھائی لوگ عام برکت اور خوش حالی کے لیے اپنے گھروں میں گوتم بدھ کی تصویریں اور مجسمے رکھتے ہیں۔ تہوار کے دن تصویروں اور مجسموں کو بڑی عقیدت اور پورے احترام کے ساتھ دھویا اور صاف کیا جاتا اور ان پر پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ تھائی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ گوتم بدھ کے مجسموں اور تصویروں کی صفائی سے انھیں برکت ملتی ہے ۔تب نیا سال خوش قسمتی کے دروازے کھول سکتا ہے

    جس کے بعد ان کی زندگیوں میں خوش حالی آ جائے گی۔یہ پانی کا تہوار کیسے بنا؟ اس کے پس پردہ کہانی یہ ہے کہ جب لوگ گوتم بدھ کے مجسموں کو خانقاہوں میں غسل دیتے تو گرنے والے پانی کو تبرک کے طور پر اپنے جسم، چہرے اور ہاتھوں پرملتے اور دوسروں پر بھی ڈالتے۔ اس پانی کے حصول کے لیے ہونے والی چھینا چھپٹی نے اب یہ شکل اختیار کر لی ہے۔بہرحال حقیقت یہ ہے کہ آج کل یہ تقریب کسی مذہبی اور روحانی تقریب کے بجائے پانی پھینکنے کا تہوار بن کر رہ گیا ہے۔ اس میں وہ روح باقی نہیں رہی جس کے تحت لوگ مقدس پانی سے نہ صرف اپنی ظاہری صفائی کرتے بلکہ خود کو باطنی آلودگی سے بھی پاک کر لیتے ۔ مذہبی کے بجائے اب یہ تفریحی تہوار ہے۔
    (مرزا اظفر بیگ)


    ڈی سی، ایس پی،سیشن جج اور سول سرجنبرطانوی دور کے یہ چار ستون تھے جن پر تاج برطانیہ فخر کرتا اور قائم تھا۔ کسی بھی ضلع میں یہ چار افسر سرکاری اور عوامی مفادات، دونوں کی حفاظت کرتے۔ عام آدمی کوعموماً انصاف ملتا کیونکہ کوئی بھی افسر کسی مقامی معتبرشخص کا رشتہ دار نہیں ہوا کرتا تھا ۔ برطانوی قانون ہی اس کا رشتے دار اور راہ نما تھا۔ڈپٹی کمشنر جسے ڈی۔سی یا دیسی زبان میں صاحب ضلع کہا جاتا تھا، ضلعی بادشاہ ہوتا ۔ وہ ضلع کے ہر محکمے کا سربراہ تھا ۔ ڈی۔سی ضلع کا وہ واحد افسر تھا جو معمولی شخص کی بات سنتا ، اس کا دفتر اور عدالت سب کے لیے کھلی رہتی تھی اور یہ غریب نواز افسر اصولی طور پرخاص افراد نہیں عوام کا صاحب ضلع ہوتا ۔وہ مکمل با اختیار ہوتا جو داد رَسی کر سکتا تھا۔
    دوسرا افسر ایس۔پی یعنی پولیس کپتان تھا۔ یہ افسر تھانیداروں کے ذریعے ضلع بھر میں قانون کی عملداری اور امن و امان کا ضامن ہوتا۔ ایک زمانہ تھا جب قتل کی واردات کی تفتیش کے لیے ایس۔پی خود لازماً جاتا تھا ۔ کسی تھانے دار کی مجال نہیں تھی کہ وہ ایس۔پی کے رعب سے بے نیاز ہوجائے۔ ایس۔پی تو اس حد تک قانون کی عمل داری کے لیے کوشاں رہتے تھے کہ مشہور ہے، ایک ایس۔پی کے پاس ہمیشہ ایک آری ہوتی،راستے میں جہاں اسے کوئی تانگہ زیادہ سواریاں بٹھائے دکھائی دیتا ، وہ اسے روک کر اس کے بمبو آری سے کاٹ دیتا ۔ کوچوان کے لیے یہ سزا بہت کافی تھی اور یوں بے زبان گھوڑے کی بھی داد رسی ہوجاتی۔ پولیس کپتان تاج برطانیہ کی وفاداری میں مسلسل سرگرم رہتے اور فی الواقعی جان کی پروا نہیں کرتے تھے۔کسی سرکاری ملازم کی درست شکایت اس کے لیے خوف کاباعث نہیں ہوتی تھی۔

    اگر کوئی بارسوخ شخص کسی ڈی۔سی یا ایس۔پی کے پاس کوئی شکایت یا کسی رعایت کے لیے جاتا تو اسے متعلقہ افسرکوقائل کرنا پڑتا یا پھر خود قائل ہونا پڑتا۔ کسی کی معتبراوربارسوخ حیثیت کا احترام ضرور کیا جاتا مگر انصاف کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑاجاتا۔ ان دو انتظامی افسروں کے بعد عدلیہ تھی۔ضلع کا سیشن جج انصاف کا پہاڑ بن کر عدالت میں بیٹھتا جو عموماً انگریز ہوتا۔ ضلع کے دورے کرتا اور لوگوں کی سہولت کے لیے ڈاک بنگلوں میں عدالت لگاتا۔ بعض اوقات سیشن جج بھیس بدل کر جائے واردات پر بھی پہنچ جاتے تاکہ مقدمے کی حقیقت معلوم کرسکیں۔ہندوستان میں جدید طبی سہولتیں نہیں تھیں، اس لیے ہر ضلع کا انگریز سول سرجن ڈاکٹر ہی طبی سہولتیں فراہم کرتا۔مختصر یہ کہ برطانوی ہند میں یہ چار افسر ہر ضلع میں حکومت کی نمائندگی کرتے۔
    (عبدالقادر حسن)


    نو روز کا تہواردُنیا میں شاید ہی کوئی ملک ہو جس میں کوئی جشن یا تہوار نہ منایا جاتا ہو۔ ہمارا برادر ملک، اسلامی جمہوریہ ایران، بھی اس قاعدے سے مستثنیٰ نہیں۔ وہاں بھی مختلف النوع جشن منائے جاتے ہیں۔ ان جشنوں میںایک اہم جشن نوروز یا عیدِنوروز ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے تو ایران میں عیدِنوروز کوعیدین سے بھی زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ انقلاب اسلامی کے بعد عیدین کو اگرچہ بنیادی اہمیت حاصل ہوگئی لیکن عیدِنوروز کی روایت بدستور استوار ہے۔ نوروز سے مراد ہے ایرانی تقویم یا سال خورشیدی (سال شمسی) یا موسم بہار کا پہلا دن۔ عیدنوروز ایران میں ہزاروں سال سے منائی جا رہی ہے۔

    نوروز (۱۱؍مارچ) کی آمد سے پہلے ہی تمام ایرانی، امیر ہوں یا غریب اور دنیا میں کہیں بھی ہوں، اپنی بساط سے بڑھ کر اس قومی جشن کو شایانِ شان طریقے سے منانے کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں۔نوروز وہ دن ہے جب دنیا کو نئی زندگی ملتی ہے اور سارا زمانہ (اور اس میں جو کچھ بھی ہے) نیا روپ دھار لیتا ہے۔ سال نو کا آغاز ہوتے ہی دنیا کی تما م موجودات میں نئی روح دوڑ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں نئے سال کے پہلے دن کو نوروز کہتے ہیں۔وہ اس روز سے لے کر ۱۳؍ روز تک جشنِ بہار مناتے اور ۱۴؍ویں روز سے تازہ دم ہو کر پورے جوش و خروش سے کاروبارِ حیات میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ماضی میں عیدِنوروز کے دن تمام ایرانی صبح سویرے اٹھتے، غسل کرتے، تین بار شہد چاٹتے، پورے گھر میں ہرمل کی دھونی دیتے، عزیزوں اور رشتے داروں سے ملتے ملاتے اور قریبی آتش کدے جاتے ۔ ساسانی دور میں جو کہ اسلامی دور سے پہلے ایرانی تاریخ کا آخری دور تھا، ایران کے قومی جشنوں میں یہ خاص اہمیت و حیثیت کا حامل تھا۔ اس دور کے ایرانیوں کا عقیدہ تھا کہ یہ وہ روز ہے جب اہورامزدا (خدائے خدائگان) نے دنیا کو پیدا کیا، جب ایرانی بادشاہ جمشید نے بدی کی قوتوں پر فتح پائی اور اس کو دیویوں نے آسمان کی سیر کرائی۔ اس دور میں ایرانی عوام اور شاہی دربار میں عید نوروز بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی۔ پہلوی دور میں بھی جشن نوروز گزشتہ ادوار کی نسبت بدرجہا زیادہ شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا رہا۔(پروفیسر ڈاکٹر خالدہ آفتاب)ایک بڑا سیارچہ زمین کے قریب۴۰۰؍ میٹر چوڑا سیارچہ نومبر (۲۰۱۱ئ) کے آخری عشرے میں زمین کے قریب سے گزرا ۔ یہ فاصلہ زمین اور چاند کے درمیانی فاصلے سے بھی کم تھا۔تب زمین سے اس کا فاصلہ ۳؍ لاکھ ۲۵؍ہزار کلومیٹر تھا۔ اگرچہ انسانی آنکھ اسے دیکھنے سے قاصر تھی تاہم یہ پچھلے ۲۰۰؍ سالمیں زمین کے اتنے قریب سے گزرنے والا پہلا سیارچہ ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں