1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دعامانگنے کے آداب تحریر : مفتی محمد یونس پالنوری

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏23 اگست 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    دعامانگنے کے آداب تحریر : مفتی محمد یونس پالنوری
    دعاعبادت کاجوہر ہے اور عبادت کا مستحق تنہا خدا ہے ۔اس لئے دعا صرف خدا سے مانگئے ، اس کے سوا کبھی کسی کو حاجت روائی کے لیے نہ پکاریئے، قرآن پاک کا ارشاد ہے :



    خدا کے حضور ضرور گڑگڑا یئے لیکن اس نمائش ہرگز نہ کیجئے



    ترجمہ:’’اسی کو پکارنا برحق ہے ۔ اور یہ لوگ اس کو چھوڑکر جن ہستیوں کو پکارتے ہیں وہ ان کی دعائوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتے ۔ ان کو پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنے دونوںہاتھ پانی کی طرف پھیلا کر چاہے کہ پانی (دور ہی سے) اس کے منہ میں آپہنچے ، حالانکہ پانی اس تک کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ بس اسی طرح کافروںکی دعائیں بے نتیجہ بھٹک رہی ہیں ۔‘‘ (سورئہ الرعد: آیت ۱۴)



    حاجت روائی اور کارسازی کے سارے اختیارات خدا ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس کے سوا کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں ۔ سب اسی کے محتاج ہیں ۔ اس کے سواکوئی نہیں جو بندوں کی پکار سنے اور اس کی دعائوں کا جواب دے ۔



    { یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ اِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ ھُو



    َ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ}(سورۃ الفاطر: آیت ۱۵)



    ترجمہ :’’ انسانو! تم سب اللہ کے محتاج ہو ، اللہ ہی غنی اور بے نیاز اور اچھی صفات والا ہے۔‘‘



    نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے :



    ترجمہ:’’میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کرلیا ہے تو تم بھی ایک دوسرے پر ظالم وزیادتی کو حرام سمجھو، میرے بندو! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے سوائے اس کے جس کو میںہدایت دوں ، پس تم مجھ ہی سے ہدایت طلب کرومیں تمہیں ہدایت دوں‘‘ ۔



    ترجمہ:’’میرے بندو! تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس شخص کے جس کو میں کھلائوں۔ پس تم مجھ ہی سے روزی مانگو میں تمہیں روز ی دوں گا۔ میرے بندو! تم میں سے ہر ایک ننگاہے ۔ سوائے اس کے جس کو میں پہنائوں ، پس تم مجھ ہی سے لباس مانگو میںتمہیںپہنائوں گا۔میرے بندو! تم رات میں بھی گناہ کرتے ہواور دن میں بھی اور میںسارے گناہ معاف کردوں گا‘‘۔



    اور آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ آدمی کو اپنی ساری حاجتیںخدا سے ہی مانگنی چاہئیں۔ یہاںتک کہ اگر جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو خدا ہی سے مانگے اور اگر نمک کی ضرورت ہو تو وہ بھی اسی سے مانگے ۔ ‘‘(ترمذی)



    مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لیے خدا ہی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ۔ اس کے سوا نہ کوئی دعائوں کا سننے والا ہے اور نہ کوئی مرادیں پوری کرنے والا ہے ۔



    ناجائز اورنامناسب باتوں کی دعانہ مانگو



    خدا سے وہی کچھ مانگئے جو حلال اور طیب ہو ،ناجائز مقاصد اور گناہ کے کاموں کے لیے خدا کے حضور ہاتھ پھیلانا انتہائی درجے کی بے ادبی ، بے حیائی اور گستاخی ہے ، حرام اور ناجائز مرادوں کے پورا ہونے کے لیے خدا سے دعائیں کرنا اور منتیں ماننا دین کے ساتھ بدترین قسم کا مذاق ہے ۔ اسی طرح ان باتوں کے لیے بھی دعا نہ مانگئے جو خدا نے ازلی طورپر طے فرمادی ہیں اور جن میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ مثلاً کوئی پستہ قد انسان اپنے قد کے دراز ہونے کی دعا کرے ، یا کوئی غیر معمولی دراز قد انسان قد کے پست ہونے کی دعاکرے ، یا کوئی دعاکرے کہ میںہمیشہ جوان رہوں اور کبھی بڑھاپا نہ آئے وغیرہ ۔ قرآن کا ارشاد ہے :



    {وَاَقِیْمُوْ ا وُجُوْھَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّ ادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ}(سورئہ اعراف: آیت ۲۹)



    ترجمہ:’’اور ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک اسی طرح رکھو اور اسی کو پکارو اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔‘‘



    خدا کے حضور اپنی ضرورتیں رکھنے والا نافرمانی کی راہ پر چلتے ہوئے ناجائز مرادوں کے لیے دعائیں نہ مانگے بلکہ اچھا کردار اور پاکیزہ جذبات پیش کرتے ہوئے نیک مرادوں کے لیے خدا کے حضور اپنی درخواست رکھے ۔



    دعا میں اخلاص اور یقین



    دعا، گہرے اخلاص اور پاکیزہ نیت سے مانگئے ۔ اور اس یقین کے ساتھ مانگئے کہ جس خدا سے آپ مانگ رہے ہیں وہ آپ کے حالات کا پورا پورا یقینی علم رکھتاہے اور آپ پر انتہائی مہربان بھی ہے ، اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی پکار سنتا اور ان کی دعائیں قبول کرتاہے ، نمود و نمائش ، ریاکاری اور شرک کے ہرشابئے سے اپنی دعائوں کوبے آمیزہ رکھئے ۔ قرآن میںہے :



    { فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ} (سورئہ المومن : آیت ۱۴)



    ترجمہ :’’ پس اللہ کو پکارو اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے ۔‘‘



    اور سورئہ بقرہ میں ہے :



    { وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ۱اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۵فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ} (سورئہ البقرۃ : آیت ۱۸۶)



    ترجمہ:’’ اور اے رسول ! جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دیجئے کہ میں ا س کے قریب ہوں ، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتاہوں ، لہٰذا انہیں میری دعوت قبول کرنی چاہیے اور مجھ پر ایمان لانا چاہیے تاکہ وہ راہِ راست پر چلیں۔‘‘



    دعا میں پوری توجہ اور حضور قلب



    دعا پوری توجہ ، یکسوئی اور حضور قلب سے مانگئے اور خداسے اچھی امید رکھئے اپنے گناہوں کے انبار پر نگاہ رکھنے کے بجائے خدا کے بے پایاں عفووکرم اور بے حد وحساب جود وسخا پر نظر رکھئے۔ اس شخص کی دعا درحقیقت دعا ہی نہیں ہے جو غافل اور لاپرواہ ہو اور لاابالی پن کے ساتھ محض نوک زبان سے کچھ الفاظ بے دلی کے ساتھ ادا کررہا ہو اور خدا سے خوش گمان نہ ہو ۔ حدیث میں ہے ۔



    ترجمہ:’’ اپنی دعائوں کے قبول ہونے کا یقین رکھتے ہوئے (حضورِ قلب سے ) دعا کیجئے۔ خدا ایسی دعا کو قبول نہیں کرتاجو غافل اور بے پروا دل سے نکلی ہو۔‘‘(ترمذی )



    عاجز ی اور خضو ع و خشوع



    دعا انتہائی عاجزی اور خشوع وخضوع کے ساتھ مانگئے ۔ خشوع اور خضوع سے مراد یہ ہے کہ آپ کادل خدا کہ ہیبت اور عظمت وجلال سے لرزرہا ہو اور جسم کی ظاہری حالت پر بھی خدا کا خوف پوری طرح ظاہر ہو ، سر اور نگاہیں جھکی ہوئی ہوں ، آواز پست ہو ، اعضا ء ڈھیلے پڑے ہوئے ہوں ، آنکھیں نم ہوں ،ا ور تمام انداز واطوار سے مسکینی اور بے کسی ظاہر ہو رہی ہو ، نبی کریمؐ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کے دوران اپنی داڑھی کے بالوں سے کھیل رہا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اگر اس کے دل میںخشوع ہوتا تو اس کے جسم پر بھی خشوع طاری ہوتا ۔‘‘دراصل دعا مانگتے وقت آدمی کو اس تصور سے لرزنا چاہیے کہ میں ایک درماندہ فقیر ایک بے نوامسکین ہوں ، اگر خدا نخواستہ میں اس در سے ٹھکرا دیا گیا تو پھر میرے لیے کہیں کوئی ٹھکانا نہیں ، میرے پاس اپنا کچھ نہیں ہے جو کچھ ملا ہے خدا ہی سے ملا ہے اور اگر خد انہ دے تو دنیا میںکوئی دوسرا نہیں ہے جو مجھے کچھ دے سکے ۔ خدا ہی ہر چیز کا وارث ہے ۔ اسی کے پاس ہر چیز کا خزانہ ہے ۔ بندہ محض فقیر اور عاجزہے ۔ قرآن پاک میںہدایت ہے :



    {اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعًا} (سورۃ الاعراف : آیت ۵۵) ترجمہ:’’ اپنے رب کو عاجزی اور زاری کے ساتھ پکارو۔‘‘



    عبدیت کی شان ہی یہی ہے کہ بندہ اپنے پروردگار کو نہایت عاجزی اور مسکنت کے ساتھ گڑگڑا کر پکارے ۔اور اس کا دل و دماغ، جذبات واحساسات اور اعضاء اس کے حضور جھکے ہوئے ہوں ، اور اس کے ظاہر وباطن کی پوری کیفیت سے احتیاج وفریاد ٹپک رہی ہو ۔



    دعا چپکے چپکے دھیمی آواز سے مانگنی چاہیے



    دعا چپکے چپکے دھیمی آواز سے مانگئے ۔ خدا کے حضور ضرور گڑگڑایئے لیکن اس کی نمائش ہرگز نہ کیجئے ۔ بندے کی عاجزی اور انکساری اور فریاد صرف خدا کے سامنے ہونی چاہیے ۔ بلاشبہ بعض اوقات دعا زور زور سے بھی کرسکتے ہیں لیکن یا تو تنہائی میں ایسا کیجئے یا پھر جب اجتماعی دعا کرارہے ہوں تو اس وقت بلند آواز سے دعا کیجئے تاکہ دوسرے لوگ آمین کہیں ۔ عام حالات میں خاموشی کے ساتھ پست آواز میں دعا کیجئے اور اس بات کا پورا اہتمام کیجئے کہ آپ کی گریہ وزاری اور فریاد بندوںکو دکھانے کے لیے ہرگز نہ ہو۔



    {وَاذْ کُرْرَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰ صَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ } (سورئہ اعراف: آیت ۲۰۵)



    ترجمہ :’’ اور اپنے رب کو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ یاد کیا کرواور زبان سے بھی ہلکی آواز سے صبح وشام یاد کرو۔ اور ان لوگوں میں سے نہ ہوجائو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔‘‘



    حضرت زکریا ؑکی شان بندگی کی تعریف کرتے ہوئے قرآن میں کہاگیا ہے:



    {اِذْ نَادٰی رَبّـــــہٗ نِدَآئً خَفِیًّا} (سورئہ مریم: آیت ۳)



    ترجمہ:’ ’ جب اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے سے پکارا۔ ‘‘



    دعاکرنے سے پہلے نیک کام کیجئے



    دعا کرنے سے پہلے کوئی نیک عمل ضرور کیجئے مثلاً کچھ صدقہ وخیرات کیجئے ، کسی بھوکے کو کھانا کھلادیجئے ،یا نفل نماز اور روزوںکا اہتمام کیجئے اور اگر خدا نخواستہ کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائیں تو اپنے اعمال کا واسطہ دے کر دعا کیجئے جو آپ نے پورے اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کے لیے کئے ہوں۔ قرآن میں ہے :



    {اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ



    یَرْفَعُہٗ۱}(سور ۃالفاطر: آیت ۱۰)



    ترجمہ:’’ اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل انہیں بلند مدارج طے کراتے ہیں ۔‘‘



    اُمت کیلئے دعا کیجئے



    امام طبرانیؒنے اپنی معجم کبیر میںایک حدیث شریف نقل فرمائی ہے جس میں حضرت رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص روزانہ کم از کم ایک مرتبہ (اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ پڑھے گا اس کو دنیا کے تمام مسلمانوں میں سے ہر ایک کی جانب سے ایک ایک حسنہ ا ور نیکی ملے گی :



    ( عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ رَضِی اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْھَا قَالَتْ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ: مَنْ قَالَ کُلَّ یَوْمٍ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ اُلْحِقَ بِہٖ مِنْ کُلِّ مُؤْمِنٍ حَسَنَۃٌ ) (المعجم الکبیر للطبرانی : ۲۳/ ۳۷۰، حدیث ۸۷۷)



    ترجمہ:’’ حضرت اُمّ سلمہ ؓسے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص روزانہ (یہ دعا) {اے اللہ! میری مغفرت فرما اور تمام مؤمنین اور مؤمنات کی مغفرت فرما} کہا کرے گا اس کو ہر مؤمن کی طرف سے ایک حسنہ اور نیکی کا تحفہ ملے گا۔ ‘‘


     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:


    دعا قبول نہ ہو پھر بھی دعا مانگتے رہو



    دعا کی قبولیت کے معاملے میں خدا پر بھروسہ رکھئے ، اگر دعا کی قبولیت کے اثرات جلد ظاہر نہ ہو رہے ہوں تو مایوس ہو کر دعا چھوڑ دینے کی غلطی کبھی نہ کیجئے ، قبولیت دعا کی فکر میں پریشان ہونے کے بجائے صرف دعا مانگنے کی فکر کیجئے ۔ حضرت عمرؓفرماتے ہیں ’’ مجھے دعا قبول ہونے کی فکرنہیں ہے ، مجھے صرف دعامانگنے کی فکر ہے ۔ جب مجھے دعا مانگنے کی توفیق ہوگئی تو قبولیت بھی اس کے ساتھ حاصل ہوجائے گی ۔ حضرت نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے : ’’ جب کوئی مسلمان خدا سے کچھ مانگنے کے لیے خدا کی طرف منہ اُٹھا تا ہے تو خدا اس کا سوا ل ضرور پورا کردیتا ہے ،یا تو اس کی مراد پوری ہوجاتی ہے یا خداا س کے لیے اس کی مانگی چیز کو آخر ت کے لیے جمع فرمادیتاہے ۔ ‘‘



    قیامت کے دن خدا ایک بندہ مومن کو اپنے حضور طلب فرمائے گا اور اس کو اپنے سامنے کھڑا کرکے پوچھے گا’’ اے میرے بندے ! میں نے تجھے دعا کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ وعدہ کیا تھا کہ میںتیری دعا کو قبول کروں گا۔ تو کیا تو نے دعا مانگی تھی ؟‘‘ وہ کہے گا ’’پروردگار ! مانگی تھی ۔ ‘‘ پھر خدا فرمائے گا۔’’ تو نے مجھ سے جو دعا بھی مانگی تھی میں نے وہ قبول کی ، کیا تو نے فلاں دن یہ دعا نہ کی تھی کہ میں تیرا رنج وغم دورکروں جس میں تو مبتلا تھا اور میں نے تجھے اس رنج وغم سے نجات بخشی تھی ؟ ‘‘ بندہ کہے گا’’ بالکل سچ ہے پروردگار !‘‘



    پھر خدا فرمائے گا: ’’ وہ دعا تو میں نے قبول کرکے دنیاہی میں ، میں نے تیری آرزو پوری کردی تھی اور فلاں روز پھر تونے دوسرے غم میں مبتلا ہونے پر دعا کی کہ خدایا! اس مصیبت سے نجات دے مگر تو نے اس رنج وغم سے نجات نہ پائی اور برابر اس میںمبتلا رہا۔ ‘‘ وہ کہے گا ’’ بے شک پروردگار !‘‘ تو خدا فرمائے گا’’ میں نے ا س دعا کے عوض جنت میںتیرے لیے طرح طرح کی نعمتیں جمع کررکھی ہیں ۔ ‘‘ اور اسی طرح دوسری حاجتوں کے بارے میں بھی دریافت کرکے یہی فرمائے گا ۔‘‘



    دعا کا اثر



    دعا کا اثر دیکھیے،حضرت نبی کریم ﷺ نے ایک بار تین ایسے اصحاب کاواقعہ سنایا جو ایک اندھیر ی رات میں ایک غار کے اندر پھنس گئے تھے ۔ ان لوگوں نے اپنے مخلصانہ عمل کا واسطہ دے کر خدا سے دعاکی اور خدا نے ان کی مصیبت کو دور فرمادیا ۔ واقعہ یہ ہوا کہ تین ساتھیوں نے ایک رات غار میں پناہ لی ، خدا کا کرنا ، پہاڑ سے ایک چٹان پھسل کر غار کے منہ پر آپڑی اور غار بند ہوگیا۔ دیو قامت چٹان تھی ، بھلا ان کے بس میں کہاں تھا کہ اس کو ہٹا کر غار کا منہ کھول دیں ۔ مشورہ یہ ہوا کہ اپنی اپنی زندگی کے مخلصانہ عمل کا واسطہ دے کر خدا سے دعا کی جائے ، کیا عجب کہ خدا سن لے اور اس مصیبت سے نجات مل جائے ۔ چنانچہ ایک نے کہا :



    ’’ میں جنگل میں بکریاں چرایا کرتاتھا اور اسی پر گزارہ تھا میرا۔ جب میںجنگل سے واپس آتا تو سب سے پہلے اپنے بوڑھے ماں باپ کو دودھ پلاتا اور پھر اپنے بچوںکو ، ایک دن میںدیر سے آیا ۔ بوڑھے ماں باپ سوچکے تھے ۔ بچے جاگ رہے تھے اور بھوکے تھے ۔ لیکن میں نے یہ گوارا نہ کیا کہ ماں باپ سے پہلے بچوں کو پلائوں اور یہ بھی گوارانہ کیا کہ والدین کو جگا کر تکلیف پہنچائوں ۔ چنانچہ میں رات بھر دودھ کا پیالہ لئے ان کے سرہانے کھڑا رہا ۔ بچے میرے پیروں میں چمٹ چمٹ کر روتے رہے لیکن میںصبح تک اسی طرح کھڑا رہا ۔ خدا یا ! میں نے یہ عمل خالص تیری خاطر کیا ! تو اس کی برکت سے غار کے منہ سے چٹان ہٹا دے ۔ ‘‘ اور چٹان اتنی ہٹی کہ آسمان نظر آنے لگا۔



    دوسرے نے کہا: ’’ میں نے کچھ مزدوروں سے کام لیا اور سب کو مزدوری دے دی لیکن ایک شخص اپنی مزدوری چھوڑ کر چلا گیا ۔ کچھ عرصے کے بعد جب وہ مزدوری لینے آیا تو میں نے اس سے کہا یہ گائیں بکریاں اور یہ نوکر چاکر سب تمہارے ہیں لے جائو ۔ وہ بولا خداکے لیے مذاق نہ کرو ۔ میں نے کہا مذاق نہیں واقعی یہ سب کچھ تمہارا ہے تم جو رقم چھوڑ کر گئے تھے ۔ میںنے اس کو کاروبار میںلگایا ۔ خدا نے اس میں برکت دی اور جو کچھ تم دیکھے رہے ہوسب اسی سے حاصل ہوا ہے یہ تم اطمینان کے ساتھ لے جائو ۔ سب کچھ تمہارا ہے ، وہ شخص سب کچھ لے کر چلاگیا ۔ خدایا !یہ میں نے محض تیری رضاکے لیے کیا۔ خدایا! تو اس کی برکت سے غار کے منہ سے چٹان کو دور فرما دے ۔ ‘‘ خدا کے کرم سے چٹان اور ہٹ گئی۔



    تیسرے نے کہا :’’ میری ایک چچازاد بہن تھی جس سے مجھ کو غیر معمولی محبت ہوگئی تھی ۔ اس نے کچھ رقم مانگی ۔ میں نے رقم مہیا کردی ، لیکن جب میں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے پاس بیٹھا تو اس نے کہا خدا سے ڈرو اس کام سے باز رہو ۔ میں فوراً اٹھ گیا اور میں نے وہ رقم بھی اس کو بخش دی ۔ اے خدا! توخوب جانتاہے کہ میںنے یہ سب محض تیری خوشنودی کے لیے کیا۔خدایا! تو اس کی برکت سے غار کے منہ کو کھول دے ۔ ‘‘ خدا نے غار کے منہ سے چٹان ہٹادی اور تینوں کو خدا نے اس مصیبت سے نجات بخشی ۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں