1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

داغ دھلوی

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زیرک, ‏13 دسمبر 2012۔

  1. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    ہے تاک میں دُزدیدہ نظر، دیکھئے کیا ہو
    پھر دیکھ لیا اس نے ادھر، دیکھئے کیا ہو
    دل جب سے لگایا ہے، کہیں جی نہیں لگتا
    کس طرح سے ہوتی ہے بسر، دیکھئے کیا ہو
    جو کہنے کی باتیں ہیں وہ سب میں نے کہی ہیں
    ان کو مرے کہنے کا اثر، دیکھئے کیا ہو
    اب کے تو بمشکل دلِ مُضطر کو سنبھالا
    اندیشہ ہے یہ بارِ دگر، دیکھئے کیا ہو
    اندیشۂ فردا میں عبث جان گھلائیں
    ہے آج کسے کل کی خبر، دیکھئے کیا ہو
    پھر یاس مٹاتی ہے مرے دل کی تمنّا
    بن بن کے بگڑتا ہے یہ گھر، دیکھئے کیا ہو
    اے داغؔ انہیں بھی تو ہے دشمن ہی کا دھڑکا
    ہے دونوں طرف ایک ہی ڈر، دیکھئے کیا ہو

    داغؔ دہلوی
     
  2. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: داغ دھلوی

    نہ آیا نامہ بر اب تک، گیا تھا کہہ کے اب آیا
    الٰہی کیا ستم ٹُوٹا، خدایا کیا غضب آیا
    رہا مقتل میں بھی محروم، آب تیغِ قاتل سے
    یہ ناکامی کہ میں دریا پہ جا کر، تشنہ لب آیا
    غضب ہے جن پہ دل آئے، کہیں انجان بن کر وہ
    کہاں آیا، کدھر آیا، یہ کیوں آیا، یہ کب آیا؟
    شروعِ عشق میں گستاخ تھے، اب ہیں خوشامد کو
    سلیقہ بات کرنے کا نہ جب آیا، نہ اب آیا
    نوشتہ میرا بے معنی، تو دل بے مدعا میرا
    مگر اس عالمِ اسباب میں، میں بے سبب آیا
    بسر کیونکر کریں گے خلد میں ہم واعظِ ناداں
    ہمارے جدِ امجد کو نہ واں رہنے کا ڈھب آیا
    وہ ارماں حسرتیں جس کی، اگر نکلا تو کب نکلا؟
    وہ جلوہ خواہشیں جس کی، نظر آیا تو کب آیا؟
    ابھی اپنی جفا کو کھیل ہی سمجھا ہے تُو ظالم
    کہ جینے پر نہ آیا، میرے مرنے پر عجب آیا
    گیا جب داغؔ مقتل میں، کہا خُوش ہو کے قاتل نے
    مرا آفت نصیب آیا، مرا ایذا طلب آیا

    داغؔ دہلوی
     
  3. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: داغ دھلوی

    بُتانِ مہ وَش، اُجڑی ہوئی منزل میں رہتے ہیں
    کہ جِس کی جان جاتی ہے اُسی کے دل میں رہتے ہیں
    ہزاروں حسرتیں وہ ہیں کہ روکے سے نہیں رُکتیں
    بہت ارمان ایسے ہیں کہ دل کے دل میں رہتے ہیں
    خُدا رکھے محبت کے لئے آباد دونوں گھر
    میں اُن کے دل میں رہتا ہوں، وہ میرے دل میں رہتے ہیں
    زمیں پر پاؤں نخوت سے نہیں رکھتے پری پیکر
    یہ گویا اِس مکاں کی دوسری منزل پہ رہتے ہیں
    کوئی نام و نشاں پُوچھے تو اے قاصد! بتا دینا
    تخلّص داغؔ ہے اور عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں

    داغؔ دہلوی
     
  4. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: داغ دھلوی

    خاطِر سے یا لِحاظ سے میں مان تو گیا
    جُھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
    دِل لے کے مُفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
    اُلٹی شکائتیں ہوئیں، اِحسان تو گیا
    دیکھا ہے بُتکدے میں جو اے شیخ! کچھ نہ پُوچھ
    ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا
    افشائے رازِ عشق میں گو ذِلتیں ہُوئیں
    لیکن اُسے جَتا تو دِیا، جان تو گیا
    گو نامہ بر سے خُوش نہ ہوا، پر ہزار شُکر
    مُجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا
    بزمِ عدُو میں صورتِ پروانہ دِل میرا
    گو رَشک سے جلا، تیرے قُربان تو گیا
    ہوش و حواس و تاب و تواں داغؔ جا چکے
    اب ہم بھی جانے والے ہیں، سامان تو گیا

    داغؔ دہلوی ​
     
  5. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: داغ دھلوی

    آئے کوئی، تو بیٹھ بھی جائے، ذرا سی دیر
    مُشتاقِ دِید، لُطف اُٹھائے، ذرا سی دیر
    کچھ رہ گیا ہے قِصۂ غم وہ سُنا تو دوں
    کاش! ان کو نیند اور نہ آئے، ذرا سی دیر
    میں دیکھ لوں اُسے وہ نہ دیکھے مِری طرف
    باتوں میں اُس کو کوئی لگائے، ذرا سی دیر
    سب خاک ہی میں مجھ کو ملانے کو آئے تھے
    ٹھہرے رہے نہ اپنے پرائے، ذرا سی دیر
    پِھرتا ہے میرے دل میں کوئی حرفِ مُدعا
    قاصِد سے کہہ دو اور نہ جائے، ذرا سی دیر
    تم نے تمام عمر جلایا ہے داغؔ کو
    کیا لُطف ہو جو وہ بھی جلائے، ذرا سی دیر

    داغؔ دہلوی
     
  6. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: داغ دھلوی

    تمہارے خط میں نیا اِک سلام کس کا تھا
    نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
    وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
    یہ کام کس نے کیا ہے، یہ کام کس کا تھا
    وفا کریں گے، نباہیں گے، بات مانیں گے
    تمہیں بھی یاد ہے کچھ، یہ کلام کس کا تھا
    رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا
    مقیم کون ہوا ہے، مقام کس کا تھا
    نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت
    تمہاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا
    تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
    کہو، وہ تذکرۂ ناتمام کس کا تھا
    گزر گیا وہ زمانہ، کہوں تو کس سے کہوں
    خیال دل کو مِرے صبح و شام کس کا تھا
    ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغؔ بے وفا نکلا
    یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا

    داغؔ دہلوی​
     
  7. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: داغ دھلوی

    لُطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
    رنج بھی ایسے اُٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
    تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
    وہ میرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے
    اِنہی قدموں نے تمہارے اِنہی قدموں کی قسم
    خاک میں اِتنے مِلائے ہیں کہ جی جانتا ہے
    جو زمانے کے سِتم ہیں، وہ زمانہ جانے
    تُو نے دل اِتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے
    مُسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ
    آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
    سادگی، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخی
    تُو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
    کعبہ و دَیر میں پتھرا گئیں دونوں آنکھیں
    ایسے جلوے نظر آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
    دوستی میں تِری درپردہ ہمارے دُشمن
    اِس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے
    داغِؔ وارفتہ کو ہم آج تیرے کُوچے سے
    اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

    داغؔ دہلوی
     
  8. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: داغ دھلوی

    جب کہا، اور بھی دُنیا میں حسِیں اچھے ہیں
    کیا ہی جھُنجلا کے وہ بولے کہ ہمِیں اچھے ہیں
    نہ اُٹھا خوابِ عدم سے ہمیں ہنگامۂ حشر
    کہ پڑے چین سے ہم زیرِ زمیں اچھے ہیں
    کس بھروسے پہ کریں تجھ سے وفا کی اُمید
    کون سے ڈھنگ تِرے جانِ حزِیں اچھے ہیں
    خاک میں آہ ملا کر ہمیں، کیا پوچھتے ہو
    خیر جس طور میں ہم خاک نشیں اچھے ہیں
    ہم کو کوچے سے تمہارے نہ اُٹھائے اللہ
    صدقے بس خلد کے کچھ ہم تو یہیں اچھے ہیں
    نہ ملا خاک میں، تُو ورنہ پشیماں ہو گا
    ظلم سہنے کو ہم اے چرخِ بریں اچھے ہیں
    دل میں کیا خاک جگہ دوں تِرے ارمانوں کو
    کہ مکاں ہے یہ خراب اور مکیں اچھے ہیں
    مجھ کو کہتے ہیں رقیبوں کی بُرائی سُن کر
    وہ نہیں تم سے بُرے بلکہ کہیں اچھے ہیں
    بُت وہ کافر ہیں کہ اے داغؔ خدا اُن سے بچائے
    کون کہتا ہے یہ غارت گرِ دِیں اچھے ہیں

    داغؔ دہلوی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں