جاوید چوہدری کا ہمیشہ کی طرح اچھا معلوماتی کالم مائیکل جیکسن اندر سے دراصل بہت شکستہ انسان تھا ۔ اور ہمیں ان حالات و واقعات پر غور کرنے کی ضرورت ہے جن کے باعث اتنا باصلاحیت انسان اپنے تاریک بچپن کی وجہ سے ایسے تفکرات و خواہشات کا شکار ہوگیا جس سے اسکی زندگی اتنی ابنارمل ہوگئی۔ ایک اور اہم چیز جسکی طرف جاوید چودہری کے قلم نے اشارہ نہیں کیا وہ مائیکل جیکسن کا گذشتہ چند سالوں سے قرآن پاک اور اسلامی تعلیمات کا باقاعدہ مطالعہ ہے۔ مائیکل جیکسن کے سگے بھائی جرمینی جیکسن جو مسلمان ہوچکا ہے نے اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ خود اس نے مائیکل کو قرآن مجید اور دیگر کئی اسلامی کتب مطالعہ کے لیے دیں جنکا وہ باقاعدگی سے مطالعہ کرتا رہا۔ اب بھی اسکی لاش اسکی مجوزہ اور اعلان شدہ قبرستان میں دفنانے کی بجائے کسی نامعلوم مقام پر لے جائی جا چکی ہے۔ میڈیا یا صحافیوں سمیت ہوکوئی اس مقام سے لاعلم ہے۔ آزاد بھائی ۔ کالم شئیر کرنے کے لیے بہت شکریہ ۔
مائیکل جیکسن کے بارے میں ڈیڑہ سو سال زندہ رہنے کی خواہش آج تک نظر سے نہیں گذری جو جاوید چودھری صاحب کو کسی علمِ نجوم کے ذریعے معلوم ہوگئی۔ البتہ یہ بات ساری دنیا پر عیاں ہے کہ مائیکل جیکسن کو اپنے ماضی اور سپیشلی تلخ بچپن سے نفرت تھی اور وہ اسے بھول جانا چاہتا تھا۔ چودھری صاحب کا یہ دعوی کہ وہ جراثیم کے ڈر سے پبلک سے ہاتھ نہ ملاتا تھا ۔ بالکل غلط ہے۔ امریکہ یورپ میں بہت سی سیلیبرٹیز ایسا ہی کرتی ہیں۔ مندرجہ ذیل لنک پر 2006 میں ایک کنسرٹ میں اور منسلک تصویر میں مائیکل جیکسن درجنوں لوگوں سے بغیر دستانوں کے ہاتھ ملاتا ہوا نظر آتا ہے۔ http://www.youtube.com/watch?v=y1ILXOePB9U کرس ٹکر، اشعر، لائنل رچی کے علاوہ درجنوں کالے ایسے ہیں جو مائیکل جیکسن کے قدیمی دوستوں میں سے سمجھے جاتے ہیں ۔ خود اسکی فیملی کے لوگوں کے انٹرویوز دیکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی فیملی سے محبت کرنے والا شخص تھا۔ گورے کالے دوستوں کا بہت اچھا دوست تھا۔ نجانے کیوں کالم نگار لوگ ہمیشہ قارئین کی نفسیات سے کھیلتے ہیں اور چھوٹی بات کو مرچ مصالحہ لگا کر قارئین کے ذوق کی اشتہا بڑھاتے ہیں۔
مائیکل جیکسن ایک ناشکرا شخص تھا اللہ تعالٰی نے اسے کالا رنگ دیا تو وہ اس پر خوش نہیں تھا۔ اس نے پلاسٹک سرجری سے رنگ سفید کرالیا لیکن کئی جسمانی مسائل کا شکار ہوگیا اور یہی مسائل اس کی موت کا باعث بنے۔ اللہ تعالٰٰی جیسا انسان کوبناتا ہے اس پر صبر شکر کرنا چاہئے۔ قدرت کے ساتھ ٹکر لینا مناسب نہیں۔
ناشکرا ؟ اللہ تعالی ؟ میرے بھائی ۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ مسلمان نہیں تھا۔ بلکہ شاید کسی بھی مذہب پر نہ تھا۔ اسکے اعمال کو انسانی نفسیات اور اسکی ہیئت کذائیہ کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔ اسکے بچپن میں اسے رنگ و نسل کے امتیازی سلوک کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار کر دیا گیا۔ بہر حال ۔۔۔ وہ مر گیا ۔ اور اگر بعض اطلاعات کے مطابق وہ مسلمان ہوگیا تھا ۔۔۔ تو ۔۔ دعا ہے کہ اللہ پاک اسکی بخشش فرمائے۔ اور اگر نامسلم ہی مرا تھا۔۔۔ تو پھر ۔۔۔ مٹی پاؤ
آپ لوگوں کالم کو شئیر کے کر دل جیت لیا ہے اس طرح کے مزید کالم شیئر کریں اور لوگوں کو علم کی طرف راغب کر نے کا ایک آسان طریقہ