1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دل کو چھوتی غزل نظم اور اشعار ❀❀❀

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ 2, ‏9 مارچ 2018۔

  1. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اکتوبر 2017
    پیغامات:
    1,643
    موصول پسندیدگیاں:
    725
    ملک کا جھنڈا:
    خیال باندھ کے لاؤں کمال کر ڈالوں
    تمہاری ذات کو پھر بے مثال کر ڈالوں
    جو تو پکارے تو پھر مجھ پہ وجد طاری هو
    میں پاوں جھوم کے رکھوں دھمال کر ڈالوں
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
    کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

    کیا کیا الجھتا ہے تیری زلفوں کے تار سے
    بخیہ طلب ہے سینہ صد چاک شانہ کیا

    زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سوز بکف
    قاعدوں نے راستہ میں لٹایا خزانہ کیا

    اڑتا ہے شوقِ راحت منزل سے اسپ عمر
    مہمیز کس کو کہتے ہیں اور تازیانہ کیا

    زینہ صبا کو ڈھونڈتی ہے اپنی مشت خاک
    بام بلند یار کا ہے آستانہ کیا

    چاروں طرف سے صورت جاناں ہو جلوہ گر
    دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا

    صیاد اسیرِ دام رگ گل ہے عندلیب
    دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے آب و دانہ کیا

    طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
    ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا

    آتی ہے کس طرح سے مری قبض روح کو
    دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا

    ہوتا ہے زر و سن کے جو نا مرد مدعی
    رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا

    بے یار ساز گار نہ ہو گا وہ گوش کو
    مطرب ہمیں سناتا ہے اپنا ترانہ کیا

    صیاد گل غدار دکھاتا ہے سیرِ باغ
    بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا

    ترچھی نظر سے طائرِ دل ہو چکا شکار
    جب تیر کج پڑے گا اڑے گا نشانہ کیا

    بیتاب ہے کمال ہمارا دل حزیں
    مہماں، سرائے جسم کا ہو گا ردانہ کیا

    یاں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ نہ دے
    آتشؔ غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
    - - - - -
    خواجہ حیدر علی آتؔش​
     
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
    ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
    اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
    مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
    بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
    بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
    کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
    کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
    حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
    منیر نیازی​
     
  4. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اکتوبر 2017
    پیغامات:
    1,643
    موصول پسندیدگیاں:
    725
    ملک کا جھنڈا:
    موھے غیر کی اب ہو کیا چاہت
    موھے بس اک ___تو درکار پیا
    gplus-542560554.jpg
     
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    گیا رقِیب کے گھر بارہا شبِ وعدہ
    بہت ذلیل مجھے تیری جستجو نے کیا
     
    حنا شیخ 2 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اکتوبر 2017
    پیغامات:
    1,643
    موصول پسندیدگیاں:
    725
    ملک کا جھنڈا:
    خواب کھودے تو تیری یاد کے کھنڈر نکلے
    خود میں ڈوبے تو تیری ذات کے اندر نکلے

    بے وجہ نہ تھی بے جان باتوں کی چاھت
    دل جو ٹوٹا تو تیرے پیار کے مندر نکلے

    تھا سہارا میرے اشکوں کو تیرے آنچل کا
    اور تیرے گھر سے ہم ہی دامن لئے تر نکلے

    ھم نے سمجھا تھا کہ ھوں گے دو چار آنسو
    رونے بیٹھے تو سمندر کے سمندر نکلے
     
  7. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اکتوبر 2017
    پیغامات:
    1,643
    موصول پسندیدگیاں:
    725
    ملک کا جھنڈا:
    افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
    کرتے ہیں خطاب آخر، اُٹھتے ہیں حجاب آخر

    احوالِ محبّت میں کچھ فرق نہیں ایسا
    سوز و تب و تاب اوّل، سوز و تب و تاب آخر

    مَیں تجھ کو بتاتا ہُوں، تقدیرِ اُمَم کیا ہے
    شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر

    میخانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
    لاتے ہیں سرُور اوّل، دیتے ہیں شراب آخر

    کیا دبدبۂ نادر، کیا شوکتِ تیموری
    ہو جاتے ہیں سب دفتر غرقِ مئے ناب آخر

    خلوَت کی گھڑی گزری، جلوَت کی گھڑی آئی
    چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوشِ سحاب آخر

    تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا
    کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر
     

اس صفحے کو مشتہر کریں