1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دو نہیں دس سال کا حساب ۔۔۔۔۔۔ منیر احمد بلوچ

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏3 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    دو نہیں دس سال کا حساب ۔۔۔۔۔۔ منیر احمد بلوچ
    ان دنوں پنجاب حکومت کی دو سالہ کارکردگی کا موازنہ سابق دورِ حکومت سے کرنے کا سلسلہ جاری ہے‘ اسی تناظر میں مَیں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پنجاب میں سابق دور میں کیا ہوتا رہا۔ مسلم لیگ نواز کی پنجاب میں 2008ء سے2018ء تک کی دس سالہ حکومت کو میڈیا، سیا سی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ایک بہت بڑے طبقے کی جانب سے گڈ گورننس اور دورِ ترقی کا نام دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب انتظامیہ پر سابق وزیراعلیٰ کی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ ان کا سامنا کرتے ہوئے بڑے بڑے بیورو کریٹ گھبرا جایا کرتے تھے کیونکہ کسی بھی لمحے ان کا موڈ بگڑنے پر وہ کھنچائی ہوتی کہ اچھا بھلا افسر حواس کھو بیٹھتا۔ 2008ء کی دوسری وزارتِ اعلیٰ کے دوران سات کلب روڈ پر ہونے والی ایک سرکاری میٹنگ میں ایک ادارے کے ایک عمر رسیدہ اعلیٰ افسر کے حوالے جو کچھ کہا‘وہ کئی دن تک میڈیا کی زینت بنا رہا۔ سابق وزیراعلیٰ کی نوکر شاہی پر گرفت کا وہ عالم تھا کہ بڑے بڑے جغادری قسم کے افسران کا پتّا پانی ہو جایا کرتا لیکن اس میں وہ اس طرح ڈنڈی مار جایا کرتے کہ اپنے پسندیدہ اور تابعدار قسم کے افسران کی ہر غلطی کوتاہی پر ان کے لئے منہ سے پھول ہی جھڑا کرتے جس کی واضح مثال نندی پور پاور سٹیشن کے افتتاح کے موقع پر اپنے ایک پسندیدہ افسر کو وزیراعظم سے ایوارڈ دلاتے ہوئے اس افسر کی شان میں بیان کیے گئے قصیدے ہیں‘ جو آج بھی سب کے سامنے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بعد میں جب نندی پور پاورسٹیشن کے گھپلے سامنے آئے تو اس افسر کا نام سب سے اوپر دیکھنے میں آیا۔ سابق وزیراعلیٰ کی یہ عادت رہی کہ دوران اجلاس اگر کسی منظورِ نظر افسرکی نااہلی یا اس سے متعلق کسی غلط رپورٹ سے ناراض بھی ہوتے تو بجائے غصے کے‘ اس پر کوئی لطیفہ یا پھبتی کسنے پر ہی اکتفا کیا جاتا۔میاں محمد شہباز شریف اس لحاظ سے خوش قسمت وزیراعلیٰ ٹھہرے کہ جب انہوں نے حلف اٹھایا تو انہیں چودھری پرویز الٰہی حکومت کی جانب سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے خزانے میں 170 ارب روپے سر پلس کی صورت میں ملے۔ اب اس کا اندازہ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں ‘نہ ہی بریانی کھا کر نعرے مارنے اور ووٹ ڈالنے والے جذباتی ورکر کا یہ کام ہے بلکہ اس کا صحیح اندازہ وہی کر سکتے ہیں جن کے ہاتھ ایسا خزانہ آ جائے جس میں کسی اور کی ساجھے داری نہ ہو۔ جسے کوئی ایسی ریا ست مل جائے‘ کوئی ایسی تجارتی کمپنی مل جائے جس کی بیلنس شیٹ میں کئی ارب روپے موجود ہوں اور اس پر کسی بینک، ادارے یا فرد کا کوئی حصہ یا قرضہ واجب الادا نہ ہو‘ اور جب معاملہ 170 ارب روپے کا ہو تو پھر کیا ہی کہنے۔
    اب ذرا دوسری بیلنس شیٹ دیکھئے کہ جب مسلم لیگ نواز کی حکومت نے 2018 ء میں پنجاب کا چارج چھوڑا تو پورے صوبے کے عوام اور صوبے کا چارج لینے والی تحریک انصاف حکومت کے کندھوں پر 740 ارب روپے کا ایسا بوجھ آن پڑا کہ پورا پنجاب قرض کی اس دلدل میں گھٹنوں تک دھنسا بے بسی سے ادھر ادھر مدد کے لئے پکار رہا تھا جبکہ مسلم لیگ نواز دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجاتے ہوئے شور کر رہی تھی کہ پی ٹی آئی کیا کر رہی ہے‘ اس سے تو حکومت ہی نہیں سنبھالی جا رہی‘ یہ نالائق ہیں‘ نااہل ہیں۔ ہاں! اس لحاظ سے نااہل اور نالائق ضرور ہیں کہ ''انہیں دو سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اپنا بیانیہ صحیح طریقے سے میڈیا اور عوام تک پہنچانا نہیں آ سکا‘‘۔ ابھی 2018ء ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ ہر طرف شور مچ اٹھا کہ پنجاب میں کوئی نیا ترقیاتی پروجیکٹ ہی شروع نہیں کیا جا رہا۔ستم ظریفی دیکھئے کہ گلیوں اور بازاروں میں کورونا وائرس کو اب تک عمران خان کا ایک ڈرامہ کہنے والے عوام کو ہاتھوں میں مائیک پکڑے چند لوگ کیمرے کے سامنے لے آئے تاکہ سروے رپورٹ دکھائی جائے کہ کس کا دورِ حکومت سب سے بہتر تھا؟ اور ان چند لوگوں‘ جو سوشل میڈیا پر ہی اپنی دکان چمکاتے ہیں‘ کے ایسے ڈرامے روزانہ دیکھنے کو ملتے رہے۔ ان میں سے کسی نے یہ نہیں بتایا کہ یہ جو میری اور آپ سب کی کمر پر 740 ارب روپے کا بوجھ ہے‘ یہ کیوں ڈالا گیا؟ کیسے ڈالا گیا اور یہ بوجھ لادنے خود تو چلے گئے لیکن اب یہ بوجھ کیسے اترے گا؟ممکن ہے کچھ لوگوں کو یاد ہو کہ 2013ء میں جب میاں نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تھا تو پوری مسلم لیگ سمیت پورا میڈیا سوال کر رہا تھا کہ یہ جو 480 ارب روپے کا گردشی قرضہ پی پی پی کی حکومت جاتے ہوئے آئی پی پیز کی صورت میں مرکزی حکومت پر ڈال گئی ہے‘ اسے کون اور کیسے ادا کرے گا؟ پی پی پی کے بارے کیا کچھ نہ کہا گیا۔ 480 ارب روپے کے گردشی قرضوں نے مسلم لیگ نواز سمیت پوری مرکزی حکومت‘جو تمام صوبوں کو ان کے سالانہ اخراجات چلانے کے لئے مدد فراہم کرتی ہے‘ کو ہلکان کر رکھا تھا۔
    اگر کار کردگی اور گڈ گورننس کا سرکاری ریکارڈ ہی سامنے رکھ لیا جائے تو مسلم لیگ نواز کی پنجاب میں 2008ء کی حکومت میں پرائمری سکولوں میں بچوں کے داخلے کی شرح2فیصد گری جس سے 7.2 لاکھ سے زائد بچے بنیادی تعلیم سے محروم رہ گئے۔ اب ہمارے بہت سے مہربان یہ تو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ پنجاب کے اس ''دس سالہ سنہرے دورِ حکومت‘‘ میں ہر طرف چار چاند لگ گئے لیکن کیا وہ تاریخ اور ریکارڈ کو بھی سامنے رکھیں گے؟ اس حکومت نے زرعی گروتھ جو 6.9فیصد تھی‘ گر اکر 2 فیصد تک کی کم ترین سطح پر کر دی (صرف بلوچستان میں زرعی پیداوار کی شرح زیا دہ رہی)۔ سرکاری ریکارڈ آج بھی سب کے سامنے ہے کہ 2002ء سے 2008ء تک 6ہزار کلومیٹرطویل نہریں Lined کی گئیں جبکہ میاں صاحبان کی گڈ گورننس کا ''کمال‘‘ زیرو کلو میٹر ہے۔فیصل آباد کے حالات آج بھی سب کے سامنے ہیں اور یہاں کے صنعت کار اور ان کی فیکٹریوں‘ کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور بھی سلامت ہوں گے۔ نواز لیگ کے پانچ سالہ مرکزی اور دس سالہ صوبائی دورِ حکومت میں فیصل آباد کی تمام میجر انڈسٹریز اور پاور لومز بند رہیں جس سے بیس لاکھ کے قریب مزدور بے روزگاری کا شکار ہوئے۔ یہ کوئی ہوائی باتیں نہیں‘ نہ ہی کسی لفظوں کے جادوگر کے تیار کردہ اعداد و شمار ہیں‘ یہ فیصل آباد کے صنعت کاروں کی ایک نہیں درجنوں پریس کانفرنسوں اور ان کے منعقد کردہ سیمینارز کی روداد ہے جسے پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا سمیت ہر ایک نے بھرپور کوریج دی۔پنجاب کے غریب، مجبور اور بے بس عوام کے ان 1000 ارب روپے کا ذکر کون سنے گا جو کہیں عوام کو سستی روٹی کے لالچ میں تو کہیں تیس اکتوبر کو لاہور میں عمران خان کے ہوش ٹھکانے لگا دینے والے جلسے میں نوجوان لڑکے‘ لڑکیوں کی ناقابل یقین تعداد دیکھ کر انہیں اپنے جانب مائل کرنے کے لئے شروع کی گئی لیپ ٹاپ سکیم کے نام پر لٹا دیے گئے۔ یہ اربوں روپے کہیں آشیانہ ہائوسنگ سکیم کے نام پر لوٹ مار کی نذر ہوئے تو کہیں اورنج ٹرین کی بھٹی میں جھونک دیے گئے جس کا سود اور قرض اتارتے اتارتے پنجاب کے عوام شاید اس حد تک لاغر و نحیف ہو جائیں کہ ان سے اٹھا ہی نہ جا سکے۔ اگر کسی کو اس اورنج ٹرین پر لئے گئے قرضے کے سود کی مقدار بتائی جائے تو شاید وہ اسے سن ہی نہ سکے‘ یا شاید یقین ہی نہ کرے۔ یہ اتنا پیسہ ہے کہ اگر اس پیسے سے درمیانے سائز کے ڈیم ہی بنا لئے جاتے تو آج ہر گھر ہی نہیں بلکہ دور دراز تک کی کٹیائوں میں بھی بجلی پہنچ جاتی۔ صاف پانی کے نام پر پنجاب کے عوام کا 7 ارب روپیہ کسی اندھے کنویں میں پھینک دیا گیا ہے۔ ایسے ہی دیگر منصوبوں پر خرچ ہونے والے اربوں روپے واقعی عوام فلاح کے منصوبوں پر خرچ ہوئے یا سینکڑوں پاپی پیٹوں میں غرق ہوئے‘ کسی کو کچھ پتا نہیں۔ دوسال کا رونا رونے والے پہلے دس سال کا حساب تو دیں۔
    منیر احمد بلوچ​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں