1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دو قومی نظریہ اور مصورِ پاکستان اقبال (رح)

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏1 اگست 2007۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    دو قومی نظریہ اور مصورِ پاکستان اقبال رحمۃ اللہ علیہ

    مصور پاکستان، عظیم مفکر اور شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے 1877ء میں جب اس دنیا میں آنکھ کھو لی تو بدقسمتی سے برصغیر کے مسلمان غلامی کا شکار تھے۔ اقبال کو اس بات کا احساس شروع ہی سے تھا ماہ وسال گزرنے کے ساتھ یہ شعور پختہ ہوتا چلا گیا۔ ان کی شاعری کے ابتدائی دور کی نظموں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے شعور کی دنیا میں قدم رکھتے ہی آزاد وطن کا خواب دیکھنا شروع کردیا تھا۔ جس کا علامتی اظہار 1901ء میں لکھی گئی نظم نیا شوالہ میں ملتا ہے۔

    سوئی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
    آ، اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں​

    ابتدائی دور ہی کی ایک نظم ’’دو ستارے‘‘ میں ہندو مسلم نفاق کے نتیجے میں لکھی گئی نظم میں فرماتے ہیں۔

    لیکن یہ وصال کی تمنا
    پیغام فراق تھی سراپا

    گردش تاروں کا ہے مقدر
    ہر ایک کی راہ ہے مقرر

    ہے خواب ثبات آشنائی
    آئین جہاں کا ہے جدائی​

    اس نظم میں علامہ اقبال نے جس آرزو کا اظہار کیا ہے اس میں دو قومی نظریہ کا خیال مترشح ہے۔ ابتدا میں علامہ اقبال نے برصغیر پاک وہند کو غلامی سے آزاد دیکھنے کی خواہش میں روایتی وطن پرستی کے جذبہ سے معمور ہوکر نظمیں لکھیں۔ خصوصاً ان کی نظم ترانہ ہندی میں ان کی جغرافیائی وطن پرستی زیادہ اجاگر ہو کر سامنے آئی یہاں تک کہ انہوں نے وطن کی آزادی کے خیال سے ہندو مسلم اتحاد کا درس دیتے ہوئے مذہب وملت کو بھی پس پشت ڈال دیا۔ اس وقت علامہ اقبال ہندوستان کی تمام قوموں کو یہ پیغام دیتے نظر آتے ہیں۔

    مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
    ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا​

    لیکن جب اقبال اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں یورپ گئے تو اس دوران جغرافیائی وطن پرستی کے بھیانک نتائج ان کے مشاہدہ میں آئے۔ یورپ کے قیام (1905ء تا 1908ء) کے دوران وسیع مطالعہ کے نتیجہ میں ان کا اسلامی اور ملی شعور پختہ ہوگیا۔ ہندوؤں کا متعصب رویہ بھی ان کے پیش نظر تھا۔ وہاں اقبال کے خیالات میں یہ تبدیلی پیدا ہوئی کہ انہوں نے سیاست کا رشتہ وطن سے توڑ کر مذہب سے جوڑ دیا یہ تبدیلی بڑی اہمیت کی حامل تھی اور اسی بنا پر ان کا دو قومی نظریہ واضح ہوکر سامنے آتا ہے۔ ہندوؤں کے معاندانہ اور خود غرضی پر مبنی رویہ کے پیش نظر اقبال نے یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں کے بعض حقوق کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ ہندوؤں کے پیش نظر صرف اپنے مفادات ہیں اور وہ ایسا آزاد ہندوستان دیکھنے کے متمنی ہیں جہاں صرف ہندوؤں کی حکمرانی ہو۔ انہیں مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی مفادات سے کوئی غرض نہیں۔ 1926ء میں اقبال برصغیر کی لیجسلیٹو کمیٹی کے رکن منتخب ہوگئے تو عملی سیاست میں آنے کے بعد انہیں ہندوؤں کی خود غرضانہ سیاسی پالیسیوں کا اور بھی قریب سے اندازہ ہوا۔

    علامہ اقبال نے محسوس کیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ جن کا تہذیب و تمدن، معاشرت، دین و مذہب سب جدا جدا ہیں اور اگر ہندوستان میں ہندوؤں کی منشا کے مطابق متحدہ ہندوستانی حکومت قائم ہوجاتی ہے تو ہندو اکثریت کی بنا پر مسلمان پر غلبہ حاصل کرتے ہوئے مسلمانوں کا تشخص ختم کردیں گے اور معاشی طور پر بھی مسلمانوں نا آسودہ رہیں گے اس لئے علامہ اقبال نے اپنے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ انگریزوں کی غلامی کے بعد مسلمان ہندو اکثریت کی غلامی میں رہنے کی بجائے الگ مسلم ریاست میں اپنی حکمرانی قائم کریں گے۔ جہاں وہ مذہبی آزادی اور اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں اور معاشی تعلیمی ثقافتی معاشرتی ہر لحاظ سے ترقی کرسکیں۔ ہندو دو قومی نظریے کی مسلم مخالفت کرتے رہے۔

    علامہ اقبال نے سب سے پہلے الگ ریاست کا تصور 1930ء کے خطبہ الہ آباد میں پیش کیا جس کی بنا پر انہیں مصور پاکستان کہا جاتا ہے۔ برصغیر کے جس سیاسی پس منظر میں یہ تصور پیش کیا اس کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہے۔ تحریک پاکستان کی عملی جدوجہد کے اس سیاسی منظر کے جائزہ سے اس بات کا بھی اندازہ ہوگا کہ ہندوؤں کی اور بعض مسلمان رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود علامہ اقبال کیسے دو قومی نظریہ کے ضمن میں اپنے موقف پر قائم رہے۔ دراصل دو قومی نظریہ پر مخالفت تو ہندوؤں کی طرف سے تھی لیکن بعض مسمان رہنما اپنے دیگر مطالبات کی منظوری کے ضمن میں مصالحانہ رویہ کے حامی تھے لیکن علامہ اقبال مسلمانوں کے دیگر مطالبات سے زیادہ دو قومی نظریہ کو اولیت دیتے تھے کہ الگ وطن میں رہ کر ہی مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کا تحفظ ممکن ہے۔

    نومبر 1927ء میں جب سائمن کمیشن کے تقرر کا اعلان ہوا تو ہندو کانگریس نے ایک طرف تو کمیشن سے تعاون کرنے سے انکار کردیا اور دوسری طرف اپنے ذاتی مفادات کی غرض سے برصغیر کیلئے اپنے نقطہ نظر کو نمایاں کرتے ہوئے ایک دستور مرتب کیا۔ جسے نہرو رپورٹ کہا جاتا ہے۔ سائمن کمیشن فروری 1928ء میں برصغیر پاک و ہند میں آیا اور نہرو رپورٹ کو اہمیت دیتے ہوئے دسمبر 1928ء میں اسے آخری اور قطعی شکل دے دی گئی۔ نہرو رپورٹ دراصل برصغیر کی تاریخ میں سیاسی لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہے اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندو اس ملک میں تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتے تھے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے اس میں وفاقی طرز حکومت کی بجائے وحدانی حکومت کی سفارش کی اور جداگانہ طریقہ انتخاب کو رد کرتے ہوئے مخلوط طریقہ انتخاب کو ترجیح دی۔ یہ رپورٹ یکسر مسلمانوں کے مفادات کے خلاف تھی۔ جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس میں پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان اور صوبہ سرحد کو دوسرے صوبوں کے برابر سیاسی اختیارات دینے کے متعلق کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا گیا تھا جب مسلمان رہنماؤں کی طرف سے نہرو رپورٹ میں مناسب تبدیلیوں کے لئے تجاویز پیش کی گئیں تو ہندو رہنماؤں نے کوئی تجویز منظور نہیں کی۔ اس طرح ہندوؤں کی خود غرضی اور تعصب کھل کر سامنے آگیا۔ ان حالات میں اقبال کے دو قومی نظریہ کی اہمیت اجاگر ہوجاتی ہے۔

    نہرو رپورٹ کا مثبت رد عمل یہ ہوا کہ مسلمان ہندوؤں کے خلاف متحدہ محاذ بنانے میں کامیاب ہوگئے اور مسلم لیگ کے دونوں متحارب گروپوں میں اتحاد پیدا ہوگیا۔ محمد علی جناح نے ہندوؤں کے متعصب رویے سے بے زار ہوکر کانگرس سے بالکل علیحدگی اختیار کرلی۔ مسلمانوں کے مختلف سیاسی گروہوں نے مل کر کل ہند کانفرس قائم کی۔ اس کانفرنس کا پہلا اجلاس یکم جنوری 1929ء کو دہلی میں منعقد ہوا۔ اس کانفرنس میں چند قرار دادیں منظور کی گئیں جو مستقبل کے لئے مسلمانوں کی سیاست کے رہنما اصول قرار پائے۔ اس سیاسی جدوجہد میں علامہ اقبال کا موقف یہ رہا کہ ملک میں مسلمانوں کا علیحدہ سیاسی اور ملی وجود ہر حالت میں برقرار رہنا چاہئے۔ محمد علی جناح نے 1927ء میں دہلی تجاویز پیش کیں۔ جن میں چند شرائط کے ساتھ مخلوط انتخابات کو اختیار کئے جانے پر رضا مندی کا اظہار کیا گیا تھا۔ علامہ اقبال نے ان تجاویز کی مخالفت کرتے ہوئے انہیں قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ مسلمانوں کے لئے حالات حلقہ ہائے انتخاب کے اشتراک کے لئے موزوں نہیں۔ علامہ اقبال تحریک پاکستان کی عملی جدوجہد میں شروع سے آخر تک مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے جداگانہ طریقہ انتخاب اور دو قومی نظریہ کے موقف پر ڈٹے رہے جداگانہ طریقہ انتخاب کے حق میں قرار داد منظور کرانے کی غرض سے اقبال نے براعظم کے شمال مغرب کے ان علاقوں کی علیحدہ کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا۔ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود انہیں سیاسی اور معاشی مفادات سے محروم رکھا گیا تھا اس کانفرنس میں اقبال نے علیحدہ طریقہ انتخاب کے حق میں قرار داد منظور کرائی۔ اس سیاسی پس منظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ نامساعد حالات ہندو ہٹ دھرمی اور انگریزوں کی ہندو نواز پالیسیوں کے باوجود علامہ اقبال جداگانہ طریقہ انتخاب اور دو قومی نظریہ کے موقف سے دستبردار نہ ہوئے۔ انہوں نے برصغیر کے سیاسی حالات کے پیش نظر 29 دسمبر 1930ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ آلہ آباد میں دو قومی نظریے کا واضح طور پر اعلان کردیا جس میں مسلمانوں کے قومی اور مذہبی نظریات کے حوالے سے سیاسی حل موجود تھا۔ اقبال نے الہ آباد کے صدارتی خطبے میں فرمایا کہ

    ’’مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔ ہندوستان کے مسلمان حالات اور ضروریات سے مجبور تھے کہ ہندوؤں سے الگ ایک ریاست قائم کریں۔ جہاں ان کی اکثریت ہو اور جہاں نہ صرف اسلام کا اخلاقی نظام بلکہ اسلام کا معاشی نظام بھی آزاد ہو اسلام کو بحیثیت ایک قوت کے ہندوستان میں زندہ رکھنے کیلئے الگ مسلم ریاست کا قیام ناگزیر ہے‘‘۔

    علامہ اقبال مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی مسائل کا حل چاہتے تھے اور انہیں اقتصادی اور تعلیمی اور معاشی لحاظ سے خوشحال مطمئن اور ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے خطبہ صدارت میں واضح الفاظ میں یہ فرمایا:

    ’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ملاکر ایک ریاست بنادی جائے۔ ۔ ۔ شمالی مسلم ریاست کا قیام، مسلمانوں یا کم از کم شمالی مغربی علاقوں کے مسلمانوں کا نوشتہ تقدیر ہے۔ ہندوستان، مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اسلام کو ایک تمدنی قوت کی حیثیت سے زندہ رہنے کیلئے ضروری ہے کہ ایک مخصوص علاقے میں اس کی مرکزیت قائم ہو‘‘۔

    اقبال کے نزدیک برصغیر کے مسلمانوں کا مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ تھا۔ ہندوؤں کے متحدہ ہندوستان کے سیاسی موقف کے برعکس علامہ اقبال کو یہ احساس تھا کہ برصغیر کی دو بڑی قوموں کے سیاسی مذہبی مفادات الگ الگ ہیں۔ جن کی ثقافت، نسل، مذہب، زبان اور معاشرت ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں اور ان میں یگانگت پیدا ہونا ناممکن ہے۔ اس کے لئے انہوں نے واضح طور پر یہ کہا:

    ’’اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک (برصغیر) میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرسکے‘‘۔

    علامہ اقبال کے اسی نظریہ کی وضاحت قائداعظم کے نام 21 جون 1937ء میں لکھے ہوئے مکتوب سے ہوتی ہے۔ اس میں فرماتے ہیں ’’ہندوستان میں ایک متحدہ مسلم قوم کا وجود ناممکن ہے ان حالات کے پیش نظر بدیہی حل یہ ہے کہ ہندوستان میں قیام امن کے لئے ملک کی از سر نو تقسیم کی جائے جس کی بنیاد نسلی، مذہبی اور انسانی اشتراک پر ہو۔ مسلم صوبوں کے ایک جداگانہ وفاق کا قیام۔ صرف واحد راستہ ہے جس سے ہندوستان میں امن وامان قائم ہوگا اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ و تسلط سے بچایا جاسکے گا۔ کیوں نہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ اقوام تصور کیا جائے جنہیں ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی دوسری اقوام کی طرح حق خود اختیاری حاصل ہو‘‘۔

    اقبال 28 مئی 1937ء کو قائداعظم کے نام خط میں لکھتے ہیں:

    ’’اسلامی نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تاکہ ہر شخص کے لئے کم از کم حق معاش محفوظ ہوجائے لیکن شریعت اسلام کا نفاذ و ارتقاء ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ میرا ایمان ہے کہ مسلمانوں کی غربت اور ہندوستان میں امن وامان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔ اگر ہندوستان میں یہ ممکن نہیں تو پھر دوسرا متبادل راستہ صرف خانہ جنگی ہے جو فی الحقیقت ہندو مسلم فسادات کی شکل میں کچھ عرصہ سے جاری ہے‘‘۔

    علامہ اقبال کے خطوط کی عبارت سے واضح ہوتاہے کہ وہ اپنے دو قومی نظریے اور تقسیم ہند سے متعلق اپنے نظریات سے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے قائداعظم کو آگاہ کرتے رہے اور دو قومی نظریے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انہیں بھی قائل کرنے کیلئے کوشاں رہے۔ اسی لئے قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ:

    ’’اقبال ان اول لوگوں میں سے تھا جس نے قومی خطوط پر ہندوستان کی تقسیم کو تسہیل العمل قرار دیا‘‘۔

    علامہ اقبال کے نظریہ تقسیم ہند کو تحریک پاکستان کی ابتدائی اہم کڑی قرار دیا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں 23 مارچ 1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ منٹو پارک لاہور میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت تاریخی قرار داد منظور ہوئی اور اس کی منظوری کے سات سال بعد 14 اگست 1947ء میں مصور پاکستان علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا خواب اس طرح پورا ہوا کہ دنیا کے نقشہ پر ایک بڑی اسلامی ریاست پاکستان ابھری۔ جس کا نام چوہدری رحمت علی نے تجویز کیا تھا۔

    فرانسیسی رائٹر لوس کلوڈ فکر اقبال کی جہات میں لکھتی ہیں کہ

    ’’تحریک پاکستان کی عملی جدوجہد کے پس منظر میں علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں بانی پاکستان ہیں‘‘۔

    تقسیم ہند کے سلسلے میں جب تاریخی قرار داد پاکستان کو 1940ء میں متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا تو قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سیکرٹری مطلوب الحسن کو مخاطب ہو کر فرمایا:

    ’’اقبال وفات پاچکے ہیں اگر آج وہ زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ آج ہم نے ان کی خواہش پوری کردی ہے‘‘۔

    الغرض مصور پاکستان علامہ اقبال نے جس آزاد اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا تھا بابائے ملت، قائداعظم محمد علی جناح کی مساعی جمیلہ سے اس کی عملی شکل 14 اگست 1947ء میں آزاد وطن پاکستان کی صورت میں سامنے آئی اور برصغیر کی غلامی کا شکار مسلمان قوم نے آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھا۔

    جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں
    ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے​

    تحریر: طلعت کلثوم (گورنمنٹ کالج برائے خواتین کامونکی)
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اچھا مضمون ہے۔

    لیکن آج ہمارے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے پاکستان کو واقعی علامہ اقبال اور قائدِ اعظم کے خواب جیسا “پاکستان“ بنا دیا ہے ؟؟؟؟؟؟؟
     

اس صفحے کو مشتہر کریں