دِلِ مضطر ! مجھے اِک بات بتا سکتا ہے؟ تُو کسی طور مجھے چھوڑ کے جا سکتا ہے؟ یہ تری بھول ہے میں تیرے سبب زندہ ہوں! مجھ سا ضدی تو بدن توڑ کے جا سکتا ہے جِس نے اِس خاک کے انسان کو عزت دی ہے وہی اِس خاک کو مٹی میں ملا سکتا ہے تُو مرے ساتھ تو ہے، پھر بھی مرے ساتھ نہیں اِس سے بڑھ کر بھی مجھے کوئی ستا سکتا ہے؟ مرے مولا! مری تنہائی مٹانے کے لیے میرے جیسا ہی تُو اِک اور بنا سکتا ہے؟ مجھے معلوم ہے ملنا نہیں ممکن، لیکن! تُو کسی رات مرے خواب میں آ سکتا ہے؟ مری الفت کا سرِ بزم تماشہ کر کے تُو اپنے آپ کو اتنا بھی گرا سکتا ہے؟ زخمِ اُلفت سے نوازا، تُو مرا محسن ہے تُو مری ذات پہ احسان جِتا سکتا ہے! اپنے دِلبر کے بلاوے پہ بہانے کیسے؟ وہ تو محبوب ہے جب چاہے بُلا سکتا ہے وہ جو روتے کو ہنسانے کا ہنر رکھتے ہیں گر وہ روئیں تو انہیں کون ہنسا سکتا ہے؟ اپنی مرضی سے مجھے چھوڑ کے جانے والا مری یادوں کو کبھی دِل سے مٹا سکتا ہے؟ مجھ کو جینے سے محبت، نہ محبت کی ہوس میری طرح کوئی جذبوں کو سُلا سکتا ہے؟ سیہ بختی میں تری ذات بھی شامل ہے علیؔ تُو کسی طوراِسے دور ہٹا سکتا ہے؟
اُردُو کی خوبصورت ترین ،جدیدترین اور سادہ وسہل ترین غزل سے رُوشناس کرانےکا بہت بہت شکریہ۔آپ کی جستجو،تلاش،تگ وتاز کاحاصل یہ نایاب،بیش قدر، گراں بہا غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سبحان اللہ!