1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

داعش ہیں ، داعش نہیں ہیں

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از سید انور محمود, ‏9 جنوری 2016۔

  1. سید انور محمود
    آف لائن

    سید انور محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏2 اگست 2013
    پیغامات:
    470
    موصول پسندیدگیاں:
    525
    ملک کا جھنڈا:
    تاریخ : 9 جنوری 2016ء
    [​IMG]
    داعش ہیں ، داعش نہیں ہیں
    تحریر: سید انور محمود

    دہشت گردوں کا گروہ داعش یا امارت اسلامی ظاہری طور پر اسلامی احکام کے اجرا کی تاکید کرتا ہےلیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کے افکار و نظریات مکمل طور پر اسلام مخالف ہیں۔ یہ دہشت گرد شریعت کے نفاذ کا نعرہ اس لیے لگا رہے ہیں تاکہ دنیا والوں پر یہ ظاہر کریں کہ وہ ایک اسلامی گروہ ہیں۔ داعش کا مقصد ایک طرف اسلام کے چہرے کو بدنام کرنا ہے تو دوسری طرف عالم اسلام میں مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگ کی آگ کوبھڑکانا ہے۔عراق کے شمال میں داعش نے 12جون2014ء کو ایک ہولناک خون کی ہولی کھیلی جس میں سیکڑوں عراقی شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔اس دن سے اس دہشت گرد گروہ کا نام لوگوں کی زبانوں پر آنا شروع ہو گیا ہے، اس گروہ کے لوگ پہلے القاعدہ میں شامل تھے، شام میں جاری محاذ پر انہوں نے اپنی تنظیم کوالنصر فرنٹ کانام دیا اور پھر بعد میں اس گروہ سے خود کو جدا کر کے ایک اور گروہ بنایا جس کا نام داعش رکھ لیا۔

    برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر سابق امریکی صدر جونیئر بش کے ہر گناہ کے ساتھی رہے ہیں اب سے دو ماہ پہلےانہوں نے امریکی ٹیلی ویژن چینل سی این این کو بتایا کہ عراق کے بارے میں ان کی حکمت عملی ناکام رہی لیکن اس کے بعد کی حکمت عملیاں بھی کامیاب نہیں ہوسکیں۔ ٹونی بلیئر نے کہا میں اس بات پر معافی مانگتا ہوں کہ جاسوسی معلومات غلط تھیں۔ میں اس کے لیے بھی معافی مانگتا ہوں کہ حکمت عملی تیار کرنے اور یہ سمجھنے میں غلطیاں ہوئیں کہ جب آپ حکومت بدل دیں گے تو کیا ہو گا۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا عراق جنگ ہی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے فروغ کا باعث بنی ہے، تو انھوں نے جواب دیا میں سمجھتا ہوں کہ اس بات میں کسی حد تک حقیقت ہے۔ بظاہر کہا جاتا ہے کہ داعش ایک مسلم تنظیم ہے لیکن تباہ ہوتے ہیں عراق، لیبیا اور اب شام۔ داعش کی تشکیل کے بعد اس کی جانب سے اسلام کے نام پر عراق اور شام میں انجام پانے والے غیر انسانی اور دہشت گردانہ اقدامات کا اصل مقصد ہی اسلام کے چہرے کو بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔ داعش کی جانب سے نہتے عوام کے خلاف بہیمانہ ظلم و ستم انجام پانے کا بڑا مقصد اسرائیل کے چہرے کو سفید کرنا اور عالمی سطح پر اس کے چہرے پر لگے ظلم و بربریت کے لیبل کو ہٹانا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اسرائیل جو پوری طرح مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے اور کررہا ہے، وہ مکمل محفوظ ہے۔

    ابوبکر البغدادی نام ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وہ مسلمان ہے اور مسلمانوں کا دشمن نہیں، عبداللہ محسود، حکیم اللہ محسود کون تھے؟ تھے تو نام سے مسلمان لیکن 60 ہزار پاکستانیوں کے قاتل تھے۔ موجودہ طالبانی لیڈر فضل اللہ کون ہے، کیا مسلمان نہیں ہے؟ ہر گز نہیں پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے 132 بچوں اور ہزاروں پاکستانیوں کا قاتل ہے۔ اسامہ بن لادن کس کے کہنے پر روس سے لڑنے افغانستان آیا تھا؟ ساری دنیا جانتی کہ وہ امریکی نمک خوار تھا۔ صدام حسین کون تھا، امریکی نمک خوار، ایران سے آٹھ سال جنگ اور کویت پر قبضہ امریکہ کے حکم پرلیکن امریکہ اپنے نمک خواروں کا یہ ہی انجام کرتا ہے جو صدام حسین کو پھانسی پر لٹکاکر کیا، قذافی نے بھی جب امریکی نمک حلالی کی کوشش کی توسب سے زیادہ برے انجام کا مستحق قرار دیا گیا۔ پاکستان کا سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاالحقء بھی اپنے آقا امریکہ کے ہاتھوں مارا گیا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ القاعدہ کے ناکام ہونے کے بعد اب زیادہ سرمایہ لگاکر شدت پسندتنظیم دولت اسلامیہ بنائی گی ہے، جسکا سربراہ ابوبکر البغدادی ہے، ابوبکر البغدادی اپنے آپ کو نام نہاد خلیفہ قرار دے چکا ہے، اوراب آپ کو القاعدہ اور طالبان کےکافی دہشتگرد داعش میں ملیں گے۔

    فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں جمعہ 13 نومبر 2015ء کی شب چھ مقامات پر خودکش حملوں اور فائرنگ سے 129 افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔بقول داعش کہ فرانس کی شام میں مداخلت کے پیش نظر داعش کی جانب سے پیرس میں دہشت گردی کرکے انتقام لیا گیا۔ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن پیرس میں دہشت گردی کامیاب کیسے ہوئی، جبکہ فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک میں یہ بہت ناممکن لگتا ہے، پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ فرانسیسی حکومت نے دستیاب معلومات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اورکچھ زیادہ ہی خود اعتمادی کا شکار ہوگئی۔ جمرات 7 جنوری کو ایک مرتبہ پھر پیرس میں ایک خودکش جیکٹ پہنے شخص نے پیرس کے ایک تھانے پر حملے کی کوشش کی لیکن فرانسیسی پولیس نے دھماکے کی کوشش ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ فائرنگ کرکے اُس شخص کو ہلاک کردیا۔ دھماکے کی ناکامی کی وجہ پیرس پولیس کا ہوشیاررہنا تھا۔

    وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار طالبان کے سربراہ دہشتگردحکیم اللہ محسود کی موت پر بہت روئے تھے۔ جماعت اسلامی کے سابق امیرمنور حسن نے تو اپنے بھائی دہشتگردحکیم اللہ محسود کی موت پراُسکو شہید قرار دیا تھا جبکہ مولانا فضل الرحمان نے اُسے کتا قرار دیتے ہوئے شہید بھی قرار دیا تھا، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ چوہدری نثار، منور حسن اور مولانا فضل الرحمان دہشت گردی اور دہشت گردوں سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ 2014ء کے آخر میں کراچی کی نواحی بستیوں میں دیواروں پر خلیفہ البغدادی کا نام لکھا ہوا نظرآیا اور یقیناً یہ کارنامہ جماعت اسلامی نے سرانجام دیا ہوگا۔ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کے عفریت کو قابو میں کرنے کی کارروائیاں تو جاری ہی تھیں کہ پڑوسی ملک افغانستان میں شدت پسند گروپ داعش کی طرف سے قدم جمانے کو پاکستان کے لیے ایک نئے خطرے کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ لیکن عہدیداروں کا اصرار ہے کہ پاکستان میں اس گروپ کا کوئی وجود نہیں اور اس کا سایہ بھی یہاں برداشت نہیں کیا جائے گا۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ "ہم داعش کو دہشت گرد جماعت سمجھتے ہیں اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ پاکستان میں اس کا وجود نہیں ہے۔بین الاقوامی سطح پر ہم نے ہمیشہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ دہشت گردی کو ختم کرنے میں تعاون کیا ہے"۔

    پاکستان کی فوج نے 2015ء کےپورے سال میں دہشت گردی کے خاتمے میں بھرپور کردار ادا کیا اور ساڑھے تین ہزار سے زائد مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرتے ہوئے دہشت گرد نیٹ ورکس کو تخت و تاراج کرنے کا بتایا۔ لیکن پاکستانی فوج کی ان تمام دہشت گردوں کے خلاف کامیابیوں کے باوجود عام جانے پہچانے دہشت گردوں کے حامی اوراُنکے سہولت کا ر آزادی سے وہ سب کچھ کررہے ہیں جو وہ آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن سے پہلے یا اُسے شروع ہونے کے بعد کرتے رہے ہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کے ہر شہر سے بلکہ خاصکرچھوٹے شہروں سے داعش کے حامی پکڑئے جارہے ہیں، کافی تعداد میں خواتین بھی دہشت گردوں کی سہولت کار کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ لیکن وفاقی وزیر داخلہ کو ملک میں صرف ایک دہشت گرد ڈاکٹر عاصم نظر آرہا ہے، یہ بلکل صیح ہے کہ ڈاکٹر عاصم مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے لیکن کیا چوہدری نثار اور سندھ حکومت اپنی حکومتوں کا باقی وقت ڈاکٹر عاصم اور رینجرز کے اختیارات طے کرنے میں صرف کرینگے۔

    وفاقی وزیر داخلہ نے اپنے اسلام آباد کے پڑوسی کےلیے تو صاف کہہ دیا کہ لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز جو دہشت گردوں کے حامی اور سہولت کار ہیں اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ اُن کےخلاف کوئی مقدمہ موجود نہیں ہے۔ بھولے وزیر داخلہ صاحب مشرف کی مخالفت اپنی جگہ لیکن آٹھ جولائی 2007ء کو پاکستان کی فوج کے لیفٹیننٹ کرنل ہارون لال مسجد کی لڑائی میں 150جوانوں کی قیادت کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ اس کارروائی میں نامعلوم تعداد میں فوجی جوان اور افسربھی شہید ہوئے تھے۔ لال مسجد آپریشن کے دوران دہشت گردوں نے درجنوں بچیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استمال کیا تھاجنکو فوج نے لال مسجد کے اندر سے برآمد کیا ۔ مولانا عبدالعزیز جو برقعہ پہن کرپہلے ہی فرار ہوتے ہوے پکڑا گیا تھا اور اس وقت پاکستان میں داعش کا سب سے بڑا حامی ہے ، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارکی نگاہ میں معصوم اور بے قصور ہے۔ اس کہتے ہیں ایک اچھا پڑوسی اپنے پڑوسی کاکیسے خیال رکھتا ہے، ویسے بھی طالبان کے ناطے تو دونوں بھائی بھائی ہیں۔

    جماعت اسلامی، درس و تدریس والی خواتین اور داعش کے گٹھ جوڑ پر بھی بات ہونی ہے لیکن کالم طویل ہوجائے گا لہذا اگلے کسی کالم میں۔تازہ ترین خبر یہ ہے کہ کراچی پورٹ سے 20ہزار کلو دھماکا خیز مواد سے بھرا کنٹینر کسٹمز انٹیلی جنس نےپکڑا ہے ، جوراولپنڈی سے تعلق رکھنے والی کسی شخصیت کی ملکیت ہے۔اس سے قبل اسی نوعیت کے دو کنٹینرز پشاور سے پکڑے جاچکے ہیں وہ بھی کسٹمز انٹیلی جنس نے ہی پکڑے تھے، کیا چوہدری نثار قوم کو بتائیں گےکہ یہ 20ہزار کلو دھماکا خیز مواد سے بھرا کنٹینر کس مقاصد کےلیے پاکستان لایا گیا، اورراولپنڈی کی وہ کون سی شخصیت ہے جس نے یہ دھماکہ خیزمواد منگوایا تھا اور پشاور میں پکڑے گئے دو کنٹینرز کا کیا ہوا۔ اسوقت داعش کے حامی پورئے پاکستان میں موجود ہیں، پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ نے تو اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ داعش کے حامی پاکستان میں اور خاصکر پنجاب میں موجود ہیں لیکن پاکستان کےوفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ملک میں داعش کی موجودگی کی تردید کی جو افسوسناک ہے، ملک بھر میں داعش کی حمایت میں چاکنگ کی گئی جب کہ لاہور میں ناصرف چاکنگ بلکہ داعش کے پوسٹرز بھی لگائے گئے۔

    سانحہ صفوراکےملزم سعد عزیزکی نشاندہی پرپولیس اور حساس اداروں نے مشترکہ کارروائی میں سانحہ صفوراکے مرکزی ملزم عمرکاٹھیوکو گرفتار کیا ہے۔معلومات کے مطابق عمر کاٹھیو نے 2011 ءمیں سندھ میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک قائم کیا تھا۔گرفتار دہشت گرد کا کام القاعدہ کےدہشت گردوں کوسہولت فراہم کرناتھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم نےالقاعدہ سےداعش میں شمولیت اختیارکی جبکہ عمرکاٹھیو کی بیوی سندھ میں داعش کی خواتین کانیٹ ورک چلاتی ہے۔ اگر بقول چوہدری نثار پاکستان میں داعش موجود نہیں تو پھر کون اس کا پرچار کررہا ہے، اور وہ کون ہیں جو پاکستان میں داعش کی حمایت کررہے ہیں اور سہولت کار بننے ہوئے ہیں، اگر چوہدری نثارپاکستان میں داعش کی موجودگی کو تسلیم نہیں کرتے تو یقینا وہ فرانس کے حکمرانوں والی غلطی پاکستان میں دہرانا چاہ رہےہیں۔
     
  2. مخلص انسان
    آف لائن

    مخلص انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 اکتوبر 2015
    پیغامات:
    5,415
    موصول پسندیدگیاں:
    2,746
    ملک کا جھنڈا:
    ہمارے حکمران خاص طور سے چوہدری نثار یہ غلطی انجانے سے نہیں بلکہ جان بوجھ کر کرہے ہیں کیونکہ یہ داعش اور طالبان جیسی تنظیموں کے زبردست حامی ہیں
     
  3. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    يہ واضح رہے کہ عراق کے خلاف فوجی کاروائ کا فيصلہ کسی غير متعلقہ ملک کے خلاف کيا جانے والا جذباتی فيصلہ ہرگز نہيں تھا۔ حکومت کی ہر سطح پر کئ ماہ تک اس مسلۓ پر بحث کی گئ تھی جس کے بعد اجتماعی سطح پر يہ فيصلہ کيا گيا تھا۔

    يہ اب تاريخ دانوں اور دانشوروں پر منحصر ہے کہ وہ اس فيصلے کے درست يا صحيح ہونے کے حوالے سے بحث کو کيا رخ ديتے ہيں جو عالمی اتحاد کی جانب سے صدام حسين کی ظالمانہ حکومت سے درپيش خطرات سے نبردآزما ہونے کے ليے کيا گيا تھا۔

    معاملات اور واقعات کو درست تناظر ميں سمجھنے کے ليے يہ بھی ياد رکھيں کہ دسمبر 7 2008 کو عراق کے اس وقت کے وزير اعظم نے اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کے صدر کو ايک خط لکھا تھا جس ميں انھوں نے اس راۓ کا اظہار کيا۔

    "عراق کی حکومت اور عوام کی جانب سے ميں ان تمام ممالک کی حکومتوں کا شکريہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کے اہم کردار اور کوششوں کے سبب عراق کو استحکام اور محفوظ بنانے کے عمل ميں مدد ملی ہے۔ ميں براہراست ان افواج کا بھی شکريہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے عراق ميں اپنی زمينی، بحری اور فضائ موجودگی کے دوران خدمات انجام ديں۔ يہ امر قابل ذکر ہے کہ عراق پچھلے دور حکومت کے دوران برسا برس تک تنہا رہنے کے بعد معيشت کے استحکام کے ليےعالمی برادری کے ساتھ شراکت داری کے نۓ روابط قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے"۔

    واقعات کا تسلسل، عالمی خدشات اور مختلف عالمی فورمز پر کی جانے والی بحث جو سال 2003 ميں فوجی کاروائ کے فيصلے پر منتہج ہوئ ان مظالم کی وجہ نہيں ہے جو آج آئ ايس آئ ايس عراقی عوام پر ڈھا رہی ہے اور زبردستی اپنی سوچ اور مرضی عام عوام پر مسلط کرنے پر بضد ہے۔ بعض راۓ دہندگان کی راۓ کی روشنی ميں اگر آئ ايس آئ ايس کوئ ايسی تنظيم ہوتی جو خطے ميں امريکی موجودگی کے نتيجے ميں ردعمل کے طور پر وجود ميں آئ ہوتی تو پھر اس منطق کے تحت تو اس تنظيم کا وجود سال 2011 ميں اس وقت ختم ہو جانا چاہیے تھا جب امريکی افواج نے سيکورٹی کے معاملات عراقی عوام کے منتخب جمہوری نمايندوں کے حوالے کر کے علاقے سے مکمل طور پر انخلاء کر ليا تھا۔

    مگر ہم جانتے ہيں کہ صورت حال يہ نہيں ہے۔ اس گروہ کو تو تقويت ہی اس وقت ملی تھی جب امريکی افواج خطے سے نکل چکی تھيں۔ عراق ميں ہماری موجودگی کے حوالے سے آپ کا سوال اور دليل موجودہ صورت حال کے تناظر ميں غير متعلقہ ہو جاتی ہے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    digitaloutreach@state.gov

    www.state.gov

    https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

    [​IMG]
     
  4. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    يہ دليل ميں نے اکثر اردو فورمز پر ديکھی ہے کہ چونکہ اسی کی دہائ ميں امريکہ نے عالمی برادری کے ساتھ مل کر افغان کے عوام کی مدد کی تھی اس ليے اسامہ بن لادن کے عفريت اور دنيا بھر ميں جاری دہشت گردی کے ليے امريکی حکومت اور سی آئ اے کو ہی مورد الزام قرار ديا جانا چاہیے۔

    فورمز پر اکثر راۓ دہندگان انتہائ جذباتی انداز ميں مجھے بے شمار پرانی تصاوير، خبروں اور بيانات کے ريفرنس ديتے ہیں اور پھر اس بات کا چيلنج بھی پيش کرتے ہيں کہ ان "ثبوتوں" کا جواب دوں۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ اس ضمن ميں جو مواد فورمز پر پيش کيا جاتا ہے وہ اکثر تناظر سے ہٹ کر اور مسخ شدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اکثر راۓ ميں دہندگان يہ پرجوش دعوی کرتے ہيں کہ اسی کی دہائ ميں امريکی اور طالبان ايک ہی صف میں کھڑے تھے، باوجود اس کے کہ طالبان کی تحريک قبائلی تنازعات کے باعث اس وقت پروان چڑھی تھی جب روسی افواج افغانستان سے نکل چکی تھيں اور ان کو اقتدار افغانستان ميں 1994 کے بعد اس وقت ملا تھا جب امريکہ کی جانب سے افغانستان کی مالی اور لاجسٹک امداد بند ہوۓ کئ برس گزر چکے تھے۔

    ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی حکومت نے افغانستان ميں طالبان حکومت کو نہ ہی کبھی تسليم کيا اور نہ ہی اس کی حمايت کی۔ اس لیے يہ دليل اور دعوی بالکل بے بنياد ہے کہ امريکہ کو دہشت گردی کی اس لہر کے لیے موردالزام ٹھہرايا جا سکتا ہے جس کا آغاز اور اس ميں وسعت القائدہ اور اس سے منسلک تنظيموں کی جانب سے طالبان حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھی۔

    امريکی حکام کی طرف سے پاکستانی حکام کو طالبان کی جانب سے مسلح دہشت گرد گروپوں کی پشت پناہی کے نتيجے ميں اس خطے ميں بالخصوص اور دنيا بھر ميں بالعموم دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے مسلسل آگاہ کيا گيا۔ قریب 30 سے زائد رپورٹوں ميں جس امر پر سب سے زيادہ زور ديا گيا اس کی بنياد دہشت گردی کے ضمن میں ممکنہ خطرات اور خدشات تھے۔ ہم نے حکام کو تنبہيہ کی تھی کہ وہ آگ سے کھيل رہے ہيں۔

    اگر يہ دعوی مان ليا جاۓ کا طالبان کے وہ ليڈر جنھوں نے اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھيوں کو افغانستان ميں پناہ گاہيں دی، وہ وہی ہيں جنھيں 80 کی دہائ ميں امريکہ اور عالمی برادری کی جانب سے مدد فراہم کی گئ تھی تو پھر تو امريکی حکومت اور امريکی شہريوں کو اس مدد کا تفصيلی حوالہ دے کر ان طالبان ليڈروں سے يہ سوال کرنا چاہيے کہ ان کی جانب سے اس شخص کو محفوظ ٹھکانہ کيوں فراہم کيا گيا جو کئ ہزار امريکی شہريوں کا قاتل تھا باوجود اس کے کہ افغانستان پر جب سويت يلغار کے دوران برا وقت آيا تو امريکہ ہی کی جانب سے مدد فراہم کی گئ تھی؟

    حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ

    "جس پر احسان کرو۔ اس کے شر سے بچو"

    امريکہ اور عالمی برادری کی جانب سے مدد کا کبھی بھی يہ مقصد نہيں تھا کہ دہشت گردی کو پھيلا کر دنيا کے سٹيج پر اس عفريت کو روشناس کروايا جاۓ۔ اس ضمن میں حتمی ذمہ داری اسامہ بن لادن اور ان کے حمايتيوں کی ہے جنھوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے دنيا بھر ميں بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنايا۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    digitaloutreach@state.gov

    www.state.gov

    https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

    [​IMG]
     
    مخلص انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    عراق کی تاريخ کے حوالے سے آپ کی معلومات بالکل غلط ہيں۔ صدام حسين 1968 ميں باتھسٹ پارٹی کی بغاوت کے ذريعے اقتدار کے ايوانوں ميں آۓ تھے۔ اس کے بعد 1979 ميں انھوں نے اپنی پارٹی کے اندر بغاوت کے ذريعے ليڈرشپ حاصل کر لی۔ 1980 ميں صدام نے ايران پر اس وقت حملہ کيا جب ايران اندرونی طور پر بہت سے مسائل کا شکار تھا۔

    جہاں تک ايران عراق جنگ کا سوال ہے تو عراق کو اسلحہ امريکہ نے نہيں بلکہ روس نے فراہم کيا تھا۔ آپ يہ کيسے دعوی کر سکتے ہيں کہ صدام کو امريکہ کنٹرول کر رہا تھا جبکہ صدام حکومت کی جانب سے امريکہ کو متعدد چيلجنجز کا سامنا تھا اور صدام حکومت کے دوران عراق ميں امريکہ مخالف پراپيگنڈا اپنے عروج پر تھا۔ اگر صدام امريکہ کے کنٹرول ميں ہوتا تو يہ صورت حال کبھی نہ ہوتی۔

    ماضی ميں امريکہ کا جھکاؤعراق کی طرف رہا ہے اورامريکہ ايرانی فوجوں کی نقل وحرکت کے حوالے سےانٹيلی ايجنس اسپورٹ بھی مہيا کرتا رہا ہے ليکن ايسا اس وقت ہوا جب ايران کا پلڑا جنگ ميں بھاری تھا۔ ياد رہے کہ يہ وہی دور تھا جب ايران ميں امريکی سفارت کار اور شہری 444 دنوں تک زير حراست رہے جس کی وجہ سے امريکہ ميں ايران کے خلاف جذبات پاۓ جاتے تھے۔ دنيا کا ہر ملک خارجہ پاليسی بناتے وقت اپنے بہترين مفادات کو سامنے رکھتا ہے۔ اس ميں اس وقت کے زمينی حقائق بھی ديکھے جاتے ہيں اور مختلف ممالک سے تعلقات اور اس کے دوررس اثرات اور نتائج پر بھی نظر رکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ يہ حقيقت بھی پيش نظر رکھی جانی چاہيے کہ ہر نئ حکومت کی پاليسی پچھلی حکومت سے الگ ہوتی ہے اور زمينی حقائق کی بنياد پر ان پاليسيوں ميں تبديلی بھی آتی رہتی ہے۔

    حقيقت يہ ہے کہ عالمی سياست کے تيزی سے بدلتے حالات کے تناظر ميں دنيا کا کوئ ملک يہ دعوی نہيں کر سکتا کہ اس کی خارجہ پاليسی ہميشہ يکساں رہے گی اور اس ميں تبديلی کی گنجائش نہيں ہے۔

    کسی بھی حکومت کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ ايسی خارجہ پاليسی بناۓ جو سب کو مطمئن بھی کر سکے اور حقيقت کا تدارک کرتے ہوۓ سو فيصد صحيح بھی ثابت ہو۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    digitaloutreach@state.gov

    www.state.gov

    https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

    [​IMG]
     
  6. مخلص انسان
    آف لائن

    مخلص انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 اکتوبر 2015
    پیغامات:
    5,415
    موصول پسندیدگیاں:
    2,746
    ملک کا جھنڈا:
    فواد -
    آج کل بلوچستان اور کراچی میں جو انسانی حقوق کی پامالی کا تسلسل چل رہا ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس پر آپ کا نقطہ نظر کیا ہے ؟؟
     
  7. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ صدام حسين کو عراق کی خصوصی عدالت نے سال 1982 ميں 148 عراقی شہريوں کو موت کی گھاٹ اتارنے پر پھانسی کی سزا سنائ گئ تھی۔

    امريکی حکومت اس مقدمے ميں نا تو فريق تھی اور نا ہی ہمارا کوئ مفاد اس فيصلے سے وابستہ تھا جس کے نتيجے ميں صدام حسين کو پھانسی دی گئ۔ اس ضمن ميں قانونی جارہ جوئ، فيصلہ سازی اور حتمی ذمہ داری ان افراد اور عہديداران کے سر ہے جو اس وقت حکومتی نظام چلا رہے تھے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    digitaloutreach@state.gov

    www.state.gov

    https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

    [​IMG]
     
  8. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    عراق پر غیرقانونی جنگ مسلط کی گی تھی ۔اس میں یو این او کا مینڈٹ نہیں تھا ۔ویپن ایکسپرز کی رپورٹ کے مطابق عراق کے پاس ویپن آف ماس ڈسٹرکشن نہیں تھے لیکن پھر بھی بلئیر اور بش نے عراق کو تباہ اور برباد کیا اور بصرہ سے براستہ اردن جو تیل کی پائپ لائن اسرائیل جا تی ہے اس سے تیل پمپ کر کے عراقی مسلمانوں کے تیل پر ڈاکہ ڈالا گیا ۔اور لوٹ مار کہی سالوں تک جاری رہی ۔اور شاید اب بھی جاری ہے ۔ایک لولی لنگڑی پپٹ حکومت بنا کر امریکہ اور برطانیہ نے عراقی عوام کو خانہ جنگی میں جھونک دیا ۔یہ ہیں امریکی حکومت کی مسلمانوں سے ہمدردیاں لمبے لمبے بیان لکھنے سے حقیقت بدل نہیں سکتی اور نہ تاریخ۔۔
     
    سید انور محمود نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    نومبر 8 2002 کو اقوام متحدہ نے قرارداد نمبر 1441 منظور کی تھی جس ميں صدام حسين کو عالمی برادری سے تعاون کرنے کا آخری موقع فراہم کيا گيا تھا۔ اس قرارداد کے مطابق


    "اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل نے يہ متفقہ فيصلہ کيا ہے کہ عراقی حکومت پر يہ لازم ہے کہ وہ يو- اين -ایم- او- وی – آئ – سی اور آئ – اے – ای – اے کے ساتھ فوری، غير مشروط اور بغير کسی رکاوٹ کے مکمل تعاون کرے۔ اس تعاون کے دائرہ کار ميں آئ – اے – ای – اے کو زير زمين علاقوں، مختلف عمارات، ريکارڈز کی پڑتال سميت مختلف ماہرين سے سوالات کی اجازت شامل ہے۔ آئ – اے – ای – اے پر يہ لازم ہے کہ وہ اس قرارداد کی منظوری کے 45 دن کے اندر اپنی کاروائ کا آغاز کرے اور 60 دنوں کے اندر سيکورٹی کونسل کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کرے۔"


    يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس قرارداد ميں سيکورٹی کونسل نے عراق پر يہ واضح کر ديا تھا کہ عراق کی جانب سے عدم تعاون کی صورت ميں عراق کو نتائج بھگتنا ہوں گے۔


    http://www.un.org/Docs/scres/2002/sc2002.htm


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    digitaloutreach@state.gov

    www.state.gov

    https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

    [​IMG]
     
  10. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    چونکہ آپ نے ہانس بلکس (ويپنز انسپکٹر) کا حوالہ ديا ہے اس ليے يہ ضروری ہے کہ ان حقائق کا جائزہ ليا جاۓ جو انھوں نے بذات خود اپنی سرکاری رپورٹ ميں عراقی کے زمينی حقائق کے حوالے سے بيان کيے تھے۔


    فروری 14 2003 کو ہانس بلکس نے واضح طور پر عراق کی حکومت کی جانب سے تمام تر يقين دہانيوں کے باوجود عدم تعاون کی حقيقت کو بيان کيا تھا۔ اس وقت ان کی جانب سے پيش کی جانے والی رپورٹ سے ايک اقتتباس

    "ميں نے اپنی پچھلی ملاقاتوں کے جوالے سے يہ واضح کيا تھا کہ سال 1999 ميں اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی دو دساويزات سی – 1999/94 اور سی 1999/356 ميں اٹھاۓ جانے والے بہت سے ايشوز ابھی تک وضاحت طلب ہيں۔ اب تک عراق حکومت کو ان ايشوز کے حوالے سے مکمل آگاہی ہونی چاہيے تھی۔ مثال کے طور پر ان ايشوز ميں نرو ايجنٹ وی ايکس اور لانگ رينج ميزائل سرفہرست ہيں اور يہ ايسے سنجيدہ ايشوز ہيں جن کو نظرانداز کرنے کی اجازت عراقی حکومت کو نہيں دی جا سکتی۔ عراقی حکومت کی جانب سے پچھلے سال 7 دسمبر کو دی جانے والی رپورٹ ميں ان سوالات کے واضح جوابات دينے کا موقع ضائع کر ديا گيا ہے۔ اس وقت عراق حکومت کی جانب سے ہميں سب سے بڑا مسلۂ اسی حوالے سے ہے۔ ثبوت کی فراہمی کی ذمہ داری اقوام متحدہ کے انسپکٹرز پر نہيں بلکہ عراقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ عراقی حکومت کو ان اہم ايشوز کو مسلسل نظرانداز کرنے کی بجاۓ مکمل وضاحت فراہم کرنا ہوگی۔"


    اس اقتتباس سے يہ واضح ہے کہ صدام حکومت کی جانب سے مسلسل عدم تعاون کی روش اختيار کی جا رہی تھی۔


    اس کے بعد مارچ 2 2003 کو عراق پر حملے سے محض چند روز قبل اس موقع پر جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے عراق حکومت کو دی جانے والی آخری مہلت بھی ختم ہو چکی تھی تو ہانس بلکس نے اقوام متحدہ کو ايک اور رپورٹ پيش کی۔ اس رپورٹ ميں سے ايک اقتتباس


    "ان حالات کے پس منظر ميں سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کیا عراق کی حکومت نے اقوام متحدہ کی سال 2002 میں منظور کی جانے والی قرارداد 1441 کے پيراگراف 9 کی پيروی کرتے ہوۓ يو – اين – ايم – او- وی – آئ –سی سے فوری اور غير مشروط تعاون کيا ہے يا نہيں۔ اگر مجھ سے اس سوال کا جواب طلب کيا جاۓ تو ميرا جواب يہ ہو گا اقوام متحدہ کی نئ قرارداد کی منظوری کے چار ماہ گزر جانے کے بعد بھی عراقی حکومت کی جانب سے تعاون نہ ہی فوری ہے اور نہ ہی يہ ان تمام ايشوز سے متعلقہ ہے جن کی وضاحت درکار ہے"۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    digitaloutreach@state.gov

    www.state.gov

    https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

    [​IMG]
     
  11. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


    تيل پر قبضے کی امريکی سازشيں


    يہ وہ نقطہ ہے جس کو بنياد بنا کر پاکستانی ميڈيا ميں بہت کچھ لکھا گيا ہے۔ آپ نے بھی جس راۓ کا اظہار کيا ہے اس کا لب لباب بھی يہی ہے کہ عراق پر حملہ تیل پر امريکی قبضے کی ايک عالمگير سازش قرار ديا جانا چاہيے۔ ستم ظريفی ديکھيں کہ يہ تاثر بھی ديا جاتا ہے کہ امريکہ حکومت کے صدام حسين کے ساتھ دیرينہ تعلقات رہے ھيں۔ اور پھر يہ دليل بھی دی جاتی ہے کہ امريکہ نے عراق پر تيل کے ليے حملہ کيا۔ اگر امریکہ کے صدام کے ساتھ تعلقات اتنے ہی ديرينہ تھے تو اسےاربوں ڈالرز کی لاگت سے جنگ شروع کر کے اپنے ہزاروں فوجی جھونکنے کی کيا ضرورت تھی۔ امريکہ کے ليے تو آسان راستہ يہ ہوتا کہ وہ صدام کے توسط سے تيل کی درآمد کے معاہدے کرتا۔

    اس حوالے سے ميں نے يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے جو اعداد وشمار حاصل کيے ہيں وہ آپ کے سامنے رکھ کر ميں فيصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ سچ کيا ہے اور افسانہ کيا ہے۔

    2006 ميں ہاورڈ ميگزين نے ايک تحقيقی کالم لکھا جس کی رو سے عراق جنگ پر امريکہ کے مالی اخراجات کا کل تخمينہ 2 ٹرلين ڈالرز لگايا گيا ہے۔ اگر ان اخراجات کا مقابلہ عراق ميں تيل کی مجموعی پیداوار سے لگايا جاۓ تو يہ حقيقت سامنے آتی ہے کہ عراق پر امریکی حکومت کے اخراجات عراق کی مجموعی پيداوار سے کہيں زيادہ ہيں۔ لہذا معاشی اعتبار سے يہ دليل کہ عراق پر حملہ تيل کے ليے کيا گيا تھا، بے وزن ثابت ہو جاتی ہے۔ ہاورڈ ميگزين کے اس آرٹيکل کا ويب لنک پيش کر رہا ہوں-

    harvardmagazine.com/2006/05/the-2-trillion-war.html

    ايک اور تاثر جو کہ بہت عام ہے اور اس کو بنياد بنا کر پاکستانی ميڈيا ميں بہت کچھ لکھا جاتا ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ میں تيل کے استعمال کا مکمل دارومدار عرب ممالک سے برامد کردہ تيل کے اوپر ہے لہذا امريکی حکومت عرب ممالک اور اس کی حکومتوں پر اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ اعداد وشمار پيش خدمت ہيں۔

    امریکہ اس وقت دنيا ميں تيل کی مجموعی پيداوار کے حساب سے تيسرے نمبر پر ہے۔ 1973 سے 2007 تک کے درميانی عرصے ميں امريکہ نے تيل کی مجموعی ضروريات کا 57 فيصد حصہ خود پورا کيا ہے۔ باقی 43 فيصد ميں سے صرف 8 فيصد تيل کا استعمال گلف ممالک کے تيل پر منحصر ہے۔ مغربی ممالک سے تيل کے استعمال کا 20 فيصد حصہ پورا کيا جاتا ہے اور 15 فيصد تيل کی ضروريات توانائ کے ديگر ذرائع سے پوری کی گئ۔

    [​IMG]



    جہاں تک تيل کی درآمد کا تعلق ہے تو 1973 سے 2007 کے درميانی عرصے ميں امريکہ نے تيل کی مجموعی درآمد کا 47 فيصد حصہ مغربی ممالک سے درآمد کيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 20 فيصد ہے۔ اسی عرصے ميں 34 فيصد افريقہ، يورپ اور سابق سوويت يونين سے درآمد کيا گيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 15 فيصد بنتا ہے۔ گلف ممالک سے درآمد کردہ تيل کا تناسب صرف 19 فيصد رہا جو کہ مجموعی استعمال کا محض 8 فيصد ہے۔


    [​IMG]


    اسی حوالے سے اگر آپ دنيا کے ديگر ممالک کا گلف مما لک کے تيل پر انحصار اور اس حوالے سے اعدادوشمار ديکھیں تو يہ حقيقت سامنے آتی ہے کہ جاپان امريکہ کے مقابلے ميں گلف ممالک کے تيل پر کہيں زيادہ انحصار کرتا ہے۔ 1992 سے 2006 کے درميانی عرصے ميں جاپان نے اوسطا 65 سے 80 فيصد تيل گلف ممالک سے درآمد کيا۔ اس کے علاوہ گزشتہ چند سالوں ميں امريکہ کے مقابلہ ميں جاپان کا گلف ممالک پر انحصار بتدريج بڑھا ہے۔ مندرجہ ذيل گراف سے يہ بات واضح ہے کہ گزشتہ چند سالوں ميں امريکہ کا گلف ممالک کے تيل پر انحصار مسلسل کم ہوا ہے۔


    [​IMG]

    يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امريکی حکومت بذات خود تيل کی خريدوفروخت کے عمل ميں فريق نہيں ہوتی۔ بلکہ امريکہ کی نجی کمپنياں اپنے صارفين کی ضروريات کے تناسب سے سروس فراہم کرتی ہيں۔ امريکی کمپنياں انٹرنيشنل مارکيٹ ميں متعين کردہ نرخوں پر عراق سے تيل درآمد کرتی ہيں جو کہ عراق سے برآمد کيے جانے والے مجموعی تيل کا محض ايک چوتھائ حصہ ہے۔ باقی ماندہ تيل عراقی حکومت کی زير نگرانی ميں نا صرف دوسرے ممالک ميں برآمد کيا جاتا ہے بلکہ عراق کی مجموعی توانائ کی ضروريات پوری کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ عراق تيل کے توسط سے ماہانہ 2 بلين ڈالرز سے زيادہ کا زرمبادلہ حاصل کرتاہے۔


    ان اعداد وشمار کی روشنی ميں يہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ يہ تاثر دينا کہ امريکہ عراق ميں تيل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے منصوبے پر عمل پيرا ہے يا امريکہ تيل کی سپلائ کے ليے سارا دارومدار عرب ممالک کے تيل پر کرتا ہے قطعی بے بنياد اور حقيقت سے روگردانی کے مترادف ہے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    digitaloutreach@state.gov

    www.state.gov

    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

    [​IMG]
     
  12. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    امریکہ افغانستان میں بھی کسی اور مقصد کے لئے گیا تھا جب مقصد پورا نہ ہوا تو عراق پر غیر قانونی جنگ مسلط کر دی اور جی بھر کر اس کے وسائل لوٹے اور عراق کو تباہ و برباد کر دیا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں